عشق کے اور کتنے امتحان!

6:07 PM nehal sagheer 0 Comments




قاسم سید 
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ملائم سنگھ اور اکھلیش کے درمیان نہ صرف صلح ہوگئی بلکہ ایک ’مجبور باپ‘ نے ’ضدی بیٹے‘ کے آگے ہار مان لی اور اس کی تمام شرائط کے ساتھ مارگ درشک کے رول میں رہنے پر خود کو راضی کرلیا۔ الیکشن کی نزاکتوں کو سمجھ کر اپنی عزت و بزرگی کو بھی قربان کردیا اور جوان قیادت کو سب کچھ سونپ کر فقیر کی راہ پکڑلی، اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید قیامت آجاتی، پھر ان مجبور مقہور، بے بس، لاچار لوگوں کا کیا ہوتا جو اپنی جان و مال، عزت و آبرو یہاں تک کہ مستقبل بھی سماجوادی پارٹی اور اس کے جان نثاران ملت رہنمائوں کے ہاتھوں میں محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس سیکولرازم کا کیا بنتا جس کے لئے پے در پے قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ رفیق الملک کی سیاسی اٹکھیلیوں نے جان نکال رکھی تھی۔ نہ جانے کتنوں کی حرکت قلب بند ہونے کا انتظار کررہی تھی، دن رات کا سکون غارت ہوگیا تھا۔ اپنے گھر میں برپا حشر اور اندرونی مناقشات و تفرقے پر اتنے پریشان کبھی نہیں رہے جتنا ہلکان باپ بیٹے کی لڑائی نے کیا۔ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا کہ جائیں تو کہاں جائیں اور کریں تو کیا کریں۔ اگر لڑائی یوں ہی جاری رہتی تو دشمن جاں بی جے پی کے لئے راستہ ہموار ہوجاتا اور خدانخواستہ اقتدار میں آجاتی تو قیمہ کباب بنانے سے دریغ نہ کرتی۔ اللہ کو مظلومین پر رحم آیا اور اس نے باپ بیٹے کے دل میں صلح و آشتی کا جذبہ پیدا کردیا، چنانچہ باپ نے قدم واپس کھینچے اور اقتدار و اختیارات کی تمام چابیاں ہونہار فرزند کے سپرد کردیں۔ ان لوگوں نے بھی چین کی سانس لی جو اس صورت حال سے رنجیدہ خاطر تھے اور سماج وادی پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں دیکھنے کے خواہاں ہیں تاکہ مظلوم طبقات جس طرح پانچ سال تک فرقہ پرست قوتوں سے مامون و محفوظ رہے ہیں آگے بھی یہ تحفظ یقینی بنالیا جائے۔ اب رہا مظفرنگر اور دادری جیسے چھوٹے موٹے واقعات تو ہر دور حکومت میں ہوتے رہتے ہیں، ان کو دل پر نہیں لینا چاہیے۔ جب ہم اترپردیش میں ہاشم پورہ، ملیانہ کو جھیل سکتے ہیں، کڑیل نوجوانوں کو منظم نسل کشی کے تحت پی اے سی کے فرض شناس جوانوں کے ہاتھوں لائن میں کھڑا کرکے اجتماعی قتل کرنے کی تاریخ کو فراموش کرسکتے ہیں تو مظفرنگر کو نہیں بھول سکتے؟ آخر اس میں زیادہ لوگ تو مارے نہیں گئے تھے، صرف پچاس ہزار افراد ہی بے گھر ہوکر پناہ گزیں کیمپوں میں محصور کردیے گئے تھے۔ رہا دادری کا معاملہ تو اخلاق کے قتل پر اتنا واویلا کرنے کی کیا ضرورت ہے، سرکار نے فراخ دلی دکھاتے ہوئے ان کے ورثا کو بھرپور مدد فراہم کی تھی، مکان دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اور اگر اخلاق کے قتل کے ایک ملزم کی جیل میں پراسرار موت پر اس کے اہل خانہ کو لاکھوں معاوضہ دیا گیا تو اس میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں۔ یہ سوال بالکل بے جا ہے کہ ملزم کو سرکاری مدد دینے کی نئی روایت کیوں ڈالی گئی۔ آخر سرکار سب کی ہوتی ہے، ظالم ہو یا مظلوم اور پھر یہ کون سا موقع ہے کہ ایسی باتیں کی جائیں۔ مظفرنگر کے مظلومین آج بھی کیمپوں میں ہیں تو کیا ہوا، اگلی سرکار میں زیادہ اچھے اور بہتر سہولیات والے پناہ گزیں کیمپوں میں منتقل کردیا جائے گا۔ آئندہ کوئی بھی فساد ہونے سے قبل پیشگی طور پر ایسے کیمپ تیار کرائے جائیں گے، جن میں ضروریات زندگی کی مکمل فراہمی ہو، ہر طرح کی سہولتوں سے آراستہ ہوں۔ جو لوگ بھی اس نازک موقع پر مظفرنگر اور دادری جیسے واقعات پر انگلی اٹھائیں گے وہ سیکولرازم اور ملت دونوں کے دشمن اور بی جے پی کے ایجنٹ کہلائیں گے۔ وفاداران ملت ایسے غیرضروری سوال نہیں کریں گے۔ اس بات پر نظر رکھنی ہوگی کہ کوئی دیوانہ ان مسائل کا تذکرہ نہ چھیڑدے، یہ بے وقت کی راگنی ہوگی۔ اسی طرح یہ موقع مناسب نہیں ہے کہ سماجوادی سرکار کو یاد دلایا جائے کہ آپ نے مظلومین سے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ جو نوجوان سالوں سے جیلوں میں بند ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں ان کو قانونی کارروائی کے ذریعہ رہا کرائیں گے اور دہشت گردی کے بے بنیاد الزام سے نجات دلائیں گے۔ حضور اس وعدہ کا کیا ہوا؟ پانچ سالوں میں ایک بھی بے گناہ باہر نہیں آسکا۔ اس پر کچھ صفائی دے دیجئے۔ اسی طرح انتخابی منشور میں مسلمانوں کو 18 فیصد ریزرویشن دینے کی بات زوردار انداز میں کہی گئی تھی، پورے دور اقتدار میں ایک بار بھی زبان مبارک سے اس بارے میں کوئی ارشاد گرامی سامنے نہیں آیا تو کیا گستاخی معاف یہ پوچھنے کی جرأت کرسکتے ہیں کہ آنجناب کیا ارادہ رکھتے ہیں۔ حالانکہ معمولی عقل و فہم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ یہ ناقابل عمل ہے، مگر دوچار فیصد میں کیا برائی تھی۔ ہوسکتا ہے یہ سوال مزاج نازک پر گراں گزریں، کیونکہ یہ موقع محل تو بالکل نہیں۔ ایسے سوالات کسی حاسد و مخالف کے ذہن میں ہی آسکتے ہیں جو بی جے پی سے ہمدردی رکھتا ہوگا، وہی سماجوادی سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پریشانی میں ڈالنے کی کوشش کرے گا اور وہ سماجوادی دشمن تو بعد میں پہلے ملت کا دشمن قرار پائے گا۔ ان کا حقہ پانی بند کرکے چوراہے پر لٹکا دینا چاہئے۔ یہاں یہ بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سماجوادی پارٹی کی خانہ جنگی کے دوران جب رفیق الملک نے علی الاعلان رام گوپال یادو کو بی جے پی کا ایجنٹ کہا، پورے ملک کو یہ بھی بتایا کہ ان کا بھائی کئی بار امت شاہ سے خفیہ طور پر ملتا رہا ہے، وہ سی بی آئی کی جانچ سے بچنا چاہتا ہے، اس لئے بی جے پی کے اشارے پر پارٹی توڑنے کی سازش کررہا ہے، وہیں مخالف گروپ امرسنگھ کو بی جے پی کا ایجنٹ بتاکر خم ٹھونکتا رہا۔ اسی طرح ملائم نے اپنے لخت جگر کو مسلم مخالف کہہ کر سنسنی پھیلائی اور بتایا کہ وہ مسلمانوں کے کام نہیں کرتا۔ وہ جاوید احمد کو ڈی جی پی بنانے کے خلاف تھا، میں نے زور ڈال کر یہ کام کردیا تھا۔ کیا اس میں سچائی ہے، یقیناً ملائم سنگھ قلابازیاں کھانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں، لیکن جھوٹ بولنے میں مہارت نہیں ہے۔ پھر کیا مانا جائے، ان بیانات میں کوئی صداقت ہے؟ کیا رام گوپال واقعی بی جے پی کے اشارے پر کام کررہے ہیں اور کیا نوجوان وزیراعلیٰ مسلمانوں کی نہیں سنتے، وہ ان کے مخالف ہیں۔ عالی قدر ملائم سنگھ جی نے سرعام یہ حقائق کیوں بیان کئے۔ کیا اس لئے کہ وہ اکھلیش کی امیج کو ہندوئوں میں بہتر کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ مسلمان تو ان کی مٹھی میں ہیں ہی، وہ اپنے رفیق و غمگسار کو چھوڑکر جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے اور نہ ہی اتنا حوصلہ ہے نہ ہی وہ احسان فراموش ہیں۔ ظاہر ہے یہ ان سلجھے سوالات ہیں اور یہ محض یوں ہی ہوا میں نہیں اچھالے گئے ہوں گے، لیکن ہمیں ان فضولیات و واہیات پر توجہ نہیں دینی چاہئے۔ اصل ہدف سیکولرازم کا تحفظ ہے خواہ اس کے لئے کوئی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اگر ’مظفرنگر‘ اور ’ہاشم پورہ‘ سیکولرازم کی خاطر گلے مل رہے ہیں تو یہ ان کی فراخ دلی ہے، اسے ابن الوقتی، خودغرضی اور مفادپرستی کا نام نہیں دینا چاہئے۔ جب گالیاں دینے والے اور گالیاں کھانے والے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رہے ہیں تو ہمیں بھی پرانے گلے شکوے چھوڑکر سیکولرازم کے لئے سب کچھ بھلادینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں یقیناً ’تھنک ٹینک‘ اپیلیں تیار کررہے ہوں گے جو پانچ سال پہلے بھی ہوئی تھیں، البتہ پارٹیوں کے نام میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ وہ اپیلیں ہمارے لئے مارگ درشک اور دافع حوادث ہوں گی۔ ہمارا ووٹ فیصد اترپردیش میں کم و بیش 20 فیصد ہے تو کیا ہوا، ہم کیوں اس کا سیاسی وزن محسوس کریں۔ سوچنے کا کام تو رہبران ملت اور محافظان سیکولرازم کا ہے، وہ جہاں کہیں گے مہر لگادیں گے۔ دل و دماغ کے دروازے اور کھڑکیاں بند رکھنے میں ہی ملک و ملت کی بھلائی ہے، کیونکہ جب عام آدمی سوچنے لگتا ہے تو انقلاب انگڑائی لینے لگتا ہے اور ہم ابھی اس موڈ میں نہیں کہ اپنے بارے میں غور کریں۔ جب ہر کوئی پارٹی مسلمانوں کی فکر میں ہے، کسی کو یہ غم کہ مسلم ووٹ تقسیم نہ ہو، سارا گھی ہماری تھالی میں آجائے تو کسی کو یہ اضطراب کہ ووٹ تقسیم کیسے کیا جائے، لیکن خود مسلمانوں کو اپنی فکر نہیں ہے اور یہ بات ہر پارٹی کو سکون و طمانیت پہنچاتی ہے۔
دین بچائو دستور بچائو کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ عین تقاضائے ایمان ہے۔ سیکولرازم کے علم برداروں کی تمام تر منافقت، عیاری، اعتمادشکنی، وعدہ خلافی کے تذکرے بی جے پی کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ دین اسلام کا تحفظ، مدارس کی بقا، زبان کا ارتقا، جان و مال، عزت و آبرو، سیکولر قوتوں کے ہاتھوں میں ہی محفوظ رہ سکتی ہے۔ گزشتہ 60 سالوں سے یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں، ہر پانچ سال بعد سیکولرازم کو لاحق خطرات اور بڑھ جاتے ہیں اور فرقہ پرست قوتیں اور طاقتور، پتہ نہیں کیوں غلطی کہاں ہورہی ہے، مظلوم طبقات سے زیادہ کسی نے قربانی نہیں دی۔ اس راہ میں ایک نہیں ہزاروں مظفرنگر اور ہاشم پورہ آئے، اجتماعی عصمت دری کے سیکڑوں کاری زخم سہے، کتنے پناہ گزیں کیمپ مستقل کالونیوں میں بدل گئے مگر سیکولرازم کا امتحان ختم نہیں ہوا۔ فرقہ پرستی کا سیلاب رک نہیں سکا۔ ہر پانچ سال بعد یہی سوال منھ پھاڑے آکر کیوں کھڑا ہوجاتا ہے؟ کیا یہ پوچھنا بھی گناہ ہے؟ کیا یہ سوال کرنا بھی بی جے پی ایجنٹ ہونے اور بنانے کے لئے کافی ہے؟ کبھی خود سے بھی پوچھ لیں عشق کے اور کتنے امتحان باقی ہیں۔ چلئے شاہی سواریاں ڈھونے کے لئے قلی کا پٹکا باندھ لیں۔ وقت کم رہ گیا ہے۔
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: