featured

آئیے کچھ اپنے بارے میں بھی سوچیں

6:54 PM nehal sagheer 0 Comments




قاسم سید 
ہندوستانی سیاست میں نظریاتی لڑائی دھیرے دھیرے گوریلاوار میں تبدیل ہوگئی ہے۔ میدان جنگ تبدیل ہوتے رہے ہیںمگر اس جنگ کے لیے ایندھن اورخوراک فراہم کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں یہ ہر مورچہ پر جاری ہے۔ تیور بہت جارحانہ ہیں اور محفوظ راہداری دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ بلاشبہ سیکولرزم اپنے دوغلے اورمنافقانہ ذہنیت رکھنے والےجنرلوںاور سپہ سالاروں کی وجہ سے پے درپے شکست کھارہاہے۔ گھر کے بھیدی کاایمان بہت کمزور ہوتا ہے وہیں دادودہش کی خواہش رکھنے والوں کی امنگوںکو ہوا دے کراندرکی کنڈی کھلوانا آسان ہوجاتا ہے۔ ہندو تو وادی طاقتیں ہمیشہ اپنے مقصد ،ہدف کے تئیں مخلص اور یکسورہیں ۔ ان کی نگاہ ارجن کی طرح صرف مچھلی کی آنکھ پر نشانہ لگانے پر تھی۔1925میں جو حلف لیاگیا، جن عزائم کااظہار کیاگیا، جو اہداف طے کئے گئے ان پر مسلسل کام کیا جاتا رہا۔انہوں نے اپنے دشمن اور دوست متعین کرلیے اور لگاتار گھیرابندی ہوتی رہی۔ سماج میں معتوب ومطعون کئے جانے کےباوجود حوصلہ نہیں ہارا پھر انہیں خود سیکولرزم کی صفوں سے کمک پہنچائی جاتی رہی۔زمین ہموار کی گئی، نرم ہندوتو کی تخلیق ہوئی ۔پہلا ہندووراٹ سملین کانگریس کے بڑے اور سینئر لیڈر کی رہنمائی میںبوٹ کلب پرہوا۔ کہیں چھپ کر تو کہیں اعلانیہ اس پودے کو سرکاری مشنری کے ذریعہ کھاد فراہم ہوتی رہی ’سیکولرمجاہدین ‘ کی بدولت گرم اورنرم دونوں ہندوتو آج جارح اور طاقتور ہیں۔ ایک دوسرے کے پشت پناہ ہیں، وہیں سیکولرزم 60 سال تک بر سر اقتدار رہنے، اس کے کمالات وجمالات سے استفادہ کرنے اور اقتدار پر بلاشرکت غیرے قابض رہنے کے باوجود ہراساں وپریشان ہے۔ جائے پناہ ڈھونڈتا پھررہا ہے، ایک ریاست سے دوسری ریاست میں دربدر کیا جارہا ہے۔ پے درپے شکستوں نے اسے نڈھال کردیا ہے کیونکہ سیکولرزم کو جن لوگوں نے گودلیا وہی اس کاخون نچوڑ تے رہے، اس کے تئیں کبھی وفادار نہیںرہے۔ یہ ڈراکیولابن گئے، اپنا پیٹ بھرنے کے لئےگندا کڑواکسیلاخون لینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس جنگ میں جنرلوں ،سپہ سالاروں، میجروں کا تو کچھ نہیں بگڑا وہ اپنی ضرورتوں کے مطابق کمان بدلتے رہے لیکن اس لڑائی میں عام سپاہی بری طرح مارا گیا، وہ کسی طرف کانہ رہا، اس کی وفاداریاں غیر مشتبہ ،اس کی وابستگی اعلانیہ رہی ۔ اپنا سب کچھ دائو پر لگادیا، اسے نشان زد کرکے ٹارچر کیاگیا، مشکیں کس دی گئیں۔ سانس بھی آہستہ لینے کی اجازت ہے اس میں سے کئی جنرل ایسے تھے جو عین لڑائی کے وقت یاتو دشمن فوج سے جاکر مل گئے یااپنی فوج کودوقدم پیچھے لے گئے اورکہیں بغیر جنگ بندی کے میدان خالی چھوڑ دیا۔ انہوںنے سپاہیوں کی زندگی اور مستقبل کے بارے میں بالکل نہیں سوچا جنہوں نے تمام کشتیاں جلاکر ملک کے مستقبل کو سیکولرزم کے ہاتھوں میں محفوظ سمجھ کر تمام جملہ حقوق اس کے نام محفوظ کردیے تھے اب وہ دشمن سرپر کھڑا ہے۔ وہ 2025 تک اس نظریاتی لڑائی کو جواب بظاہر یکطرفہ نظرآرہی ہے اپنے نام کرنا چاہتا ہے۔ درباری دانشور حاوی ہوچکے ہیں۔ بہت سوں نے قبلہ وکعبہ بدل لیا۔ کوئی یقین دہانیاں حاصل کرکے دوسرے پالے میں چلاگیا اورجن کے بوتےیہ لڑائی چھیڑی گئی تھی وہ چہرے پر خبیثانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہتھیار ڈال کرامن معاہدہ پر دستخط کرچکے ہیںاور پیدل فوج کو بے بسی کے گوانتاناموبے میں ہانک دیاہے۔ سیکولرزم کو ان نادہندگان نے ریڈ لائٹ ایریا بنادیاہے، جس کے ساتھ وفادار ی نہیں ضرورتوںکاعارضی ناپاک رشتہ بنایاجاتاہے۔
جہاں تک اقلیتی طبقہ کا تعلق ہے اس نے آزادی کے بعد سے آج تک سیکولرزم کو حرزجاں بناکر رکھا اور اس کے لیے صرف مخلص ہی نہیں وفادار بھی رہا۔ جن پہ تکیہ تھا ان پتوںکے ہوا دینے کےباوجود اس کاایمان متزلزل نہیںہوا۔ لٹتاپیٹتارہا۔ خانماں برباد ہوا۔جان، مال، عزت آبرو سب کچھ دائو پر لگ گئی، سیکولرزم کے پالن ہار کشتی کو منجدھار میں چھوڑ کر بھاگ گئے مگر وہ ان سوراخوں سے نہیںگھبرایااجو لگاتار اس کشتی میں کئے جاتے رہے اور ہندوتو کاپانی بھرتا رہا۔ اس لڑائی کا سب سے زیادہ خمیازہ اگر کسی نے بھگتاتو یہ مظلوم ومقہور اقلیتی طبقہ ہی ہے۔ دلتوں کو ریزرویشن کے علاوہ دیگر اکرام وانعام سے نوازکرمعاشی وسماجی زندگی سدھرتی رہی اور دلت طبقہ کی جگہ پرانہیں بٹھال دیاگیا۔ یقین نہ ہوتو گوپال کمیشن سے لے کر سچرکمیٹی تک کی رپورٹیں دیکھ لیجئے ۔ دراصل اقلیتی طبقہ نے سیکولرزم کو ایمان کی جگہ دے دی اور سیکولر کا دم بھرنے والوں نے اسے ضرورت کاسامان سمجھ کراستعمال کیا۔ظاہر ہے آزمائش تو ہمیشہ ایمان والوں کی ہوتی ہے۔ سیکولرزم اور نربھیا میں اتنا فرق ہے کہ ایک روح ہے تو دوسرا جسم، دونوں استحصال وجبر کی علامت ہیں۔ سیکولرزم برانڈ ہے جوجتنی بہتر مارکیٹنگ کرتا ہے نفع اس کے کھاتے میں جاتا ہے۔ اس وقت یہ عصائے سلیمانی ہے، اندر سے کھوکھلا بے جان ،بے حس وحرکت لیکن ہم اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ سیکولرزم سیاسی ضرورت ہے ایمان کاجز نہیں۔نہرو سے لے کر مودی تک سب نے استعمال کیا ہے ،آگے بھی ہوگا۔
اس اقلیتی طبقہ کی جس کوعرف عام میں مسلمان کہتے ہیں دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کے نفع ونقصان کے بارے زیادہ سوچتا ہے مگر خود کے بارے میں سوچنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کو جتنی فکر رہتی ہے خود مسلمانوں کو اپنےتعلق سے ایک فیصد بھی نہیں۔ یہ بھی اس کی سادہ مزاجی کی دلیل ہے۔مثلاًوہ اس فکر میں ہلکان رہے گا کہ ملائم -اکھلیش مل کیوں نہیں جاتے ۔ سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی ساتھ الیکشن کیوں نہیں لڑتے۔ جب سب بی جے پی کو ہراناچاہتے ہیں تو ایک جگہ آنے میں کیاپریشانی ہے، مگر ایسا کیوں نہیں ہورہا ہے اس کاجواب تلاش نہیں کرتا۔اگر وہ اس کاجواب ڈھونڈے تو ذہن کے سارے بنددریچے کھل جائیں گے، سیکولرزم کا ڈھونگ کھل کر سامنےآجائے گا اور سیکولرزم بنام ہندوتو کی لڑائی کی اصل حقیقت برہنہ ہوجائے گی اور معلوم ہوجائے گا کہ دراصل سب ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، باہم شیر وشکر ہیں۔ دکھ سکھ کے یارہیں ،مگرہم چونکہ سیکولرزم کے سچے وفادار ہیں تو ہمارے دوست اور شمن وہی طے کرتے ہیں کیونکہ ہم حلال وحرام کے آگے نہیں سوچتے ،انہیں جائز ناجائز مباح کی اصطلاحیں معلوم ہیں۔ سیاست حلال وحرام کی حدیں بناکر نہیںہوتی ،اس میں تمام متبادل کھلے ہوتے ہیں جس دن ہم بی جے پی کو ہرانے کی بجائے کسی کو جتانے کی ٹھان لیں گے خود کو ہلکاپھلکا محسوس کریں گے۔ کبھی اپنے بارے میں بھی سوچئے۔ یہ دولہابدلنے کاکھیل کب تک چلے گا۔ یہ بن بلائے باراتی کارول کب تک نبھائیں گے۔ کبھی دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ سیکولر کہی جانے والی پارٹیاں بی جے پی کو روکنے کانعرہ لگاتی ہیں، اگر واقعی مخلص ہیں ان کاہدف ایک ہے تو پھر ان کو ایک جگہ آنے میںکیا دقت ہے۔ پھر یہ جُوا ہمارے کاندھوں پرہی کیوں؟ ہرکوئی ہمارا طلبگار کیوں؟ بی جے پی ہارتی ہے تو قیمت ہمیں ہی چکانی پڑتی ہے اور کامیابی کی صورت میں بھی ۔ورنہ کیاوجہ ہے کہ نصیب میں گجرات ہے تو ملیانہ ،ہاشم پورہ ،ممبئی فسادات ،مظفرنگر بھی ہے جہاں سوفیصد سیکولر پارٹیوں کی سرکار تھی ۔ کسی کو بی جے پی یا کانگریس یا کسی اور پارٹی کاایجنٹ کہہ کر دل کو پرفریب تسلی دی جاسکتی ہے کیونکہ گالیاں دلائل کے افلاس اورذہنی دیوالیہ پن کی عکاس ہوتی ہیں، جہاں دلائل نہیںہوتے وہاں گالیاں یافتویٰ دے کر خود کو مطمئن وصحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اب تو وہ دورآگیا ہے کہ آپ سے ڈانٹ کرووٹ لیاجاتا ہے اور زباں بندی کی بھی تاکید ہوتی ہے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے۔ یہ حالت کیوں ہوئی، کس نے یہاں تک پہنچایااوراس کی سزا کیاہو؟اس دلدل سے نکلنے کی صورت کیاہوسکتی ہے؟یہ اسی وقت ہوگا جب کبھی اپنے بارے میں سوچنے کاوقت نکالیں گے۔الیکشن آتے جاتے رہیں گے اور جب معاشی وسیاسی امپاورمنٹ کا دارومدار ہی انتخابی سیاست اور اس کے نتائج پر ہے تو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کے بارے میں کبھی توغور کرناپڑے گا۔پانی ناک تک آچکاہے، دم گھٹنے لگا ہے، اپنے بارے میں نہیں توآنے والی نسلوں کے بارے میں ہی سوچیں کہ خدا کرے انہیں کسی گجرات،کسی مظفرنگر جیسے خونچکاں حادثوں سے دوچارنہ ہوناپڑے۔
یہ بدنظمی نگاہ باغباں کی برہمی تک ہے
مگر یہ برہمی اہل چمن کی بے حسی تک ہے
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: