حید رآباد دھماکہ : شک کی سوئی پھرماضی کی طرح نام نہاد دہشت گردوں کی طرف پھرانے کی کوشش!

                                                                                                                    نہال صغیر۔معرفت ،رحمانی میڈیکل ۔سلفی گلی نمبر 3 ۔کاندیولی(مغرب)ممبئی 400067 موبائل۔9987309013 ۔ای میلsagheernehal@gmail.com

لیجئے صاحب پھر بم دھماکہ ہوگیا ۔دھماکہ کے بعد مرکزی حکومت نے کہا کہ اس کے متعلق پہلے ہی ریاستی سرکاروں کو متنبہ کیا جاچکا تھا ۔لوک سبھا میں بی جے پی کی شعلہ بیان مقرر سشما سوراج بھی حکومت کی خبر لیتے ہوئے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے پر برس پڑیں کہ آخر پہلے سے معلوم ہونے پر بھی اس پر کنٹرول کیوں نہیں کیا جا سکا ؟دھماکہ پر سشیل کمار نے ایمرجنسی بیان کے بعد آج 22؍فروری کو لوک سبھا میں روایتی بیان دیا اس میں نئی کوئی بات نہیں تھی اس بیان کو حکومت کی طرف سے معلوماتی بیان بھی کہہ سکتے ہیں ۔اس طرح کے بیان کے پیچھے شندے کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے اور دو دن پہلے معافی مانگنے کا اثر بھی ۔اس دھماکہ نے موجودہ اہم خبر کو دبا دیا وہ خبر گجرات سے تھی جہاں مودی کی حکومت ہے اور جو بی جے پی کے 2014 کے متوقع وزیر اعظم کے امید وار ہیں ۔خبر تھی کہ مظلوم اور معصوم عشرت جہاں کے فرضی انکاؤنٹر کے سلسلے میں سی بی آئی نے گجرات کے آئی پی ایس افسر جی ایل سنگھل کو گرفتار کیا ہے ۔عشرت جہاں کے انکاؤنٹر کے سلسلے میں یہ پہلی باضابطہ گرفتاری بتائی جارہی ہے ۔ویسے اس سے پہلے کئی اعلیٰ افسران داخل زندان ہیں جن پر سہراب الدین ،کوثر بی اور پرجاپتی کو فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کرنے کا الزام ہے ۔یہ گرفتاری تو ہوئی ہے پہلے بھی اب بھی اور شاید آگے بھی ہو،لیکن اس پر مقدموں کی کیا صورت ہے وہ واضح نہیں ہے ۔
بہر حال معاملہ فی الحال حیدرآباد کے تازہ دھماکے کا ہے ۔سشما سوراج نے لوک سبھا کے اندر سشیل کمار کے بیان کے بعد سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ دھماکہ کہیں اکبر الدین اور اسدالدین کے مبینہ بھڑکاؤ بھاشن سے تو نہیں جڑا ہوا ہے ؟یا کیا یہ افضل گرو کی پھانسی پر دہشت گردوں کی انتقامی کارروئی تو نہیں ہے ؟اس پر حکومت کی طرف سے کوئی واضح جواب نہیں دیا جاسکا وجہ اس کی یہ تھی کہ سشیل کمار لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا میں بیان دینے چلے گئے ۔یہاں سشما سوراج کے بیان یا سوالات سے پہلے اس کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ کل شام 21 ؍فروری کو سات بجے شام دھماکہ کے بعد بدنام زمانہ الیکٹرونک میڈیا کا کیا رویہ تھا ۔اس کا جائزہ لیتے ہوئے یہی محسوس ہوا کہ سارے ہی نیوز چینل اس دھماکے کو اسی پرانے اور گھسے پٹے انداز سے پیش کرکے عوام ،حکومت اور تفتیشی ایجنسی کو گمراہ کرکے ایک خاص فرقہ یعنی مسلمانوں کے خلاف محاذ بنانے میں مصروف کار تھے ۔اس بات کو بار بار نیوز چینل پر دوہرایا گیا کہ شک کی سوئی انڈین مجاہدین یا حرکت الجہاد اسلامی کی طرف گھوم رہی ہے ۔اس کو افضل گرو کی پھانسی کے خلاف انتقامی کارروئی سے بھی جوڑنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے ۔رہی سہی کسر سشما سوراج کے زہریلے سوالات نے بھی پوری کردی کہ کیا یہ اکبر الدین اور اسدلدین اویسی کے مبینہ نفرت انگیز تقاریر کا تو اثر نہیں ؟جس وقت سشما پارلیمنٹ میں بول رہی تھیں غالباً کوئی مسلمان ممبران پارلیمنٹ موجود نہیں تھا کہ وہ سشما کے اس سوال پر اعتراض کرتا ممکن ہے کہ سشما سوراج نے کئی اور بھی زہریلے سوالات کئے ہوں کیوں کہ جب وہ بیان دے رہی تھیں تو کئی بار محسوس ہوا کہ ان کے بیان کو ایڈٹ کیا جارہا ہے ۔
اگر ہم سشما سوراج کے مذکورہ بیان کو اسی عینک سے دیکھیں جس سے انہوں نے دیکھا اور ایک فرقہ کو ہی اپنی شعلہ بیانی کا نشانہ بنا ڈالا ۔اگر یہ دھماکہ اکبر الدین کی اس تقریر کا اثر ہو سکتا ہے تو کیا یہ توگڑیا کی تقریروں کا نہیں ہو سکتا ہے ؟اگر یہ انڈین مجاہدین کے نام نہاد دہشت گردوں کا ہو سکتا ہے تو کیا یہ بھونسلہ ملٹری ٹریننگ سینٹر سے تربیت یافتی پانچ سو لوگوں کا کیوں نہیں ہو سکتا جو کہ ہیمنت کرکرے کی تفتیش میں سامنے آنے کے بعد سے ہی غائب ہیں اور جس کے بارے میں مہاراشٹر حکومت اور مرکزی حکومت دونوں ہی سے متعد د بار سوالات کئے گئے لیکن خاموشی اور مکمل خاموشی ہے ۔آخر دھماکے کے بعد صرف حرکت الجہاد اسلامی اور نام نہاد انڈین مجاہدین ہی کا نام کیوں اچھا لا جاتا ہے ؟ سناتن سنستھا ،بجرنگ دل اور وشو ہندو جیسی ہندو تنظیموں کا نام کیوں نہیں اچھالا جاتا ؟یاسین بھٹکل اور وقار جیسے نام کو ہی کیوں اچھالا جاتا ہے پروین توگڑیا اور پرمود متالک کا نام کیوں نہیں گھسیٹا جاتا ؟ کیا یہ سشیل کمار کے بیان (جس پر انہوں نے معافی بھی مانگ لی ہے )کہ بی جے پی اور آ ر ایس ایس دہشت گردی کے اڈے ہیں پر بھگوا دہشت گردوں کی طرف سے انتقامی کارروائی بھی مانا جانا چاہیئے ۔ سشماجی کو اکبر الدین اور اسد الدین تو نظر آگئے لیکن انہیں توگڑیا کی زہر افشانی اورپرمود متالک کی بیہودہ بیان بازی کیوں یاد نہیں رہی کہ اس میں بھی وہ بم دھماکے کا سراغ ڈھونڈھنے کی کوشش کرتیں۔توگڑیا کا وہ بیان تو ابھی آن ریکارڈ ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’جب جب پولس ہٹی تو ہم نے آسام اور میرٹھ کے ملیانہ میں لاشوں کے انبار لگادئیے ‘‘ لیکن مہاراشٹر کی حکومت کو اس میں ابھی تک کوئی قابل اعتراض پہلو نہیں نظر آیا اسی لئے صرف ایف آئی آر سے آگے بات نہیں بڑھی ہے ۔ہمارا شک ہی نہیں یقین ہے کہ اس دھماکہ کا تعلق افضل گرو کی پبانسی سے ہو سکتا ہے لیکن وہ اس لئے کہ افضل گرو کی ہمدردی میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے جس پامردی کا ثبوت دیا تھا اس عوام کے ذہنوں سے ہٹانے کیلئے انہیں دوسری طرف الجھانے کیلئے خود آئی بی نے ہی یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہو ا۔یا آئی بی کا دوسرا کور گروپ سناتن سنستھا اور اس جیسی دوسری تنظیموں نے سشیل کمار کو جو کہ ایک دلت ہیں اور وزارت داخلہ جیسے اہم عہدہ پر ہیں اس سے ہٹانے کیلئے یا انکو اس بیان پر سبق سکھانے کیلئے یہ دھماکہ کیا ہو۔جس میں انہوں نے فاشسٹ طاقتوں پر راست حملہ کیا تھاجس پر وہ قائم بھی نہ رہ سکے اور معافی مانگ لی ۔کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔اس طرف بھی غور کیا جانا چاہئے تب ہی انسانیت کے یہ دشمن بے نقاب ہو پائیں گے۔
حالات ہر دن مسلمانوں کیلئے نا قابل برداشت ہوتے جارہے ہیں ۔الیکٹرونک میڈیا کے بعد اگر آپ آج کے پرنٹ میڈیا اور نام نہاد مین اسٹریم میڈیا میں نظر ڈالیں انڈین ایکسپریس ،ٹائمس آف انڈیا اور نو بھارت ٹائمز کے علاوہ سبھی اخبارات نے صرف اس بم دھماکہ کو ہی اپنے پورے صفحہ پر جگہ دی ہے انڈین ایکسپریس اور ٹائمس گروپ کا ٹائمس آف انڈیا اور نو بھارت ٹائمس نے اس خبر کے ساتھ گجرات کے آئی پی ایس افسر کی گرفتاری کو بھی اہمیت دی ہے ۔کم و بیش اردو اخبارات کا بھی یہی تاثر ہے صرف ایک اردو کے اخبار نے گجرات کے آئی پی ایس افسر کی گرفتاری کو اہمیت نہ دیکر اندر کے صفحہ پر دیا ہے باقی کے اردو اخبارات نے اپنی روایت کو برقرار رکھا ہے ۔سامنا نے تو حد ہی کردی کہ اس نے اپنے پورے صفحہ پر اسی خبر کو اس ہیڈنگ کے ساتھ ’’حید ر آباد پر اسلامی دہشت گردوں کا حملہ 30 ہلاک‘‘ جبکہ ابھی تک کی ہلاکت کی تصدیق بیس کی بھی نہیں ہے ۔مسلمانوں کو اس پر سامنا کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہئے ۔مسلم لیڈر شپ اگر کہیں ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اونچی عدالتوں میں اس کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ اس طرح کی شر انگیزی پر قابو پایا جاسکے ۔سامنا کی شرانگیزی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس نے نیچے ضمنی عنوان کے تحت سرخی لگائی ہے کہ ’’افضل اور اویسی کنکشن‘‘ اور تصویریں بھی افضل گرو اور اویسی کی لگائی ہیں ایسا ہی کچھ سشما سوراج نے بھی پارلیمنٹ میں کہا یعنی کہ اس طرح کے اخبارات ممبران پارلیمنٹ کو بھی گائڈ کرتے ہیں کہ انہیں پارلیمنٹ میں کس طرح کا بیان دینا ہے ۔کیا اب بھی ہمارے نام نہاد ممبئی اور مہاراشٹر کے مسلم قائدین صرف وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کو میمورنڈم دینا اور کارروائی کا مطالبہ کرنے سے آگے نہیں بڑھیں گے ۔

نہال صغیر۔موبائل۔9987309013

0 comments:

کمل ہاسن کی فلم ’وشوروپم ‘ممبئی کا مسلمان اور جنوبی ہند کی مسلم قیادت

کمل ہاسن کی فلم ’وشوروپم ‘ممبئی کا مسلمان اور جنوبی ہند کی مسلم قیادت
مجھے   فلموں سے یا اس میں پیدا ہونے والے تنازعات سے کبھی بھی زیادہ دلچسپی نہیں رہی لیکن حالیہ ریلیز ہونے والی کمل ہاسن کی فلم ’’وشو روپم ‘‘ کے بارے میں سن کر پھر اس کے کچھ سین کو ٹریلر کی صورت میں دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ اس سلسلے میں بے اعتنائی اور شتر مرغ کا ریت میں سردیناایک جیسا ہے ۔فلموں کو ہماری مذہبی قیادت خلاف شرع مانتی ہے ماننے کی وجہ بھی ہے لیکن محض اتنا کہہ دینے سے بات نہیں بننے والی ۔آخر ہمارے معاشرے کا آج جوبرا حال ہے اس میں فلم کا کم وبیش اسی فیصد سے زیادہ حصہ ہے ۔مسلمانوں کے خلاف بننے والی منفی رائے عامہ بھی اسی فلم کی وجہ سے ہے ۔موجودہ فلم میں جو کچھ دکھایا گیا ہے اس پر جن لوگوں نے بھی اعتراض کیا ہے وہ با لکل درست ہے ۔لوگوں نے الزام لگایا کہ بغیر دیکھے ہی ہنگامہ مچایا گیا ۔تو کیا فلم کو ریلیز ہونے کے بعد اس پر اعتراض کیا جاتا ۔جب تک اس پر بات ہوتی فلم ہفتوں سنیما ہالوں میں لاکھوں لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کر چکی ہوتی۔آخر سات گھنٹوں کی طویل میٹنگ کے بعد کمل ہاسن کو فلم میں سے قابل اعتراض مکالموں اور سین کو ہٹانے پر سمجھوتہ کرنا ہی پڑا۔
فلم وشو روپم کا تنازعہ بہت حد تک حل ہو چکا ہے اور عنقریب یہ فلم تمل ناڈ میں ریلیز ہو جائے گی ۔اس فلمی تنازعہ میں ایک بات قابل غور ہے کہ اس میں چنئی کے مسلمانوں کو کئی خامیاں نظر آئیں جس کا اظہار انہوں نے مختلف طریقوں سے کیا ۔نتیجہ سامنے ہے کہ حکومت بھی جھکی اور کمل ہاسن جو کہ بلیک میلنگ کرنے پر اتارو تھے اور انہوں نے ملک چھوڑنے تک کی دھمکی دے ڈالی تھی ان کا بھی رویہ ڈھیلا پڑا ۔لیکن اسی فلم کو ممبئی اور مہاراشٹر کے نام نہاد مسلم لیڈروں نے دیکھ کر کلین چٹ دیدی ۔اب عوام اس تذبذب میں ہیں کہ ایک ہی فلم پورے ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے قابل اعتراض ہے لیکن وہی فلم ممبئی اور مہاراشٹر کے مسلم لیڈروں کیلئے قابل قبول ۔آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ممبئی کے چند نام نہاد مسلم لیڈروں نے اسے کلین چٹ دیدی ۔ممبئی کی مسلم لیڈر شپ بے دین ہے یا زیادہ روادار یا جنوبی ہند کی مسلم لیڈر شپ زیادہ مذہبی یا غیر روادار اور دقیانوس۔ممبئی ایک عرصہ ہوا کہ مسلمانوں کے تعلق سے لا تعلق ہو چکی ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب یہاں مخلص ملی قیادت نہیں ہیں ۔جو لوگ مسلم لیڈر شپ کا بذعم خود دعویٰ کرتے ہیں ۔ان کی حقیقت کئی بار اخبارات کی زینت بن چکی ہے ۔آئے دن مسلم لیڈروں کا ڈیلیگشن وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ سے ملتا ہے کچھ رسمی باتیں مسلمانوں کے تعلق سے انتہائی معذرت خواہانہ اور خوشامدانہ انداز میں چند معروضات پیش کرنا اور بس ۔چلتے وقت وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ سے انہیں لیڈروں میں سے اکثر اپنے ذاتی کاموں کی لسٹ سونپ دیتا ہے ۔اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی اہمیت سیاست دانوں کی نظر میں کیا ہے ۔کھل کے کہا جائے تو اسے ایسا کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ قوم کا سہارا لیکر کانگریسی لیڈروں اور دیگر سیاست دانوں کے تلوے چاٹنے کو ہی اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔یہ تماشہ پچھلے بیس بائیس سالوں سے جاری ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ممبئی اور مہاراشٹر میں جن لوگوں نے بھی اپنی جان و مال کی قیمت پر قوم کی عزت و ناموس کی فکر کی ان شیروں کو خاموش کیا جا چکا ہے ۔اب یہاں کی مسلم سیاست پر مردہ خور گِدھوں کا قبضہ ہے جو ملت کے مردہ ہونے کا انتظام بھی کرتے ہیں اور انتظار بھی ۔اب یہاں وہ لوگ مسلم سیاست پر قابض ہیں جو شیر کی ایک دن کی زندگی نہیں گیدڑ کی سو سالہ زندگی کے خواہش مند ہیں ۔
پورے ملک میں میٹرو شہروں میں مجھے دو ہی شہر مسلمانوں کی عزت و وقار کی علامت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والے نظر آتے ہیں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی فکر نہیں کرتے ہیں ۔ایک کلکتہ اور دوسرے حید رآباد ۔دہلی اور ممبئی کے مسلمانوں سے غیرت اور حمیت رخصت ہو چکی ہے ۔اسی لئے ان دونوں شہروں میں رشدی آتا ہے اپنی شیطانی شکل اور سوچ کے ساتھ مسلمانوں کا منھ چڑاکر چلاجاتا ہے ۔تسلیمہ جیسی بدکار اور دریدہ دہن آتی ہے پناہ لیتی ہے حکومت اسے پناہ دیتی ہے اور صرف پناہ ہی نہیں دیتی بلکہ مسلمانوں کو ان کی اوقات بتلانے کیلئے ساری سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔مسلمان محض لاچار و مجبور دیکھتا اور خاموش رہ کر اپنی ذلت و رسوائی کا تماشہ دیکھتا ہے ۔ایسا کیوں نہ ہو کہ ممبئی میں بیس سال پہلے ایک مسلم لیڈر کو قتل کر دیا گیا ۔مسلمان نہ صرف خاموش رہے بلکہ بعض میر جعفروں اور میر صادقوں نے ان کے قتل میں رول بھی ادا کیا ۔قاتل آیا قتل کرکے چلاگیا ۔بڑے آرام سے اسے کسی نے پکڑنے کی کوشش نہیں کی ۔مسلم علاقوں میں کوئی سنسنی نہیں پھیلی کچھ ملت کے بہی خواہوں نے ضرور دوڑ دھوپ اور کفن دفن میں حصہ لیا انکے خوابوں کی جگہ میں انہیں دفن کر دیا گیا ۔وہی جگہ جو آج بھی ممبئی میں مسلمانوں کی واحد منظور شدہ پاش کالونی ہے جہاں ایک شاندار مسجد بھی ہے ۔ایسی کالونی نہ اس سے پہلے مسلمانوں کی تھی نہ آگے بننے کی امید ہے ۔
دوسال قبل ایسا ایک واقعہ شاہد اعظمی کا ہوا ۔قاتل اندر تک گھس کر اس شخص کو قتل کرکے چلا گیا جس نے بغیر فیس کی پرواہ کئے بے گناہ معصوم نوجوانوں کے مقدمے کو اس کے انجام تک پہنچانے کی کوشش میں رات کی نیند اور دن کا چین گنوایا ۔وہ جس نے پیسے بچانے کیلئے ہوائی جہاز اور ٹرینوں کے فرسٹ کلاس سے سفر کرنے کی بجائے سیکنڈ کلاس میں سفر کرنا مناسب سمجھا تا کہ وہ پیسہ مظلومین کی دیگر ضرورتوں میں صرف ہو۔ایسے محسن کی قوم نے فکر نہیں کی ۔میں نے وہ جگہ دیکھی ہے جہاں شاہد اعظمی کی شہادت ہوئی تھی ۔جہاں کسی کا یوں آنا اور اتنی بڑی واردات کو انجام دینا مسلمانوں کیلئے سوچنے کا مقام ہے۔موت کا ایک وقت مقرر ہے وہ اپنے وقت پر اور انہیں ذرائع سے آئے گی جو اللہ نے مقدر کر رکھا ہے ۔لیکن ان شخصیات کی موت کے بعد سوالات کا اٹھنا لازمی ہے ، جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ قوم کی عزت و ناموس کی بقا کی خاطر وقف کردیا ہو۔دونوں ہی عظیم شخصیات کے قتل کے بعد قاتل جائے واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور مسلمانوں کے چہروں پر سیاہی چھوڑ گیا ۔ اب حالت یہ ہے کہ دور دور تک سناٹا ہے کوئی بھی قوم کا ہمدرد اور بیباک نمائندہ نظر نہیں آتا ۔جو ہے وہ قوم کے غم میں حکام کے ساتھ ڈنر کھانے اور رنج لیڈر کو بہت ہے آرام کے ساتھ کا مصداق ہے ۔یہ کمی کیوں ہے ؟یہ اس لئے ہے کہ عوام میں بیداری نہیں ہے ۔اسے چند مسلک اور مناظرے باز مولویوں نے بری طرح تقسیم کر رکھا ہے ۔وہ اپنی توانائی کو فضولیات اور رنگ ریلیوں میں برباد کر رہا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ اسے یہ بات ذہن نشین کرادیا گیا ہے کہ وہ بہت ہی نیک کام کررہا ہے جس کا انعام جنت ہے ۔لیکن حال یہ ہے کہ قوم دنیا میں بھی ذلیل ہو رہی ہے اور مرنے کے بعد جو انجام ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے ۔
میڈیا ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کے معاملہ میں سیکولر زم اور رواداری کا جھنڈا بلند کرنا نہیں بھولتا ۔کئی اخباروں نے شہ سرخیوں میں’’ غیر روادار ہندوستان‘‘ کے عنوان سے خبریں شائع کیں ۔یہی میڈیا یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ آخر دنیا میں جو مسلمان بھی ہتھیار اٹھائے گھوم رہا ہے یا وہ جابر اور ظالم قوتوں کے خلاف برسر پیکار ہے ۔اسے ان حالات کیلئے مجبور کس نے کیا ؟خودکش حملہ ہو یا فلسطینی مجاہدوں کا انتفاضہ سب میں کیڑے مسلمانوں میں ہی نکالے جاتے ہیں ۔اور یہ سب کچھ مولانا وحید الدین اور طاہر القادری کو ساتھ لیکر کیا جارہا ہے ۔جنہوں نے دجال کذاب کی طرح صرف ایک آنکھ سے ہی دیکنے کی کوشش کی ۔کوئی یہ نہیں پوچھ رہا ہے کہ فلسطینی اپنی مظلومیت کی داستانیں پچھلے پینسٹھ سالوں سے بھی زیادہ سے دنیا کے نام نہاد امن کے ٹھیکیدداروں کے پاس لیکر گئے کسی نے صرف ہمدردی جتائی اور کسی نے انہیں دھتکار دیا ۔کسی نے بھی اسرائیل کی غاصبانہ کارروائیوں کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ۔لیکن جبر مسلسل اور دنیا کی طرف سے نظر انداز کئے جانے کی مسلسل کوششوں کی جب کئی دہائی گزر گئیں تب کہیں جاکر کسی لیلیٰ خالد نے ہوائی جہاز اغوا کیا ۔یا اس کے بعد انہوں نے خود کش حملہ یا پھر اسرائیلی ٹینک اور مشین گنوں کے مقابل اپنے حوصلوں کا غلیل چلاکر انتفاضہ شروع کیا تو وہ دہشت گرد ہو گئے ۔اور ایسے ہی دہشت گردوں پر کمل ہاسن جیسے لوگوں نے فلمیں بنانا شروع کیں اور یوں مسلمانوں کو پوری دنیا میں دہشت گرد کے طور پر متعارف کرانا شرع کرادیا ۔لیکن کمل ہاسن ہوں یا کوئی اور ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ دنیا میں پھیل رہے سنگھی دہشت گردی یا صہیونی دہشت گردی پر کوئی فلم بنائیں ۔آخر بھگوا دہشت گردی کے نیٹ ورک کو منظر عام پر آئے بھی تو چھ سات سالوں کا عرصہ گزر چکا ہے ۔لیکن لے دے کہ معصوم و بے گناہ مسلمان ہی بچتے ہیں جنہیں ہر طرح سے تنگ کیا جاسکتا ہے ۔آخر اس بکھری ہوئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی امت کا ریاستی ملکی یا بین الاقوامی سطح پر کوئی ہے بھی نہیں نہ جو کسی کو کوئی خوف ہوگا ۔جو ہیں وہ حکومت اور اسلام مخالف ایجنسی کے دلال ہیں جو ہر لمحہ اس شک کو مزید پختہ ہی کئے دے رہے ہیں کہ ’’اس قوم کی گلہ بانی اب بھیڑیوں کے سپرد ہے ‘‘۔
قابل مبارکباد ہیں جنوبی ہند کے وہ مسلم رہنما جنہوں نے اپنا حق ادا کیا ،جنہوں نے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی فکر کئے بغیر اپنے موقف پر اٹل رہے ۔شمالی ہند کے مسلم رہنماء اگر ہیں تو انہیں ان سے سبق لینا چاہئے اور امت کی سر بلندی کیلئے کام کرنا چاہئے اسی میں امت کے ساتھ ہی ان کی بھی سربلندی ہے ۔ورنہ امت ذلیل ہو گی اور وہ سربلند ہوں ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا ۔آخر ان میر جعفروں کی نظر تاریخ کے ان صفحات پر کیوں نہیں ہے جس میں میر جعفروں اور میر صادقوں کی فوری کامیابی کے ساتھ انکے ذلت آمیز انجام کے واقعات بھی درج ہیں۔ہر دور کے میر جعفروں اور میر صادقوں کا ایک ہی انجام ہوا ہے ذلت کی موت اور ہر دور کے سراج لدولہ اور ٹیپو سلطان کا ایک ہی انجام ہوا ہے شیر جیسی شاندار موت ۔جس کی موت نے دشمنوں کو بھی انہیں سیلوٹ مارنے پر مجبور کردیا تھا اور قیامت تک کیلئے وہ زندہ جاوید ہو گئے قوم ان کا تذکرہ عزت و احترام سے کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔یعنی ملت فروشوں کیلئے دائمی ذلت اور ملت کی سربلندی کیلئے جان دینے والوں کیلئے دائمی عزت و سرفرازی۔قدرت کا قانون ہے کبھی بدلا نہیں جاسکتا۔

نہال صغیر۔موبائل۔9987309013

0 comments:

http://www.urdutimes.net/?edate=2013/02/10&epg=07

0 comments:

انقلاب مسلمانوں کا ترجمان ہے یا آر ایس ایس کا ..... ؟

نہال صغیر۔معرفت ،رحمانی میڈیکل ۔سلفی گلی نمبر 3 ۔کاندیولی(مغرب)ممبئی 400067 موبائل۔9987309013 ۔ای میلsagheernehal@gmail.com 

بر صغیر میں اردو صحافت کی تاریخ بڑی تابناک رہی ہے ۔جب یہ خطہ انگریزوں سے آزادی کی لڑائی میں مصروف کار تھا تو صرف اور صرف اردو اخبارات اور اردو کے صحافی ہی نے اس کی قیادت کی تھی باقی نام نہاد مین اسٹریم میڈیا انگریزوں کا قصیدہ خواں تھا ۔دو اخبارات آج بھی موجود ہیں جن میں سے ایک کو 175 سال اور دوسرے کو 88 سال ہونے کو ہے ۔یوں تو یہ دونوں ہی اخبارات انگریزی کے قدیم اخبارات میں سے ہیں اور اب تک ان کا وجود اور ٹھاٹھ باٹ کے ساتھ ہے ۔لیکن ایسے کسی اخبار کا جنگ آزادی ہند کی لڑائی میں کوئی رول تو نہیں رہا ،ہاں انگریزوں کی ہاں میں ہاں ملانا انکی پالیسی کے لئے فضا سازگار کرنے کی کوشش کرنا یہی ان کا کام تھا ۔لیکن اس سخت دور میں جب کہ انگریزوں کی ملک مخالف سرگرمیوں پر نظر رکھنا اس پر انگشت نمائی کرنا دوپہر کی تیز دھوپ میں سخت گرمی میں صحارا کے ریگستان میں چلنے کے برابر تھا لیکن اردو اخبارات کے یہ مجاہد جو دیوانگی کی حد تک حب وطن سے سرشار تھے نے انگریزوں کی پالیسیوں پر نہ صرف یہ کہ تنقید کی بلکہ عوام کو ان کے خلاف ابھارا ۔1857 کی پہلی جنگ آزادی کے موقع پراسی جرم میں ہفتہ روزہ دہلی اردو اخبار کے مالک مدیر مولوی باقر علی کو سزائے موت دی گئی تھی یہ اردو صحافت کی تاریخ کا پہلا شہید تھا جس کو سچ بولنے اور لوگوں کو سچ کا ساتھ دینے کی ترغیب کے جرم میں توپ سے اڑادیا گیا تھا۔ اس کے بعد دسیوں ایسے اردو کے اخبارات اور سینکڑوں صحافیوں کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے انگریزوں کی ہر چال بازیوں اور ان کے ہر ظلم کا دندان شکن اور مدلل جواب دیکر انگریزی سرکار کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کردیا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے ہندوستانیوں کے مسائل کو سمجھنے جاننے کیلئے کانگریس کا قیام عمل لایا گیا۔
جب ہم اردو اخبارات اور اردو کے صحافیوں کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے اس کارواں کے ایسے ایسے سرخیل نظر آتے ہیں جن کو رہتی دنیا تک کیلئے اردو صحافت کا امام ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ان راہوں کے قندیلوں میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا آزاد،عبدلماجد دریاآبادی،مولانا مودودی، آغا حشر کاشمیری،محمد مسلم ،مولانا عثمان فارقلیط وغیرہ اردو صحافت کے وہ روشن مینارے ہیں جن سے آج کی اردو صحافت منور و تاباں ہے۔اسی طرح اردو اخبارات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ہمدر،الہلال و البلاغ،صدق جدید،چٹان،الجمعیتہ ،مسلم،وغیرہ جیسے نام آج بھی ہمارے حوصلے اور استقامت کیلئے راہ نما کی حیثیت رکھتے ہیں ۔یہ چند نام ہیں لیکن اگر تفصیل سے اس پر نظر ڈالیں تو اس کے بعد پورے کا پورا سیل رواں ملے گا ۔لیکن میری بحث کا موضوع ہماری اردو صحافت کی شاندار تاریخ نہیں ہے۔
جب آزادی کی جنگ زوروں پر تھی اور انگریزوں کے خلاف عوامی ابال نقطہ عروج پر تھا اس زمانے میں 1938 میں عبد الحمید انصاری نے ممبئی سے روزنامہ انقلاب کا اجراء کیاجس نے بعد کے دنوں میں ایک تاریخ رقم کی ۔انکی اولاد نے انقلاب سے کمائی ہوئی عزت شہرت اور دولت کو خود انقلاب کو ہی مٹانے کیلئے استعمال کیا اور مڈ ڈے ملٹی میڈیا قائم کر دیا ۔جس کے بارے میں اردو دنیا کم ہی کم واقف تھی کہ یہ انقلاب کی دین ہے اور کوئی ایسا اخبار اردو کا بھی ہے جس نے ایک ادنیٰ غریب مجاہد آزادی کی اولاد کو بہت بڑا سرمایہ دار بنادیا۔انقلاب کی بد قسمتی تو اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب اسے مڈڈے ملٹی میڈیا کے تحت کر دیا گیا تھا لیکن اس کی بد قسمتی کا نقطہ عروج تو اس وقت تھا جب دو سال قبل اسے ایک سنگھی اخبار کے گروپ کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا۔
اب انقلاب کی ڈور انسانیت کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنا مفاد حاصل کرنے والے گروہ کے ہاتھوں میں ہے ،جنہیں انسانی اقدار سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ مذکورہ اخبارات کے اسٹاف کی طرف سے بار بار یقین دہانی کرائے جانے کے باوجود کہ انقلاب کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی،باخبر اور باشعور قارئین اس بات کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکے کہ بڑی چابکدستی اورغیر محسوس طور پر انقلاب کی پالسی پر برہمنی ذہنیت اور منووادی کی پروردہ آر ایس ایس کا غلبہ ہوتا جارہا ہے ۔آر ایس ایس اور بی جے پی کی خبروں کو اہمیت دی جاتی ہے ۔معمولی سا بی جے پی کے اقلیتی شعبہ کے ذمہ دار کی خبروں کو اہمیت دیا جانا ،اے ٹی ایس کی خبر کے نام پر افواہ کو اہمیت دیا جانا وغیرہ کس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ابھی دو روز قبل ہی اے ٹی ایس نے اردو اخباروں کے ذمہ داران کی ایک میٹنگ بلا کر انہیں نام نہاد انڈین مجاہدین کے اے ٹی ایس کے فرضی مفرور ملزمین کی لسٹ فوٹو کے ساتھ دی گئی کہ اسے اپنے اخبار میں شائع کریں جسے اکثر اردو اخباروں نے نظر انداز کر دیا اگر کسی نے اس خبر (اے ٹی ایس کی طرف سے پھیلائی گئی ہر خبر افواہ ہی ہوتی ہے) کو جگہ بھی دی تواندر کے صفحہ پر ،لیکن انقلاب نے اس خبر کو نمایاں بلکہ پہلی خبر بناڈالا ،اس سے کیا مطلب نکالا جائے ۔افضل گرو کی متنازعہ پھانسی (بلکہ ظالمانہ زیادہ مناسب ہے)کو انقلاب نے اپنے اداریہ میں صحیح ٹھہرایا ۔جبکہ افضل گرو کی پھانسی پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے ہندوستانی حکومت کو سوالات کے ایسے گھیرے میں لیا ہے جس سے حکومت ہند پیچھا نہیں چھڑا پارہی ہے ۔لیکن انقلاب لکھتا ہے ’’اس سزا سے عدلیہ کا وقار ،حکومت کا اقبال ،اور آئین و قانون پر یقین رکھنے والی ہندوستانی قوم کا سر بلند ہوا ہے ۔یہی نہیں اس سے وطن عزیز کی غیر جانبداری بھی ثابت ہوئی ہے ‘‘۔جبکہ افضل گرو کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے جو کچھ لکھا ہے اس سے ملک عزیز کی غیر جانبداری اور انصاف پسندی کا پوری دنیا میں ایسا چرچا ہے کہ ملک کو دوسری بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔پہلی بار الہٰ آباد ہائی کورٹ کا بابری مسجد سے متعلق دیا گیا فیصلہ اور اب یہ فیصلہ اور اس پر عمل درآمد ۔ایک سینئر وکیل کی بات میں نے افضل گرو کے تعلق سے سنی جو کہ ویڈیو کی صورت میں ہے ’’اس نے کہا تھا کہ افضل گرو کے خلاف جو ثبوت ہیں وہ اس کا اعترافی بیان جو کہ پولس کے سامنے ویڈیو شوٹنگ میں لیا گیا اور اسے نیوز چینلوں پر ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس سے قوم کے ضمیر کی تعمیر ہوئی اور اسی قومی ضمیر کی تسکین کے لئے سپریم کورٹ نے مذکور بالا فیصلہ دیا ۔ اگر ہم سچ نہیں بول سکتے تو کم سے کم خاموش تو رہ ہی سکتے ہیں ،لیکن یہ کیا کہ ہم ظالموں کی حمایت ہی کرنے لگ جائیں ۔یوں تو انقلاب کے11 ؍فروری کاپورا اداریہ ہی قابل اعتراض ہے ۔اس پورے اداریہ کو پڑھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی آر ایس ایس کے اخبار کا ہی اداریہ ہے قارئین اس کے اداریہ کو پڑھ کر خود ہی اندازہ قائم کرسکتے ہیں۔اس مضمون میں اس پورے اداریہ پر بحث ممکن نہیں ہے ۔
انقلاب جب تک مسلم منیجمنٹ میں تھا تب تک کچھ غنیمت تھا لیکن اب تو اس میں شراب اور جوا کے ایڈ بھی آنے لگے ہیں ۔جس کے بارے میں کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کے ذریعہ اس پر پابندی لگائے جانے کے بعد مسلم معاشرہ اس سے کتنی نفرت کرتا ہے اور انقلاب کو بہر حال صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں پھر اس طرح کے ایڈ کس لئے اس ایڈ کو دیکھنے کیلئے آپ 30 ؍ دسمبر 2012 کے انقلاب کو دیکھ سکتے ہیں۔دوسری بات رشدی کی مڈ ڈے ملٹی میڈیا کے آفس میں آنا ۔واضح ہو کے انقلاب اسی ملٹی میڈیا کا حصہ ہے اور اس کا دفتر بھی اسی میں ہے ۔بعدمیں ہماری قوم کے چند نام نہاد قائد گئے ،مڈڈے ملٹی میڈیا کے ذمہ داران کی جانب سے ہمارے قائدین کو مطمئن کر دیا گیا کہ وہ ملعون ان کے دفتر میں نہیں آیا تھا اور یہ نام نہاد ہمارے لیڈر مطمئن ہو گئے۔جبکہ انقلاب کے دفتر کے ملازمین نے ہمیں یہ بتایا کہ رشدی یہیں آیا تھا ۔یہ چند باتیں بطور ثبوت پیش کئے گئے ہیں ورنہ انقلاب کا روزانہ بغور مطالعہ کیجئے اور خود ہی اندازہ کیجئے۔ہمارے جاننے والے کئی احباب نے کسی بھی قابل اعتراض مواد یا خبروں پر کٹنگ کے ساتھ انقلاب کے دفتر کو شکایات روانہ کیں لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں کی گئی ۔اس سلسلے میں ہمارے ایک دیرینہ دوست نے انقلاب کے ایک اہم اسٹاف سے اس بابت استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ میجمنٹ کی طرف سے یہ بات صاف کی گئی ہے کہ ہر حال میں اشتہار چھپے گا خواہ وہ کیسا بھی ہو کسی بھی چیز کا ہو،انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہاں انہیں اس بات سے کوئی تعرض نہیں ہوگا کہ آپ مضامین اور اداریہ کس سلسلے میں لکھ رہے ہیں ،لیکن اوپر جو حوالہ جات دئے گئے ہیں وہ اس بات کو صاف کر رہے ہیں کہ ایڈیٹوریل پالیسی اور خبروں کے انتخاب پر بھی ان کی نظر ہے ۔نہ صرف نظر ہے بلکہ اس کو سنگھی پالیسی کے حساب سے ڈھالنے کی بھی کوشش جاری ہے اور اسی پر باشعور اور باخبر قارئین کو اعتراض ،اور مجھے تشویش ہے ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ جو اخبارات غیر مسلم مینیجمنٹ میں جانے سے بچے ہوئے ہیں اس کو جانے سے روکیں ان کی سر پرستی کریں ورنہ ٹوٹی پھوٹی جو بھی آواز ان کی ہے وہ دبادی جائے گی اور پھر کوئی ان کی آواز بلند کرنے والا نہیں بچے گا۔
نہال صغیر۔موبائل۔9987309013
 

0 comments: