Media,

حکومت سوشل میڈیا سے خوفزدہ کیوں ہے ؟



نہال صغیر 

نریندر مودی کا ہی پسندیدہ جملہ ہے جو میڈیا میں اکثر گردش کرتا رہتا ہے ،انہوں نے کہا تھا پاکستان کو اسی کی بھاشا میں جواب دینا چاہئے ؟ پتہ نہیں اس کا مطلب اور اس کے پس منظر کو کسی نے سمجھا یا نہیں مگر ہندوستانی عوام خصوصی طور سے سماجی کارکنان ، حزب اختلاف اور مسلم نوجوانوں نے اسے سمجھ کر میڈیا کے دورخے پن کا جواب بقول نریندر مودی اسی کی زبان میں بخوبی دینا شروع کیا جس سے سب دم بخود رہ گئے ۔ کہا یہ بھی جاتا ہے اور حقیقت بھی ہے کہ دشمن کے پاس جو ہتھیار ہو خواہ کمزور ہی سہی لیکن وہی آپکے پاس بھی ہونا چاہئے ، تب ہی آپ وہ جنگ جیت سکتے ہیں ۔حکومت نے ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کے اکثر اداروں کو اپنا زر خریدبنالیا ہے ایسے میں انکے ذریعہ حکومت کی قدم بوسی کا جواب سوشل میڈیا کے ذریعہ دینا ہی متبادل تھا ۔ اس کو استعمال کیا گیا اور خوب استعمال کیا گیا جس سے حکومت اور سنگھ کے کارندے سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ اس کا جواب وہ کیا دیتے مگر انہوں نے بھی اتنی جلدی ہارنا نہیں سیکھا ہے سو انہوں نے سوشل میڈیا  کی خامیاں بیان کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ یہ غیر معتبر ہے یعنی اسے عوام کے سامنے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور اب گذشتہ پیر ۲۱ ؍ ستمبر ۲۰۲۰ کو  مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میںحلف نامہ داخل کرکے سوشل میڈیا کو ساری خرابیوں کی جڑ قرار دیا ہے ۔ واضح ہو کہ مین اسٹریم میڈیا کی خامیاں اور اس کے حقائق کو چھپانے اور عوام کو زمینی سچائی سے بے خبر رکھنے والے رویہ کیخلاف سدرشن نیوز معاملہ میں سپریم کورٹ کے ججوں کا تبصرہ موضوع بحث ہے ۔اس دوران جبکہ سدرشن ، ریپبلک وغیرہ جیسے چینل کی اعتباریت پر بڑے پیمانے پر سوال اٹھ رہے ہیں تو ایک بار پھر مرکزی حکومت نے اپنے چہیتوں کو بچانے کیلئے سوشل میڈیا کا کارڈ سپریم کورٹ میں پھینکا ہے ،حکومت کا یہ رویہ اس کے خوف کو ظاہر کرتا ہے ۔ 

بے بسی کے اس دور میں جب عوام کی کوئی سننے والا نہیں تھا سوشل میڈیا ان کیلئے صحرا میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح آیا جہاں وہ اپنی بات کہہ سکتے ہیں اور مین اسٹریم میڈیا کی زہرلی سوچ کا تریاق بھی  ڈھونڈ سکتے ہیں ۔عوام نے سوشل میڈیا کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ آج سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر ایسی ہزاروں سائٹیں ہیں جہاں آپ کی بات من و عن پیش کی جاتی ہیں ۔ حکومت کی پریشانی یہی ہے کہ وہ ہزاروں کروڑ روپئے جس سچائی کو پوشیدہ رکھنے اور عوام کو بدگمانی میں مبتلا رکھنے کیلئے خرچ کررہی ہے ، سوشل میڈیا کے جہد کار چند منٹوں میں اس کی ہوا نکال دے رہے ہیں ۔ اس لئے حکومت چاہتی ہے کہ وہ اس شعبہ کی خامیوں کا پروپگنڈہ کرکے اس پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرے ۔ اس لئے مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں سدرشن ٹی وی کیس میں حلف نامہ داخل کرکےکہاکہح ’’ ویب پر مبنی ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہئے۔ جس میں ویب میگزینز اور ویب پر مبنی نیوز چینلز اور اخبارات شامل ہیں۔موجودہ وقت میں یہ مکمل طور پربے قابو ہیں۔ فی الحال ، ڈیجیٹل میڈیا بڑے پیمانے پر پھیل گیا ہے۔ جہاں متعدد متضاد ویڈیوز ، متضاد خبریں اور حقائق چلائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ، قانونی طور پر اس کے لئے رہنما اصول اور قواعد طے کرنا ضروری ہے‘‘۔ حکومت سوشل میڈیا کے تئیں اپنے مقاصد میں کتنی کامیاب ہوتی ہے یہ تو وقت بتائے گا ، مگر اس کیلئے اپنے پروپگنڈوں کو سچائی پر تھوپنے کا عمل مشکل ضرور ہوگیا ہے ۔معاشرے میں گندگی مین اسٹریم میڈیا کا وہ طبقہ پھیلارہا ہے جسے عرف عام میں گودی میڈیا کہتے ہیں مگر الزام سوشل میڈیا پر دھرا جارہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سدرشن نیوز چینل کیخلاف جاری سماعت سے حکومت اپنے مفاد کا حصول چاہتی ہے کیوں کہ ججوں نے بے لگام الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کی بات کی ہے۔

مرکزی حکومت کے خوف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے مین اسٹریم میڈیا سے جن سینکڑوں صحافیوں کو دبائو ڈال کر باہر نکلوادیا تھا انہوں نے سوشل میڈیا پر مورچہ سنبھال لیا ہے ، جو حکومت سے ہر روز سوال کرتے ہیں اور وہ سوال حکومت قابل توجہ سمجھے یا نہیں مگر ملک کے عوام سمیت اقوام عالم تک ان کی باتیں ضرور پہنچ جاتی ہیں اور اس سے مرکزی حکومت بھری دوپہر میں بے لباس ہوتی رہتی ہے ۔آج حالت یہ ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر مورچہ جمائے صحافیوں نے عوامی مفاد کی باتیں اسقدر کی ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا کا اعتبار تو ختم ہو ہی گیا ہے اور عنقریب انہوں نےروش تبدیل نہیں کی تو ان کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا ۔ اسی لئے حکومت اپنے چاپلوس میڈیا اور اس کے مالکان کی سلامتی کیلئے سوشل میڈیا کو بدنام کرنے کی جانب قدم بڑھارہی ہے ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج مین اسٹریم میڈیا کا وجود کیوں خطرہ میں ہے ؟ ہم نےسیر پر سوا سیر کی کہاوت سنی ہے ، سو آج مین اسٹریم میڈیا کے سیر کو سوشل میڈیا کا سوا سیر مل گیا ہے ۔ اگر انہوں نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہوتی تو ان پر غیر یقینی کے یہ حالات نہیں آتے ، انہوں نے اپنا اعتبار خود کھویا ہے ۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ، سوشل میڈیا اسی ضرورت کی تکمیل کیلئے ہمارے سامنے ہے ۔ بہتر ہوتا کہ مرکزی حکومت سوشل میڈیا کی نام نہاد خامیاں سپریم کورٹ کے روبرو رکھنے کی بجائے مین اسٹریم میڈیا کے ذریعہ جو زہر معاشرے میں پھیلایا جارہا ہے اس پر کنٹرول کیلئے کوئی تجویز پیش کرتی، جیسا کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے سدرشن معاملہ میں الیکٹرانک میڈیا کیلئے اصول و ضوابط اور انہیں اقدار کا پابند بنانے کی بات کی ہے ۔ 

ہندوستانی میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے؟یہ ایک سوال ہے جو یقینا ً بہتوں کے دماغ میں گردش کررہا ہوگا ۔ اس طرح کے سوال کی وجہ یہاں کے میڈیا ہائوس کا بے لگام ہوجانا ہی نہیں ہے بلکہ اکثریت اور دولت کے زعم میں مسلمانوں کو بدنام کرنا اور پسماندہ طبقات کیخلاف سازشیں کرنا ہے ۔ کسی مہذب معاشرے میں جہاں میڈیا کو پابند نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی اس کی خبروں کو سینسر کیا جاسکتا ہے ۔مگر دیگر شعبوں کی طرح یہاں بھی کچھ اصول نافذ ہوتے ہیں جس کو عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے ۔کہا جاتا ہے کہ انسانوں کی بستی میں میڈیا کیا کسی کی بھی آزادی کلی نہیں ہے ۔ جہاں آپ کی باتوں یا آپ کی نام نہاد آزادی سے کسی کو ناحق نقصان پہنچے وہاں آپ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے ۔میڈیا کے ایک بڑے طبقہ کے بے لگام ہوجانے کی کہانی اتنی بھیانک ہے کہ اس کی خطرناکی کو بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ رویش کمار اکثر اپنے شو میں میڈیا کے اسی رویہ کو نشانہ بناتے ہوئے اکثریتی فرقہ کو کہتے ہیں کہ آپ ٹی وی نہ دیکھیں یہ آپ کے بچوں کو فسادی بنارہا ہے۔ حکومت کو خود پر سوال اٹھانے والوں سے خوف ہے اور وہ اسے فساد کی جڑ مانتی جبکہ سپریم کورٹ کے ججوں نے مین اسٹریم میڈیا کی تباہی کو اس حد تک محسوس کیا کہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو کہنا پڑا ، ’’سپریم کورٹ کا کسی چیز پر روک لگانا ایٹمی میزائل کی طرح ہے۔لیکن ہمیں آگے آنا پڑا کیونکہ کسی اور کے ذریعےکوئی کارروائی نہیں کی جا رہی تھی۔ ایک سرکاری افسرنے خط لکھا بس‘‘۔سپریم کورٹ کے مذکورہ بنچ کے ججوں یہ کہنا کہ ’’میڈیا میں یہ پیغام جانا چاہئے کہ خاص کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ۔ ہمیں مستقبل کے ملک کو دیکھنا ہے جو جو متحد اور متنوع ہو‘‘۔بہر حال سپریم کورٹ نے میڈیا کیلئے جس حدود کی بات کی ہے اس کا نافذ ہونا بہت ضروری ہے ۔ لیکن یہ حدود حکومت کی ریشہ دوانیوں سے آزاد ہواور اس کی نگرانی کرنے والے لوگ سبھی کمیونٹی سے ہوں جو مبنی بر انصاف فیصلے لے سکیں ۔ ورنہ سدرشن چینل جیسے میڈیا ہائوس اس ملک کو جلا کر خاک کردیں گے اور اس وقت کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہمیں اس تناظر میں ریڈیو روانڈا کی زہرناکی کو یاد رکھنا چاہئے ۔جس کی نفرت پر مبنی پروپگنڈہ کے سبب  لاکھو ں انسان قتل کردیئے گئے تھے۔ 

0 comments:

Politics

گاندھی اور گوڈسے

 


ممتاز میر  

   چند دنوں پہلے ممبئی سے ایک دوست کا فو ن آیا۔وہ ڈاکٹر ہیںممبئی قیام کے دوران ہفتے میں ۴؍۵ دن ان سے ملاقات رہتی تھی۔انتہا درجے کے دوٹوک اور خوش مزاج ہیں ۔جسمانی روگوں کا علاج دواؤں سے تو کرتے ہی ہیںمگر ان کی باتیں بھی کسی ٹانک سے کم نہیں ہوتیں۔ہم اکثر اپنا موڈ درست کرنے کے لئے ان سے باتیں کرتے ہیں جو اکسیر بھی ثابت ہوتی ہیں۔کہنے لگے چھ ماہ ہورہے ہیں آپ ممبئی نہیں آئے۔ ہم نے کہا ،پہلے تو اس انتظار میں رہے کہ سی ایس ٹی والی گاڑیاں شروع ہو تو ریزرویشن کرائیں ۔اس سے مایوس ہوئے تو کر لا ٹرمنس کا ریزرویشن ڈھونڈنے لگے۔اب ملا ہے تو یکم اکتوبر کو یہاں سے نکلیں گے ۔ پوچھا، کہ دو،اکتوبر کی صبح پہونچ جائیں گے ، ہم نے کہا ، انشا ء اللہ ،کہنے لگے ۔یعنی آپ گاندھی جینتی ہمارے ساتھ منائیں گے ،دیش بھکتی کے گیت گائیں گے۔ہم نے کہا ۔یہ تو ٹھیک ہے کہ ہم دو اکتوبرکو ممبئی میں ہوں گے مگر باقی سب کرتے ہوئے اب ڈر لگتا ہے ۔ پوچھا،کیوں؟ہم نے کہا کہ بھائی NSA سے ڈر لگتا ہے ۔پوچھاNSA اور گاندھی جینتی کا کیا تعلق۔ ہم نے کہا ،اب گاندھی جی دیش بھکت کہاں رہے ۔ اب تو دیش کا ہیرو اور دیش بھکت ناتھو رام گوڈسے ہے ۔اب جگہ جگہ گاندھی کے بازو میں ناتھو رام گوڈسے کی تصاویر لگائی جا رہی ہے ۔کہیں ایسا بھی ہوا ہوگا کہ گاندھی کی تصاویر نکال کر ناتھورام کی لگائی گئی ہوں۔ انشاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا جب گاندھی جی کو راشٹر پتا کے’’عہدے‘‘ سے ہٹا کر ’’ناتھو رام جی‘‘ کو راشٹر پتا بنا دیا جائے۔اوراگر یہ ممکن نہ ہوا تو راشٹر دادا بنا دیا جائے۔ ویسے بھی ناتھو رام جی کا تعلق جن لوگوں سے تھا وہ دادا گیری میں ہی یقین رکھتے ہیں۔یہ سب بھی ممکن نہ ہوا تو بھارت رتن تو کبھی بھی دیا جا سکتا ہے۔اور یہ سب اس لئے ہوگا کہ ہماری سول سوسائٹی یا تو بے حس ہے یا منافق۔

   کچھ مسلمان دانشوروں کا خیال ہے کہ گاندھی جی سنگھیوں کے ہی فرنٹ مین تھے ۔جس طرح یہودی چت اور پٹ دونوں پر داؤں کھیلتے ہیں بالکل اسی طرح ہمارے یہاں سنگھی ہر جگہ اپنے آدمی بٹھا کر رکھتے ہیں ۔ جیسے حالیہ تاریخ میں نرسمہا راؤ۔وہ کانگریس میں سلیپر سیل کی طرح تھے ،قسمت نے یاوری کی وزیر اعظم بن گئے۔دکھا دیا اپنی اصلی چہرہ ،گروادی بابری مسجد۔اسی طرح ان دانشوروں کا خیال ہے کہ گاندھی جی جو کچھ بھی کرتے رہے اس میں ہندو مہا سبھا کی مرضی شامل تھی ۔بلکہ وہ سبھائیوں کی بتائی ہوئی چالیں چلتے تھے۔مگر فرنٹ مین بہرحال ہوتا تو ایک جاندار انسان ہی ہے ۔بے جان مشین کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی کوئی عقل اور جذبات نہیں ہوتے ۔انسان کبھی کبھی خود بھی سوچ لیتا ہے ۔کبھی کبھی اس کی عقل متاثر بھی ہوجاتی ہے ۔شقی القلب انسانوں کے بھی جذبات کبھی متاثر ہوجاتے ہیں۔پھر گاندھی برہمن تو تھے نہیں،وہ وطن عزیز کی تقسیم کے مخالف تھے۔مگر جب تقسیم نوشتہء دیوار بن گئی تو انھوں نے پاکستان کے لئے کچھ ہمدردی دکھائی۔ان کا موقف تھا کہ پاکستان کو اس کے حصے کے ۵۵ کروڑ کی رقم ادا کی جائے جب کہ سنگھ چاہتا تھا کہ پاکستان بھوکا مر جائے ۔

  آجکل ہم الجمیعتہ دہلی کے ۱۹۲۵ سے ۱۹۲۸تک کے اداریے و مضامین پڑھ رہے ہیں ۔ان تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو مہا سبھا کسی حال میں وطن عزیز میں نہ امن قائم ہونے دینا چاہتی تھی نہ اتحاد ۔ جہاں ذرا بھی امن و امان کی اور ہندو مسلم اتحاد کی صورت بنتی نظر آتی تووہاں زہریلی تقریریں کی جاتیں ہندؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جاتا اور فساد برپا کرادیا جاتا۔اور پھر برسوں کے لئے ہندو مسلم اتحاد خواب بن کر رہ جاتا جو انگریزوں سے چھٹکارے کے لئے ضروری تھا۔آج جو ہورہا ہے وہی سو سال پہلے بھی ہوا ۔ہندوؤں کے جن بڑوں کو اس وقت ایکشن لینا چاہئے تھا وہ سب اپنے اپنے گوشہء عافیت میں پڑے رہے اور میدان شر پسندوں کے لئے خالی چھوڑدیا ۔جب میدان میں مقابل کوئی ہے ہی نہیںتو کمزور سے کمزور ٹیم ہو جیتے گی تو وہی۔آج بھی تاریخ کے دھارے کو موڑنے یا روکنے کی کوئی کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔بہرحال گاندھی جی کی پاکستان نوازی سنگھ کے روڈ میپ کے خلاف تھی ۔فرنٹ مین باغی ہو گیا تھا ۔ایسی حالت میں ناتھو رام جو پرانا سنگھی تھا سنگھ کی مدد کو آیا۔ آج ناتھو رام کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ اسی احسان کا بدلہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137 


0 comments:

Muslim Worlds

طالبان : یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے




   نہال صغیر ۔ ای میل  sagheernehal@gmail.com 

علامہ اقبال نے مومن کے تعلق سے ایک بات کہی تھی ؎ جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں/اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے۔ اقبال کے اسی بندہ مومن کی زندہ مثال طالبان ہیں جن کی بے پناہ قربانیوں کے سبب ملت سر اٹھا کے جینے کے قابل ہے ورنہ کچھ اس کی خامیوں اور کچھ اغیار کے پروپگنڈوں نے تو مسلمانوں کو دنیا کی ذلیل ترین مخلوق کے مشابہ بنادیا تھا ۔ مگر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ مومنین صادقین کی مدد کرنے سے اپنا ہاتھ نہیں روکے گا ۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر یہ ہم پر ہے کہ ہم اپنے مومن ہونے اور اللہ کے پاکباز بندوں میں اپنا نام لکھوانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ۔ طالبان کو دنیا بدنام کرتی رہی ، ان کے خلاف جھوٹے پروپگنڈے ہوتے رہے اور صرف اسلام دشمن قوتیں ہی نہیں مسلک کے قیدی مولوی اور ان کے مرید مسلمان نیز مسلمانوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والے سیکولر لبرل جمہوریت پرست طبقہ بھی طالبان کو ہدف تنقید بناتا رہا اور امریکہ کے آگے سرنگوں رہا مگر بقول اوریا مقبول جان ملا عمر ؒ نے کہا تھا ’میں اپنی زندگی میں ایسا کوئی بھی کام نہیں کروں گا جس سے مسلمانوں کو شرمندہ ہونا پڑے‘۔ ملا عمر ؒ اور ان کے ساتھیوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کے وقار بلند کرنے والے لوگ ہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اسلام نے ہمیں عزت بخشی ہے ۔ یہ بات قیامت تک کیلئے اٹل ہے کوئی اسلام سے الگ ہٹ کر اگر عزت تلاش کرے گا تو وہ ذلیل و رسوا ہوگا ۔ تاریخ کے صفحات ایسے افرادسے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے اسلام میں عزت پائی ، انہیں فرعون وقت نے ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کی مگر جیسا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ’عزت تو الله اوراس کے رسول اور مومنین ہی کے لیے ہے لیکن منافق نہیں جانتے‘ سورہ منافقون آیت ۸ ۔اللہ نے اپنے نیک بندوں کیلئے عزت مختص کررکھی ہے کسی کو یہ سمجھ میں آئے یا نہیں آئے ویسے طالبان کے ساتھ امریکی سمجھوتہ سے تو یہ بات سمجھ میں آجانی چاہئے ۔ کتنے متکبرانہ انداز میں جارج بش نے کہا تھا طالبان ختم ہوگئے ۔ مگر آج دنیا نے دیکھ لیا کہ جو ٹھیک ٹھیک اسلام نافذ کرنا چاہتا ہے اس کیلئے مشکلات دنیا کے شیاطین کی جانب سے کھڑی تو کی جاسکتی ہیں مگر اللہ اپنے مسلم بندوں کو رسوا نہیں ہونے دے گا ،وہ انہیں عزت دے کر رہے گا ۔طالبان کےمعاہدہ کی پہلی شق ہی ان کے کامل ایمان کیلئے کافی ثبوت ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے سبھی اداروں کو اسلامی خطوط پر ترقی دیں گے ۔ 
غلامی ایسی نحوست بھری چیز ہے جس میں انسان خود کو پہچاننا بھول جاتا ہے ۔ دنیا میں ہم اس کی کئی مثالیں دیکھ سکتے ہیں ۔ خود وطن عزیز کی پچاس فیصد سے زائد تعداد رکھنے والی آبادی برہمنوں کی غلامی میں اپنی خودی کو اتنی بھول چکی ہے کہ وہ ہندو نہیں ہوتے ہوئے بھی سارے ہندو رسم و رواج مناتی ہے ۔ حالانکہ ان کے لیڈر انہیں بتاتے نہیں تھکتے کہ وہ ہندو نہیں ہیں اور ہندو کے نام پر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کی جارہی ہے مگر وہ پندرہ فیصد والی آبادی میں برہمنیت کے علمبرداروں کی سازش کا شکار ہوکر مسلمانوں کی دشمنی میں دیوانے ہورہے ہیں اور یوں اپنا ہی نقصان کررہے ہیں ۔ یہ لوگ تو خیر تین ہزار سال کی غلامی کے سبب اس ذہنی سطح تک پہنچے ہیں مگر اسی ملک میں مسلمانوں کی حالت محض ستر پچھتر برسوں میں یہ ہوگئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی کسی بڑی کامیابی کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے ۔ غلطی عام مسلمانوں کی بھی نہیں ہے ،یہ ان عناصر کے پھندے ہیں جو عافیت پسند ہیں اور مغرب یا امریکہ کے ٹکنالوجی اور اس کی ترقی سے مرعوب ہیں ۔اس مرعوبیت میں یہ حضرات قوم پر بھی مایوسی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ طالبان اور امریکہ کے درمیان سمجھوتے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ سمجھوتہ کامیاب نہیں ہوگا یا پھر ان کا یہ ماننا ہے کہ طالبان نے یہ سمجھوتہ گر کر کیا ہے اور طالبان کی جیت نہیں ہار ہے ۔ اس طرح کے خیالات پیش کرنے والے افراد قوم کو مغالطہ میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ بزدل ہیں ویسے ہی پوری قوم بن جائے ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ پوری ملت بزدلی کے مرض میں مبتلا نہیں ہوئی ہے ۔ 
اگر طالبان امریکہ سے خائف ہوتے اور وہ کمزور پڑتے تو امریکہ کبھی ان سے سمجھوتہ نہیں کرتا مگر طالبان کے دبائو نے امریکیوں کو مجبور کیا کہ وہ سمجھوتہ کرلیں اور یوں اپنے آٹھ دس ہزار فوجیوں کو موت کے منھ سے بچاکر لے جائیں ۔ اس کے برعکس یہ صحرا نشین طالبان پوری دنیا سے بے نیاز اور دنیاوی قوت سےبے خوف ہوکر گوریلا جنگ لڑتے رہے اور بالآخر فرعونی قوت کو ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔کئی سال قبل طالبان کی روسیوں پر فتح کی ضمن میں شاہنواز فاروقی نے لکھا تھا اور اپنی کسی تقریر میں اس کا حوالہ بھی دیا تھا کہ جو کچھ طالبان نے حاصل کیا ہے اگر یہ کسی مغربی ملک کو میسر ہوا ہوتا تو پانچ ہزار سے زائد کتابیں محض اس موضوع پر شائع ہوچکی ہوتیں ۔مگر غلام ذہنیت اور ٹکنالوجی کی مرعوبیت کے سبب مسلمانوں کے دانشور طبقہ کو یہ بات ہضم ہی نہیں ہوتی کہ طالبان نے محض چالیس سال میں دنیا کی دوبڑی طاقتوں کو شکست دے کر تاریخ رقم کردی ہے ۔یہ اس دانشور طبقہ کا ہی حال نہیں ہے مسلمانوں کے درمیان کئی اہم تحریکی شخصیت کا بھی یہ خیال ہے کہ مسلمان اس دور میں کوئی کارنامہ انجام دے ہی نہیں سکتے ۔ جیسے ایک بار نوجوانوں کی تنظیم کے ایک ذمہ دار سے یہ کہا گیا کہ امریکہ میں دو مسلم تنظیمیں اتنی متحرک ہیں کہ وہ کئی اہم پالیسی پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں تو یہ بات انہوں نے تسلیم ہی نہیں کی ۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے آگے کچھ نہیں ہو سکتا وہ جو چاہے گا وہی ہوگا ۔ ان کے اس طرح کے خیال سے بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا اس امر پر ایمان کمزور ہے کہ اس کائنات کا نظام اللہ چلا رہا ۔
بہر حال امریکہ طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کرچکاہے اور سمجھوتہ کوئی اسی وقت کرتا ہے جب وہ سامنے والے سے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتا اور یہ اسی طرح حقیقت ہے جیسا کہ دن کے وقت سورج ۔ذرا سوچئے کفار قریش نے حدیبیہ میں مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کیوں کیا ؟ جبکہ اس سے قبل وہ مسلمانوں سے گفتگو کو تیار نہیں تھے ، ان کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے تھے کہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھا جائے ۔ مگر جب کفار قریش کو یہ یقین ہو گیا کہ مسلمان ایک بڑی طاقت بن چکے ہیں اور جلد یا بدیر وہ پورے عرب پر چھاجائیں گے تو انہیں سمجھوتہ کی میز پر آنا ہی پڑا ۔ اسلام کسی سے اسی وقت تک لڑنے کی تاکید کرتا ہے جب تک وہ لڑنا چاہئے ، اگر وہ صلح چاہے تو اسلام فوراً صلح کو اہمیت دینے کی بات کرتا ہے ۔ کیوں کہ اسلام کے نزدیک بلا عذر کسی انسان کوقتل کرنا پوری انسانیت کا قتل ہے ۔
طالبان سے بھی جب امریکہ نے صلح کی پیش کش کی تو انہوں نے اپنی شرائط کے ساتھ اسے قبول کیا ۔غور کیجئے ایک وقت تھا جب افغانستان کو طالبان سے پاک کرنے کی بات کی گئی تھی ، دنیا کی ساری قوتیں اس پر متفق تھیں لیکن طالبان ہمیشہ اصولوں کی بات کرتے رہے ۔امریکہ چونکہ طالبان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے عہد کے ساتھ آیا تھا اس لئے اس کی اس میں بڑی سُبکی تھی کہ جنہیں اس نے مٹانے کا عزم کیا تھا ان کو (قوت کے معاملہ میں) اپنا ہم پلہ سمجھتے ہوئے مذاکرات کرے ۔ اس سُبکی سے بچنے کیلئے اوبامہ کے دور میں اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح ایجاد کی گئی اور گفتگو کرنے کیلئے اچھے طالبان کا انتخاب کیا گیا ، حالانکہ طالبان جو تھے وہی اب بھی ہیں ۔ان کی گفتگو کے انداز زمین پر چلنے پھرنے کا طریقہ ان کے لباس وغیرہ کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔وہ جہاں بھی گئے جس سے بھی گفتگو کی اسی عاجزی و انکساری والے رویہ کے ساتھ لیکن اسلامی اقدار کی روشنی میں ، مسلمانوں کے عزت و وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ۔اب کسی کو وہ لوگ جاہل احمق اور دہشت گرد نظر آتے ہیں تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانے کی ضرورت ہے ۔
طالبان کے عروج پر علامہ اقبال کا ایک شعر صادق آتا ہے ؎ نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا/سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا۔ وہ شیر طالبان کی صورت میں ہوشیار ہوچکا ہے اور وہ دوسرے شیروں کو جو کہیں اخوان المسلمین اور حماس کی شکل میں موجود ہیں اور جو فرعونی جبر کا مقابلہ پامردی کے ساتھ کررہے ہیںانہیں بھی قوت بخشے گا کیوں اللہ کے نبی ﷺ نے کہا مومن ایک عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسرے کو قوت دیتی ہے ۔علامہ اقبال نےاسپین وغیرہ میں مسلمانوں کی ماضی کے باقیات دیکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا تھا ؎کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے/عشقِ بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!۔ علامہ رحمتہ اللہ علیہ کی روح کو ان کے سوالوں کاجواب افغان طالبان کی صورت میں مل گیا ؎ افغان باقی، کُہسار باقی/اَلْحُکْمُ لِلّٰہ! اَلْمُلْکُ لِلّٰہ!۔

0 comments:

Muslim Issues

دہلی قتل عام اور حکومت کی بے شرمی


نہال صغیر

دہلی فساد جسے قتل عام کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے میں اب تک تصدیق شدہ انسانی اموات کی تعداد ۴۲ سے زائد ہوچکی ہیں ۔ تین دن تک دہلی جلتی رہی اور ہمارے پردھان سیوک ٹرمپ کے ساتھ انسانیت اور دہشت گردی پر گفتگو کرتے رہے ۔ پوری دنیا سے حکومت پر لعنت کے ٹھیکرے برس رہے ہیں مگر ہمارے وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کانگریس اور حزب مخالف نے کرایا ہے ۔ مہاراشٹر سے ایک اور دلت لیڈر اور برہمنزم کے غلام رام داس اٹھاولے کہتے ہیں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے یہ فساد کرایا ہے ۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ ایک نہیں دسیوں ویڈیو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فسادات ہوتے رہے فسادی آزاد  گھومتے رہے اور دہلی کی نکمی اور بے شرم پولس خاموش تماشائی رہی ۔ انہیں ان کے آقائوں نے امن کے قیام کی کوشش کیلئے متحرک ہونے کا حکم ہی نہیں دیاتھا ۔ پولس کے اسی رویہ کے سبب مسلم نوجوانوں نے بحالت مجبوری حفاظت خود اختیاری کے طور پر اپنا دفاع کیا اور یوں انہوں نے مزید نقصان ہونے سے بچالیا اور کئی فسادی بھی مارے گئے ۔
واضح ہوکہ مسلمان جن سیکولر اور جمہوریت پسند طبقہ پر جان چھڑکتے ہیں ان کے نزدیک مسلمانوں کا حفاظت خود اختیاری والا رویہ بھی قابل مذمت ہے ۔ حفاظت خود اختیاری کی بنیاد پر ہی طاہر حسین نے جو احتیاطی تدبیر کی اس کی وجہ سے انہیں فساد کا ماسٹر مائنڈ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ میڈیا اور پولس کا یہ رویہ نیا نہیں ہے تقریبا آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا آیا ہے ۔ ابھی تک گرفتار لوگوں کے تعلق سے یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ ان میں فسادی کتنے گرفتار کئے گئے اور مسلمان کتنے مگر مجھے یہاں کے بدترین متعصب انتظامیہ سے یہی امید ہے کہ انہوں نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا ہوگا جیسا کہ طاہر حسین کے معاملہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔مگر حکومت کی بے شرمی دیکھئے کہ پوری دنیا جس کی حقیقت کو اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اس کے تعلق سے سچائی تسلیم کرنا قصورواروں کیلئے مشکل ہورہا ہے ۔ سچ ہی کہا ہے نبی ﷺ نے ’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘۔ (بخاری،ج 2،ص470، حدیث:3484) ۔ مذکورہ حدیث کی روشنی میں ہم حکومت کی بے شرمی بے غیرتی اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔
موجودہ حکومت عوام اور اس کی تحریک سے اتنی خوفزدہ ہے کہ وہ انہیں دھوکے میں رکھنے والا کام رات کے اندھیرے میں ہی کیا کرتی ہے ۔ رات کے اندھیرے میں نوٹ بندی ، جی ایس ٹی کا نفاذ اور مہاراشٹر میں اپوزیشن کو دور رکھنے کیلئے رات کے اندھیرے میں ہی صدر راج اٹھانا اور صبح تڑکے ہی حلف برداری ۔اسی طرح اس نے جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ بھی رات کے اندھیرے میں ہی کردیا ۔ شاید یہ تاریکی کے پجاری ہیں ۔دہلی فساد میں پولس اور انتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی کیخلاف دہلی ہائی کورٹ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے دہلی پولس کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے اشتعال انگیز بیانات دینے والے بی جے پی لیڈروں پر کارروائی کا حکم کیا دیا کہ حسب روایت بی جے پی کی موجودہ حکومت میں رات کے بارہ بجے جج مرلی دھر کا تبادلہ اچانک اور فوری اثر کے ساتھ کردیا گیا ۔
الزامات کے جواب میں کہا جارہا ہے کہ کالجیم نے ان کے تبادلہ کی سفارش ۱۲؍ فروری کو ہی کردی تھی ۔ لیکن یہ محض ایک بہانہ ہے اور اس کی حیثیت تار عنکبوت سے زیادہ نہیں ہے ۔ دنیا جانتی ہے کہ آناً فاناً میں جج کا تبادلہ صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ بی جے پی کے لیڈر کو موجودہ فساد کے الزام اور مواخذہ سے بچایا جاسکے ۔ اس کی وجہ یہ ہے جسٹس مرلی دھر نے فسادکے دوران پولس کے کردار پر اٹھ رہے سوال پر بہت سخت تیور اپنائے تھے اور وہ تاریخی اور نہایت شدید ریمارک دیا تھا کہ ہم ۱۹۸۴ جیسے فساد کا اعادہ نہیں ہونے دیں گے ۔ جج کے اس طرح کے انصاف پر مبنی رویہ کو دیکھتے ہوئے ہی جسٹس مرلی دھر کو رات میں ہی فوری تبادلہ کے احکام دے دیئے گئے ۔ حکومت کا یہ رویہ انتہائی شرمناک ہے ۔ یہ شرم و حیا والا معاملہ ان کے لئے ہے جن میں یہ موجود ہو۔ دنیا کی تاریخ میں اتنے بے شرم اور ڈھیٹ قسم کے حکمراں شاید ہی کہیں دیکھے گئے ہوں ۔ وہ بھی اکیسویں صدی کے جمہوری دور میں جس پر دانشوروں کا طبقہ بضد ہے کہ دنیا میں اس سے بہتر نظام حکومت نہیں ہے ۔ جبکہ ہمیں اس جمہوری نظام نے وہ حکمراں عطا کئے ہیں جن کا تصور بادشاہت اور آمرانہ طرز حکومت میں بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ کانگریس نے بجا طور پر الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کو بچانے کیلئے جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ کیا گیا ہے ۔ یہ بات اسی طرح سچ اور واضح ہے جس طرح دوپہر میں سورج کی موجودگی ۔ خواہ اب بی جے پی یا حکومت کے ذمہ داروں کی جانب سے کچھ بھی جواز گڑھے جائیں ۔
ہندوستا ن میں موجودہ حکومت کے دور میں سارے عوامی ادارے تباہ ہو چکے ہیں ۔ جمہوریت کے جتنے بھی ستون کہے جاتے ہیں ان میں کہیں کوئی جان نہیں بچی ہے ۔ عدلیہ بھی پوری طرح اپنا وقار کھو چکی ہے ، بس اتنا ہے کہ کچھ ججز جن کا ضمیر زندہ ہے اور وہ عدلیہ کا نام روشن دیکھنا چاہتے وہ اپنی جانب سے بساط بھر کوشش کرتے ہیں ۔ ایسی ہی کوشش جسٹس مرلی دھر نے کی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ جہاں پوری دنیا کے انصاف پسندوں نے ان کے جرات کی ستائش کی وہیں ان کے فیصلہ کی زد پر آنے والوں کے حامیوں نے بہر حال انہیں اس سیٹ سے ہٹانے کے احکام دے دیئے جہاں رہ کر وہ مظلوموں کی دادرسی کرسکتے اور ظالموں کی گردن ناپ سکتے تھے ۔ہندوستان میں جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جانے والا ذرائع ابلاغ تو کب سے حکومت کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکا ہوا ہے اسی کا انجام ہے کہ اب کوئی ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیتا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں  ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ لوگ حکومت کی چاپلوسی کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے ۔ مگر عدلیہ کے بگاڑ کے باوجود بعض ججوں کی اپنے فرائض اور ذمہ داری کے تئیں سنجیدگی شاید یہاں کے بے بس عوام کا آخری سہارا ہیں ۔ اگر انہیں بھی کام نہیں کرنے دیا گیا تو عوام میں جو بے چینی پھیلے گی اور اس بے چینی کے نتیجہ میں جو نقصان ہوگا اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟
یہ سوال آج کے ہر اس شخص کو اعلیٰ حکومتی اہلکاروں سے ضرور کرنا چاہئے جو موجودہ حالات سے واقف ہیں اور اس کے ردعمل سے بھی ۔ وطن پرستی کے نام پر پورے ملک میں جس اندھیرے کو مزید گہرا کیا جارہا ہے ایک دن ایسا بھی آئےگا جب اس اندھیرے سے کبھی ہم اجالے کی جانب پہنچ پائیں گے تو ہمیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوگا کہ اس عرصہ میں ہم نے کیا کیا کھو دیا ۔بہتر ہوتا کہ ہم اس اندھیرے کی گہرائی میں پہنچنے سے پہلے ہی تیزی سے پیچھے کی جانب پلٹیں ورنہ اس وقت پچھتانے سے کچھ نہیں ہوگا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’اب پچھتاوت کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت‘۔بیدار ہو جائیے باہر نکل آیئے کہ خواتین ناقابل تصور حوصلہ دکھاتے ہوئے دوماہ سے زائد عرصہ سے گھر کا سکھ چھوڑ کر ملک اور اپنے آنے والی نسلوں کے مستقبل کیلئے سڑکوں پر نکل آئی ہیں ۔ موجودہ حکومت تاریک ذہن کی ہے اور وہ پورے ملک کو تاریک دور میں لے جانا چاہتی ہے ۔کیا آپ یہ چاہیں گے کہ یہ لوگ ملک کو تاریک دور میں لے جائیں اور ہم دیکھتے رہیں ؟

0 comments:

International,

افغانستان : الہ کے اصل مفہوم اور نظریے کی فتح


  
عمر فراہی ۔ ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com

بالآخر افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے بیچ قطر کی راجدھانی دوحہ میں جہاں طالبان کا ہیڈ کوارٹر پہلے سے موجود تھا امن معاہدے پر دونوں ملکوں کے نمائندوں نے دستخط کر دئیے ہیں ۔ امید کی جارہی ہے کہ برسوں سے اس خطے میں جو خونریزی کا ماحول تھا اب اس میں کمی آئے گی یا اس پر قابو پالیا جائے گا ۔ لیکن ابھی بھی ایک طبقہ شک اور شبہے میں مبتلا ہے کہ کیا اس معاہدے سے افغانستان میں امن دیرپا ثابت ہوگا ۔ ان کا خدشہ یہ ہے کہ اسی طرح کا معاہدہ تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس اور افغان مجاہدین کے درمیان بھی ہوا تھا مگر اس کے بعد کیا ہوا ۔مجاہدین آپس میں ہی لڑ پڑے اور اپنے ہی بھائیوں کے خون کے پیاسے ہو گئے۔بات تو صحیح ہے کہ جس طرح افغانستان میں اور بھی کئی دھڑے ہیں اور خود کابل میں ایک نام نہاد منتخب حکومت موجود ہے یہ معاہدہ کہاں تک اپنی کامیابی کی دہلیز تک قدم رکھ پائے گا کہا نہیں جاسکتا۔ہمارا بھی خیال یہی ہے کہ امریکہ کے افغانستان چھوڑنے کے بعد بھی طالبان کیلئے اتنی جلدی خطے میں امن قائم کرنا بہت آسان اس لئے نہیں ہوگا کیوں کہ خود امریکہ چور دروازے سے اپنے ہم خیال گروہوں کی مدد سے باز نہیں آئے گا ۔ لیکن اگر امریکہ نے ایسا کیا تو طالبان جن سے کہ اس معاہدے میں وعدہ لیا گیا ہے کہ وہ القاعدہ سے تعلقات منقطع کر لیں گے ان کا استعمال کر سکتے ہیں ۔
خیر جو بھی ہو سن اسی کی دہائی کے افغان مجاہدین جن میں برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار، رشید دوستم اور ملا مسعود خان کی کمان میں مجاہدین کے کئی گروہ اس معاہدے میں شامل تھے۔ 2020 کے طالبان اور افغانستان میں کئی تبدیلیاں آچکی ہیں ۔آج کا معاہدہ صرف امریکہ اور طالبان کے درمیان نہیں طے پایا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ معاہدہ امارت اسلامیہ افغانستان اور یونائیٹیڈ اسٹیٹ آف امریکہ کے درمیان طے پایا ہے ۔ امریکہ چاہتا تھا کہ اس معاہدے میں افغان حکومت کو بھی شامل کیا جائے مگر طالبان نے امریکہ کے اس مطالبہ کو اس لئے رد کر دیا کہ افغانستان میں ابھی بھی طالبان کی امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت قائم ہے اور امریکہ کو ان کے اس دعوے کو تسلیم کرکے ہی معاہدہ کرنا ہوگا یعنی ابھی بھی افغانستان میں طالبان ہی اصل حکمران ہیں جبکہ کابل حکومت امریکہ کی مدد سے ناجائز طریقے سے بنائی گئی ہے ۔
اس معاہدے کا مطلب صاف ہے کہ طالبان جن علاقوں پر قابض ہیں امریکہ نے فی الحال ان کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے اور ماضی میں کابل پر کس کی حکومت ہوگی یہ افغانستان کے عوام طے کریں گے اور معاہدے کے تحت امریکہ کو کسی طرح کی مداخلت کا حق نہیں ہوگا ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ نے جس طرح فوجی طاقت سے طالبان سے کابل اور قندھار کے علاقوں کو چھینا تھا امریکہ دوبارہ پرامن طریقے سے ان شہروں کو طالبان کو سونپ کر جاتا لیکن کہیں نہ کہیں اگر امریکہ کی اپنی نیت میں کھوٹ ہے تو کہیں طالبان نے بھی مستقبل کے لائحہ عمل کے طور پر پیچھے ہٹ کر پسپائی قبول کر لی ہے ۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اب طالبان کیلئے کابل اور قندھار تک جانے کا راستہ صاف ہو چکا ہے اور اس معاہدے میں جس طرح پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جیسا کہ ابھی حال ہی میں ڈونالڈ ٹرمپ نے احمدآباد کے اسٹیڈیم میں خطاب کے دوران افغانستان کا تذکرہ کرتے ہوئے عمران خان کی تعریف کی ایک بار پھر پاکستان یہ چاہے گا کہ طالبان کابل پر حکومت بنا لیں اور اس حکومت کو اقوام متحدہ میں تسلیم بھی کر لیا جائے۔یاد رہے پچھلی بار بھی طالبان کی حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا تھا بعد میں سعودی عرب نے بھی منظوری دے دی تھی ۔ اب عالمی حالات تھوڑےسے بدلے ہوئے ہیں ۔
اس بار ترکی اور ملیشیا کے ساتھ کئی اور مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ یوروپی ممالک بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے آگے آسکتے  ہیں ۔ممکن ہے کہ روس چین یا خود امریکہ میں سے بھی کوئی طاقت آگے بڑھ کر اسے تسلیم کرنے کی پہل کریں ۔وقت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس خطے میں دائمی امن کےمدنظر بھارت بھی پہل کرے جیسا کہ نومبر 2013 میں گوا میں منعقد ایک کانفرنس کے دوران ترون تیج پال کو ایک سیکس اسکینڈل کے ذریعے پھنسایا گیا تھا اس کانفرنس میں بھارت سے محمود مدنی اور طالبان کے ترجمان ملا عبدالسلام ضعیف کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔اس اجلاس میں محمود مدنی کی شمولیت ملا عبدالسلام ضعیف کی وجہ سے تھی تاکہ محمود مدنی کی دستار سے ملا ضعیف کے سامنے ہندوستانی مسلمانوں کا ملائی چہرہ پیش کیا جائے۔ٹائمس آف انڈیا نے ایک چھوٹے سے کالم میں اس خبر کا تذکرہ کر دیا تھا ورنہ حکومتی سطح پر ملا عبدالسلام ضعیف کے اس دورے کو بہت مشتہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے اس دورے کا سبب ہی معلوم ہو سکا لیکن اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے صدر اوبامہ نے عراق سے جس طرح امریکی فوجوں کا مکمل انخلاء کر لیا تھا افغانستان سے بھی آدھی فوج بلا لی تھی بھارت کو اندازہ تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء سے طالبان کا عروج لازمی ہے اس لئے کیوں نہ حفظ ماتقدم کے تحت سفارتی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔بعد میں بھارت نے حالات کو کچھ اپنے حق میں دیکھتے ہوئے بہت سنجیدگی نہیں دکھائی ۔ خاص طور سے ٹرمپ کے صدر بنتے ہی ایسا لگا کہ وہ ایک بار پھر افغانستان میں اپنی مہم تیز کر دیں گے اور تیز کیا بھی مگر ڈونالڈ ٹرمپ نے شاید اقبال کے بقول ابلیس کا فرمان ٹھیک سے پڑھا نہیں تھا ۔ ابلیس کہتا ہے کہ؎ وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا/رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو /فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات/اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو /افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج/مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو ۔
امریکہ عرب حکمرانوں کی فکر پر فرنگی تخیلات غالب کرنے میں تو کامیاب ہو سکا ہے لیکن ملاؤں کو ان کے کوہ و دمن سے نکالنے کی بجائے خود نکلنے کا راستہ پانے کیلئے ان سے معاہدہ پر مجبور ہو گیا ۔افغانی ملاؤں کی یہی سب سے بڑی فتح ہے کہ روس کے بعد دوسری سپر پاور امریکہ کو بھی ان کے جذبہ حریت کو تسلیم کرنا پڑا ۔دیکھتے ہیں حالات آگے کیا رخ اختیار کرتے ہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس بار سرد جنگ کی طرح کے حالات نہیں ہیں ۔اس وقت افغان مجاہدین کئی دھڑوں میں بٹے ہوئے تھے اس بار طالبان امارت اسلامیہ افغانستان کے تحت نہ صرف متحد اور منظم ہیں بلکہ انہیں حکومت کا تجربہ بھی ہے ۔
قوی امید ہے کہ کچھ مزاحمت کے بعد افغانیوں کو دوبارہ امن کا ماحول میسر ہو جائے گا ۔ ویسے طالبان کے پانچ سالہ دور میں مکمل امن ہی تھا جو امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے ناپید ہو چکا تھا ۔خود 2001 سے 2020 تک کے سفر میں طالبان جن کے بارے میں کئی منفی افواہیں اڑائی گئی انہوں نے ثابت کیا کہ وہ متحد ہیں اور افغانستان میں ان کے وجود کو تسلیم کئے بغیر امن ایک ٹیڑھی کھیر ہی ثابت ہوگا ۔اللہ کرے افغانیوں کو امن کا ماحول نصیب ہو ۔اب یہ تو آنے والے حالات ہی طے کریں گے کیوں کہ ابھی بھی کچھ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ایسا ہو ۔یہ سوال اپنی جگہ ،مگر دوسرا سوال اللہ کے ان بندوں سے ہے جو امریکہ کی زبان بولتے ہوئے کبھی افغانیوں کو مجاہد اور طالبان کو دہشت گرد بولتے اور تسلیم کرتے ہوئے‌نظر آئے اب وہ نئے طالبان کیلئے کیا لقب استعمال کرتے ہیں؟ 
کیا یہ معاہدہ امریکہ اور دہشت گردوں کے درمیان طے پایا ہے ؟نہیں امریکی نمائندوں نے باعزت طریقے سے اپنے ان مخالف حکمرانوں سے معاہدہ کیا ہے جو کبھی امارت اسلامیہ کے نام سے افغانستان کے حاکم تھے ۔مشکل یہ ہے کہ اب امریکہ نے اپنی زبان بدل دی تو کیا اہل ایمان بھی اپنی زبان بدل دیں گے ؟۔دیکھئے غور کیجئے اور سوچئےکہ کہیں آپ الہ کے اصل مفہوم اور نظریے کے باغی تو نہیں ہیں ؟


0 comments:

Muslim Issues

امولیہ سے وارث پٹھان تک عجب عالم بدحواسی ہے




نہال صغیر

بنگلور میں ایک انیس سالہ لڑکی اس اسٹیج سے جہاں اسدالدین اویسی موجود تھے ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتی ہے ،اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی اس سے مائیک چھین لیا گیا اور ایک پولس افسر اسے گھسیٹ کر لے گیا لیکن وہ پھر کسی طرح چھوٹ کر واپس بنا مائیک کے ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لگاتی ہے ۔ اسے چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے اور اسے ملک سے غداری کے مقدمہ میں جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کوئی بارود کا گولا ہے کہ اس کا نام لیتے ہیں وہ پھٹ پڑے گا اور اس سے پورا ملک تباہ ہوجائے گا کہ ایک عالم بدحواسی میں سب اکٹھا ہو جاتے ہیں اور بقول رویش کمار جو افسر کبھی اپنی ذمہ داری ڈھنگ سے نہیں نبھاتا وہ بھی ایسے موقعوں کو غنیمت جان کر محب وطن ہونے کا ثبوت دینے کیلئے فورا حرکت میں آجاتا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد اسی کرناٹک کے دوسرے شہر میں ایک اور جلسہ میں وارث پٹھان یہ بولتے بولتے یہ کہہ جاتے ہیں سو پر پندرہ بھاری ہے ۔ بس پھر کیا تھا ان کے خلاف بھی مذمت کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے اور شاید کئی پولس اسٹیشنوں میں مقدمہ بھی کردیاجاتا ہے ۔ یہ دونوں ہی معاملے میں ایک چیز واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے اور وہ ہے عالم بدحواسی ۔کسی کو مزید کچھ نہیں کہنے دینا ہے ،اس کو صفائی کا موقع بھی نہیں دینا ہے ۔ امولیہ آگے اور کیا کہنا چاہتی تھی اس کی بات سننے کو کوئی راضی نہیں بس اس نے پاکستان زندہ باد کیوں کہا ؟ یہی ایک مسئلہ ہے ۔ رویش کمار کے مطابق گویا ہندوستان کوئی پتہ ہے جس کا وجود پاکستان زندہ باد کہہ دینے سے ہی بکھر جائے گا ۔ امولیہ نے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کسی صورت جان چھڑا کر ہندوستان زندہ باد کے بھی نعرہ لگائے اور اس کے فیس بک اکائونٹ کے مطابق اس کے ذہن میں اپنے پڑوسی ممالک کے لئے بھی زندہ باد کا نعرہ ہے محض ہندوستان ہی زندہ باد نہیں ہے اور وہ وہاں اسٹیج پر ان سبھی ممالک کیلئے زندہ باد کہنا چاہتی تھی جس کا اسے اس کا موقع نہیں دیا گیا ۔ 
وارث پٹھان کا سو پر پندرہ بھاری والا بیان غیر ضروری اور غیر حکیمانہ سہی مگر اس کیخلاف اتنی شدت نہیں آنی چاہئے کہ ان کے پتلے جلائے جائیں اور ان کے خلاف ہائے ہائے کے نعرے لگائے جائیں جبکہ ان کے سیاسی رفیق امتیاز جلیل کہا’وارث پٹھان کا یہ بیان سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کیخلاف برہمی کا اظہار ہے جو جبرا مسلمانوں پر تھوپ کر اس بیان کو سیاسی رنگ دیا جارہا ہے‘ میں سمجھتا ہوں امتیاز جلیل کی باتوں پر توجہ دی جانی چاہئے تھی لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ سے سوچنے کی قوت سے محروم ہوچکے ہیں ۔ آج ہم اپنی حب الوطنی کو ثابت کرنے اور دوسروں (سنگھی، لبرل اور دہریہ) کو خوش کرنے کیلئے مذمت اور احتجاج یا ہائے ہائے کا نعرہ لگارہے ہیں ۔ ۲۱ ؍ فروری ۲۰۲۰ کو شام سات بجے سے ممبئی کے اسلام جمخانہ کے دیوان خاص ہال میں ’الائنس اگینسٹ سی اے اے ، این آر سی ، این پی آر‘ کی مہاراشٹر و ممبئی اکائی کی جانب سے رضاکاروں ، ارکان اور کارکنان کیلئے تہنیتی پروگرام رکھا گیا تھا ۔ جس میں کانگریس کے سابق ایم ایل اے اور اسلام جمخانہ کے موجودہ سربراہ یوسف ابراہانی نے وارث پٹھان کیخلاف ہائے ہائے کے نعرے لگوائے جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن مسئلہ کانگریس میں اپنی جگہ بنانے اور کچھ قوتوں کی چاپلوسی کا تھا اس لئے وہاں الائنس کے پلیٹ فارم سے ایک غیر ضروری کام کیا گیا ۔ ہم نے یوسف ابراہانی کا ایک ویڈیو پیغام بھی دیکھا جس میں وہ وارث پٹھان اور مجلس اتحادالمسلمین کیخلاف عوام کو ورغلاتے نظر آرہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وارث پٹھان ہوتے کون ہیں مسلمانوں کی جانب سے قیادت کا دعویٰ کرنے والے لیکن ابراہانی خود وارث پٹھان کے بیان کے تعلق سے معافی مانگتے ہوئے خود کو پندرہ کروڑ مسلمانوں کا لیڈر قرار دے رہے ہیں ۔جبکہ دونوں کی پوزیشن ایک ہی ہے ۔  دونوں عوام کے ٹھکرائے ہوئے ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ عوام سے ٹھکرایا ہوا ایک کانگریسی عوامی طور پر مسترد کئے ہوئے دوسرے شخص کو قوم کا ٹھیکیدار تسلیم نہیں کرتا لیکن پندرہ کروڑ مسلمانوں کی جانب 
سے معافی مانگ کر خود کو مسلمانوں کے قیادت کی دعویداری کررہا ہے ۔

ایک بات واضح کردوں کہ میری نظر میں بھی وارث پٹھان کا بیان غیر ضروری اور غیر حکیمانہ ہے ۔ بس میرا کہنا یہ ہے
 کہ اس پر اتنی ہنگامہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے ۔ پٹھان نے کہا آپ نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی بس ۔ اس سے آگے کی تحریک یا کارروائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ کسی کے دبائو میں ضرورت سے زیادہ روادار اور محب وطن بننے کی کوشش کررہے ہیں ۔ حالات بتارہے ہیں کہ اگر آپ گرم لوہے کی سلاخ ہاتھوں میں لے کر اپنی وفاداری کا یقین دلائیں گے تو ہ طبقہ آپ کی وفاداری تسلیم نہیں کرے گا ۔ اس حقیقت کے باوجود آپ کا وطیرہ بن گیا ہے کہ اتحاد کی لالچ میں وہ کرتے چلے جارہے ہیں جس کی مخالفت قوم برسوں سے کرتی آرہی ہے ۔ یہاں دو مثالیں کافی ہیں جو میں الائنس اگینسٹ سی اے اے ، این آر سی اینڈ این پی آر کے ذریعہ آزاد میدان میں منعقد احتجاجی اجلاس عام میں اس کے ہی ایک شریک کنوینر کی جانب سے لگائے گئے نعروں اور اس کے جواب میں مسلمانوں کی جانب مسلمانوں کا جواب دیکھا ۔ الائنس کے شریک کنوینر ایڈووکیٹ راکیش راٹھوڑ نے ۱۵ ؍ فروری ۲۰۲۰ کو آزاد میدان کی احتجاجی ریلی میں بھارت ماتاکی ۔۔۔۔اور وندے ۔۔۔ کے نعرے لگائے اور مسلمانوں کی جانب سے اس کا جواب بھی دیا گیا ۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل تک مسلمان اس سے بچتا ہوا نظر آرہا تھا ۔ آزاد میدان کے اس نعرے اور جگہ بجگہ سیکولر لبرل طبقہ کی جانب سے مسلمانوں کی بھیڑ سے اپنی لیڈر شپ کاشت کرنے کی فکر نے مجھے بے چین کیا ہے ۔ اگر کسی کو بے چینی نہیں ہوتی میں کیا کرسکتا ہوں ۔ اوروں کی طرح میں بھی ہندو مسلم اتحاد کو پسند کرتا ہوں ۔ بلکہ اس سے دو قدم آگے جاکر مسلمانوں کے ساتھ تمام پسماندہ طبقات کے اتحاد کو زیادہ بہتر اور موثر سمجھتا ہوں ۔ مگر اپنی قومی اور مذہبی شناخت سے سمجھوتہ کئے بغیر ۔ہم نے شیواجی کی یوم پیدائش پر مذہبی شناخت کے ساتھ شیواجی کی قد آدم مورتی پر پھول اور ہار چڑھاتے مسلمانوں کی تصویر بھی دیکھی ہے ۔ سوچئے ہم اتحاد اور رواداری کی خواہش میں کہاں چلے جارہے ہیں ۔ ہم انہیں یہ بات کیوں نہیں بتا سکتے کہ ہم شیواجی یا امبیڈکر سمیت اس جیسے لیڈروں کی قدر کرتے ہیں لیکن تمہاری تہذیب کے مطابق ان کی عبادت نہیں کرسکتے ۔ 
غور کیجئے وارث پٹھان کے بیان کیخلاف بیان دیتے ہوئے کہا گیا کہ موجودہ تحریک میں ہم بڑی مشکل سے غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد بنا پائے ہیں جسے وارث پٹھان یا کل ہند مجلس اتحاد المسلمین تباہ کرنا چاہتی ہے ۔ یہ صرف خوش فہمیاں ہیں جو کچھ لوگوں کے ذریعہ ہمارے درمیان پھیلائی جارہی ہے ۔ مجھے اپنی اس شہری ترمیم قانون یا این پی آر اور این آر سی کیخلاف تحریک میں سوائے اسٹیج کے کہیں بھی کوئی غیر مسلم دکھادیں ، تو مان جائوں گا کہ آپ نے اتحاد بین المذاہب کو حاصل کرلیا۔ ہر جگہ اس بھیڑ میں انہیں تلاش کررہا ہوں مگر میری آنکھیں لوٹ آتی ہیں اور وہ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں جبکہ ہمیں ہر وقت یہی بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ غیر مسلم بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی اس تحریک سے جڑے ہوئے ہیں ۔ جڑے تو مگر صرف لیڈر اور اسٹیج کی حد تک جیسا اوپر ذکر کیا گیا ۔ حالانکہ مذکورہ قانون سے مسلمانوں سے زیادہ پسماندہ طبقات کو ہی نقصان ہونے والا ہے کیوں کہ وہ لوگ بے زمین تھے اور آج بھی ایک بڑی آبادی بے زمین ہے ۔ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور اسی کی بنیاد پر برہمنوں کی پروردہ موجودہ مودی حکومت دستور میں دی گئی ریزرویشن کی سہولت کو ختم کردینا چاہتی ہے ۔ مگر انہیں مسلم دشمنی کی شراب اتنی پلائی گئی ہے کہ اس کا نشہ اترتا ہی نہیں ۔ مسلم دشمنی کی آڑ میں انہیں اپنی تباہی نہیں دِکھ رہی ہےکہ این آر سی کے بعد ان کا وہ دور واپس آجائے گا جب انہیں اپنے پیچھے جھاڑو باندھنا اور گلے میں مٹکہ لٹکانا ہوگا ۔ ان کے لیڈر انہیں یہ سمجھانے سے قاصر ہیں ۔بہتر ہے کہ یہ باتیں انہیں سمجھانے کی کوشش کریں اور اپنے درمیان کے کسی شخص سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی ہلکی پھلکی سرزنش کرکے تنہائی میں اسے سمجھائیں کہ اس نے کیا غلطی کی ہے اور اس کی یہ بات کیوں حکمت کیخلاف ہے ۔ مگر مرعوبیت اور مغلوبیت یا غلامانہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے قوم کا مورال پست ہو ۔ آپ لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر منظر بھوپالی کا یہ شعر ٹھیک معلوم ہوتا ہے 
 ؎  کدھر کو جائیں گے اہلِ سفر نہیں معلوم/وہ بدحواسی ہے اپنا ہی گھر نہیں معلوم


0 comments:

Muslim Issues,

مسلمانوں کا مسئلہ اورامر بالمعروف کےفریضہ کی ادائیگی



ممتاز میر 
  
 دنیا کے کسی ملک میںاگر کوئی شخص فوج میں بھرتی ہونے کی تمنا کرے ،منتخب بھی ہوجائے،ڈرل نشانے کی مشق اور دیگر مشقیں بھی مکمل کرلے مگر جب جنگ کا موقع آئے تو انکار کردے تو کیا اسے فوجی کہا جائے گا؟کیا یہ سال دو سال کی مشقیں اسے ،بغیر جنگ لڑے فوجی بنے رہنے میں کام آسکیں گی؟کیا فوجی ڈسپلن کا ادارہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دے گا؟یقیناٍ ایسا نہیں ہوگا ،بلکہ اسے جزا نہیں سزا ملے گی۔مگر، مسلمانوں کا معاملہ دنیا سے الگ ہے ۔انھوں نے بھی اسلام کی چند ابتدائی چیزوں کو پکڑ کر مسلم حنیف ہونے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ان کے علماء ان کی کھوپڑیوں میں صدیوں سے یہ بات اتار رہے ہیںکہ نماز روزہ حج زکوٰۃ ہی بس دین ہے۔اور اس پر زیادہ سے زیادہ عمل جنت کی ضمانت ہے۔ باقی جو کچھ بھی ہے یہ دنیا داری کی باتیں ہیں۔جس کا ان جیسے ’’با عمل ‘‘مسلمانوں کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔اگر ہم مسلمان ہونے کے بعد ابتدائی مشقوں کو ہی دین تصور کرلیںتب بھی جنت نشین ہونے کی کوئی ضمانت کم از کم ہمیں ملتی نظر نہیں آتی۔کیونکہ نمازیں تو خوب ہو رہی ہیں مگر حال یہ کہ ’’رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی‘‘۔ جب موبائل نہیں تھا تب بھی مسلمانوں کی نمازوں میں خشوع و خضوع نظر نہ آتا تھا ۔آج یہ حال ہے کہ موبائل آن رکھ کر نمازیں پڑھی جا رہی ہیںتاکہ حالت نماز میں ہی پتہ چل جائے کہ کسی کا فون آیا تھا۔اوقات نماز میں اگر فون آجائے تو دیگر نمازیوں کا خیال اب کسی کو نہیں رہتا۔عام لوگوں کی بات کیابڑے بڑے مفتی اور علماء کو یہ حدیث یاد نہیںجس میں حضور ﷺ نے کہا تھا ہماری مسجد میں کوئی پیاز اور لہسن کھا کر نہ آئے۔جب کم و بیش سارے نمازی نو سو چوہے کھا کر مسجد کا در پکڑ رہے ہوں تو اتنی چھوٹی سی حدیث کون یاد رکھے گا۔کچھ لوگ فرض ہی نہیں نفل روزے بھی رکھتے ہیں۔بلکہ کچھ لوگ تو باقاعدہ ہر ماہ ایام بیض کے روزے رکھتے ہیںمگر اللہ نے انسانوں پر روزے کیوں فرض کئے یہ شعور ان کی زندگی میں کبھی کہیں ظاہر نہیں ہوتا۔زکوٰۃ کے تعلق سے کہا نہیں جا سکتا کہ کون دیتا ہے کون نہیں دیتا۔مگر یہ تو ہے کہ پہلے کے مقابلے اب زیادہ نکالی جا رہی ہے مگر اس میںبھی قربانی کی طرح نمائش کا پہلو غالب ہو گیا ہے۔اب یہ بھی دماغ میں چڑھ گیا ہے کہ ہم زکوٰۃ لینے والے پر احسان کر رہے ہیں۔دو دہائی پہلے تک حج کے لئے بھی خال خال لوگ ہی جاتے تھے ۔مگر حج تو چھوڑئیے عمرہ بھی اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے تو دوسری پکنک۔اب تو لوگ حج کا احرام باندھتے ہی واٹس ایپ پر سیلفیاں پوسٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اور واپس آکر جاہل ہوا تو حاجی اور تعلیم یافتہ ہوا تو خود کو الحاج کہلوانا شروع کر دیتا ہے ۔
  مذکورہ بالا تمام مشقوں کی وجہ سے مسلمانوںکے دل و دماغ سے یہ بات ہی نکل گئی ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں بھیجے گئے ہیں۔ان کا دنیا میں مقصد بعثت کیا ہے؟ہمارے نزدیک ان کا مقصد بعثت ابلیس سے مقابلہ کرنا اور اسے شکست دینا ہے ۔اور وہ صرف نماز روزہ حج زکوٰۃکی ابتدائی ٹریننگ سے ممکن نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو قرآن اتنا ضخیم نہ ہوتا۔صبر کا ذکر نہ ہوتا۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلقین نہ ہوتی ۔جہادکی تیاری کا حکم نہ ہوتا ۔عورتوں کو پردے میں چھپانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ضرورت پڑ نے پر اصحاب کہف کی روش اختیار کرنے کو نہ کہا جاتا ۔قرآن میں ان باتوں کے علاوہ بھی بہت سارے احکامات ہیںمگر صرف قرآن میں ہی ہمارے لئے ہدایات نہیں ہیںبلکہ احادیث اورسنت رسول اللہ بھی ہمارے لئے سر چشمہء ہدایات ہیں۔وراثت کا حکم ہے ،مسلمانوں کے لئے وصیت کی گنجائش ہے تو مگر محدود ہے۔مگر ہمارے یہاں وراثت کے جھگڑے عام ہیںجبکہ وراثت کے احکامات کے ہوتے ہوئے وراثت کے جھگڑے ہونا ہی نہیں چاہئے۔خاص طور پر بہنوں کو وراثت میں حصہ دینے کا تصور تو ختم ہی ہو چکا ہے۔اور وہی احساس جرم ہمیں دھڑا دھڑ حج و عمرے کی ترغیب دیتا ہے ۔اسلام کہتا ہے وہ مومن نہیں جس کے ہاتھوں دوسرا مسلمان اور پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔سوچئے کا ہمارا رویہ ان ہدایات سے میل کھاتا ہے۔ہمارا حال یہ کہ ہم ایک دوسرے سے اس لئے رنجش رکھتے ہیںہمارا دوست یا پڑوسی ہم سے زیادہ بڑی قربانی کر رہا ہے یا اس کاگھر ہم سے زیادہ شاندار ہے۔ ایک حدیث کہتی ہے کہ مومن زانی ہو سکتا ہے ،قاتل ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا ہے اس حدیث پر عمل تو دور اسکی اہمیت کا اندازہ اس پر عمل کے فوائدہماری عوام تو کجا ہمارے بڑے بڑے علماء کو بھی نہیں ہے ۔ اور ہم یہ بات یونہی ہوامیں نہیں کہہ رہے ہیں ۔ہمیں اس کا ذاتی تجربہ ہے۔اور دور کیوں جائیے ۔ابھی ابھی ایک بڑے مولانا نے پہلے شاہین باغ کے خلاف بولا پھر تھو تھو ہونے پر اپنے بیان سے مکر گئے جبکہ دنیا انھیں ویڈیو پر شاہین باغ کے خلاف بیان دیتے دیکھ اور سن رہی ہے۔اور یہ ان کا حال ہے جو قبروں میں پیر لٹکائے بیٹھے ہیںکیا موت کا نہیں صرف نقصان کا خوف ،خوف خدا سے بڑھ نہیں گیا ہے ۔اس اقرار میں حرج کیا تھاکہ پولس میری چھاتی پر کھڑی تھی اس لئے ڈر کر میں نے شاہین باغ کے خلاف بیان دیا ۔اس اخلاقی جرأت سے عوام بھی سمجھ جاتی خدا کی سزا سے بھی بچ جاتے۔اسی لئے ہمارے علمائےکرام نے دین کو نماز روزے حج و زکوٰۃ میں قید کر کے رکھ دیا ہے ۔ایسا کیوں کیا گیا؟اسلئے کیا گیا کہ اگر لوگ نماز روزے اور حج و زکوٰۃ سے آگے بڑھ کر عمل کرنے لگے تو پھر وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر بھی لازماً عمل کریں گے اور ہمارے رہنمایان کو عوام کے سامنے جوابدہAccountable ہونا پڑے گا ۔
  ہم بڑے شوق سے خوشی سے فخر سے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ ہمارے خلفائے راشدین نے خلیفہ بننے کے بعد جو پہلا خطبہ دیا تو کہا کہ لوگو ! میری اطاعت تم پر اس وقت تک فرض ہے جب تک  میں تمھیں معروف کا حکم دوں اور جب میں راہ راست سے بھٹک جاؤں تو،لوگوں نے یا صحابہ نے تلوار پر ہاتھ رک کر کہا ہم تمھیں اس سے سیدھا کر دیں گے ۔ ہم یہ کیوں نہیں کرتے ؟ ہم یہ بات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اس دنیا میں حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر دورحکمرانی آج تک کسی کا نہیں ہوا ہے۔اور یہ مسلمان ہی نہیں صاحب مطالعہ غیر مسلم بھی مانتے ہیں ۔یہ وہ دور حکومت تھا جس میں ایک عورت بھی بر سر منبر خلیفہء وقت کی غلطی کی نشاندہی کر دیتی تھی اور خلیفہء وقت بر سر منبر بآواز بلند اپنی غلطی تسلیم بھی کر لیتا تھا ۔ عام آدمی بھی سر راہ خلیفہ کو روک کر اسے باتیں سنا سکتاتھااور اسے کوئی روکنے کی کوشش کرتا تھا تو خلیفہ کہتا تھا ۔ایسے ایک شخص کا وجود ہمارے تمام مفتوحہ علاقوں سے زیادہ مفید ہے۔اس لئے ہم دہائیوںسے لکھ رہےہیں کہ نماز روزہ حج زکوٰۃ سے بڑا فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔کوئی اس سے منہ موڑ کر نماز روزے حج و زکوٰۃ میں اگر پناہ ڈھونڈتا ہے تو کم سے کم ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسے روزہ نماز حج زکوٰۃ اس کے منہ پر مار دئے جائیں گے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں متعدد جگہ اس فریضے کے تعلق سے آگاہ فرماتے ہوئے کہتا ہے ۔سورہء آل عمران ۱۱۰ کا ترجمہ ہے ۔تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے برپا کی گئی ہے۔کیوں کہ تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو ۔برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو ۔کم وبیش اسی مفہوم کے احکامات ہمیں قرآن میں سورہء توبہ۷۱،۱۱۲۔سورہء اعراف ۱۵۷،سورہء الحج۴۱اور سورہء لقمان ۱۷ میں بھی ملے۔ممکن ہے اور مقامات پر بھی ہوں اور ہم تلاش نہ کر پائیں ہوں۔سورہء اعراف میں تو اسے نبی کی دعوت کا حصہ بتایا گیا ہے۔تمام مقامات کے احکامات پڑھنے کے بعد جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم امر بالمعروف کا فریضہ انجام دیں تو ہمارا معاشرہ بھی قریب قریب اسی طرح مثالی بن جائے گا جیسے کہ صحابہء کرام کا تھا ۔جبکہ آج ہمارا معاشرہ مثالی نہیں گالی ہے۔
  نماز کس لئے ضروری ہے۔نماز ایک مکمل ورزش ہے جسمانی بھی دماغی بھی اور روحانی بھی ۔مگر آج ۹۹ فی صد لوگ جو نماز پڑھتے ہیں وہ ریاکاری کے سوا کچھ نہیں۔اس لئے جو فوائد حاصل ہونے چاہئیں وہ نہیں ہوتے ۔اسی طرح روزہ بھی ہے۔آپ کے جسم کے تمام فاسد مادوں کو ختم کر دیتا ہے ۔جسم کو صحتمند رکھتا ہے ، آپ کو بتاتا ہے کہ بھوک کیا چیز ہے ۔پھر کچھ اوقات ایسے بھی ہوتے ہیں جس میں آپ کو بھوک برداشت کرنے کی عادت ہونی چاہئے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔زکوٰۃ آپ کو مالی قربانی پر مائل کرتی ہے۔لالچ کو ختم کرتی ہے۔آپ کے اقربا و احباب میں محبت پیدا کرتی ہے۔حج اپنے مالک کے غلام بن کر مکمل سپردگی اختیار کرنے کا نام ہے۔اس کے لئے ہر قسم کی قربانی بخوشی دینے کا نام ہے ۔یہ چند فوائد جو ہم نے یہاں گنائے ہیں ان چاروں عبادتوں سے حاصل ہونے والے فوائد کا عشر عشیر بھی نہیں ہے ۔ان عبادتوں کو ان کی روح کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ہی ہم اس دنیا میں ابلیس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔اب اس کسوٹی پر عوام ہی نہیں علما کو بھی اپنے آپ کو پرکھنا چاہئے کہ کیا ہم واقعی ان عبادتوں کو ان کے صحیح تناظر میں ادا کرنے کی یا برتنے کی خواہش رکھتے ہیں؟کیا ہم ان عبادتوں کے ذریعے انسانوں کے دشمن سے اللہ کے مغضوب سے لڑ سکیں گے؟ 
  ہم برسوں سے لکھ رہے ہیں کہ اب مشرق میں ایک دوہی چھوٹے ٹاپو بچے ہیں جہاںامت مسلمہ باقی بچی ہے۔ہمارے نزدیک اب امت مسلمہ مغرب میں تیار ہو رہی ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد چند ماہ اسلام کا مطالعہ کرکے ابلیس سے مقابلہ اور اللہ کی نصرت تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں۔
   7697376137       


0 comments:

ہم نے دیکھا ہے ان آنکھوں سے فرعون کے لشکر



عبدالمقیت عبدالقدیر

ہم نے دیکھا ہے ان آنکھوں سے فرعون کے لشکر (ہماری آنکھ مطلب مومن کی آنکھیں جو ہر وقت قرآن کو دیکھتی ہے۔ اس قرآنی آنکھوں کی متعلق کہہ رہا ہوں)

؎ ہم نے دیکھا ہے ان آنکھوں سے فرعون کے لشکر 
    ڈرا کر ظلم  سے تم ہمیں للکا ر نہ دو
بہ طور تاریخ کاطالب علم جب ہم جنگ آزادی اور دور آزادی کے بارے میں پڑھتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ کہ کیسے لوگ تھے کیسی قربانیاں تھیں ۔ 
سراج الدولہ اگر انگریزوں سے ہاتھ ملا لیتے تو حکومت ہاتھ سے نہیں جاتی۔ ٹیپو اگر انگریزوں سے دوستی کرلیتے توآج ان کی اولادیں رکشا نہیں چلا رہی ہوتی۔ (کہا جاتا ہے کہ ٹیپوں کے خاندان والوں کوانگریز قید کر کے بنگال لے گیے تھے۔ جہاں آج بھی وہ لوگ رکشا چلاکر محنت مزدوری کر کے زندگی بسر کرتے ہیں) وہ اسی سالہ بزرگ بہادرشاہ ظفر جو ایک معافی نامہ لکھ دیتے تو چین و سکون اور عیش و آرام کے ساتھ ہند کے تاجدار بنے رہتے ۔ مگر انہوں نے برما کے کالا پانی کو قبول کرلیا ۔ وطن سے دوری پر اپنی بدنصیبی کا گلہ کرتے رہے۔ مگر معافی نہیں مانگی ۔ تیس سالہ اشفاق ، بھگت سنگھ ، سکھ دیو ، راج گرو، رام پرساد بسمل یہ پچیس تیس سال کے نوجوان یہ سب ہستے ہنستے پھانسی کو چوم لیتے ہیں ۔ 
جنگ آزادی کے زمانے میں جب خلافت تحریک چلی تھی بچہ بچہ کہا کرتا تھا کہ بولی اماں محمد علی کی بیٹا جان خلافت پہ دے دو۔۔  سن 1919 میں انگریزوں نے رولٹ ایکٹ پاس کیا تھا ۔ جس میں پولیس کو بے انتہا اختیارات دیے گئے تھے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے کسی کو بھی گرفتار کر سکتی ہے۔ جسے چاہے اسے جیل بھیج سکتی ہے ۔ بلا کسی ثبوت کے ایک ایک سال تک جیل میں رکھ سکتے تھے جس پر چاہے اس پر برطانوی حکومت کے خلاف دیش دروہ کا معاملے درج کر کے اس کی ملکیت بھی غصب کر سکتے تھے۔ اس قانون کے خلاف عوام نے مظاہرے کیے۔ ستیہ گرہ، ریلی یاترا سب کچھ نکالی گئی۔ لگ بھگ تین سال تک یہ آندولن جاری رہے تب کہیں جاکر 1922میں انگریزوں نے یہ قانوں واپس لیا۔
سو سال پہلے بچہ بچہ کرتا تھا بولی اماں محمد علی کی بیٹا جان خلافت پہ دے دو۔  فی الحال آج کا ماحول دیکھیں آج بھی حکومت کے کالے قوانین کے خلاف سارا دیش آندولن کر رہا ہے۔ آج بھی شاہین باغ کا بچہ بچہ کہہ رہا ہے ۔۔ اماں جان شاہین باغ کے نام کردو۔ اللہ ہمیں استقامت دے اور ہماری اس جدوجہد کو قبول کرے ۔ آمین ۔
ہم نے قرآن میں فرعون، شداد، نمرود جیسے جابروں کے ظلم کی داستانیں پڑھ رکھی ہیں ۔ ساتھ ہی اہل ایمان کی قربانیوں کو بھی پڑھا ہے۔ ظالم کتنے ہی ظلم کرلے ہم ایک انچ بھی نہیں ہٹیں گے۔ ہم یہ جنگ جیت چکے ہیں اس یقین کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب اگر تم جیتنا چاہتے ہو تو تم کو ہمیں راستے سے اْٹھانا نہیں مٹانا پڑے گاجس کی کوشش بھی ظالم حکومت کر رہی ہے ۔ روزانہ مظاہرین پر پولیس کے ذریعے لاٹھی چارج، گولی بار سے لے کر اپنے پالے ہوے دہشت گرد غنڈوں سے گولیاں چلوانا  فسادات کروانا سب کچھ کیا جارہا ہے ۔ظالم شاید نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں جن ابوجہلوں کے سر جھکتے نہیں وہ ننھے معصوم معاذ اور معوذ کے ہاتھوں گرا دیے جاتے ہی۔ جو فرعون ظلم کی حدیں توڑ ڈالتا ہے وہ غرق جاتا ہے ۔ جو قارون ظالموں کو فنڈنگ کر تے ہیں وہ اپنے وسائل سمیت دفن ہوجاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں ۔ ہاں ہم جانتے ہیں۔ ہم نے تو روز اول سے ہی اپنے جان ، مال کے بدلے جنت کا سودا کرلیا ہے۔ تم ہمیں ڈرانے کی بے کار کوشش 
کر کے دیکھ لو اور ہم بھی دیکھتے ہیں ۔

ہاں ہم بھی دیکھیں گے
لازہے ہم بھی دیکھیں گے
جب ارض خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی
ہم دیکھیں گے۔
فیض احمد فیضؔ 
عبدالمقیت عبدالقدیر بھوکر
Mob. 9867368440


0 comments:

انہی تحریکوں سے نئی قیادت ابھرے گی



  عبدالمقیت عبدالقدیر شیخ 9867368440



کسی کو تمنا ہو کہ وہ جنگ آزادی کا دور دیکھے تو اک بار بھار ت ضرور آئے اور یہاں کے شاہین باغات پر حاضری 
لگائے ۔ شاہین باغ یہ تحریک شروع ہوئی اس ملک کے دل دلی سے مگر سارے ملک میں پھیل چکی ہے ۔ حکومت کے ظلم کے خلاف یہ تحریک کافی اثر رکھتی ہے ۔ آئے دن حکومت اور اس کے ہمنوائوں کی جانب سے مفت کی بریانی، پانچ سو روپے سے لے کر ہماری مائوں بہنوں کے کر دار پر بھی کیچڑ اچھالنے کی سازش تک کی جا رہی ہے ۔ گولیاں تک چلائی گئی۔ تاکہ مظاہرین ڈر کر احتجاج کرنا چھوڑ دے اور حکومت کے ظالمانہ فیصلے کو قبول کر لے۔ ملک کا سماج تین گروہوں میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ ایک گروہ رائٹ ونگ کہلا رہا ہے جو حکمران اور ان کے ہمنوا سنگھ کے نظریات کا اندھا مقلد ہے مسلمانوں سے نفرت اس کی خاصیت ہے ۔
دوسرا گروہ مظاہرین کا  ہے جس میں پیش پیش مسلمان ہیں جو سارے ملک میں اس انقلاب کی امامت کر رہے ہیں مگر ان کی صفوں میں موحد وں کے ساتھ کمیونسٹس بھی شامل ہیں۔ کچھ پیمانے پر کمزور اور پچھڑے ہوئے طبقات برادریاں بھی شامل ہیں ۔ تیسرا گروہ ان شاطر اور چالاک ناظرین کا ہے جو اونٹ کے بیٹھنے کا انتظار کر رہیں تاکہ جو حصہ محفوظ ہے ہم اس میں چھلانگ لگا لیں گے۔ یہ لوگ ان تمام جھمیلوں سے دور رہ کر اپنے دستاویزات بھی جمع کر رہے ہیں کہ جب این آرسی بنام این پی آر آجائے تو ہم لوگ حد محفوظ میں رہیں۔ اس گروہ میں ان مسلمانوں کا تناسب بھی خاصا موجود ہے جو دن میں سرکار ی دستاویزات بنانے میں دوڑ دھوپ کر رہے ہیں اور شام ہوتے ہی شاہین باغ کے مکین بن جاتے ہے۔مسلمانوں کا جوش، جنون اب بھی کافی تیز ہے جامعہ، جے این یو، اے ایم یو کے طلبہ ، کمیونسٹ ایکٹی وسٹ سارے ملک کے احتجاجات میں شرکت کررہے ہیں اور اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ 
مسلم عوام ان دھرنوں کو وہاں ہورہا ہے  یہاں بھی کرنا چاہیے کے طرز پر منعقد کر رہے ہیں۔  دو مہینے مکمل ہوچکے ہیں لیکن اب تک ان دھرنوں نے ملک گیر تنظیمی سیٹ اپ کا روپ نہیں لیا۔مسلم عوام کا بڑا حصہ اسے روایتی قیادت (علماء کہلانے والے طبقے )کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہیں عوام کا ایک حصہ نہیں چاہتا کہ یہ انقلاب روایتی گروہ کے حوالے کر دیا جائے  وہ چاہتے ہیں کہ یہ ملک گیر انقلاب کی شکل اختیا ر کرنا چاہیے اور بلا امتیاز مذہب و ملت ہر کوئی اس میں شامل ہو سکے صرف مسلمانوں کا دھرنا بن کر نہ رہے ۔ دیگر لوگ اس کی سرپرستی کرنے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ مظاہرے مسلم شناخت رکھتے ہیں۔
ان حالات میں ایسے لوگ بھی ہر روز بیان بازی ، پریس کانفرنس ، سوشل میڈیا وغیرہ پر اپنی چمک دکھا کر اپنا رعب جھاڑنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ملک اور ملت کے مخلص قائد ہیں اور یہ سب ان کی رہنمائی سے ہی چل رہا ہے۔ خانقاہ والے اپنا جال پھینک کر جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے سر پر ہمارا ہاتھ مع دعائوں کے شامل ہے۔ جمعیت والے بھی اسے اپنے شیخ صاحب کی کرامت بنانے پر کمر بستہ ہیں۔ مدرسہ والے تو ان سب سے آگے بڑھ کر نہ صرف قیادت کا اعلان کرچکے ہیں بلکہ اب اس تحریک کی منسوخی کا حکم بھی دے چکے ہیںکہ حکومت نے بات سن لی ہے ہمارا کام سنانا تھا اب اس کے آگے کی حکمت عملی کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ اہل مدرسہ کا یہ اعلان مسلم عوام پر بجلی بن کر گرا جس کا کڑا رد عمل بھی سامنے آیا اور اس سے قبل کہ  اخبارات میں ان کی منسوخی کا اعلان آتا معافی نامہ آگیا کہ ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ۔
جماعت اسلامی ہند ان احتجاجات میں پیش پیش ہے مگر اسٹیج سے زیادہ پس پردہ رہ کر کام کرنے کو حکمت عملی قرار دے رہی ہے کہ اسے ہائی جیک کریں گے تو ان طلبہ کے ساتھ جو اس کے لیے اپنی جان تک کی بازی لگا چکے ہیں، ان خواتین کے ساتھ جنھوں نے اپنے ساتھ اپنے دودھ پیتے بچوں کو قربان کردینے کی بھی استقامت دکھا دی ہے ، ان ایکٹی وسٹس کے ساتھ جو اس انقلاب کی تعمیر میں صعوبتیں جھیل رہے ہیں ان سب کے حق کے ساتھ خیانت ہوگی۔ان مظاہروں کے باوجود حکومت کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔ ابھی آگے کی حکمت عملی کیا ہو گی یہ طے کرنا بھی ضروری ہوچکا ہے ۔
غیر مذہبی تحریک چلانے کا یہ نقصان یہ ضرور ہورہا ہے کہ ایسے نعرے ، نغمے اور تقریریں عام ہورہی ہیں جن کا راست ٹکرائو اسلامی نظریات سے ہوتا ہے ۔ ان باتوں کا سہارا لے کر امت کا ایک طبقہ ان دھرنوں کو بے دینی کے مظہر کہہ رہا ہے ۔ جب کہ انہی دھرنوں کا ایک منظر یہ بھی ہے کہ یہاں روزہ ، افطار وسحر نماز پنجگانہ کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے ۔ یہ لڑائی اسلام  کے نام پر نہیں متحدہ کاز کے لیے کی جارہی ہے ۔ ہم ہر کسی کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے اور نہ ہی دوسروں کا ان کے تشخص کے ساتھ ہمارے دھرنوں میں شامل ہونا ہمیں ہمارے دین سے علحدہ کر سکتا ہے ۔ اگر ایسی کو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہو تو اس کا ازالہ بیک وقت کردینا چاہیے ۔ 
شاہین باغ کو اس سیکھ سردار سے لنگر کھانے میں کچھ ممانعت نظر نہیں آتی جس نے ان کی خدمت کے لیے اپنا فلیٹ بیچ ڈالا ۔ لیکن ہمارے مفکرین کو جب سیکھ خواتین اسٹیج سے جے کارا پکارتی ہیں تو اس کے جواب میں انہیں ارتداد کی پہل نظر آجاتی ہے۔ان افراد کی خاصی تعداد اس طرح کے خدشات اور خطرات کا بہ طور داعی علاج کرنے کے ان سے کنارہ کش ہوجانے کا پہلو تلاش کررہی ہے نیز سوشل میڈیا پر بھی انھیں وائرل کرکے دوسروں کو باز رہنے کی تاکید کر رہے ہیں۔ قحط الرجال کا بھیانک منظرمسلمانان ہند ابھی جھیل رہے ہیں ۔ یہاں آگ ، آل نمرود اور آل ابراھیم سب موجود ہیں مگر براہمی قیادت ابھی آنکھوں سے اوجھل ہے ۔ اس کے آنے کا راستہ بھی تیار ہورہا ہے ۔ ایسی ہی تحریکات کے سبب مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ابولکلام آزاد جیسے افراد ابھر کر سامنے آئے انشاء اللہ انہی میدانوں سے نئے رہنما بھی نکل کر آئیں گے ۔


0 comments:

کیجریوال اور اندیشے




ممتاز میر

   ابھی دہلی کی جیت کا جشن جاری ہے ، کہیں ہو نہ ہو مسلمانوں میں تو ہے اور اس کی وجہ ہے ۔مسلمانوں کو خوشیاں کم ہی میسر آتی ہیں ۔مسلمانوں کا دشمن آسماں بھی ہے اور ان کے دوست بھی ۔اس لئے وہ بیگانی شادی میں عبداللہ بنے رہتے ہیں ۔جیت تو کیجریوال کی ہوئی جن کے تعلق سے فی الوقت قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا تعلق دائیں بازو سے ہے یا بائیں بازو سے، سنگھ سے ہے یا سنگھ کے مخالفین سے ۔کیجریوال کی پہلی جیت کے بعد ایک پاکستانی صحافی نے لکھا تھا کہ کیجریوال وویکانند فاؤنڈیشن کے ممبر ہیںاور اس فاؤنڈیشن کے سارے ممبر سنگھی ہیں ۔ اتل کمار انجان ،جو کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے نیشنل سیکریٹری ہیں ،اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے آر ایس ایس اور وویکانند فاؤندیشن کو ایک ہی سطح پر رکھا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹو پارٹی سسٹم میں پہلی پارٹی کانگریس کی جگہ خالی ہو رہی ہے اور وہ جگہ شاید عام آدمی پارٹی سے پر کی جائے گی ۔تو جیت تو کیجری وال کی ہوئی اور مسلمان اس طرح خوشیاں منا رہے ہیں جیسے ان کے لیڈروں نے کوئی معرکہ سر کیا ہو ۔ 
   شاید وطن عزیز میں یہ پہلی بار ہے کہ کسی سیاستداں نے اپنے کئے ہوئے کاموں کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگا ہو ۔ورنہ روایت تو یہ کہ ہے خواب دکھا کر ، سپنے سجا کر،جملے اڑا کر ووٹ مانگے جاتے ہیںاور سچ یہ ہے کہ اب ہماری عوام بھی ان نشوں کی عادی ہو چکی ہے۔اسے مذکورہ بالاروایتی خوابوں اور سپنوں کے بغیر الیکشن میں مزہ نہیں آتا۔اس لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ کیجریوال کے ہزار کاموں کے اور وہ بھی تمام کے تمام عوامی مفاد کے کاموں کے علی الرغم دلی میں بی جے پی کا ووٹ شیئر بڑھا ہے ۔ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ مودی حکومت کتنی کرپٹ ثابت ہوئی ہے ۔یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کوکس طرح سی بی آئی ، اے سی بی اور ای ڈی کے حوالے کر رہی ہے  ۔ یہی سب کچھ وہ کیجریوال اور ان کے وزراء کے ساتھ بھی کرنا چاہ رہی ہے مگر کامیاب نہیں ہو پارہی ہے ۔یعنی یا تو کیجریوال حکومت کرپٹ نہیں ہے یا اس کے سر پر بھی سنگھ کا ہاتھ ہے۔ دوسری طرف بی جے پی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوئی ہے نہ نوٹ بندی سے سو سوا سو موت کے باوجود وہ مقاصد حاصل ہوئے ہیں جس کا اعلان جناب مودی نے ووٹ بندی کرتے وقت کیا تھا۔نہ GST سے تجارت کو فائدہ پہونچا، بلکہ تجارتی سرگرمیاں کیا پوری معیشت ہی ڈبے میں بند ہوگئی ہے یہاں تک کہ حکومت کو پیٹ بھرنے کے لئے رزروبینک سے پونے دو لاکھ کروڑ روپئے چھیننے پڑے۔اس پر بھی بس نہیں کیا،ملکی اداروں کو اپنے سر پرستوں کو اونے پونے بیچ رہی ہے جس کی وجہ سے ہر ادارے میں کام کرنے والے ملازمین نے ملک سر پر اٹھا رکھا ہے ۔اس ساری قواعد کی دو وجہ ہو سکتی ہیں ۔اپنے سر پرستوں کو نوازنا ،ان کا احسان چکانا اور خالی خزانے کو بھرنا۔ مگر ملکی معیشت کے لئے مفید اداروں کو بیچ دینا دیش واسیوں کے لئے کیا مسائل کھڑا کرے گا اس کا احساس کسی کو نہیں ۔ اس پر طرہ یہ کہ ملک میں نصف صدی میں پہلی بار اس قدر بیروزگاری پھیلی ہے۔حکومت کی اسی طرح ہم حوصلہ افزائی کرتے رہے تو ممکن ہے نصف صدی کی بجائے پوری صدی میں اتنی بیروزگاری کہنا پڑے ۔
لاء اینڈ آرڈر کی جوصورتحال فی الوقت ملک میں ہے اس کا مقابلہ افریقی ممالک سے کیا جا سکتا ہے اور یوگی کا پردیش تو ان پر بھی بازی لے گیا ہے۔پچھلے دنوں یوگی جی کا ایک ویڈیو نظر سے گزرا جس میں وہ سومناتھ چٹرجی جو کہ اس وقت لوک سبھا کے اسپیکر تھے کے سامنے آواز اور آنسوئوں سے رو رہے ہیں اور سومناتھ چٹرجی انھیں دلاسہ دے رہے ہیں۔وہ ویڈیو دیکھ کر ہمیں سمجھ میں آیا کہ یوگی جی ایسے کیوں ہیں؟بزدل ہی ظالم ہوتا ہے۔حکومتی ارکان کی زبان شاید کہ دنیا کے پارلیمنٹیرینس  میں سب سے زیادہ خراب ہو ۔ وہ اس طرح Behave کرتے ہیں جیسے جنگل میں رہ رہے ہوں۔ان تمام نااہلیوں  کے باوجود دہلی میں بی جے پی کا ووٹ شیئر بڑھنا کیا ظاہر کرتا ہے؟کیا یہ کہ وطن عزیز کی 40% عوام فرقہ پرستی میں آخری حد تک لت پت نہیںہے؟اتنی کہ اس نے ملک کی تباہی و بربادی کی فکر چھوڑ کر ،خود اپنے مسائل کو طاق پر رکھ کر، اپنی اولاد کے مستقبل کو بھول کرصرف مسلمانوں کی بربادی کو اپنی پہلی پسند بنا لیا ہے ۔چاہے ملک اپنا وجود ہی کھودے مگر مسلمانوں کا وجود باقی نہ رہے یا کم از کم وہ تکلیف میں مبتلا رہیںاگرہم یہ تسلیم کرلیں کہ انتخابات کے نتائج بالکل صحیح اور ایماندارانہ ہیں تو کم سے کم ہمارا دماغ یہی نتائج نکالتا ہے۔ یا دوسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے سب منصوبہ بند ہے۔نتائج پہلے سے طے شدہ ہیں۔
اب دوسری ؍ پہلی جو قومی پارٹی تھی اس پر گائے اور بچھڑا قابض ہیں جو سنگھ کے نزدیک قابل اعتبار نہیں۔ سنگھ کے نزدیک ان کی شہریت بھی مشکوک ہے۔اور مذہبیت بھی ۔تو پھر،پھر یہ کہ ٹو پارٹی سسٹم میں جو جگہ خالی ہونے والی ہے اسے پر کرنا ہے ۔مسلمانوں نے بڑے دھوکے کھائے ہیں۔اس کے باوجود کہ ان کے رسول ﷺکہہ گئے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا ۔ اب اس بات کا اعتراف کئے بھی زمانہ گزر گیا کہ ہم مومن نہیں۔بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتاہے۔اسلئے کیجریوال کتنے ہی قابل سہی ،کارکردگی میں لاجواب سہی۔مگر ان کا ماضی ہمیں ڈراتا ہے۔وہ انا ہزارے کے کندھوں پر چڑھ کر یہاں تک پہونچے ہیں اور انا اس عمر میں جبکہ وہ قبر میں پیر لٹکائےسوری!چتا پر چڑھے بیٹھے ہیں یہ کہہ چکے ہیں کہ انھیں نہیں معلوم کہ ملک میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے ۔یہ وہی انا ہزارے ہیں جنھیں وزرا ٔکے کرپشن کا پتہ ہوتا ہے ۔اس لا علمی کے اظہار کے وقت کیجریوال چپ رہے تھے۔ویسے بھی اب تک کیجریوال نے مسلمانوں کے مفاد میں کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہے ۔ممکن ہے وہ اپنے ووٹرس سے ڈرتے ہوں۔مگر کیوں؟اگر وہ واقعی اس ملک کے مخلص سیاستداں ہیں تو اپنی اسکولوں کا نصاب اس طرح تیار کریں کہ قوموں میں نفرت نہ پیدا ہو ،محبت پیدا ہو۔وطن عزیز کی بہتری کے لئے جس قوم نے جتنا کام کیا ہے اسے نئی نسل تک پہونچائیں ۔ہم ذاتی طور پر کیجریوال کے مداح ہیں مگر اندیشوں کے ناگ سر اٹھاتے رہتے ہیں،اس لئے دوسرا رخ دیکھنا اور دکھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137    


0 comments: