شام و مصر کی داستان بلاخیز، سعودی شاہ کا کرداراور ہندوستان میں ان کے ایجنٹ

جو لوگ شام پرامریکی حملے کی دھمکی کی مخالفت کررہے ہیں وہ بتائیں کہ اس کے علاوہ آپشن کیا ہے ۔پچھلے دو سالوں سے جس قدر بشارالاسد رجیم کی فوج نے نہتے عوام پر زندگی تنگ کی ہے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کا قتل کیا ہے ۔عورتوں اور بچوں تک کو اس کے وحشی فوجیوں نے درندگی کے ساتھ قتل کیا ہے ۔کیا اس کی نظیر بھی ملتی ہے ۔بشار الاسد کے باپ حافظ الاسد رجیم نے بھی ایسا ہی کیا تھا حمات شہر کو کھنڈر میں بدل دیا تھا اور اسی ہزار سے زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا تھا ۔ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہ صرف نام کے نہیں عملی مسلمان تھے اور وہ مسلم ملک میں لادینی قانون کے قائل نہیں تھے ۔ان کاعزم تھا کہ وہ اللہ کی سرزمین پر حق و انصاف پر مبنی قانون الہٰی نافذ کریں گے ۔لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد صہیونی سرمایہ داروں نے پوری دنیا کو یرغمال بناکر مسلم دنیا کو لسانی علاقائی مسلکی اختلافات کو ہوا دیکر ٹکڑوں میں بانٹنا شروع کیا اور وہاں اپنے پالتو حکمراں متعین کئے ۔ان پالتو حکمرانوں نے مسلم عوام پر وہ ظلم وستم کئے کہ ہلاکو اور چنگیز بھی نادم ہو جائیں ۔اگر اس پوزیشن میں دیکھیں تو لگتا ہے کہ غیر مسلم حکومتیں ظلم و ستم میں اتنی طاق نہیں جتنی مسلم نام والی حکومتیں ہیں۔اسرائیل بھی اس ظلم و ستم اور خون خرابے میں شاید سب سے پچھلی قطار میں نظر آئے ۔جب ہی تو مہاراشٹر کی فاشسٹ تنظیم شیو سینا کا ترجمان سامنا مصر میں فوجیوں کی درندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اتنی اموات اگر ہندوستان میں ہو گئی ہوتی تو دنیا میں بھونچال آجاتا پوری دنیا میں چیخ و پکار مچ جاتا ۔گجرات میں 2002 میں مودی کی حکومت میں مودی کے اشارے پر مسلمانوں کے قتل عام سے مودی ابھی تک پیچھا نہیں چھڑا پارہا ہے ۔غور کیجئے تو سامنا کا تبصرہ درست ہے دیکھئے فوجیوں کی درندگی پر دنیا کس طرح خاموش رہی۔نہ صرف خاموش رہی بلکہ دنیا کے سربراہان مملکت مصر جاتے رہے اور مصری فوج کے فرعون وقت السیسی سے ہاتھ ملاتے رہے ۔اس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ کسی کی ضمیر نے بھی دھتکارا نہیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا ضمیرصرف سو ہی نہیں گیا ہے ،مربھی چکا ہے ۔
مصر اور اخوان کے تعلق سے کچھ سیکولرسٹ صحافی اور سلفی علماء سعودی حکومت کی نمک خواری میں جو کچھ بیان کررہے ہیں اس میں دس فیصد بھی سچائی نظر نہیں آتی ۔سعودی حکومت کا حق نمک ادا کرنے کے لئے انصاف کی کوئی بات زبان سے نکالنے کو راضی ہی نہیں بلکہ دنیا نے جس جرم کو دن کے اجالے میں سرے عام دیکھا ہے اور جس کو یہودی اور سعودی دونوں کی حمایت حاصل تھی اس کی بھی تاویل کرتے نظر آرہے ہیں ،وہ بھی مصر کے المیہ کے پورے دو ماہ بعد اتنے دن کہاں تھے ۔کیا اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ انہوں نے اپنی اسٹریٹیجی طئے کی کہ یہودی نواز سعودی حکومت کا دفاع کس طرح کیا جائے،تب یہ بلوں سے باہر نکلے اور دشنام طرازی پر اتر آئے کہ اخوان کی ہی ساری غلطیاں ہیں ۔ان کی معلومات کا ذریعہ محض صہیونی میڈیا کے توسط سے آنے والی خبروں پر آمنا صدقنا والی بات ہے ۔خیر سے اگر کوئی سیکولرسٹ صحافی اگر یہ بات کرتا ہے تو اس کی بے دینی کی وجہ سے ایسی باتیں سمجھ میں آتی ہیں لیکن جب کوئی عالم دین ایسی کوئی بات کرے تو پھر دل یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ عالم دین کے بھیس میں کون ہے؟میں نے دو سلفی مولویوں کے مضامین دیکھے جس میں انہوں نے مصری فوج کو ایسا پیش کیا ہے مانو وہ بالکل معصوم ہیں جبکہ وہ درحقیقت مصر کو اس کھائی میں دھکیلنے والے گروہوں میں سے ہیں جس کھائی میں پچھلے دو سو سالوں سے مسلم دنیا کو پورا مغرب اور یہودی سرمایہ داردھکیلنے میں لگا ہوا ہے ۔ میں نے زیادہ تو نہیں لیکن جو کچھ مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر مصر و شام کے معاملات پر غور کیا ہے وہاں کے حالات کو دیکھا ہے اس سے بس یہ اندازہ لگایا ہے اورجو بعض ذرائع سے تصدیق شدہ ہے کہ مصر میں فوج کو وہاں کے دین بیزار اور نام نہاد سیکولر طبقہ اور ایک ایسی تنظیم جس کا تعلق سلفی مسلک سے ہے ،نے سعودی ،یہودی اور ایرانی فنڈ کے ذریعہ مرسی اور اخوان کے خلاف استعمال کیا ۔جس البرادعی نے سب سے زیادہ ہنگامی خیزی کی اور جو مرسی کیخلاف پہلے دن سے تھا ۔ جب فوج نے جس کو خون لگا ہوا تھا اس کی حقیقت کا پتہ چلا تو وہ بھی بول اٹھا کہ مرسی حق پر تھے ۔جس کی خبر عام اردو اخبارات میں آئی ہے ۔جہاں تک اخوان کی حکومت کے اہم عہدوں پر اخوانیوں کو بھرنے کی بات ہے اس میں بھی سچائی نہیں ہے ۔میرے پاس کئی ایسے اعداد شمار ہیں جو کہتے ہیں مرسی کی اخوانی حکومت نے اپنی تعداد سے بھی کم اپنے لوگوں کو ان عہددوں پر لگائے اور فراخ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے کئی اہم عہدوں پر ان لوگوں کو متعین کیا جو ان کے مخالفین میں سے تھے ۔

مصر میں مرسی حکومت کے خلاف جس احتجاج کی بات کی جاتی ہے اس کی سچائی اتنی ہی ہے کہ چند ہزار لوگوں کو ایک مصری تاجر جو امریکہ میں رہتا ہے کرایہ پر تحریر اسکوائر پر لے آیا اور اس کے آقا اسرائیل نے اس کی بھرپور مدد کی ۔جہاں تک احتجاج کی بات ہے تو حکومت مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کو اس عوامی احتجاج کا جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا ۔کیوں کہ اس سے بیس گنا زیادہ یا اس سے بھی زیادہ عوام نے مرسی کو ہٹائے جانے کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا لیکن اس پر کسی نے توجہ نہ دی ۔دراصل مصر میں پہلے دن سے ہی اخوان کے خلاف لبرل دہشت گرد وں نے مورچہ کھول رکھا تھا لیکن اس وقت وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے کیوں کہ معاملہ تازہ تھا اور عوامی رد عمل کے ساتھ عالمی ضمیر کے بھی بیدار ہونے کا خوف تھا اس لئے مرسی کی اخوانی حکومت کو مشکلات کے باوجود بن جانے دیا گیا ان کو کام نہیں کرنے دیا گیا ۔مصر میں گیس بجلی اور غذائی اجناس کی تنگی پیدا کی گئی اس میں پورا حکومتی کارندہ جس کی تربیت پچھلی حکومتوں نے کی تھی شامل تھا ۔بات یہاں تک ہے کہ گیس کے ٹینکر آتے تھے لیکن وہ ڈپو میں جانے کی بجائے صحرا میں جاکر گیس کو برباد کردیتے ۔جب اس پر مرسی کی حکومت نے گرفت کی اور اس میں مائیکروچپس لگا کر اس کے ڈائریکشن معلوم کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی کوشش کی تو ان کا تعاون نہیں کیا گیا ۔ان عرب ملکوں نے جنہوں نے مرسی کے رہتے ہوئے ایک پائی کی مدد نہیں کی ،مرسی کے ہٹتے ہی خزانے کا منھ کھول دیا ۔اس کے بعد عرب کے عیاش اور بد کردار حکمرانوں کے بیانات اور اسرائیل کی خوشی کا اظہار اور ایران کی منافقانہ روش سب یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ مصر میں حقیقتاً کیا ہوا ہے؟مصر کی النور پارٹی کے کردار پر شاہنواز فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں جو کچھ لکھا وہ کتنا صحیح ہے ۔وہ لکھتے ہیں’’سب سے زیادہ دلچسپ صورتحال سلفیوں کی جماعت نور پارٹی کے حوالے سے آئی ۔نور پارٹی نے مصر کے انتخابات میں 25 فیصد ووٹ حاصل کئے ۔اور یہ پارٹی خود کو اخوان سے زیادہ بنیاد پرست باور کراتی ہے ۔لیکن فوج نے صدر مرسی کے خلاف سازش کی تو نور پارٹی سیکولر عناصر کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور اس نے جنرل السیسی کو قوت فراہم کی ۔لیکن فوج کے قتل عام نے ایک ہفتے میں نور پارٹی کو بھی فوج سے فاصلہ بڑھانے پر مجبور کردیا،اور اب نور پارٹی کہہ رہی ہے کہ اگر فوج نے ملک کے آئین میں موجود اسلامی شقوں کو ختم کیا تو وہ مظاہرے شروع کردے گی۔لیکن نور پارٹی مظاہرہ کرے یا نہ کرے اس کے بارے میں سب کو معلوم ہو گیا کہ اس کا مسئلہ اسلام نہیں ،عرب حکمرانوں بالخصوص سعودی عرب کے حکمرانوں سے اس کی قربت اور ان حکمرانوں سے ملنے والی مالی امداد ہے‘‘۔یہی مسئلہ یہاں بھی ان علماء سوء کا ہے جن کو اخوان میں ہی کمیاں نظر آرہی ہیں۔عالم اسلام اور انصاف پسندوں کی نظر میں جو کاربد ایران نے شام میں مداخلت کرکے کیا ہے وہی بد کرداری سعودی شاہ نے مصر میں کی ہے ۔ اس لئے ایران اور سعودی شاہ دونوں ہی ملامت زدہ ہیں۔
دنیا میں پھر ایک نئی گروہ بندی ہو رہی ہے ۔چین عالمی افق پر نیاسپر پاور بن کر ابھر رہا ہے ۔ا س لئے روس ایک طرح سے چین کی نمائندگی کرتا ہوا نظر آرہا ۔چین کچھ مصلحتوں کی بناء پر کھل کر دنیا کی اس نئی گروہ بندی میں متحرک رول نہیں ادا کررہا ہے بلکہ وہ فی الوقت پردے کے پیچھے سے اپنا کام روس کی مدد سے کررہا ہے جس کی طرف بہت کم بلکہ نہیں کے برابر لوگوں کا ذہن جارہا ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ امریکہ کمزور ہو چکا ہے ۔وہ کیسے؟اس کو بلندی پر پہنچانے میں بھی اسرائیلی صہیونی سرمایہ داروں کا رول تھا تاکہ اسرائیل کی امریکہ کے ذریعہ غیر مشروط حمایت جاری رہے اور اب اس کو کمزور کرنے میں بھی انہی صہیونی سرمایہ داروں کا ہاتھ ہے کیوں کہ انہوں نے امریکہ اور یوروپ کے بجائے اب چین کو اس کے لئے چنا ہے ۔ہمیں غور کرنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ کے سینکڑوں مالی ادارے تاش کے پتے کی طرح بیٹھتے جارہے ہیں اور جتنی تیزی کے ساتھ امریکہ بیٹھ رہا ہے اتنی ہی تیزی کے ساتھ چین عالمی افق پر بلند ہو رہا ہے ۔ہاں امریکی قوت بالکل تو ختم نہیں ہوگی لیکن اس کی پوزیشن وہ نہیں رہ پائے گی جو ابھی تک ہے ۔مسلمانوں میں اب تک چین سے متعلق کوئی سوچ نہیں ہے جو ایک خطرناک طرز عمل ہے ۔ پورے مشرق وسطی کی اسٹڈی اسلامی تناظر میں کرنے کی ضرورت ہے ۔نہ کسی سے دشمنی نہ کسی کی طرف داری بلکہ حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرنا چاہئے ۔اسی تجزیہ کو مولانا سلمان حسنی نے پیش کیا ہے جس کے جواب میں عبد المعید مدنی اور فرقان مہربان علی صاحبان اپنی علمی قابلیت بھول کر جاہلوں کی طرح ان پر ذاتی حملہ کرنے لگے ۔ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا دستور قرآن و سنت پر مبنی ہے لیکن اس کا جواب ان کے پاس کیا ہے کہ مصرمیں اسلام پسندوں کی حکومت جس نے اپنا دستور قرآن وسنت ہی کو بنایا تھا اس کے خاتمہ میں کیوں رول ادا کیا ؟اور کیوں سعودی ،یہودی ،کویت اور ایران ایک ساتھ متحد ہو گئے ؟ان دونوں مولویوں کی نظر میں اخوان شدت پسند اور دہشت گرد ہیں جیسا کہ ان کے آقا سعودی نے بھی کہا ۔ظلم و نا انصافی کے خلاف غیر متشدد طریقے سے احتجاج کرنے والوں کو جنہوں نے اپنے متبعین کو سختی کے ساتھ ہتھیار اٹھانے سے روکا ہے ۔فوج نہتے لوگوں جن میں ضعیف ،عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں پر گولیاں برساتی ہے اصمان سے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ ان پر فائرنگ کی جاتی ہے ٹینکوں سے ان کو روند دیا جاتا ہے ۔اتنے سارے ظلم سہنے کے بعد بھی اگر کوئی یہودی زبان میں ان کو دہشت گرد شدت پسند کہے تو کیا لوگ یہودی سعودی گٹھ جوڑ کو سمجھنے میں حق بجانب نہیں ہونگے؟تعجب ہے کہ قرآن وسنت کے دستور کا اور ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا دعویٰ کرنے والوں کا عمل ایسا ہے کہ یہودی اور سعودی سب ایک ہی زبان میں بول رہے ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ سارے سلفی علماء ان دونوں کی طرح سطحی نظریات و افکار کے لوگ ہیں ۔نہیں ،بلکہ ان کے اندر بھی حق پسندوں کی کمی نہیں ہے ۔ ہندوستان میں بھی کئی جگہ پر کئی سلفی علماء نے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا گو ان کے افسوس اور دکھ کے اظہار میں دو ماہ کا عرصہ لگا ۔ان کی بھی کوچھ مجبوریاں ہیں ۔اس میں سب سے بلند نام مولانا سید اطہر حسین دہلوی کا ہے ۔جنہوں نے سعودی عرب کے گناہوں کی کھل کر تو نہیں لیکن کچھ عرب ممالک کا نام لیکر ضرور ان کے کردار کو افسوسناک کہا ۔اسی طرح میں جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں اس امام صاحب نے بھی نام لیکر نہیں لیکن عرب ممالک کہہ کر ان کے کردار کو افسوسناک کہا ۔پتہ نہیں کیا مجبوری ہے یا ان کا بھی کوئی مفاد وابستہ ہے ۔مولانا سلمان پر انتہائی رکیک حملہ کیا ہے ان سے میرا سوال ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے کسی ادارے کو امداد دینے کا مطلب کیا یہی لیا جائے کہ اگر وہ کوئی بدکرداری دکھائے کسی اسلام دشمن اور مسلم دشمنی پالیسی پر عمل کرے تو اس کی گرفت نہ کی جائے ؟اگر اسی مقصد کیلئے سعودی حکومت امداد دیتی ہے تو یہ رشوت ہے۔اور آپ لوگ ہی رشوت کا حق ادا کریں ۔مولانا سلمان حسنی جیسے عالم اگر اپنے وارث انبیاء ہونے کا حق ادا کررہے ہیں تو اس میں آپ جیسے مطلب پرست دین فروش اور اسرائیل نواز لوگوں کو برا ہی لگے گا اس کا کیا جائے ۔تاریخ ہم نے بھی پڑھی ہے اور اس میں آپ جیسے ابن الوقت عالم کے بہت سارے کردار ہیں اور ایسے ہی میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگوں کی وجہ سے ایسے بہت سارے علماء حق کو حکومت وقت کا عتاب جھیلنا پڑا تھا ۔وہی عتاب اب بھی سعودی اور مصرمیں علماء حق کو جھیلنا پڑرہا ہے ۔اگر ثبوت دیکھنا ہو تو اردو کے اخبارات میں یہ خبریں آہی گئی ہیں کہ مصر میں پندرہ ہزار علماء کے خطبہ جمعہ پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔سعودی سے بھی ایک خبر کی مثال دی جاسکتی ہے جو کہ ان ہزاروں خبروں میں سے ایک ہے خبر خلیج نیوز کے حوالے سے لندن سے شائع ہونے والے عربی رسالہ الحیات نے شائع کی ہے جس میں اٹھارہ امام جمعہ کو برخواست کیا گیا ہے ۔یہ خبر 11 ستمبر کے خلیج نیوز ڈاٹ کام کے اس لنک پر http://gulfnews.com/news/gulf/saudi-arabia/saudi-arabia-suspends-18-friday-preachers-1.1229834 دیکھی جاسکتی ہے ۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے شام و مصر کے حالات پر خطبہ جمعہ میں تبصرہ کیا تھا۔آل سعود کے کم ظرف اولادوں نے صاف ستھرے مسلمانوں کے گروہ کو عوام کی نظر میں مشکوک بنادیا ہے ؟دراصل ان ابن الوقت عالموں اور سعودی کے موجودہ کردار نے حق کے راستے میں کانٹے بچھائے ہیں ۔اسے پرخار اور دشوار گزار بنادیا ہے ۔
فرقان مہربان علی جیسے لوگوں کو یا تو معلومات نہیں ہے یاپھر انہیں عوام کو گمراہ کرنے کا ہی کام سونپا گیا ہے انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مصری صدر مرسی صدر مملکت بننے کے بعد سب سے پہلے سعودی عرب ہی گئے تھے اس کے بعد ہی کہیں گئے ۔ایک بات اور کہ آپ جس کی وجہ سے محمد مرسی کو الزام دے رہے ہیں ہمیں یہ بتائیں کہ کیا ایران کے ساتھ سعودی عرب کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں ۔دوسری بات یہ کہ کسی اہم موقع پر ایرانی صدر احمدی نژاد بھی سعودی عرب گئے تھے اور سعودی بادشاہ عبد اللہ نے ان کو اپنے بازو میں بٹھایا تھا ہم اسے ڈاکٹر صاحب کے نظریہ سے کیا سمجھیں ؟۔ڈاکٹر فرقان اور عبدالمعید صاحب کو شام میں شامی فوج اور بشار الاسد کا ظلم وستم تو نظر آتا ہے لیکن مصری فوجوں کا ظلم ستم اور ان کے ساتھ کھڑے ہوئے لوگ جن میں ان کے آقا بھی ہیں نظر نہیں آتے ان کا گناہ ان کو گناہ ہی نظر نہیں آتا جس پر دنیا کے انصاف پسند لوگ حیران و پریشان ہیں اوردنیا میں دوہرے معیار کا معائنہ کررہے ہیں ۔افسوسناک اور شرمناک بات ہے کہ اس دوہرے معیار کے لوگوں میں ڈاکٹر فرقان اور عبد المعید جیسے اہل ایمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں ۔آخر میں ہم صرف اتنا کہیں گے کہ مسلمانوں کی وفاداری صرف اللہ اور اس کے رسول سے ہے اور اس کے دل میں عقیدت و محبت کا مرکز مکہ اور مدینہ ہے ریاض تل ابیب اور واشنگٹن اس کی امیدوں کااور عقیدتمندیوں کا مرکز نہیں ہے اوروہ اس امام کا مطیع ہوگا جو مصالح امت کے خلاف یہود و نصاریٰ سے دوستی نہ کرے
۔ نہال صغیر۔ ممبئی ۔09987309013

0 comments:

تاکہ امریکہ سپر پاور نہ رہے



تاکہ امریکہ سپر پاور نہ رہے
مسلم دنیا کے بیشتر دانشور اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ 9/11 کی تخریب اور اس کے بعد افغانستان اور عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تخریب دونوں ہی پہلے ہی سے طے شدہ منصوبہ بند سازش جسے خود امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دنیا کی تشکیل نو کیلئے انجام دیا تھا ۔جبکہ امریکہ اور یوروپ میں اکثریت کا خیال اس کے برعکس ہے۔ان کا ماننا ہے کہ امریکی حکمرانوں کو مجبوراًایک طویل جنگ میں کودنے کا فیصلہ کرنا پڑا تاکہ مستقبل میں امریکہ پر کوئی اس طرح کا حملہ کرنے کی جرات نہ کرسکے ۔مگر خود امریکہ کو 9/11 کی دہشت گردی سے کیوں گذرنا پڑا اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ امریکہ نے غیر ضروری طور پر ویتنام ،صومالیہ ،لیبیا اور بوسنیا وغیرہ میں مداخلت کرکے دنیا کے سامنے اپنے سپر پاور ہونے کا دعویٰ پیش کیا ۔خود امریکی سیاست دانوں اور دانشوروں نے اپنی تہذیب و ثقافت اور قومی بالادستی کے جنون میں جرمنی کی نازی تنظیم کی تقلید کرتے ہوئے اپنے حکمرانوں کی اس مداخلت کو جائزقرار دیا ۔مگر 9/11 کے بعد افغانستان اور عراق میں امریکی فوجوں کی تباہی ، اموات اور امریکہ کی معاشی بدحالی کے بعد یہ نظریہ اکثر بدلا ہوا نظر آیا اور ہر طرف سے یہ آوازاٹھنے لگی کہ اب امریکہ کو کسی ملک میں مداخلت کی یہ غلطی کبھی نہیں کرنی چاہئے ۔امریکی صدر اوبامہ نے امریکی عوام کے اس رجحان کو بھانپتے ہوئے اپنے صدارتی الیکشن کے دوران افغانستان اور عراق سے امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا وعدہ یہ کیا اور اسی وعدے کی بنیاد پر کامیابی بھی حاصل کی اور پھر اقتدار سنبھالتے ہی عراق سے اپنی تقریباڈھائی لاکھ فوجوں کی واپسی کا عہد پورا بھی کیا اور 2014 میں افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی کیلئے طالبان سے گفتگو کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ایک ایسے وقت میں جبکہ مصر کے فوجی آمر حسنی مبارک اور تیونس کے ڈکٹیٹر زین العابدین جو پوری طرح مغرب نواز امریکہ اور اسرائیل کے پٹھو حکمراں تصور کئے جاتے رہے ہیں اور لوگوں کی سوچ بن چکی تھی کہ امریکہ کبھی بھی ان ممالک میں اپنے مفاد کی خاطر عرب آمریت کے برخلاف جمہوریت کو پنپنے نہیں دیگا ۔اوبامہ کی صدارت میں امریکی حکومت نے نہ صرف اس جھوٹ کو غلط ثابت کیا بلکہ پر امن طریقے سے ان ممالک میں عوامی تحریک کی کامیابی کا استقبال کیا ۔یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ امریکہ ہی کے پروردہ ہیں اور امریکہ مسلم ممالک میں اپنی مداخلت کیلئے دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کو کبھی ختم نہیں ہونے دیگا ۔اوبامہ نے اس منطق اور فلسفے کو بھی پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں دفن کردیا ۔یہ الگ بات ہے کہ ڈھائی سال بعد جب ایک بار پھر مصر میں فوج نے جمہوری حکومت کو بت دخل کردیا توکچھ لوگ فوج کی اس بغاوت میں بھی وہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں کہ یہ سب امریکہ کی حمایت کے بغیر ہوہی نہیں سکتا ۔جبکہ دانشوروں کو یہ نہیں پتہ کہ اس دنیا میں سب کچھ امریکہ ہی کی مرضی سے نہیں ہوتا ۔کچھ تو اللہ کی بھی مرضی سے ہوتا ہے تاکہ وہ ظالموں کا ہی نہیں ہم سب کے ایمان کو آزمائے کہ ہم کدھر جارہے ہیں ۔بلکہ ہمیں یوں کہنا چاہئے کہ سب کچھ اللہ ہی کی مرضی سے ہوتا ہے فرق اتنا ہے کہ اکثر وہ ایک ظالم کو دوسرے سے دفع کرکے اس دنیا کو فساد میں غرق ہونے سے بچالیتا ہے ۔پہلی دوسری جنگ اور افغانستان میں سرد جنگ میں بھی یہی ہوا ۔شام میں بشارلاسدکے قتل عام کو اگر سعودی عرب ،ایران اور نام نہاد حز ب اللہ کی فوجیں نہیں روک سکتیں تو کیا ہوا اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ یہی کام دوسری قوموں سے بھی لے لیتا ہے ۔ اس وقت اوبامہ کی صدارت میں امریکی ایمپائر ایک امتحان کے دور سے گز ررہا ہے ۔یعنی جہاں وہ اپنے عدم تشدد کے نظرئیے اور نوبل انعام کا احترام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ،انہیں دنیا کی نظر میں ایک حکمراں کی حیثیت سے امریکی بالادستی کے بھرم کو زندہ رکھنا بھی ضروری ہے ۔ایک سپر پاور ملک کا صدر ہونا بھی اتنا آسان نہیں ہے جیسا کہ آسانی کے ساتھ ہم بحث کر لیتے ہیں۔یعنی وہی لوگ جو مصر میں فوجی بغاوت کے بعد یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ امریکہ مصر میں مداخلت کرکے جمہوریت کو بحال کروائے ،وہی لوگ اس سے پہلے اوبامہ پر الزام بھی عائد کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے حقیقت میں عرب انقلابات کی حمایت کرکے اسرائیل کے اطراف میں گھیرا تنگ کردیا ہے کیوں کہ اس طرح اسلام پسند غالب آجائیں گے ۔اس طرح ایک طبقہ یہ چاہتا ہے کہ جمہوریت بھی ہو مگر لبرلزم کے لباس میں ۔مگر وہ یہ اقرار کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کہ مصر اور امریکہ کی تہذیب و ثقافت اور جغرافیہ میں فرق ہے ۔جبکہ سچائی یہ بھی ہے کہ مصر میں فوجی بغاوت سے پہلے اسد رجیم کی فوجیں ایک لاکھ سے زیادہ معصوم عوام کا قتل کر چکی ہیں ۔اس کا مطلب خود ایک مسلم ملک مصر میں فوج کی حمایت کرے اور دوسرے ملک شام اور امریکہ کی اور امریکہ ڈنڈہ لیکر سعودی عرب ایران شام اور مصر میں پہریداری کرتا پھرے ۔امریکہ کی اپنی مجبوری بھی یہ ہے کہ اب وہ نہ تو دنیا کا سپاہی رہا اور نہ ہی سویت روس کی طرح یونائٹیڈ اسٹیٹ یعنی متحدہ ریاست زیادہ دنوں تک متحدہ رہ پائے گی کچھ کہا نہیں جاسکتا اور جن غلطیوں کی وجہ سے روس کو ان حالات سے گذرنا پڑا کوئی بھی امریکی صدر نہیں چاہے گا کہ وہی غلطی اسے بھی کرنا پڑے۔ مگر شام میں امریکہ کی مداخلت اگر ہوتی بھی ہے تو یہ اس کی ایک مجبوری ہوگی ۔مگر چونکہ امریکہ کو اور امریکی صدر کو اس وقت ایک کمزور ریاست اور کمزور صدر کے طور پر مشتہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس نظریے کو غلط ثابت کرنے کیلئے امریکی صدر شام میں مداخلت کرنے کیلئے مجبور ہو سکتے ہیں۔جیسا کہ ان کے اس عزم کا اظہار مارٹن لوتھر کنگ کے اس اقتباس سے ہوتا ہے کہ "The arc of moral universe is long but best towards justice" کائنات کا حقیقی دائرہ وسیع ضرور ہے مگر یہ انصاف کی طرف ہی جھکتا ہے ۔اوبامہ نے حال ہی میں مارٹن لوتھر کی پچاسویں برسی کے دوران اس قول میں تھوڑا سا تحریف کرکے یوں کہا کہ "The arc may bend towards justice but it does not bend on its own " بے شک دائرہ انصاف کی طرف جھکتا ہے مگر یہ اپنے آپ نہیں جھکتا ۔دیکھا جائے تو اس بات میں ایک بہت بڑی سچائی اور پیغام ہے کہ اس کائنات کو چلانے والی کوئی طاقت ہے اور وہی اسے انصاف کی طرف جھکاتا ،نہ یہ کہ کائنات خود بخود اپنے آپ انصاف پر قائم ہے۔
اس وقت مصر اور شام میں جو حالات ہیں وہ اپنے آپ نہیں ہیں بلکہ بنائے گئے ہیں اور خود امریکہ کی مخالف طاقتیں امریکی جرات اور عزم کا امتحان لینا چاہتی ہیں کہ کیا امریکہ میں ابھی بھی سپر پاور ہونے کا وہی جذبہ اور حوصلہ باقی ہے یا نہیں ۔یہ خیالات امریکی دانشوروں اور کچھ سیاست دانوں کی طرف سے بہت ہی شدت کے ساتھ پیش کئے جارہے ہیں کہ امریکہ نے اگر اب خاموشی اختیار کرلی تو وہ ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا جائے گا ۔یوں کہا جائے کہ دنیا پھر دو قطبی طاقتوں میں بٹتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔دوسرے اتحادی اس وقت امریکہ کے ساتھ وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو کھیل امریکہ اور اس کی خفیہ تنظیم سرد جنگ کے دوران کھیل چکے ہیں ۔یعنی دنیا کا سیاسی دائرہ اپنے آپ نہیں جھک رہا ہے جھکایا جارہا ہے ۔
21 ؍اگست کو شام میں کیمیاوی حملوں سے تقریباًچودہ سو لوگوں کی شہادت کے بعد امریکہ نے جو سخت رویہ اختیار کیا ہے روس،چین اور ایران اس کی اس لئے مخالفت کررہے ہیں کہ یہ حملہ باغیوں کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے تاکہ بشارالاسد کے خلاف عالمی طاقتوں کی مداخلت کا جواز پیدا کیا جاسکے ۔جبکہ ایک مہذب سماج کی نمائندگی اور اخلاق و اقدار کی بات کرنے والے خود بھی یہ نہ کہہ کر اپنے آپ میں مجرم اور دہشت گردی کے حمایتی ہیں کہ بشار الاسد کے ظلم اور گناہ کی حد تو اسی وقت ختم ہو چکی تھی جب اس نے پورے شام کو کربلا کا میدان بنا ڈالا اور صرف دوسال میں اس وقت کے یزید نے لاشوں کے پہاڑ کھڑا کر دئیے ،اتنی تباہی کرنے کیلئے اسرائیل کو 65 سال کا سفر کرنا پڑا۔اس لئے شام پر حملہ کرنے کا یہ جرم صرف امریکہ ،فرانس اور برطانیہ ہی کیوں کریں۔اقوام متحدہ کے ماتحت سلامتی کونسل کو خود بہت پہلے ہی مداخلت کرکے ایک ایسے ظالم اور ڈکٹیٹر حکمراں کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ قائم کرنا چاہئے تھا جیسا کہ بوسنیا کے مسلمانوں کا قاتل سرب حکمراں میلو سیوچ کے خلاف کیا گیا۔اور وہ مصر میں فوجی حکومت کے خلاف مداخلت کرکے مرسی کی صدارت بحال کریں ۔بیشک شام کی شورش سے حوصلہ پاکر ہی مصری فوج نے مرسی حکومت کو معزول کرنے کی جرات کی اور شام میں ایران اور حز ب اللہ نے ظالم بشارالاسد کی مدد کرکے نہ صرف مسئلے کو پیچیدہ بنادیا بلکہ اس انقلاب کے رخ کو موڑنے کی سازش کی جو اکیسویں صدی میں اسلامی انقلاب میں تبدیل ہونا چاہتا تھا۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قطر کو چھوڑ کر عام عرب ممالک جنہیں اپنا ذاتی مفاد اور اقتدار عزیز ہے نے بھی مصر کی فوجی بغاوت میں اپنا تعاون پیش کیا ۔اس بغاوت میں خفیہ طریقے سے روس ،چین ،ایران ،حز ب اللہ اور اسرائیل سب نے مل کر ایک کھیل کھیلا ہے تاکہ خطے میں اسلام نہیں ان کی مرضی کی بالادستی قائم رہے ۔مصر میں امریکہ کی خاموشی کے بعد شام میں کیمیائی حملے کی سازش میں شامل حکمران اتحاد بھی شامل ہو سکتا ہے تاکہ امریکہ کو پوری طرح آزما لیا جائے کہ اب وہ پہلے کی طرح مرد نہیں رہا اور وہ جو اب بھی کسی خوف میں مبتلا ہیں امریکہ کی اس خاموشی کے بعد اپنے مستقبل کے عزائم کی تکمیل کیلئے تیزی کے ساتھ عمل کرنا شروع کردیں تاکہ امریکہ سپر پاور نہ رہے ۔اب دیکھنا ہے کہ حالات کس رخ کی طرف جاتے ہیں مگر یہ سچ ہے کہ اب امریکہ پہلے جیسا طاقت ور نہیں رہا اور اگر مسلم دنیا نے بھی اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچاننے میں غلطی کی تو وہ اپنی لاعلمی اور منافقت کے ہتھیار سے اور کچھ دن تک اسی طرح ذبح ہوتی رہے گی ۔
umarfarrahi@gmail.com 09699353811   عمر فراہی۔موبائل۔

0 comments:

وہ جو صراط مستقیم سے بھٹک گئے




ہٹلر نے اپنی کتاب ’’ میں کیمپف‘‘ (Mein kampf ) میں لکھا ہے کہ کمیونزم چونکہ خدا کے تصور کو تسلیم نہیں کرتا اس لئے اسے آفاقی بنانا ممکن نہیں تھا جبکہ یہودی سرمایہ داروں نے جس طرح پوری دنیا میں اپنی ناجائز صنعتوں کے جال کے جال بچھا رکھے ہیں اسے ترقی دینے کیلئے ایک ایسی طرز سیاست اور حکومتی نظام کی ضرورت تھی جو عام طور پر دنیا کی اس% 75 آبادی کیلئے قابل قبول ہو سکے جو کسی بھی صورت میں ان لوگوں پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں جو خدا کے منکر ہیں۔اسی لئے انہوں نے مذہب کو عوام کا ذاتی معاملہ قرار دیکر اس نظام سیاست میں سیکولرزم کی تحریف کرکے لبرل جمہوریت کانام دیدیا ۔بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ اس طرز جمہوری سیاست میں کوئی بھی حصے دار ہو سکتا ہے اور اس قدیم روایت کو مٹادیا گیا ہے جب راجہ رانی کے پیٹ سے ہی پیدا ہوا کرتا تھا اور شاید جمہوریت کی مقبولیت میں اس نظریے کا بہت بڑا عمل دخل بھی رہا ہے ۔مگر یہ صرف ایک دھوکہ ہے سچائی یہ ہے کہ راجہ اب سرمایہ دار وں کے پیٹ سے پیدا ہونے لگے ہیں اور پہلے تو صرف ایک راجہ پیدا ہوتا تھا اب تو جمہوری پارلیمنٹوں میں سینکڑوں راجاؤں کی قطار اور بھیڑ نظر آتی ہے یعنی اس طرز سیاست میں کوئی بھی جماعت اور قوم اس وقت تک حکومت اور اقتدار میں آہی نہیں سکتی جب تک کہ وہ سرمایہ داروں کی چوکھٹ پر سجدے نہ کریں یا ان کے ساتھ سرمایہ داروں کی مدد و حمایت نہ شامل ہو ۔ظاہر سی بات ہے جہاں سرمایہ داروں کا تعاون اور دخل لازمی ہوگا وہاں کوئی بھی قانون ان کی مرضی اور منشا کے خلاف کیسے بنایا جاسکتا ہے۔بد قسمتی سے پریس یعنی میڈیا کی آواز بھی سرمایہ داروں کی مدد اور تعاون کے بغیر موثر نہیں ہو سکتی اور یہ دیکھا گیا کہ کس طرح ایک اچھی تحریک اور اس کے تعلیم یافتہ اور باصلاحیت افراد کے خلاف منفی پروپگنڈہ کرکے رائے عامہ کو ان کا مخالف بنادیا جاتا ہے جبکہ ایک مفاد پرست جماعت اور ان کے بدعنوان لوگ پریس اور میڈیا کی پذیرائی سے انتخابات میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
آج کے دور میں امریکہ میں لبرل جمہوری طرز سیاست ایک ایسی تازہ مثال ہے جہاں الیکشن سے پہلے سیاسی پارٹیاں صدارت کے متمنی دو ایسے اہل امیدواروں کا انتخاب عمل میں لاتی ہیں جو ان میں سے پارٹی کو زیادہ فنڈ فراہم کرتا ہے اور ایک وقفے کے بعد اسے صدارتی امیدوار کے طور پر ریس کے میدان میں اتاردیا جاتا ہے جو سرمایہ دارانہ مسابقت کی دوڑ میں دوسرے سے زیادہ آگے نکل چکا ہو تا ہے۔اس کے برعکس پورے یوروپ اور برصغیر میں جہاں رائے شماری کی روایت اور بدعت قائم ہے کیا ان ممالک کے حکمراں یا پارلیمنٹوں اور اسمبلیوں کے ممبران عوام کے اصل نمائندے ہوتے ہیں یا پنچایت کے اس معیار اور اصول پر کھرے اترتے ہیں جس بنیاد پر جمہوریت کو شہرت حاصل رہی ہے ۔کیا حقیقت میں الیکشن الیکشن ہوتا ہے یا ریس کا میدان جن کی ہار جیت پر کرکٹ کی سٹے بازی کی طرح ہزاروں کروڑ روپئے کی رقم داؤ پر لگی ہوتی ہے اور گندگی کے اس حمام میں تمام سیاسی پارٹیوں کے لباس یکساں طور پر اترے ہوئے ہوتے ہیں ۔مگر حکومت اور ان کی پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کرکٹروں کے خلاف تو کارروائی کی گئی یعنی انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں بھی ڈالا گیا اور ماضی میں اظہر الدین اور جڈیجا وغیرہ پر تاحیات پابندی بھی لگائی گئی لیکن سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کی سٹے بازی کے خلاف کوئی جانچ اور گرفتاری کی آواز بھی کون اٹھائے جبکہ آواز اٹھانے والے خود اس بدعنوانی کے دلدل میں پورے کا پورا غرق ہیں۔ممتا بنرجی جو کہ اسی جمہوری سیاست کا حصہ ہیں اور ممکن ہے کہ اس بے ایمانی کی سیاست میں بھی ان کے اندر ایمان کی جرات باقی ہو اسی لئے میڈیا ان کی سیاست کو پسند نہیں کرتا اور ممتا بنرجی کو شکایت ہے کہ میڈیا ان کے خلاف پروپگنڈہ کرتا ہے ۔انہوں نے میڈیا اور میڈیا کے ذریعے مدعو کئے گئے لوگوں پر بھی حملے کرتے ہوئے بالکل صحیح کہا ہے کہ عصمت دری کے معاملے میں ہمارا میڈیا جن سماج سیوک کے نام سے کچھ نام نہاد شخصیتوں کو مدعو کرتا ہے ان میں سے اکثر عریانیت اور فحاشی کے کاروبار سے منسلک ہیں ۔
جمہوریت کا یہ بھی ایک عجیب تماشہ ہے کہ برسہا برس سے جس علاقے کی عوام نے اپنے قائد کی شکل و صورت ہی نہیں دیکھی وہ ممبئی مدراس سے آکر اتر پردیش میں امیتابھ بچن،راج ببر اور جیا پردا کا خوبصورت لباس اوڑھکر صرف اپنی دولت ،شہرت اور گلیمر کی بنیاد پر الیکشن جیت لیتے ہیں ۔یہ عوام کا دل بھی جیتتے ہیں یا نہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ عوام پر مسلط کئے گئے امیدوار ہوتے ہیں نہ کہ عوام کے اصل قائد اور نمائندے ۔سوال یہ ہے کہ اس طرح کے تھوپے گئے امیدواروں سے جو حکومت تشکیل پاتی ہے کیا آپ اسے لوک تنتر کہیں گے۔سچ تو یہ ہے کہ اس طرز سیاست اور حکومت کو ملوکیت اور آمریت سے بھی زیادہ اس لئے سنگین اور خطرناک قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ ان کی حکومتوں میں صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں اور سرمایہ داروں کی شکل میں ایسے سیکڑوں اور ہزاروں آمروں کی قطار کھڑی ہوجاتی ہے جن کا مقابلہ کیا اسی انتخابی سیاست کے ذریعے ممکن ہے؟بقول اروندھتی رائے جو لوگ الیکشن کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کیلئے آگے بڑھے تھے وہ خود بھی اسی الیکشن کے ذریعے تبدیل ہو گئے ۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ،نکسلزم اور ماؤ وادیوں کی دہشت گردی اور دہشت گردی کے الزام میں سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاری سے لیکر عصمت دری اور لوٹ کھسوٹ کے لاکھوں واقعات اور مسائل پر ہر روز بحث و تکرار موجودہ لبرل جمہوریت کی ناکامی کی ایسی منھ بولتی تصویر ہے جو پوری طرح واضح بھی ہے مگر سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کی دولت پر قائم لبرل میڈیا کی توجہ صرف ان لوگوں پر مرکوز ہے جنہوں نے پانچ سال تک عوام کو فریب میں مبتلا کیا ہے اور 2014 کے الیکشن میں یہ تاج کس کے سر پر ہوگا ۔بے چارے اناہزارے تو بیزار ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرچکے ہیں۔دیکھنا یہ ہے اروند کیجریوال گندگی سے گندگی کو صاف کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں ۔ہم تو بہر حال ہر پانچ سال بعد دھوکہ کھانے کیلئے تیار ہی رہتے ہیں اور کھاتے ہی رہیں گے مگر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا ؟مودی ،اڈوانی ،راہل گاندھی اور نتیش کمار کی سیاسی تقدیر تو بدلتی رہے گی مگر ملک کی سیاسی تقدیر کا کیا ہوگا ؟اس کا جواب ملک کے کسی سیاسی اور سماجی لیڈر کے پاس نہیں ہے ۔مگر جن کے پاس حل موجود ہے اب وہ سیاست کے امام نہیں رہے ۔

umarfarrahi@gmail.com 09699353811 عمر فراہی۔موبائل۔

0 comments:

پنجہ یہوداور تحریکات اسلامی کی مزاحمت


ایک طرف یہ عام خیال ہے کہ جمہوریت ہی دنیا کیلئے بہترین نظام ہے اور امریکہ اس جمہوریت کا علمبردار اور محافظ ہے ۔دوسری طرف یہی طبقہ اسی امریکہ پر یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ اسی نے القاعدہ اور طالبانی تحریک کو وجود بخشا اور سوویت روس کے خلاف ان مجاہدین کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا سوویت یونین کے زوال کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ خود طالبانوں کو حکومت سونپ کر اپنے استعماری عزائم کی تکمیل کیلئے مصروف ہوجاتا مگر اس نے ایسا نہیں کرکے اپنے محسنوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے 9/11 کی تخلیق کی اور اس کا سارا الزام اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر تھوپ کر افغانستان پر حملے کا جواز ڈھونڈ لیا تاکہ اسے افغانستان میں اپنا مستقل اڈہ قائم کرنے کا اخلاقی جواز مل جائے اور اسکے جمہوری ملک ہونے کا بھرم بھی برقرار رہے ۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی 2000 ؁ء میں ہی تورا بورا کی پہاڑیوں میں بے تحاشہ بمباری کرکے اسامہ بن لادن اور ان کے بہت سے ساتھیوں کو شہید کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ مگر اس نے جان بوجھ کر القاعدہ اور بن لادن کو زندہ رکھا تاکہ افغانستان میں اس کا قیام جاری رہے ۔اکثر مبصرین اور دانشوروں کے اس تبصرے کے بعد جو بات ہم سمجھ نہیں سکے وہ یہ کہ آخر جب امریکہ ہی نے القاعدہ اور طالبانی تحریک کو ہوا دی تھی اور یہ لوگ امریکہ کے اپنے ہی لوگ تھے تو پھر امریکہ کو 9/11 کا ڈرامہ تخلیق کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور اس نے کیوں اپنی تین بلند بالا عمارت کو تباہ کرکے اپنی معیشت کو تباہ کرلیا اور اب جبکہ اس کے کئی شہر اور شہری کارپوریشنوں اور مختلف اداروں نے اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ہے تو اب وہ انہیں طالبان سے خوشگوار ماحول میں بات چیت کے ذریعہ واپس لوٹنے کا منصوبہ بناچکا ہے جو کبھی اس کے دشمن ہوا کرتے تھے ۔جبکہ اگر اس نے 9/11 کی تخلیق نہ کی ہوتی اور طالبان کی حکومت کو قبول کرلیا ہوتا تو آج سپر پاور کے تاج سے محروم نہ ہوتا ۔سوال یہ ہے کہ امریکہ کی بدنام زمانہ خفیہ تنظیم سی آئی اے جو کہ اپنی شاطرانہ چال میں مہارت رکھتی ہے اور بیشک سرد جنگ کے دوران اس نے افغان مجاہدین کی جانبازی کا بھی مشاہدہ کیا ہوگا ۔ آخر اس نے امریکی سیاستدانوں کو وہی غلطی کرنے سے کیوں نہیں روکا جس غلطی کی وجہ سے سویت روس سمٹ کر صرف روس رہ گیا ۔اور ریاستہائے متحدہ امریکہ سمٹ رہا ہے ۔عنقریب وہ صرف امریکہ رہ جائے اور ریاستہائے متحدہ کا لاحقہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔مگر جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ بن لادن کو مرنے نہیں دے گا اس نے ایک دن پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں بن لادن کی شہادت کا اعلان کرکے تبصرہ نگاروں کی اس پیشن گوئی کو بھی غلط ثابت کردیا ۔اس کا مطلب کہ وہ افغانستان کے قدرتی وسائل سے جو فائدہ اٹھانا چاہتا تھا اٹھا چکا اور جنہیں خوف زدہ کرنا چاہتا تھا وہ خوف زدہ ہو گئے ؟ایک بہت ہی قلیل طبقے کا خیال ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوج اتارنے کی ضرورت بالکل نہیں تھی اور نہ ہی اس کا ایسا کوئی منصوبہ تھا مگر امریکہ کی نااہل قیادت کو 9/11 کی تخلیق کے ذریعے مشتعل کیا گیا تاکہ وہ افغانستان میں اپنی فوج اتارے اور اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ امریکہ جو سوویت روس کو شکست دینے کے بعد افغانستان کے دلدل سے باہر آچکا تھا اس کے بعد جس طرح طالبان اقتدار میں آگئے اور ان کے اقتدار میں القاعدہ نے عرب انقلاب کی بنیاد رکھی یا حکمت عملی پر غور کرنا شروع کیا یہ خبر اسرائیل اور اس کے مرکز دانش صہیونی مقتدرہ کے حق میں نہیں تھی ۔مگر افغانستان میں غیرت مند طالبانی حکومت کو جو کہ اپنے آپ میں ایک طاقتور جنگجو ہی تھے اور انہیں پاکستان اور ISI کی مدد بھی حاصل تھی ،بے دخل کرنا آسان نہیں تھا جیسا کہ یہود و مشرکین نے مصر کے فوجی سربراہ السیسی اور البرادعی کے ایمان اور ضمیر کو خرید کر اخوانیوں کو بے دخل کیا ۔قیاس ہی کیا جاسکتا ہے اور چند امریکی مورخین پر اعتماد کرتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یا تو القاعدہ کے ساتھ ملکر کچھ امریکہ مخالف ریاستوں نے امریکہ کو تباہ کرنے کیلئے اسے افغانستان میں آنے کی دعوت دی یا پھر موساد نے چین اور روس وغیرہ کی مدد سے 9/11 کی تخریب کو انجام دیا تاکہ امریکہ کے ذریعے القاعدہ اور طالبان کے نیٹ ورک کو بھی توڑا جاسکے جیسا کہ انہوں نے یہی غلطی روس سے کروائی تھی تاکہ افغانستان میں کمیونزم اور اسلام دونوں متصادم ہو کر ختم ہو جائیں اور اسرائیل ایک قطبی طاقت کے طور پر امریکہ اور مغرب کے ذریعے اپنے نیو ورلڈ آرڈر کو آسانی کے ساتھ پوری دنیا پر مسلط کرسکے ۔اور اگرامریکہ افغانستان میں روس کی طرح تباہ ہو بھی جا تا ہے تو بھی اسرائیل پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اپنی وفاداری بدل دے جیسا کہ نظر آرہا ہے ۔ جو کھیل امریکہ طالبان کو ملاکر کھیلنا چاہ رہا ہے اسرائیل اسے کبھی برداشت نہیں کرے گا اور وہ چین کے ساتھ مل کر ایک بار پھر سرد جنگ کی تاریخ دہرائے گا ۔مصر اور شام میں جو ڈرامہ ہو ااور ہورہا ہے وہ اسی صہیونی سازش کا ہی ایک حصہ ہے جو اپنی بقا کیلئے مسلسل پوری دنیا میں آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہے ہیں اور کھیل رہے ہیں ۔یہ لوگ یہ بھی جان رہے ہیں کہ جس لبرل اور کارپوریٹ جمہوریت کے ذریعے یہ لوگ ہندوستان پاکستان ،بنگلہ دیش اور مغربی ممالک میں ہر پانچ سال بعد اپنی مرضی کے حکمراں تبدیل کرکے اپنی ناجائز اور حرام تجارت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اسی جمہوریت اور انتخاب کے ذریعے عرب ممالک کی عوام ان کے مفاد پر حملہ آور ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ اس جمہوری طرز کی سیاست میں بھی ان کا قرآنی دستور پر مبنی شرعی قوانین پر عمل ہے جس نے ان کی ایمانی غیرت کو زندہ رکھا ہے۔کچھ لوگ جو کہتے ہیں کہ مصر کے اخوانی صدر ڈاکٹر مرسی سے جلد بازی کی غلطی ہو ئی ہے اور خاص طور سے سلفی رہنماؤں نے مرسی پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کی ضد کی وجہ سے فوج کو مداخلت کرنے کا موقع ملا وہ شاید بھول رہے ہیں کہ 1992 میں الجزائر کے اسلام پسندوں نے بھی جمہوری طریقے سے انتخابات میں حصہ لیکر کامیابی حاصل کرلی تھی ۔مگر ان کی کیا غلطی تھی جو فوج نے ان کو حکومت نہیں بنانے دیا ۔تاریخ کے اس پر آشوب دور کو ہم کیسے بھلا سکتے ہیں جب دولت عثمانیہ کے آخری خلیفہ عبدالحمید ثانی سے کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی مگر ان کی فوج میں شامل میر جعفروں اور میر صادقوں نے اپنے ایمان اور ضمیر کو یہودی سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کردیا اور انہیں عوامی بغاوت کے ذریعہ معزول ہونا پڑا۔ اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ ترکی کے حاکم عبدالحمید ثانی سے کوئی غلطی ہوئی بھی،سوویت روس نے بھی غلطی کی ،ہٹلر اور صدام حسین اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے قتل اور شہید ہوئے تو پھر امریکہ مرحوم سے ایسی کیا غلطی ہوگئی کہ وہ آج اپنے انہیں دشمنوں کے ساتھ ایک میز پر چائے پینے کیلئے آمادہ ہے جنہیں عوام نے جمہوری طریقے سے ایسا کرنے کیلئے منتخب بھی نہیں کیا ہے۔ہم تاریخ کے اس دور پر بھی نظر رکھتے ہیں جب حسن البناء ؒ ،قطب شہیدؒ ،مولانا مودودیؒ زینب الغزالی ،شیخ احمد یٰسین ؒ ،الرنتیسیؒ ،اقبالؒ ،علی میاں ندویؒ اور یوسف القرضاوی وغیرہ نے کسی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر کوئی حملہ نہیں کیا تھا مگر پھر بھی ان میں سے اکثر کو صرف ان کی علمی صلاحیت اور زور خطابت کی بنیاد پر حق کو حق کہنے کی وجہ سے شہید کیا گیا ،پھانسی کی سزا دی گئی ،اغوا کرنے کی کوشش کی گئی یا پھر سلاخوں کے پیچھے ڈال کر جبر تشدد کے دور سے گزارا گیا ۔یہی وہ حالات تھے جب پرامن تحریک و تدبیر اور جائز مطالبات کو بھی روندا اور کچلا گیا تو بعد کی نسلوں میں سے اکثر نے انتہا پسندی کا راستہ اختیار کیا جو کسی بھی تحریک کا نصب العین تو نہیں ہوتا مگر حالات مجبور کرتے ہیں کہ اس راستے کو اختیار کیا جائے ۔شام کا مسئلہ ہمارے سامنے ہے ،مصر کے حالات اسی رخ پر موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔تقریباً دو سو لوگوں کو ایک ساتھ مصری فوج نے گولیوں سے بھون دیا ۔شاید انہیں حالات سے بد ظن ہو کر الظواہری اور اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں نے ہتھیار اٹھالئے اور انہوں نے استعماریت اور صہیونیت کی سازش کو محسوس کرتے ہوئے افغانستان میں ان لوگوں سے ہاتھ ملا لیا جن سے آج امریکہ بات کرنے کو مجبور ہے ۔
بڑی عجیب سی بات ہے کہ دنیا کی دو مسلم تحریکوں اور تنظیموں کا یہ اتحاد ہمیشہ قابل مذمت رہا ہے مگر امریکہ القاعدہ اور طالبان کے گٹھ جوڑ کو سرد جنگ کے نام سے جائز اور تاریخی قرار دیا گیا ۔اکثر مسلم دانشور وں کی بھی یہ دلیل رہی ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے اس عملی جہاد سے عالم اسلام کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور ان کی وجہ سے افغانستان سو سال پیچھے چلا گیا ۔مگر عالم اسلام میں ایک فکر یہ بھی ہے کہ جس طرح صہیونی مقتدرہ اپنی چال چل رہے تھے کہ کمیونزم اور اسلام کو متصادم کرکے فنا کر دیا جائے ۔افغانیوں نے نہ صرف دونوں سپر پاور وں کا مقبرہ بنادیا اور ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ کمیونسٹ روس کے جبر سے وسطی ایشیاء کی جو مسلم ریاستیں وجود میں آئیں وہ اپنے طور پر یا جمہوری طریقے سے کبھی بھی یہ سوچ نہیں سکتی تھیں کہ وہ روسی سامراج سے آزاد ہو سکیں گی مگر ان کی یہ آزادی افغانستان کے اس عملی جہاد اور روس کی شکست سے ہی ممکن ہوسکی ۔دوسرا سب سے بڑا کارنامہ امریکی استعماریت کا خاتمہ ہے ،جسکے ذریعے اگر صہیونی اتحاد اپنے نیو ورلڈ آرڈر کو بغیر کسی روک ٹوک کے نافذ کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو تمام انسانی دنیا کیلئے مغرب کے غیر اخلاقی طوفان اور فحش سرمایہ دارانہ تہذیب سے نجات پانے کیلئے کسی فرمان الٰہی کا انتظار کرنا پڑتا اور پھر یہ لوگ جس طرح ایران کی اینٹ سے اینٹ بجاکر پتھروں کے دور میں پہنچادیتے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا مگر اسامہ اور اوبامہ دونوں نے ملکر ایران کو بچا لیا ایران کو اس کا احساس ہو یا نہ ہو مگر اوبامہ نے جس طرح خاموشی کے ساتھ عرب بہار کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اپنے خون کا حق ادا کیا ہے ۔کم سے کم عربوں کیلئے اپنے ان اسرائیل دوست حکمرانوں کو جمہوری طریقے سے بے دخل کرنا ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں تھا جیسا کہ ابھی بھی وہ امتحان سے گزر رہے ہیں مگر تبدیلی اب مسلم دنیا کی حقیقت بن چکی ہے جسے وقت کے یزید حسینوں کا سر کاٹ کر ناکام نہیں بنا سکتے اور ایک پائیدار انقلاب آکر رہے گا ۔انشا ء اللہ
umarfarrahi@gmail.com 09699353811
عمر فراہی۔موبائل۔

0 comments: