Muslim Issues

امولیہ سے وارث پٹھان تک عجب عالم بدحواسی ہے

3:17 PM nehal sagheer 0 Comments




نہال صغیر

بنگلور میں ایک انیس سالہ لڑکی اس اسٹیج سے جہاں اسدالدین اویسی موجود تھے ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتی ہے ،اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی اس سے مائیک چھین لیا گیا اور ایک پولس افسر اسے گھسیٹ کر لے گیا لیکن وہ پھر کسی طرح چھوٹ کر واپس بنا مائیک کے ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لگاتی ہے ۔ اسے چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے اور اسے ملک سے غداری کے مقدمہ میں جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کوئی بارود کا گولا ہے کہ اس کا نام لیتے ہیں وہ پھٹ پڑے گا اور اس سے پورا ملک تباہ ہوجائے گا کہ ایک عالم بدحواسی میں سب اکٹھا ہو جاتے ہیں اور بقول رویش کمار جو افسر کبھی اپنی ذمہ داری ڈھنگ سے نہیں نبھاتا وہ بھی ایسے موقعوں کو غنیمت جان کر محب وطن ہونے کا ثبوت دینے کیلئے فورا حرکت میں آجاتا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد اسی کرناٹک کے دوسرے شہر میں ایک اور جلسہ میں وارث پٹھان یہ بولتے بولتے یہ کہہ جاتے ہیں سو پر پندرہ بھاری ہے ۔ بس پھر کیا تھا ان کے خلاف بھی مذمت کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے اور شاید کئی پولس اسٹیشنوں میں مقدمہ بھی کردیاجاتا ہے ۔ یہ دونوں ہی معاملے میں ایک چیز واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے اور وہ ہے عالم بدحواسی ۔کسی کو مزید کچھ نہیں کہنے دینا ہے ،اس کو صفائی کا موقع بھی نہیں دینا ہے ۔ امولیہ آگے اور کیا کہنا چاہتی تھی اس کی بات سننے کو کوئی راضی نہیں بس اس نے پاکستان زندہ باد کیوں کہا ؟ یہی ایک مسئلہ ہے ۔ رویش کمار کے مطابق گویا ہندوستان کوئی پتہ ہے جس کا وجود پاکستان زندہ باد کہہ دینے سے ہی بکھر جائے گا ۔ امولیہ نے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کسی صورت جان چھڑا کر ہندوستان زندہ باد کے بھی نعرہ لگائے اور اس کے فیس بک اکائونٹ کے مطابق اس کے ذہن میں اپنے پڑوسی ممالک کے لئے بھی زندہ باد کا نعرہ ہے محض ہندوستان ہی زندہ باد نہیں ہے اور وہ وہاں اسٹیج پر ان سبھی ممالک کیلئے زندہ باد کہنا چاہتی تھی جس کا اسے اس کا موقع نہیں دیا گیا ۔ 
وارث پٹھان کا سو پر پندرہ بھاری والا بیان غیر ضروری اور غیر حکیمانہ سہی مگر اس کیخلاف اتنی شدت نہیں آنی چاہئے کہ ان کے پتلے جلائے جائیں اور ان کے خلاف ہائے ہائے کے نعرے لگائے جائیں جبکہ ان کے سیاسی رفیق امتیاز جلیل کہا’وارث پٹھان کا یہ بیان سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کیخلاف برہمی کا اظہار ہے جو جبرا مسلمانوں پر تھوپ کر اس بیان کو سیاسی رنگ دیا جارہا ہے‘ میں سمجھتا ہوں امتیاز جلیل کی باتوں پر توجہ دی جانی چاہئے تھی لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ سے سوچنے کی قوت سے محروم ہوچکے ہیں ۔ آج ہم اپنی حب الوطنی کو ثابت کرنے اور دوسروں (سنگھی، لبرل اور دہریہ) کو خوش کرنے کیلئے مذمت اور احتجاج یا ہائے ہائے کا نعرہ لگارہے ہیں ۔ ۲۱ ؍ فروری ۲۰۲۰ کو شام سات بجے سے ممبئی کے اسلام جمخانہ کے دیوان خاص ہال میں ’الائنس اگینسٹ سی اے اے ، این آر سی ، این پی آر‘ کی مہاراشٹر و ممبئی اکائی کی جانب سے رضاکاروں ، ارکان اور کارکنان کیلئے تہنیتی پروگرام رکھا گیا تھا ۔ جس میں کانگریس کے سابق ایم ایل اے اور اسلام جمخانہ کے موجودہ سربراہ یوسف ابراہانی نے وارث پٹھان کیخلاف ہائے ہائے کے نعرے لگوائے جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن مسئلہ کانگریس میں اپنی جگہ بنانے اور کچھ قوتوں کی چاپلوسی کا تھا اس لئے وہاں الائنس کے پلیٹ فارم سے ایک غیر ضروری کام کیا گیا ۔ ہم نے یوسف ابراہانی کا ایک ویڈیو پیغام بھی دیکھا جس میں وہ وارث پٹھان اور مجلس اتحادالمسلمین کیخلاف عوام کو ورغلاتے نظر آرہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وارث پٹھان ہوتے کون ہیں مسلمانوں کی جانب سے قیادت کا دعویٰ کرنے والے لیکن ابراہانی خود وارث پٹھان کے بیان کے تعلق سے معافی مانگتے ہوئے خود کو پندرہ کروڑ مسلمانوں کا لیڈر قرار دے رہے ہیں ۔جبکہ دونوں کی پوزیشن ایک ہی ہے ۔  دونوں عوام کے ٹھکرائے ہوئے ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ عوام سے ٹھکرایا ہوا ایک کانگریسی عوامی طور پر مسترد کئے ہوئے دوسرے شخص کو قوم کا ٹھیکیدار تسلیم نہیں کرتا لیکن پندرہ کروڑ مسلمانوں کی جانب 
سے معافی مانگ کر خود کو مسلمانوں کے قیادت کی دعویداری کررہا ہے ۔

ایک بات واضح کردوں کہ میری نظر میں بھی وارث پٹھان کا بیان غیر ضروری اور غیر حکیمانہ ہے ۔ بس میرا کہنا یہ ہے
 کہ اس پر اتنی ہنگامہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے ۔ پٹھان نے کہا آپ نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی بس ۔ اس سے آگے کی تحریک یا کارروائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ کسی کے دبائو میں ضرورت سے زیادہ روادار اور محب وطن بننے کی کوشش کررہے ہیں ۔ حالات بتارہے ہیں کہ اگر آپ گرم لوہے کی سلاخ ہاتھوں میں لے کر اپنی وفاداری کا یقین دلائیں گے تو ہ طبقہ آپ کی وفاداری تسلیم نہیں کرے گا ۔ اس حقیقت کے باوجود آپ کا وطیرہ بن گیا ہے کہ اتحاد کی لالچ میں وہ کرتے چلے جارہے ہیں جس کی مخالفت قوم برسوں سے کرتی آرہی ہے ۔ یہاں دو مثالیں کافی ہیں جو میں الائنس اگینسٹ سی اے اے ، این آر سی اینڈ این پی آر کے ذریعہ آزاد میدان میں منعقد احتجاجی اجلاس عام میں اس کے ہی ایک شریک کنوینر کی جانب سے لگائے گئے نعروں اور اس کے جواب میں مسلمانوں کی جانب مسلمانوں کا جواب دیکھا ۔ الائنس کے شریک کنوینر ایڈووکیٹ راکیش راٹھوڑ نے ۱۵ ؍ فروری ۲۰۲۰ کو آزاد میدان کی احتجاجی ریلی میں بھارت ماتاکی ۔۔۔۔اور وندے ۔۔۔ کے نعرے لگائے اور مسلمانوں کی جانب سے اس کا جواب بھی دیا گیا ۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل تک مسلمان اس سے بچتا ہوا نظر آرہا تھا ۔ آزاد میدان کے اس نعرے اور جگہ بجگہ سیکولر لبرل طبقہ کی جانب سے مسلمانوں کی بھیڑ سے اپنی لیڈر شپ کاشت کرنے کی فکر نے مجھے بے چین کیا ہے ۔ اگر کسی کو بے چینی نہیں ہوتی میں کیا کرسکتا ہوں ۔ اوروں کی طرح میں بھی ہندو مسلم اتحاد کو پسند کرتا ہوں ۔ بلکہ اس سے دو قدم آگے جاکر مسلمانوں کے ساتھ تمام پسماندہ طبقات کے اتحاد کو زیادہ بہتر اور موثر سمجھتا ہوں ۔ مگر اپنی قومی اور مذہبی شناخت سے سمجھوتہ کئے بغیر ۔ہم نے شیواجی کی یوم پیدائش پر مذہبی شناخت کے ساتھ شیواجی کی قد آدم مورتی پر پھول اور ہار چڑھاتے مسلمانوں کی تصویر بھی دیکھی ہے ۔ سوچئے ہم اتحاد اور رواداری کی خواہش میں کہاں چلے جارہے ہیں ۔ ہم انہیں یہ بات کیوں نہیں بتا سکتے کہ ہم شیواجی یا امبیڈکر سمیت اس جیسے لیڈروں کی قدر کرتے ہیں لیکن تمہاری تہذیب کے مطابق ان کی عبادت نہیں کرسکتے ۔ 
غور کیجئے وارث پٹھان کے بیان کیخلاف بیان دیتے ہوئے کہا گیا کہ موجودہ تحریک میں ہم بڑی مشکل سے غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد بنا پائے ہیں جسے وارث پٹھان یا کل ہند مجلس اتحاد المسلمین تباہ کرنا چاہتی ہے ۔ یہ صرف خوش فہمیاں ہیں جو کچھ لوگوں کے ذریعہ ہمارے درمیان پھیلائی جارہی ہے ۔ مجھے اپنی اس شہری ترمیم قانون یا این پی آر اور این آر سی کیخلاف تحریک میں سوائے اسٹیج کے کہیں بھی کوئی غیر مسلم دکھادیں ، تو مان جائوں گا کہ آپ نے اتحاد بین المذاہب کو حاصل کرلیا۔ ہر جگہ اس بھیڑ میں انہیں تلاش کررہا ہوں مگر میری آنکھیں لوٹ آتی ہیں اور وہ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں جبکہ ہمیں ہر وقت یہی بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ غیر مسلم بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی اس تحریک سے جڑے ہوئے ہیں ۔ جڑے تو مگر صرف لیڈر اور اسٹیج کی حد تک جیسا اوپر ذکر کیا گیا ۔ حالانکہ مذکورہ قانون سے مسلمانوں سے زیادہ پسماندہ طبقات کو ہی نقصان ہونے والا ہے کیوں کہ وہ لوگ بے زمین تھے اور آج بھی ایک بڑی آبادی بے زمین ہے ۔ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور اسی کی بنیاد پر برہمنوں کی پروردہ موجودہ مودی حکومت دستور میں دی گئی ریزرویشن کی سہولت کو ختم کردینا چاہتی ہے ۔ مگر انہیں مسلم دشمنی کی شراب اتنی پلائی گئی ہے کہ اس کا نشہ اترتا ہی نہیں ۔ مسلم دشمنی کی آڑ میں انہیں اپنی تباہی نہیں دِکھ رہی ہےکہ این آر سی کے بعد ان کا وہ دور واپس آجائے گا جب انہیں اپنے پیچھے جھاڑو باندھنا اور گلے میں مٹکہ لٹکانا ہوگا ۔ ان کے لیڈر انہیں یہ سمجھانے سے قاصر ہیں ۔بہتر ہے کہ یہ باتیں انہیں سمجھانے کی کوشش کریں اور اپنے درمیان کے کسی شخص سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی ہلکی پھلکی سرزنش کرکے تنہائی میں اسے سمجھائیں کہ اس نے کیا غلطی کی ہے اور اس کی یہ بات کیوں حکمت کیخلاف ہے ۔ مگر مرعوبیت اور مغلوبیت یا غلامانہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے قوم کا مورال پست ہو ۔ آپ لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر منظر بھوپالی کا یہ شعر ٹھیک معلوم ہوتا ہے 
 ؎  کدھر کو جائیں گے اہلِ سفر نہیں معلوم/وہ بدحواسی ہے اپنا ہی گھر نہیں معلوم


0 comments: