انہی تحریکوں سے نئی قیادت ابھرے گی

4:17 PM nehal sagheer 0 Comments



  عبدالمقیت عبدالقدیر شیخ 9867368440



کسی کو تمنا ہو کہ وہ جنگ آزادی کا دور دیکھے تو اک بار بھار ت ضرور آئے اور یہاں کے شاہین باغات پر حاضری 
لگائے ۔ شاہین باغ یہ تحریک شروع ہوئی اس ملک کے دل دلی سے مگر سارے ملک میں پھیل چکی ہے ۔ حکومت کے ظلم کے خلاف یہ تحریک کافی اثر رکھتی ہے ۔ آئے دن حکومت اور اس کے ہمنوائوں کی جانب سے مفت کی بریانی، پانچ سو روپے سے لے کر ہماری مائوں بہنوں کے کر دار پر بھی کیچڑ اچھالنے کی سازش تک کی جا رہی ہے ۔ گولیاں تک چلائی گئی۔ تاکہ مظاہرین ڈر کر احتجاج کرنا چھوڑ دے اور حکومت کے ظالمانہ فیصلے کو قبول کر لے۔ ملک کا سماج تین گروہوں میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ ایک گروہ رائٹ ونگ کہلا رہا ہے جو حکمران اور ان کے ہمنوا سنگھ کے نظریات کا اندھا مقلد ہے مسلمانوں سے نفرت اس کی خاصیت ہے ۔
دوسرا گروہ مظاہرین کا  ہے جس میں پیش پیش مسلمان ہیں جو سارے ملک میں اس انقلاب کی امامت کر رہے ہیں مگر ان کی صفوں میں موحد وں کے ساتھ کمیونسٹس بھی شامل ہیں۔ کچھ پیمانے پر کمزور اور پچھڑے ہوئے طبقات برادریاں بھی شامل ہیں ۔ تیسرا گروہ ان شاطر اور چالاک ناظرین کا ہے جو اونٹ کے بیٹھنے کا انتظار کر رہیں تاکہ جو حصہ محفوظ ہے ہم اس میں چھلانگ لگا لیں گے۔ یہ لوگ ان تمام جھمیلوں سے دور رہ کر اپنے دستاویزات بھی جمع کر رہے ہیں کہ جب این آرسی بنام این پی آر آجائے تو ہم لوگ حد محفوظ میں رہیں۔ اس گروہ میں ان مسلمانوں کا تناسب بھی خاصا موجود ہے جو دن میں سرکار ی دستاویزات بنانے میں دوڑ دھوپ کر رہے ہیں اور شام ہوتے ہی شاہین باغ کے مکین بن جاتے ہے۔مسلمانوں کا جوش، جنون اب بھی کافی تیز ہے جامعہ، جے این یو، اے ایم یو کے طلبہ ، کمیونسٹ ایکٹی وسٹ سارے ملک کے احتجاجات میں شرکت کررہے ہیں اور اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ 
مسلم عوام ان دھرنوں کو وہاں ہورہا ہے  یہاں بھی کرنا چاہیے کے طرز پر منعقد کر رہے ہیں۔  دو مہینے مکمل ہوچکے ہیں لیکن اب تک ان دھرنوں نے ملک گیر تنظیمی سیٹ اپ کا روپ نہیں لیا۔مسلم عوام کا بڑا حصہ اسے روایتی قیادت (علماء کہلانے والے طبقے )کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہیں عوام کا ایک حصہ نہیں چاہتا کہ یہ انقلاب روایتی گروہ کے حوالے کر دیا جائے  وہ چاہتے ہیں کہ یہ ملک گیر انقلاب کی شکل اختیا ر کرنا چاہیے اور بلا امتیاز مذہب و ملت ہر کوئی اس میں شامل ہو سکے صرف مسلمانوں کا دھرنا بن کر نہ رہے ۔ دیگر لوگ اس کی سرپرستی کرنے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ مظاہرے مسلم شناخت رکھتے ہیں۔
ان حالات میں ایسے لوگ بھی ہر روز بیان بازی ، پریس کانفرنس ، سوشل میڈیا وغیرہ پر اپنی چمک دکھا کر اپنا رعب جھاڑنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ملک اور ملت کے مخلص قائد ہیں اور یہ سب ان کی رہنمائی سے ہی چل رہا ہے۔ خانقاہ والے اپنا جال پھینک کر جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے سر پر ہمارا ہاتھ مع دعائوں کے شامل ہے۔ جمعیت والے بھی اسے اپنے شیخ صاحب کی کرامت بنانے پر کمر بستہ ہیں۔ مدرسہ والے تو ان سب سے آگے بڑھ کر نہ صرف قیادت کا اعلان کرچکے ہیں بلکہ اب اس تحریک کی منسوخی کا حکم بھی دے چکے ہیںکہ حکومت نے بات سن لی ہے ہمارا کام سنانا تھا اب اس کے آگے کی حکمت عملی کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ اہل مدرسہ کا یہ اعلان مسلم عوام پر بجلی بن کر گرا جس کا کڑا رد عمل بھی سامنے آیا اور اس سے قبل کہ  اخبارات میں ان کی منسوخی کا اعلان آتا معافی نامہ آگیا کہ ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ۔
جماعت اسلامی ہند ان احتجاجات میں پیش پیش ہے مگر اسٹیج سے زیادہ پس پردہ رہ کر کام کرنے کو حکمت عملی قرار دے رہی ہے کہ اسے ہائی جیک کریں گے تو ان طلبہ کے ساتھ جو اس کے لیے اپنی جان تک کی بازی لگا چکے ہیں، ان خواتین کے ساتھ جنھوں نے اپنے ساتھ اپنے دودھ پیتے بچوں کو قربان کردینے کی بھی استقامت دکھا دی ہے ، ان ایکٹی وسٹس کے ساتھ جو اس انقلاب کی تعمیر میں صعوبتیں جھیل رہے ہیں ان سب کے حق کے ساتھ خیانت ہوگی۔ان مظاہروں کے باوجود حکومت کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔ ابھی آگے کی حکمت عملی کیا ہو گی یہ طے کرنا بھی ضروری ہوچکا ہے ۔
غیر مذہبی تحریک چلانے کا یہ نقصان یہ ضرور ہورہا ہے کہ ایسے نعرے ، نغمے اور تقریریں عام ہورہی ہیں جن کا راست ٹکرائو اسلامی نظریات سے ہوتا ہے ۔ ان باتوں کا سہارا لے کر امت کا ایک طبقہ ان دھرنوں کو بے دینی کے مظہر کہہ رہا ہے ۔ جب کہ انہی دھرنوں کا ایک منظر یہ بھی ہے کہ یہاں روزہ ، افطار وسحر نماز پنجگانہ کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے ۔ یہ لڑائی اسلام  کے نام پر نہیں متحدہ کاز کے لیے کی جارہی ہے ۔ ہم ہر کسی کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے اور نہ ہی دوسروں کا ان کے تشخص کے ساتھ ہمارے دھرنوں میں شامل ہونا ہمیں ہمارے دین سے علحدہ کر سکتا ہے ۔ اگر ایسی کو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہو تو اس کا ازالہ بیک وقت کردینا چاہیے ۔ 
شاہین باغ کو اس سیکھ سردار سے لنگر کھانے میں کچھ ممانعت نظر نہیں آتی جس نے ان کی خدمت کے لیے اپنا فلیٹ بیچ ڈالا ۔ لیکن ہمارے مفکرین کو جب سیکھ خواتین اسٹیج سے جے کارا پکارتی ہیں تو اس کے جواب میں انہیں ارتداد کی پہل نظر آجاتی ہے۔ان افراد کی خاصی تعداد اس طرح کے خدشات اور خطرات کا بہ طور داعی علاج کرنے کے ان سے کنارہ کش ہوجانے کا پہلو تلاش کررہی ہے نیز سوشل میڈیا پر بھی انھیں وائرل کرکے دوسروں کو باز رہنے کی تاکید کر رہے ہیں۔ قحط الرجال کا بھیانک منظرمسلمانان ہند ابھی جھیل رہے ہیں ۔ یہاں آگ ، آل نمرود اور آل ابراھیم سب موجود ہیں مگر براہمی قیادت ابھی آنکھوں سے اوجھل ہے ۔ اس کے آنے کا راستہ بھی تیار ہورہا ہے ۔ ایسی ہی تحریکات کے سبب مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ابولکلام آزاد جیسے افراد ابھر کر سامنے آئے انشاء اللہ انہی میدانوں سے نئے رہنما بھی نکل کر آئیں گے ۔


0 comments: