کیا کھویا کیا پایا

7:33 PM nehal sagheer 0 Comments



جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

جب یہ سطریں آپ کی نظروں سے گزر رہی ہوں گی، نئے سال کے پہلے دن کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوچکا ہوگا۔ 2016 کا سال جو ابھی ابھی حال کی دہلیز پا ر کرکے ماضی کی اتھاہ تاریکیوں کا حصہ بنا ہے، اسلامیان ہند کے لیے بھی اور اپنے وسیع تر مفہوم میں پوری ملت اسلامیہ کے لیے بھی کئی اعتبار سے کافی اہم اور فیصلہ کن اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس سال کے دوران ہم نے اپنی اجتماعی قوت، اپنے دین سے گہری وابستگی اور عوامی سطح پر اتحاد عمل کے مظاہرہ کی بدولت بہت کچھ پایا بھی ہے اور اپنی بے کراں نادانی، بے حسی، خود غرضی، تنگ نظری نیز جماعتی و گروہی مفادات کو ملت کے وسیع تر مفادات پر ترجیح دینے کی روش اور ارباب اقتدار کی نگاہوں میں بہر صورت کھپ جانے کی آرزو کے ہاتھوں بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ کھونے اور پانے کی یہ کہانی بڑی حوصلہ افزا بھی ہے اور انتہائی دردناک بھی۔ 2016 کا سورج اس حال میں طلوع ہوا تھا کہ پوری ملت ملک کی سب سے بڑی عدالت کے پرشکوہ ایوان سے چلائے گئے، انتہائی مہلک تیر کے کاری زخم سے نڈھال، اندیشوں، وسوسوں اور بے یقینی کے گرداب سے نکلنے کے لیے بری طرح ہاتھ پائوں مار رہی تھی۔ راجیو گاندھی کے دور میں شا ہ بانو اور اب سائرہ بانو وغیرہ کے کیسوں میں سپریم کورٹ نے اسلام کے قانون نفقہ کی جس طرح کی تعبیر اور تشریح کرنے اور شخصی قانون کو دیوانی اور فوج داری قوانین کے تابع قرار دینے کے علاوہ یکساں سول کوڈ کی پُرزور وکالت کرکے اکثریت کے دانشوروں، صحافیوں اور ترقی پسندی و روشن خیالی کے پردے میں بدترین قسم کی رجعت پرستی و ظلمت پسندی کا مظاہرہ کرنے والے سیاست دانوں کو ایک ایسا ہتھیار فراہم کردیا جسے وہ پوری قوت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے لگے۔ خصوصاً ہمارا لیکٹرانک میڈیا کل بھی پیش پیش تھا اور آج بھی ہے۔ اس معاملے میں چاہے کمیونسٹ ہوں، سوشلزم، سیکولرزم کے علمبردار ہوں، ہندو، ہندی اور ہندوستان کے نعرے کے سہارے اپنی دکان چمکانے والے ’پراچین سنسکرتی‘ کے شیدائی ہوں سب کے سب ایک سُر میں ایک ہی نغمے الاپنے لگے تھے ’’قومی اتحاد اور قومی یک جہتی کو یقینی بنانے کے لیے شخصی اور ازدواجی قوانین، خاص کر مسلم پرسنل لا کی تنسیخ ضروری ہے۔‘‘
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ مسلم پرسنل کے تعلق سے مارکس مائوزے تنگ، گاندھی وادی، لوہیا، گولوالکر، گوڈسے اور ساورکر سبھی کے نام لیوا جن کی سوچ کے زاویے ایک دوسرے سے متصادم ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چاندماری میں ایک دوسرے کے حلیف اور رفیق بنے ہوئے تھے۔ اسلام اور مسلم دشمنی نے انہیں ایک صف کھڑا کردیا ہے۔ ایسے میں عام مسلمانوں نے سارے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد کا جو مظاہرہ کیا اس سے ہمارے حکمرانوں میں وقتی ہی سہی معقولیت پسندی کی راہ اپنانے یا خاموشی اختیار کرلینے میں بہتری نظر آئی ہے۔
پورے ملک میں اجتماعی دستخطی مہم چلاکر مسلمانو ںنے یہ پیغام دے دیا کہ وہ اپنے دین کے کسی بھی حصے سے نہ دستبردار ہوں گے اور نہ ہی قانون شریعت کو مسخ کرنے کی اجازت دیں گے۔ یکساں سول کوڈ ہمارے لیے کسی بھی صور ت میں قابل قبول نہیں ہے۔ مسلم خواتین نے بھی اپنے بڑے بڑے اجتماعات کیے اور اس پروپیگنڈے کا بھانڈہ بیچ چوراہے پر پھوڑ دیا کہ ’’مسلم خواتین حکومت کے فیصلے کے حق میں ہیں۔‘‘ ان حالات میں کچھ زرخرید مسلمان اور کچھ نام نہاد مسلم خواتین جنہوں نے مسلم پرسنل لا کے خلاف اپنے گھروں سے لے کر عدالت تک سینہ کوبی کا جو ڈھونگ رچایا تھا وہ بھی مصلحت کی ٹیڑھی میڑھی اندھی گلیوں میں کھوگئیں۔ مگر افسوس کہ اس دوران ہمارے بعض علماء عظام، ہماری دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین کرام جنہیں ملت نے اپنا غیر مشروط اعتماد سونپ رکھا تھا، اس دیانت و فراست کا ادنیٰ سا بھی مظاہرہ نہیں کرسکے جسے مومن کی بنیادی صفت او راس کی میراث کہا گیا ہے۔
راجیو گاندھی کے دور سے لے کر وزیر اعظم نریندر مودی یعنی 1986 سے آج 2016 تک عام مسلمانوں نے اتحاد و اتفاق کا دینی حمیت کا اور ہر گروہی و مسلکی مفادات سے اوپر اٹھ کر شریعت اسلامی پر اپنے آپ کو نچھاور کردینے کا جذبۂ بے پناہ کا جو مظاہرہ کیا وہ آزاد ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ اس پر ہماری آنے والی نسلیں بلاشبہ ہمیشہ فخر کریں گی۔ اسلامیان ہند کو 2016 کا یہی وہ تحفہ ہے جس کے حوالے سے وہ سال رفتہ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اسے ہم اپنی عظیم ترین کامیابیوں کی فہرست میں شامل بھی کرسکتے ہیں۔
علاوہ ازیں 2016 اس معنیٰ میں بھی بڑی اہمیت کا حامل رہا کہ سال کے آخر میں مرکزی حکومت کا نوٹ بندی کا فیصلہ اور سال کے ابتدائی مہینوں میں دہلی حکومت کی طاق- جفت کی منصوبہ بندی و بہار حکومت کی شراب بندی کا فرمان، مرکز اور ریاستی حکومت کی طرف سے لیک سے ہٹ کر لیے گئے غیر معمولی فیصلوں سے جنہیں لے کر ان حکومتوں کی تعریف و تنقید دونوں ہی ہوتی رہی۔ ان کے علاوہ کئی اور ایسے فیصلے رہے جو کافی بات چیت اور تنازعات میں رہے۔ ان میں مرکزی حکومت کی طرف سے ہندی نیوز چینل این ڈی ٹی وی انڈیا کی نشریات پر ایک دن کی روک لگانے کا فیصلہ بھی بڑا اہم تھا۔ اس کے بعد سال کی جو سب سے بڑی خبر آئی اور جو ہرگزرتے دن کے ساتھ وسیع ہوتی گئی، 8 نومبر 2016 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے پانچ سو اور ایک ہزار کے پرانے نوٹوں کا چلن بند کرنے کا اعلان کیا تو سب حیران رہ گئے۔ حکومت نے اس فیصلے کو کالا دھن، کرپشن کے خاتمے کے لیے اٹھایا گیا ایک ضروری قدم بتایا۔ لیکن نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ اس مسئلہ پر پارلیمنٹ میں جم کر گھمسان ہوئی اور پورا کا پورا سرمائی اجلاس حکومت اور اپوزیشن کی جنگ کی بھینٹ چڑھ گیا۔
2016 کو اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ اس کے دوران اکثریت کے احیاء پسند عناصر کو غیر معمولی قوت حاصل ہوئی، ایسی درجنوں تنظیمیں اور سینائیں سرگرم رہیں جن کا مقصد فرقہ واریت کا زہر گھولنے اور فضا کو آتش بار بنانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اکثریت کی انتہا پسند اور جارحیت پسند تنظیمیں پہلے بھی یہی کام کر رہی تھیں لیکن انہیں ہندو سماج میں وہ عزت و وقار حاصل نہیں تھا جو اب انہیں بتدریج حاصل ہوتا جارہا ہے۔ صورت حال اب یکسر بدل چکی ہے، اکثریت کے دانشوروں، صحافیوں اور سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد فرقہ پرست اور جارحیت پسند عناصر کی زبان میں گفتگو کرنے لگی ہے۔ آر ایس ایس، وشوہندو پرشید، بجرنگ دل اور شیوسینا جیسی تنظیموں کو اب عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ اب اکثریت کے سیکولر، ترقی پسند اور فرقہ پرست عناصر میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ تشویش انگیز صورت حال اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں اور اتحاد عمل کے اس تصور کو پوری قوت کے ساتھ  زندہ کریں جو بڑی حد تک مرچکا ہے۔ حالات نے ہمیں اس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے جہاں فیصلے کی ذرا سی غلطی بڑے تباہ کن نتائج کی حامل بن سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں ہماری دینی و سیاسی جماعتوں پر خاص طور پر یہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ جذباتیت اور کجروی کی لہروں پر بند باندھنے کی کوشش کریں۔ آج ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہماری دینی و سیاسی جماعتوں کی قیادتیں عوام کی رہنمائی کرنے کے بجائے خود عوام سے رہنمائی حاصل کرنے لگی ہیں، وہ فیصلے کرتے وقت یہ دیکھتی ہیں کہ ان کے نتیجے میں ان کی تصویر کس حد تک بہتر ہوگی، دوسروں کے مقابلے میں انہیں کس حد تک فائدہ پہنچے گا۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری جماعتوں میں اوپر وہ لوگ آرہے ہیں جو جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر، اول درجے کے مفاد پرست، خود غرض، دنیادار اور حقیر سے حقیر مفادات کے لیے دین و ایمان کا سودا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کی دین داری محض ڈھکوسلہ ہے۔ وقت آگیا ہے کہ مسلمان اس صورت حال کا نوٹس لیں۔ جاتے جاتے یہ سال سماج وادی پارٹی کو بھی توڑگیا۔
بین الاقوامی دائرے میں بھی 2016 کا سال مسلمانوں کے لیے کچھ بہتر نہیں بلکہ بد سے بدتر رہا۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہی رہا۔ شام کے جسم سے پورے سال لہو رستا رہا، لاکھوں لوگ بے گھر اور بے سروسامانی کی حالت میں سرحدوں پر پڑے موت و حیات کی کشمکش سے گزر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ ان حالات میں بھی بہت سے مسلم ملک اپنے دشمنوں سے رسم و راہ بڑھانے میں پیش پیش ہیں۔ اسرائیل جو نہ صرف فلسطینی مسلمانوں کا دشمن ہے بلکہ عالم اسلام کا دشمن ہے اس کے ساتھ تعلقات کو خوش گوار بنانے کی ’چاہت‘ کچھ اور بڑھ گئی ہے۔ ہمارا ملک بھی اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کچھ عرصہ سے سجدہ ریز نظر آرہا ہے۔ کل ملاکر جو تصویر بنتی ہے وہ نہ تو کسی طو رپر اطمینان بخش ہے نہ حوصلہ افزا۔ دعا کیجیے اللہ تعالیٰ 2017 کو ہندوستان اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے سازگار و امن و سکون کا گہوارہ بنائے اور مسلمانوں کو پکا سچا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
٭٭٭

0 comments: