featured,

لاپتہ مسلم نوجوانوں کے داعش سے تعلقات کا جھوٹ بے نقاب

10:08 PM nehal sagheer 0 Comments

ندیم عبدالقدیر

جھوٹ کے پرنہیں ہوتے اور سازشیں بے نقاب ہو کررہتی ہیں۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی غرض سے مسلم نوجوانوں کے داعش سے تعلقات کا الزام بھی ایسا ہی جھوٹ ہے ۔ ناندیڑ رینج کے انسپکٹر جنرل آف پولس چرنجیو پرساد نے ایک ایماندار اور انصاف پسند پولس افسر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے لاپتہ مسلم نوجوانوں کے داعش میں شامل ہونے کی تمام خبروں کو مسترد کردیا۔ ظلم سہتے اور الزامات کے زخموں سے چور مراٹھواڑہ اور مہاراشٹر بھر کے مسلمانوں کیلئے آئی جی پرساد کی وضاحت کسی اکسیر سے کم نہیں ہے ۔ آئی جی پرسادنے کہا کہ لاپتہ مسلم نوجوانوں کے داعش میں شامل ہونے کے معاملات کی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ یہ سارے الزامات جھوٹےتھے۔ اس کے ساتھ ہی ان سارے قصے کہانیوں کی بھی موت ہوگئی جو داعش کے مہاراشٹر میں پیر جمانے کے تعلق سے بیان ہوتے تھے۔  دراصل مسلم قوم کے اندر اور مسلم قوم کے باہر دونوں جگہ کچھ طاقتیں  مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے پر ہمہ وقت تُلی رہتی ہیں، اس کیلئے جھوٹی اور من گھڑت کہانیوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ اس میں میڈیا سب سے اہم کردار نبھاتا ہے۔ پولس اور اے ٹی ایس کے غیر رسمی ترجمان کی حیثیت سے میڈیا کے افراد جھوٹ کو پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ۔ یہ طبقہ ایجنسیوں کی کہانی پر آنکھ موند کے نہ صرف یقین کرتا ہے بلکہ اس میں مرچ مسالہ لگا کر ان کہانیوں کو سچی واردات بنا کر پیش کرنے کا کام انجام دیتا ہے ۔پہلے یہ کام انڈین مجاہدین اور سیمی کے نام پر ہوتا تھا لیکن داعش کے بین الاقوامی منظر نامہ میں ابھرنے کے بعد سے ’داعش‘ مسلم مخالف میڈیا کا سب سے چہیتا موضوع بن گیا۔ حالات اتنے خراب ہو گئےکہ کوئی مسلم نوجوان اگر لاپتہ ہو جاتا تو اس پر سیدھا داعش میں شامل ہوجانے کی کہانیاں بننی شروع ہوجاتی ہیں، غیر ممالک میں روزگار کیلئے گئے مسلم نوجوان کا جیسے ہی اپنے اہل خانہ کے ساتھ رابطہ ٹوٹتا ہے ویسے ہی میڈیا اس گمشدہ نوجوان کے داعش میں شامل ہوجانے کی کہانیاں شروع کردیتا ہے۔ میڈیا کی کہانیوں پر ایجنسیاں بھی حرکت آجاتیں اور میڈیا اور ایجنسیاں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے ایسی ایسی کہانیاں تراش لیتے کہ سیدھے سادے عوام کو ان کہانیوں پر بھروسہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ یہ ساری خبریں اور ان خبروں پر ہونے والی بحثیں دھیرے دھیرے اور غیر شعوری طور پر ہمارے ذہنوں کے اردگرد تانے بانے بنالیتی ہیں جو خود بخود ایک فکر میں بدل جاتی ہے ۔  مسلمان بےچارہ پہلے سے ہی سہما ہوا رہتا ہے او ر دہشت گردی کے الزامات لگ جانے کے بعد تو اس کے پورے خاندان پر مانو قیامت ٹوٹ پڑتی ہے ۔ عدالتوں کا چکر کاٹتے کاٹتے دہائیاں بیت جاتی ہیں۔ دہائیوں بعد عدالتیں انہیں با عزت رہا کردیتی ہیں لیکن تب تک عمر نکل جاتی ہے ۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے آئی جی پرساد کا کہ انہوں نے ایک انصاف پسند پولس اہلکار کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

0 comments: