اخوان مصر کی حقیقت ہیں

2:21 PM nehal sagheer 0 Comments



مصر کی پوری صورتحال کو شام کی موجودہ صورتحال سے الگ نہیں دیکھا جاسکتا اور شام کی صورتحال کو بدلتی ہوئی عالمی صورتحال سے الگ نہیں دیکھا جاسکتا ۔اسی لئے مصر کی فوج نے مرسی کو برطرف کرکے شامی حکمراں جماعت اور ان کے حمایتی اسرائیل دوست نام نہاد لبرل طاقتوں کے خیمے میں جشن کا ماحول پیدا کر دیا ہے ۔جنہوں نے ہمیشہ ہی طیب ارودگان اور مرسی کی اسلام پسندی میں کیڑے ڈھونڈھے ہیں کیوں کہ ان مسلم حکمرانوں نے شامی عوام کی جدو جہد کی اخلاقی حمایت کی ہے ۔لوگ مصر میں اخوان المسلون کے خلاف کچھ بھی کہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ صدر مرسی نے اپنے اول دور سے وہی کیا ہے جو ایک مرد مومن کو کرنا چاہئے تھا ۔مثال کے طور پر انہوں نے سب سے پہلے حسنی مبارک کی وفادار فوج کے سربراہ فیلڈمارشل محمد حسین طنطاوی کو اس لئے معزول کیا تاکہ مصر کے تاریخی انقلاب کو فوج کی ممکنہ مداخلت اور عتاب سے محفوظ رکھا جاسکے ۔اس طرح انہوں نے عدلیہ پولس پریس اور حکومت کے اہم عہدوں پر اخوانیوں کی تقرری کیلئے راہ ہموار کیا تاکہ برسہا برس سے مصر میں جو بد عنوانی کا ماحول قائم ہے اسے ختم کرکے ملک کی معیشت اور اقتصادیات کو ترقی دی جائے جو کہ حسنی مبارک کے دور سے بے انتہا خسارے میں ہے ۔جس ملک کو پچھلے تیس سالوں سے لوٹا جارہاتھا اور عوام خاموش تھی اسی ملک میں کوئی بھی منتخب حکومت اور وہ بھی ایسے لوگ جنہیں اقتدار سے دور کیا جاتا رہا ہے ان سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ صرف ایک سال کی مدت میں کوئی معجزہ کر دکھاویں گے۔جب کہ اس طرح کے کسی بھی عمل کا رد عمل یا اثر ظاہر ہونے میں ایک وقت درکار ہوتاہے ۔اگر ایسا نہیں ہے تو بھی دنیا کی کسی جمہوری حکومت کا منتخب کیا جانا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے مکمل طور پر دوسرے انتخاب تک عوامی سند مل چکی ہے اور دنیا کا کوئی بھی مہذب قانون اس حکومت کی معزولی کی حمایت نہیں کر سکتا بلکہ یوں کہا جائے کہ اس حکومت کے خلاف کسی طاقتور ادارے کی طرف سے کسی بھی طرح کی کارروائی بغاوت اور فساد میں شمار کی جائے گی ۔حزب اختلاف کو اگر اپنی بات پیش کرنی ہے تو وہ پارلیمنٹ میں آواز اٹھائے نہ کہ سڑک پر ۔ہندوستان میں انا ہزارے ،رام دیو اور کیجریوال کی تحریک کے ساتھ موجودہ سرکار نے یہی کیا اور ترکی میں بھی احتجاجیوں کے ساتھ وہی کیا گیا جو حکومت اور قانون کو کرنا چاہئے تھا۔مصر کی فوج کو بھی یہی رویہ اختیار کرنا چاہئے تھا مگر اس نے ایسا نہ کرکے مرسی حکومت کو 48 گھنٹوں کی کا الٹی میٹم دیکر ایک منتخب حکومت کو معزول کردیا جیسے کہ فوج نے پہلے ہی سے منصوبہ بنا لیا تھا اور اس انتظار میں تھی کہ مظاہرین سڑک پر اپنی تعداد کا مظاہرہ کریں اور اسے حکومت برطرف کرنے کا جواز حاصل ہو جائے ۔جبکہ فوج کو یہ اختیار بالکل نہیں کہ وہ ایسا کرے اور اب جبکہ اس نے ایسا کرہی دیا ہے تو پھر دوبارہ اس احتجاج کا کیا کیا جائے جو جو مرسی کی حمایت میں ہورہے ہیں اور جس میں عوام کا جم غفیر اس بناوٹی احتجاج سے زیادہ ہے۔کیا فوج دوبارہ مرسی کو اقتدار سونپنے کی جرات کریگی ۔مگر اب اگر وہ ایسا کرتی بھی ہے تو فوجی سربراہ پر خود بغاوت اور قتل کا مقدمہ چلایا جائے گا جیسا کہ پاکستان میں مشرف کے خلاف کیا گیا ۔مصر کی صورتحال ایک نازک موڑ پر ہے فوج نے تقریباً سو لوگوں کو اپنی گولیوں سے ہلاک کردیا ہے اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فوج کے اس قدم کو مثبت قرار دے رہے ہیں ان کا ماننا ہے کہ ترکی میں جس انقلاب کو لانے میں طیب ارودگان کو پندرہ سال لگ گئے اخوان المسلمون کی حکومت اسے ایک سال میں ہی پورا کرلینا چاہتی تھی ۔ہوسکتا ہے اس حکومت سے فیصلے کی غلطی ہوئی بھی جسے غلطہ کہنا درست نہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ انہوں نے مصلحت سے کام نہیں لیا جیسا کہ ترکی میں طیب ارودگان کی حکومت نے اپنے بصیرت کا مظاہرہ کیا ۔جبکہ دونوں ہی حکومتوں کو بدعنوان لبرلسٹ اسلام دشمن طاقتوں کی مخالفت کا سامنا تھا اور حکومت کے اہم عہدوں پر ابھی بھی وہ نسل فائز ہے جن کی مائیں یہود و نصاریٰ میں سے ہیں اور انہوں نے لبرلزم اور کپیٹلزم کے علاوہ کوئی سبق پڑھا ہی نہیں ہے ۔اس کا مطلب بالکل یہ نہیں ہے کہ مصر میں اخوان شکست کھاگئے ہیں ۔اخوان اسی طرح مصر کی حقیقت بن چکے ہیں جس طرح افغانستان میں طالبان ایک حقیقت ہیں اور امریکہ دوبارہ ان کی حکومت قائم کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کررہا ہے اور پھر جو مسلسل میدان عمل میں ہوں ان سے اندازے کی غلطیاں تو ہوتی ہی رہتی ہیں اور اسی بنا پر انہیں پسپائی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے ۔کچھ انہی حالات سے احد کے میدان میں اسلامی فوجوں کو گذرنا پڑا اور دشمنوں نے وقت کے رسول ﷺ کا محاصرہ کیا اور رسول ﷺ کو پکار پکار کر کہنا پڑا یا ساری الجبل ۔مگر اس جنگ میں پسپائی سے کیا مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے ؟
ترکی میں نجم الدین اربکان کو فوج نے اس لئے معزول کردیا کیوں کہ ان سے ایک اسلامی نظم پڑھنے کی غلطی ہوگئی تھی مگر کیا فوج نجم الدین اربکان کے جانشینوں کا راستہ روک سکی ؟مصر میں مرسی حکومت کی بھی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ایمان اور اسلام کو ترجیح دیا اور ایک ایسی ریاست کی باگ ڈور سنبھالنے کی جرات اور ہمت دکھائی جسے حسنی مبارک نے لوٹ کر کھوکھلا کردیا ہے۔بیشک جو قدم بھی انہوں نے اٹھایا وہ اپنے ساتھیوں کے مشورے سے ہی اٹھایا اور پھر جو لوگ نہ صرف مصر میں بلکہ پورے خطے میں پچھلے اسی سالوں سے تحریک چلارہے ہیں جن کے آباء و اجداد کو گولیوں سے بھون دیا گیا یا جیلوں میں تشدد کے راستے سے گذرنا پڑا وہ ہم سے بہتر سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے حق میں کیا بہتر ہے ۔مصر کی عوام کیا چاہتی ہے اور نئی نسل کی امنگ اور ترجیحات کیا ہیں ؟اپنے اسی ایمانی جذبے کے تحت اخوانی حکومت نے ایک قلیل مدت میں خارجہ امور پرتوجہ مرکوز کی اور صدر مرسی نے روس ،ہندوستان اور ایران کا دورہ کیا تاکہ ملک شام میں ایک ظالم حکمراں کو قتل عام سے روکا جائے اور شامی عوام کی مدد کرکے اس انقلاب کو کامیاب بنایا جائے ۔شاید ان کا یہ سب سے بڑا گناہ تھا کہ انہوں نے شام کے ایک ظالم حکمراں بشار الاسد کے خلاف ہی محاذ کھول دیا اور بظاہرجو ان کے دوست تھے منافق کا کردار ادا کرنے لگے ۔اور یہ بھی ممکن تھا کہ جس طرح کے اقدامات انہوں نے پچھلے ایک سالوں میں کئے تھے اس کے اثرات تھوڑے دن بعد ظاہر ہونا شروع ہی ہوجائے اور ترکی کی طرح مصر کی معیشت میں بھی ترقی کے آثار نظر آنے لگتے مگر اسرائیل دوست لبرل طاقتیں جو پہلے ہی ترکی کی اسلام پسند حکومت کی ترقی اور کامیابی سے خوفزدہ ہیں مصر میں ایک اور اسلام پسند حکومت کی کامیابی کو کیسے ہضم کرسکتی تھیں۔جبکہ ایران پر معاشی ناکہ بندی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مآثر محمد اور طیب ارودگان کی طرح ایک تیسری مسلم ریاست کی کامیابی سے اسلام پسنداور مسلم حکمراں اور مسلم حکومتیں ان لوگوں کیلئے مشعل راہ نہ بن جائیں جو کپیٹلزم اور لبرل جمہوریت میں اپنی نجات کا راستہ ڈھونڈھ رہے ہیں ۔۔مگر اب یہ جدید نسل بھی اس طرز سیاست کی بدعنوانی اور حرام خوری اور مسابقت سے بدظن ہو چکی ہے اور ایسے راستے کی تلاش میں ہے جہاں رواداری ،انکساری مساوات، رحم اور فلاح و بہبود کا عملی مظاہرہ ہو تا ہو۔مصر ،ترکی اور ایران وغیرہ میں تحریکات اسلامی کو پچھلے ستر اسی سالوں سے تمام تر ظلم و زیادتی اور تشددسے گذرنے کے بعد کامیابی ملی تو وہ اسی زکوٰۃ فنڈ اور فلاح و بہبود کا مساواتی نظریہ تھا اور وہ زندہ رہ کر اک انقلاب لانے میں کامیاب رہے ۔اب یہودی سرمایہ داروں اور بشارلاسد کے حمایتیوں نے جس دولت اور سرمائے کی بنیاد پر فساد برپا کررکھا ہے ان کی طاقت ایمان و یقین اور صلوٰۃ،زکوٰۃاور صوم کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور ہم پچھلے سو سالوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو دیکھتے ہیں کہ کس طرح اربوں کھربوں ڈالر کے خرچ سے تحریکات اسلامی کی طاقت کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی گئی مگر باطل طاقتیں خود ایمان و یقین کے ان شہیدوں سے ٹکرا کر چور چور ہوگئیں اور جہاں خلافت عثمانیہ کے بعد سعودی عربیہ میں صرف ایک اسلامی حکومت قائم ہوئی اس کے بعد ایران و افغانستان ،الجیریا اور ترکی میں اسلام پسندوں کی کامیابی باطل کی شکست کا نمونہ ہیں اور اب عرب بہار کے طوفان نے امریکہ اور مغرب تک کو ان کی حمایت کیلئے مجبور کردیا ہے۔ مگر جیسے یہ بات ابھی بھی کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے وہ ہے قوم یہود جسنے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے اتنے پہاڑ توڑے ہیں کہ اب وہ اپنی موت سے خوفزدہ ہیں ۔شاید اسی لئے علویوں اور یہودیوں اور ان کے حمایتیوں نے اپنے سرمائے اور اثر و رسوخ کی طاقت سے اس انقلاب کے خلاف پورا زور لگادیا ہے اور مصر میں جو ناممکن تھا اسے ممکن بنا دیا ہے اور خوش ہیں کہ انہیں کبھی زوال نہیں آنے والا ۔جبکہ قرآن کا فرمان ہے کہ ’’انہوں نے اپنی ساری چالیں چل دیکھیں مگر ان کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ ان کی ہر چال ایسی غضب کی تھی کہ پہاڑ بھی ٹل جائیں ‘‘سورہ ابراہیم آیت :46 ۔
وہ لوگ جو مصر میں اخوان المسلمون اور تحریکات اسلامی سے اپنے ایمان اور یقین کی وجہ سے ہمدردی رکھتے ہیں ان کا حال ایسا ہی ہے جیسے کہ مکہ میں وقت کے رسول اور ان کے ساتھیوں کا تھا یعنی وہ جب مشرکین کو حق کی دعوت دیتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے کہ دیکھو ایک وہ بھی تھے جو خدا اور رسول ﷺ پر یقین رکھتے تھے اہل کتاب رومیوں کو فارس نے شکست دیدیا ۔اس کا مطلب کہ رومیوں کا خدا کمزور ہے ۔اس بات سے جب نبی ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو مایوسی ہوئی اور رنج پہنچا تو اللہ نے وحی نازل کی کہ ’’رومی قریب کی سرزمین پر مغلوب ہو گئے ہیں اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ پھر غالب ہو جائیں گے ۔اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور وہ دن وہ ہوگا جب کہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے ‘‘سورہ روم کی ابتدائی آیتیں۔
مصر اور ترکی دونوں جگہوں کی احتجاج کا جنہوں نے بغور جائزہ لیا ہوگا وہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ سب اسی طرح امریکہ کے خلاف اپنے بیانات سے اپنا غصہ اتاررہے تھے جیسے کہ کچھ عرصہ پہلے امریکی صدر اوبامہ کے اسرائیل دورے پر ان کو یہودیوں نے برا بھلا کہا اور ان کے خلاف احتجاج و مظاہرہ کیا اور یہ سب اس لئے کہ اوبامہ نے عرب انقلاب کی حمایت کی تھی اور اسرائیل کے ان دوست آمروں کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا ۔عالمی صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے تھنک ٹینک اپنی بوکھلاہٹ میں وہی غلطی کریں گے جو قوموں کے زوال کی تاریخ بن جاتی ہے یعنی یہود و مشرکین کا اتحاد جس میں اسرائیل ،روس اور چین سر فہرست ہونگے ۔کچھ مسلم ملکوں کے ساتھ اسلام اور نصاریٰ کا دشمن ہو گا اس اتحاد میں یوروپ امریکہ اور وہ مسلم ممالک ہو سکتے ہیں جہاں اسلام پسندوں کی حکومت ہے یا ہو سکتی ہے ۔اور ممکن ہے کہ یہودی جس آرماگیڈون کی یعنی تیسری جنگ عظیم کی باتیں کررہے ہیں اسے اتحاد کے درمیان ہو اور دنیا تباہ و برباد ہو کر ایک مشکل دور میں داخل ہوجائے اور دجالی مسیح اور عیسیٰ مسیح کے نزول کی پیش گوئی پوری ہو ۔مگر ہمیں قیامت کی باتیں کرکے بھی کیا فائدہ ۔ہمیں ہے حکم اذاں لا الہ الاللہ ۔اسے تو اپنے وقت پر آگاہی ہے۔

 عمر فراہی۔موبائل۔09699353811  umarfarrahi@gmail.com

0 comments: