کیجریوال اور اندیشے
ممتاز میر
ابھی دہلی کی جیت کا جشن جاری ہے ، کہیں ہو نہ ہو
مسلمانوں میں تو ہے اور اس کی وجہ ہے ۔مسلمانوں کو خوشیاں کم ہی میسر آتی ہیں
۔مسلمانوں کا دشمن آسماں بھی ہے اور ان کے دوست بھی ۔اس لئے وہ بیگانی شادی میں
عبداللہ بنے رہتے ہیں ۔جیت تو کیجریوال کی ہوئی جن کے تعلق سے فی الوقت قطعیت کے
ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا تعلق دائیں بازو سے ہے یا بائیں بازو سے، سنگھ
سے ہے یا سنگھ کے مخالفین سے ۔کیجریوال کی پہلی جیت کے بعد ایک پاکستانی صحافی نے
لکھا تھا کہ کیجریوال وویکانند فاؤنڈیشن کے ممبر ہیںاور اس فاؤنڈیشن کے سارے
ممبر سنگھی ہیں ۔ اتل کمار انجان ،جو کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے نیشنل
سیکریٹری ہیں ،اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے آر ایس ایس اور وویکانند فاؤندیشن
کو ایک ہی سطح پر رکھا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹو پارٹی سسٹم میں پہلی پارٹی
کانگریس کی جگہ خالی ہو رہی ہے اور وہ جگہ شاید عام آدمی پارٹی سے پر کی جائے گی
۔تو جیت تو کیجری وال کی ہوئی اور مسلمان اس طرح خوشیاں منا رہے ہیں جیسے ان کے
لیڈروں نے کوئی معرکہ سر کیا ہو ۔
شاید وطن عزیز میں یہ پہلی بار ہے کہ کسی سیاستداں
نے اپنے کئے ہوئے کاموں کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگا ہو ۔ورنہ روایت تو یہ کہ ہے
خواب دکھا کر ، سپنے سجا کر،جملے اڑا کر ووٹ مانگے جاتے ہیںاور سچ یہ ہے کہ اب
ہماری عوام بھی ان نشوں کی عادی ہو چکی ہے۔اسے مذکورہ بالاروایتی خوابوں اور سپنوں
کے بغیر الیکشن میں مزہ نہیں آتا۔اس لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ کیجریوال کے ہزار
کاموں کے اور وہ بھی تمام کے تمام عوامی مفاد کے کاموں کے علی الرغم دلی میں بی جے
پی کا ووٹ شیئر بڑھا ہے ۔ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ مودی حکومت کتنی کرپٹ ثابت ہوئی
ہے ۔یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کوکس طرح سی بی آئی ، اے سی بی اور ای
ڈی کے حوالے کر رہی ہے ۔ یہی سب کچھ وہ
کیجریوال اور ان کے وزراء کے ساتھ بھی کرنا چاہ رہی ہے مگر کامیاب نہیں ہو پارہی
ہے ۔یعنی یا تو کیجریوال حکومت کرپٹ نہیں ہے یا اس کے سر پر بھی سنگھ کا ہاتھ ہے۔
دوسری طرف بی جے پی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوئی ہے نہ نوٹ بندی سے سو سوا سو موت
کے باوجود وہ مقاصد حاصل ہوئے ہیں جس کا اعلان جناب مودی نے ووٹ بندی کرتے وقت کیا
تھا۔نہ GST سے تجارت کو فائدہ پہونچا، بلکہ
تجارتی سرگرمیاں کیا پوری معیشت ہی ڈبے میں بند ہوگئی ہے یہاں تک کہ حکومت کو پیٹ
بھرنے کے لئے رزروبینک سے پونے دو لاکھ کروڑ روپئے چھیننے پڑے۔اس پر بھی بس نہیں
کیا،ملکی اداروں کو اپنے سر پرستوں کو اونے پونے بیچ رہی ہے جس کی وجہ سے ہر ادارے
میں کام کرنے والے ملازمین نے ملک سر پر اٹھا رکھا ہے ۔اس ساری قواعد کی دو وجہ ہو
سکتی ہیں ۔اپنے سر پرستوں کو نوازنا ،ان کا احسان چکانا اور خالی خزانے کو بھرنا۔
مگر ملکی معیشت کے لئے مفید اداروں کو بیچ دینا دیش واسیوں کے لئے کیا مسائل کھڑا
کرے گا اس کا احساس کسی کو نہیں ۔ اس پر طرہ یہ کہ ملک میں نصف صدی میں پہلی بار
اس قدر بیروزگاری پھیلی ہے۔حکومت کی اسی طرح ہم حوصلہ افزائی کرتے رہے تو ممکن ہے
نصف صدی کی بجائے پوری صدی میں اتنی بیروزگاری کہنا پڑے ۔
لاء
اینڈ آرڈر کی جوصورتحال فی الوقت ملک میں ہے اس کا مقابلہ افریقی ممالک سے کیا جا
سکتا ہے اور یوگی کا پردیش تو ان پر بھی بازی لے گیا ہے۔پچھلے دنوں یوگی جی کا ایک
ویڈیو نظر سے گزرا جس میں وہ سومناتھ چٹرجی جو کہ اس وقت لوک سبھا کے اسپیکر تھے
کے سامنے آواز اور آنسوئوں سے رو رہے ہیں اور سومناتھ چٹرجی انھیں دلاسہ دے رہے
ہیں۔وہ ویڈیو دیکھ کر ہمیں سمجھ میں آیا کہ یوگی جی ایسے کیوں ہیں؟بزدل ہی ظالم
ہوتا ہے۔حکومتی ارکان کی زبان شاید کہ دنیا کے پارلیمنٹیرینس میں سب سے
زیادہ خراب ہو ۔ وہ اس طرح Behave کرتے ہیں
جیسے جنگل میں رہ رہے ہوں۔ان تمام نااہلیوں کے باوجود دہلی میں بی جے پی کا ووٹ شیئر بڑھنا کیا ظاہر کرتا
ہے؟کیا یہ کہ وطن عزیز کی 40% عوام فرقہ پرستی میں آخری حد تک لت پت نہیںہے؟اتنی
کہ اس نے ملک کی تباہی و بربادی کی فکر چھوڑ کر ،خود اپنے مسائل کو طاق پر رکھ کر،
اپنی اولاد کے مستقبل کو بھول کرصرف مسلمانوں کی بربادی کو اپنی پہلی پسند بنا لیا
ہے ۔چاہے ملک اپنا وجود ہی کھودے مگر مسلمانوں کا وجود باقی نہ رہے یا کم از کم وہ
تکلیف میں مبتلا رہیںاگرہم یہ تسلیم کرلیں کہ انتخابات کے نتائج بالکل صحیح اور
ایماندارانہ ہیں تو کم سے کم ہمارا دماغ یہی نتائج نکالتا ہے۔ یا دوسری بات یہ ہو
سکتی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے سب منصوبہ بند ہے۔نتائج پہلے سے طے شدہ ہیں۔
اب
دوسری ؍ پہلی جو قومی پارٹی تھی اس پر گائے اور بچھڑا قابض ہیں جو سنگھ کے نزدیک
قابل اعتبار نہیں۔ سنگھ کے نزدیک ان کی شہریت بھی مشکوک ہے۔اور مذہبیت بھی ۔تو
پھر،پھر یہ کہ ٹو پارٹی سسٹم میں جو جگہ خالی ہونے والی ہے اسے پر کرنا ہے
۔مسلمانوں نے بڑے دھوکے کھائے ہیں۔اس کے باوجود کہ ان کے رسول ﷺکہہ گئے ہیں کہ
مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا ۔ اب اس بات کا اعتراف کئے بھی زمانہ گزر
گیا کہ ہم مومن نہیں۔بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک
کر پیتاہے۔اسلئے کیجریوال کتنے ہی قابل سہی ،کارکردگی میں لاجواب سہی۔مگر ان کا
ماضی ہمیں ڈراتا ہے۔وہ انا ہزارے کے کندھوں پر چڑھ کر یہاں تک پہونچے ہیں اور انا
اس عمر میں جبکہ وہ قبر میں پیر لٹکائےسوری!چتا پر چڑھے بیٹھے ہیں یہ کہہ چکے ہیں
کہ انھیں نہیں معلوم کہ ملک میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے ۔یہ وہی انا ہزارے ہیں
جنھیں وزرا ٔکے کرپشن کا پتہ ہوتا ہے ۔اس لا علمی کے اظہار کے وقت کیجریوال چپ رہے
تھے۔ویسے بھی اب تک کیجریوال نے مسلمانوں کے مفاد میں کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہے
۔ممکن ہے وہ اپنے ووٹرس سے ڈرتے ہوں۔مگر کیوں؟اگر وہ واقعی اس ملک کے مخلص
سیاستداں ہیں تو اپنی اسکولوں کا نصاب اس طرح تیار کریں کہ قوموں میں نفرت نہ پیدا
ہو ،محبت پیدا ہو۔وطن عزیز کی بہتری کے لئے جس قوم نے جتنا کام کیا ہے اسے نئی نسل
تک پہونچائیں ۔ہم ذاتی طور پر کیجریوال کے مداح ہیں مگر اندیشوں کے ناگ سر اٹھاتے
رہتے ہیں،اس لئے دوسرا رخ دیکھنا اور دکھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137
0 comments: