کیا شام مشرق وسطیٰ کا افغانستان بنے گا؟

2:53 PM nehal sagheer 0 Comments



شراب کا نشہ وقتی ہوتا ہے جو کچھ دیر کے بعد اتر بھی جاتا ہے اور اس برائی پر حکومت اور قانون کے ذریعے آسانی فتح پانا ممکن بھی ہے مگر دولت ،شہرت اور اقتدار کے نشے میں جو قومیں غرق ہو جاتی ہیں یہ اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک کہ بہت سی قومیں تباہ نہ ہوگئیں ہوں یا انہوں نے اپنے نشے میں پورے ملک اور علاقے میں آگ اور خون کا دریا نہ بہا دیا ہو۔وقت کے چنگیز ہلاکو ،ہٹلر ،مسولینی،لینن،اسٹالن،اور برطانوی روسی اور مغربی سامراجیت نے انسانوں کے خون سے جو تاریخ رقم کی ہے جاپان،افغانستان اور فلسطین وغیرہ آج بھی ان کے لگائے گئے زخموں سے کراہ رہے ہیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس تباہی اور خون خرابے کے پیچھے ان طاقتور حکمرانوں ،ملکوں اور قوموں کا کوئی صالح یا بامقصد نظر یہ تھا تو پھر آپ یا تو بہت بھولے ہیں یا پھر کہیں نہ کہیں سے آپ خود بھی ان کی دولت شہرت اور اقتدار کی بھوک اور لذت میں شریک ہیں اور آپ کا مفاد وابستہ ہے۔جبکہ یہ لوگ خود اسی آگ کا نوالہ بن گئے اور ایسا سمٹ کر رہ گئے کہ کوئی اچھے القاب اور ادب و احترام سے ان کا نام لینے والا بھی نہیں رہا۔اس کے برعکس ابراہیم ؑ سے لیکر حسنؓ ،احمد بن حنبلؒ ،محمد بن قاسمؒ ،سید قطبؒ اور اسمٰعیل شہید ؒ آج بھی لوگوں کے دلوں کی زینت ہیں اور اللہ نے ان کے مقام کو بلند کر رکھا ہے۔
اس وقت ملک شام کی صورتحال تاریخ کے اسی دوراہے پر کھڑی ہے جو کبھی افغانستان اور نجیب اللہ کی تھی جس نے وقت کے سوپر پاور روس کی مدد سے لاکھوں افغانی عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو صرف اس لئے روسی ٹینکوں اور بلڈوزروں سے کچل ڈالا کیوں کہ وہ اپنی شہرت دولت اور اقتدار کے نشے میں بھول گیا تھا کہ اقتدار اور قوت صرف اللہ کیلئے ہے۔انسان تو صرف اس کا محافظ اور خلیفہ ہے۔پوری دنیا نے افغانستان کے اس ہٹلر کا تماشہ دیکھا فرق صرف اتنا ہے کہ ہٹلر کے چاہنے والوں کو ہٹلر کا دیدار نصیب نہ ہو سکا مگر نجیب اللہ کو اس کے دشمنوں نے ہلاک کرکے پیڑ سے لٹکا دیا تاکہ مستقبل کے ظالم حکمراں عبرت حاصل کریں کہ دیکھو ظالموں کا یہی حشر ہوتا ہے ۔حال میں تیونس اور مصر کے آمر خوش قسمت تھے جو انہوں نے اپنی مٹی کو پلید ہونے سے بچالیا مگر وقت کے کاغذی شیر کرنل قذافی جو ہمیشہ اپنے ساتھ محافظ کے طور پر صرف کنواری لڑکیوں کو اس لئے رکھتے تھے کہ فطرتاً عورتیں زیادہ وفادار ہوتی ہیں۔ ان کی کوئی تدبیر کا م نہیں آئی اور ان کے انہی دشمنوں نے چوہے کی طرح سرنگ سے باہر کھینچ کر نکالا جن کے بارے میں قذافی نے اپنی موت سے کچھ قبل ہی کہا تھا کہ یہ لوگ کتے ،چوہے اور بلی کی اولادیں ہیں اور ہم اور ہماری وفادار فوج بہت جلد ان کا خاتمہ کردیں گے ۔یہ کرنل قذافی کے اقتدار کا نشہ ہی تھا جس کے جنون میں وہ اپنے حشر کو بھول گئے تھے جو اکثر حکمرانوں کا ہو چکا ہے اور بہت سے حکمرانوں کا حشر انہوں نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا تھا۔ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ آخری وقت میں جب ان کے مخالفین اور ان کے اپنے ہی باشندے اپنے بادشاہ کو لات اور گھونسے اور چپل جوتوں سے پٹائی کرتے ہیں اور بادشاہ گڑ گڑاتے ہوئے اپنی جان کی سلامتی کی اپیل کرتا ہے جبکہ واقعی اگر وہ حق پر تھے تو لڑکر شہید ہوجاتے یا پھر حسنی مبارک اور زین العابدین کا حشر دیکھتے ہوئے عوام کے حق میں مستعفی ہوکر عوامی جمہوریت کے عمل میں اپنا تعاون پیش کرتے ۔مگر تاریخ میں سب حسینؓ اور عبداللہ ابن زبیرؓ نہیں ہوتے ۔تاریخ میں ایک غیر مسلم شکست کھاتے ہوئے بادشاہ پورس کا کردار بھی عزت و احترام کے ساتھ اس لئے لیا جاتا ہے کہ اس نے ایک ایسے حکمراں کے خلاف اپنی فوج کو میدان جنگ میں اتارا جو اس وقت کا فاتح عالم کہا جاتا تھا جس کا نام سکندر تھا اور جس نے پورس جیسے بادشاہوں کو صرف اپنی دھمکی سے ہی اپنا ماتحت بنالیا تھا مگر پورس اپنے ملک کو بغیر جنگ کئے سکندر کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا اور جنگ کی اس حالت میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پورس کی فوجیں شکست کھانے لگیں ان کے حوصلے پست ہونے لگے ۔پورس کو اپنی شکست اور سکندر کے عتاب پر یقین ہو چکا تھا اس کے باوجود وہ اپنے ہاتھی سے نیچے کود پڑا اور سکندر کی فوجوں کے بالمقابل لڑتے ہوئے گرفتار ہو گیا اور سکندر کے سامنے پیش کیا گیا ۔سکندر نے پوچھا پورس تمہیں بتاؤ کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟پورس نے کہا جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے سلوک کرتا ہے ۔سکندر نے اس کے اس جواب سے خوش ہو کر اسے اس کی سلطنت کو واپس کردیا اور اسے اپنا دوست بنالیا کیوں کہ پورس کو واقعی بادشاہ ہونے کا حق تھا اور بادشاہ کی خصلت یہ ہوتی ہے کہ جس طاقت سے وہ ملکوں کو فتح کرتا ہے وہ عوام کا محافظ ہو تا ہے اور مشکل وقت میں عوام کی حفاظت کرتے ہوئے اسی طرح شہید ہو جاتا ہے جیسے کہ ایک حوصلہ مند اور غیرت مند ملاح ڈوبتی ہوئی کشتی کو چھوڑ کر بھاگ نہیں جاتا بلکہ اپنے لوگوں کو بچاتے بچاتے خود کشتی کے ساتھ ڈوب جاتا ہے یا اگر وہ آخری شخص میں شامل ہے تو خود کو بچانے کی تدبیر کرتا ہے ۔سکندر نے پورس کے اسی جرات اور جذبے کا کا احترام کیا اور پھر جو لوگ فاتح عالم کی فہرست میں شمار کئے جاتے ہیں انہیں وفادار فوج اور وفادار ساتھی ملکوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس وقت شام کے حکمراں بشارلاسد افغانستان کے نجیب اللہ کا کردار ادا کررہے ہیں جس نے اپنی عوام سے غداری کی تھی ۔جس نے اپنی عوام کا قتل عام کیا تھا تاکہ افغانستان میں سویت روس کی بالا دستی سے اس کا اقتدار قائم رہے ۔شام کے اس شروعاتی بحران کے درمیان میں بشار الاسد کی حالت بہت ٹھیک نہیں تھی اور ایسا لگتا تھا کہ اب ان کا چل چلاؤ ہے اور اب بھی بہت ٹھیک نہیں کہی جاسکتی مگر روس اور چین کی مدد سے اب وہ ICU سے باہر ضرور آگئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے مستقبل کے سوپر پاور ہونے کی ساری چالیں کھیلنی شروع کردی ہیں ۔
وکرم سود جو کہ ہمارے ملک کی خفیہ انٹیلیجنس تنظیم ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ کے سابق سکریٹری ہیں انہوں نے اپنے مضمون Dividingup the world دنیا خانوں میں بٹ رہی ہے میں لکھا ہے کہ چین نے پچھلے دس سالوں سے مشرقی ایشیا میں سڑک اور پائپ لائن بنانے کا کام شروع کررکھا ہے تاکہ مستقبل میں عربوں کے پٹرول اور گیس سے آسانی کے ساتھ فائدہ اٹھا یاجا سکے ۔جیسا کہ وہ اپنے تیل کا بہت بڑا حصہ عراق سے خرید رہا ہے اور اسی کے ساتھ وہ ایران سے بھی دوستی کے رشتوں میں اضافہ کرنے کی کوشش میں ہے ۔اپنی اسی حکمت عملی کے تحت اس نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اور فلسطین کے صدر محمود عباس کو اپنے ملک میں مدعو کرکے دونوں کے بیچ مصالحت کی پیشکش کی ۔چین شام کے حکمراں کی بھی مدد کررہا ہے اور 2014 کے بعد وہ پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں بھی مداخلت کرنے کی تیاری کر چکا ہے ۔(ہندوستان ٹائمز13 ؍جون2013 )
جون کی 14 تاریخ کو لبنان کی شیعہ تنظیم حز ب اللہ کے صدر حسن نصراللہ کا بیان آیا ہے کہ انہوں نے شام میں تاخیر سے مداخلت کی اور یہ مداخلت امریکہ اور اسرائیل کے شام سمیت پورے مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرنے کے عالمی منصوبے کے رد عمل میں آئی ہے اور اب ہم اپنے منصوبے کی تکمیل کیلئے تمام نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہیں ۔جو لوگ بین السطور کو پڑھنے کے ماہر ہیں وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ شام میں کیا ہو رہا ہے ۔ حزب اللہ نے تاخیر سے بشار الاسد کی مدد کرنے کا فیصلہ کیوں لیا؟وجہ، عالمی صورتحال چین اور امریکہ کو لیکر دو خانوں میں بٹنے جارہی ہے ۔ایران چونکہ شروع سے ہی شامی حکمراں کی مدد کررہا ہے اور اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ شام اسرائیل کے معاملہ میں ایران حامی رہا ہے اور اسی اصول کی بنیاد پر حز ب اللہ کو بھی کھل کر سامنے آنا چاہئے تھا مگر حزب اللہ چونکہ ایک حکومت نہیں ایک تنظیم ہے ابھی تک وہ اس لئے تماشائی تھی کہ اگر شام میں باغیوں کی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو اس کے لئے مشکل کھڑی ہوجانے کی امید تھی مگر اب شام میں روس اور چین کی مداخلت سے حزب اللہ اور شام دونوں کو یقین ہو چکا ہے کہ بشار الاسد ہی شام کے حقیقی حکمراں رہنے والے ہیں ۔بہر حال صورتحال چاہے جو کچھ بھی ہو حکمرانی تو صرف اللہ کیلئے ہے۔مدد و حمایت بھی صرف اللہ اور اللہ والوں کیلئے ہے۔اللہ بھی کہتا ہے کہ وتعاونو علی البرو تقویٰ،ولا تعاونو علی لالثم ولعدوان ۔ سچ تو یہ ہے کہ افغانستان میں روس امریکہ اسرا ئیل اور ساری مغربی طاقتوں کے منصوبے ناکام ہو چکے ہیں اور چین کیلئے بھی شام تک پہنچنے کیلئے نجات کا راستہ یہی ہے مگر جو بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے وہ یہ کہ آخر مستقبل کے اس اتحاد میں اسرائیل کا فیصلہ کیا ہوگا ۔جبکہ اس کے مغربی دوستوں نے خود اس کے اطراف میں اسلام پسند طاقتوں کی مدد کرکے اس کے دشمنوں کی قطار کھڑی کردی ہے اور یہ اس کے مفاد کے خلاف ہے ۔اسرائیل کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے اگر امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ساتھ اپنا تعاون پیش کیا ہے تو اس لئے کہ یہ طاقتیں اس کے مفاد کی پاسبان رہی ہیں مگر اب جبکہ مشرق وسطیٰ میں صورتحال اس کے مفاد کے خلاف جارہی ہے یعنی خود شام میں بھی امریکہ جن لوگوں کی حمایت کررہا ہے کم سے کم وہ بشا رالاسد کی طرح منافق نہیں ہونگے اور ممکن ہے مصر کی طرح اسلام پسندوں کی حکومت قائم ہو جائے جو کسی بھی صورت میں اسرائیل کیلئے اچھی خبر نہیں ہوگی ،ایسے میں کیا اسرائیل پھر بھی امریکہ کے ساتھ ہوگا ۔اسرائیل کھل کر امریکہ کے خلاف تو نہیں جائے گا مگر چین کے سوپر پاور ہونے کی صورت میں وہ کھل کر چین کی مدد ضرور کریگا تاکہ وہ عربوں کے درمیان اپنے وجود کو برقرار رکھ سکے ۔حز ب اللہ نے تو خیر اپنا فیصلہ تاخیر سے کر ہی دیا مگرشاید اسرائیل ابھی بھی اپنا فیصلہ کرنے میں اور بھی تاخیر کرے ۔
umarfarrahi@gmail.com 09699353811
عمر فراہی۔موبائل۔

0 comments: