مصر اور شام میں جدید نسل کی شہادت اور عرب بہار کا نظریہ

3:02 PM nehal sagheer 0 Comments

عمر فراہی،231۔آدرش نگر،نیو لنک روڈ ،جوگیشوری(مغرب)ممبئی۔400102موبائل۔09699353811 ای میل umarfarrahi@gmail.com




حضرت موسیٰ ؑ نے جب بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے آزادی دلائی تو یہ قوم طویل عرصے تک در در کی ٹھوکریں کھاکر اپنی بیزاری کا اظہار کرنے لگی ۔اس نے موسیٰ ؑ سے کہا کہ ہم کب تک یوں ہی بھٹکتے رہیں گے ،اپنے رب سے کہو کہ ہمارے لئے کوئی زرخیز زمین مقرر کردے جہاں ہر طرح کی سہولیات میسر ہوں اور ہم لوگ سکونت اختیار کریں ۔موسیٰ ؑ نے کہا کہ اے برادران قوم اس مقدس زمین فلسطین کے علاقے میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے ۔انہوں نے جواب دیا اے موسیٰ ؑ وہاں تو بڑے زور آور لوگ رہتے ہیں ہم وہاں ہر گز نہ جائیں گے۔موسیٰ ؑ نے یقین دلایا کہ ان جباروں کے مقابلے میں شہر کے دروازے کے اندر گھس جاؤ جب تم اندر گھس جاؤ گے تو تمہیں غالب رہو گے اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو۔مگر انہوں نے پھر وہی جواب دیا کہ جب تک وہاں وہ موجود ہیں ہم وہاں کبھی نہیں جائیں گے ،بس تم اور تمہارا خدادونوں جاؤ اور لڑو ۔اللہ نے جواب دیا کہ اچھا تو پھر وہ ملک چالیس سال تک ان پر حرام ہے اور یہ زمین پر مارے مارے پھریں گے۔تاریخ میں آتا ہے کہ چالیس سال بعد جب بنی اسرائیل کی جدید نسل نے اس سرزمین کو فتح کیا تو اس وقت خوشی کا مشاہدہ کرنے کیلئے ان کے بزرگوں میں صرف وہی دو بزرگ زندہ تھے جنہوں نے ہر قدم پر حضرت موسیٰ ؑ کا ساتھ دیا تھا۔
درج بالا واقعہ سے جو سبق ملتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس قوم کو اللہ نے بغیر کسی جدوجہد کے من و سلویٰ کی شکل میں رزق عطا کیا اس قوم کو اگر چاہتا تو بغیر کسی مزاحمت کے زمین کا اقتدار بھی سونپ دیتا مگر اللہ نے اس زمین کو حاصل کرنے کیلئے قوت کے استعمال کا حکم دیا یعنی اللہ نے کسی بھی قوم کو زمین کی حکمرانی اور بادشاہت اس وقت تک نہیں دی جب تک کہ اس نے بزور قوت اسے حاصل نہیں کیا ۔جیسا کہ جالوت اور طالوت کے معاملے میں جب یہ تنازعہ کھڑا ہوا کہ اللہ نے طالوت کو بادشاہ کیوں مقرر کیا جبکہ جالوت کے پاس زیادہ دولت اور علاقے ہیں ۔اللہ نے جواب دیا کہ طالوت کے پاس طاقت اور علم ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چالیس سال تک بنی اسرائیل کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے کی سزا دی گئی مگر ان چالیس سالوں کے اندر جو نئی نسل تیار ہوئی وہ فرعون کی دہشت سے آزاد تھی اور اس وقفے میں اس نے حضرت موسیٰ ؑ کی کمان میں جو چھوٹے موٹے معرکے سر کئے ہونگے انہوں نے نہ صرف یہ کہ بہت سی قوموں کے فتح و شکست کے اسباب پر غور کیا ہوگا بلکہ ان معرکہ آرائی اور مزاحمت کے ماحول نے انہیں بہت حد تک بے خوف بھی بنادیا ہوگا ۔ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی جد وجہد جو خالص اللہ کیلئے مقصود ہو اس میں اللہ کی نصرت کا شامل ہونا بھی لازمی ہے ۔پھر جب کوئی قوم اس الہٰی مدد کا مشاہدہ بھی کرلے تو پھر آخرت پر اس کا یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے،نہ اسے موت کا خوف رہتا ہے اور نہ ہی وہ قوم یہ سوچتی ہے کہ اس کا بادشاہ اور خلیفہ کون ہوگا ۔مگر اسے تو صرف احکم الحاکمین کیلئے اپنی جد جہد کو جاری رکھنا ہے۔اسی یقین اسی علم اور اعتماد کے ساتھ جب کوئی صالح قوم دشمن قوم پر حملہ آور ہوتی ہے تو پھر وہ پیچھے کی طرف نہیں آگے کی طرف دیکھتی ہے۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ محمد عربی ﷺ کے ساتھ خود ان کے ساتھی بھی انتہائی وفادار،نڈر ،جانباز اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں سے زیادہ آپ ﷺسے محبت رکھتے تھے ۔اس کے باوجود ان کے اندر کا خوف دور کرنے کیلئے اللہ نے مومنوں کی اس جماعت سے فرشتوں کی مدد کا وعدہ کیا مگر بعد کی نسل میں عبد اللہ بن عمر ؓ ،حسین بن علیؓ ،عبد اللہ بن زبیرؓ ،اوسامہ بن زیدؓ ،طارق بن زیادؒ ،محمد بن قاسم ؒ ،صلاح الدین ایوبیؒ اور نورالدین زنگی ؒ کی شکل میں جو قوم اور جماعت تیار ہوئی اس نے رسول ﷺ اور فرشتوں کی غیر موجودگی میں جو انقلاب برپا کیا انسانی دنیا کے عروج وزوال کی تاریخ میں آج بھی ان کے اثرات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
نیو یارک ٹائمس کے کالم نگار تھامس فرائیڈمین اس تاریخ سے واقف ہیں یا نہیں مگر انہوں نے تیونس اور مصر میں اپنے آمروں کے خلاف کامیاب عوامی جد وجہد کے بعد عرب انقلابات پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ عربوں کی جدید نسل نے اپنے حکمرانوں سے ڈرنا چھوڑدیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب اس انقلاب کو بہت ہی آسانی کے ساتھ ناکام نہیں بنایا جاسکتا ۔یہ بات اس نے اس وقت کہی تھی جب تیونس میں جمہوری عمل شروع ہو چکا تھا اور مصر میں جمہوری طرز پر انتخابات کی تیاری شروع ہونے والی تھی ۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ غیر اسلامی دنیا کے دانشور وں اور سیاستدانوں کو اس انقلاب کے بعد یہ خدشہ رہا ہے کہ کہیں انتخابی عمل کے ذریعے ایران اور ترکی کی طرح حکومت اور اقتدار پر اسلام پسندوں کا غلبہ نہ ہوجائے اس لئے کہ انہوں نے ہمیشہ جمہوریت اور ڈیموکریسی کو لبرلزم کی شکل میں ہی دیکھا اور قبول کیا ہے۔بد قسمتی سے عربوں کے اس انقلاب کے بعد وہی ہوا جس کا خدشہ تھا یعنی اخوان المسلمون کی سیاسی جماعت جسٹس اور پیس پارٹی کا اقتدار پر قبضہ ہو گیا ۔حالانکہ یہ سارا عمل عوام کی مرضی اور جمہوری طریقے سے ہوا مگر حسنی مبارک کی فوج جو کہ جمال عبد الناصر کے بعد سے ہی اقتدار کی حریص اور بد عنوانی کی دلدل میں غرق رہی ہے اتنی آسانی کے ساتھ ان لوگوں کو اقتدار پر کیسے قابض ہوتا دیکھ سکتی ہے جو ملک کو ہر طرح سے فحاشی ،بد عنوانی اور بدکاری کے عمل سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں ۔اسی لئے انہوں نے عوامی ریفرنڈم کے ذریعے قانون شریعت کی منظوری حاصل کی تھی ۔یہ بات لبرلسٹوں کو بھی پسند نہیں آئی اور انہوں نے فوجی بغاوت کی حمایت کرکے چورچور موسیرے بھائی کی مثل کو ثابت کردیا ۔
تھامس فرائیڈمین اور ان جیسے مغربی دانشور وں کی خلش یہ ہے کہ انہوں نے صرف ایک ہی سبق پڑھا ہے اور وہ یہ ہے کہ ترقی اور خوشحالی اور امن صرف لبرل جمہوری طرز سیاست کے ذریعے ہی ممکن ہے ،اسی لئے اپنے اس اصول کے مطابق انہوں نے جہاں ایک طرف مصر میں فوجی بغاوت کو ناپسند کیا ہے وہیں اخوان المسلمون کی ایک سالہ جمہوری حکومت کو بھی ناکارہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے ایک مضمون ’’مصر کو ایک منڈیلا کی ضرورت کیوں ہے ؟‘‘میں لکھا ہے کہ فوج اور اخوان المسلمون دونوں ہی نے مصر کو ایک گہری کھائی میں ڈھکیل دیا ہے۔اسی طرح سعودی عرب کے حکمراں عبد اللہ نے مصر میں فوجی بغاوت کے بعد یہ بیان دیا کہ فوج نے ملک کو گہری کھائی میں گرنے سے بچالیا ہے۔مصر کو گہری کھائی میں گرنے سے صرف مصر کی عوام اور اخوان المسلمون ہی نکال سکتے ہیں یہ بات صرف ترکی کے وزیر اعظم طیب ارودگان ہی نے کہنے کی جرات کی ہے اور انہیں یہ بات کہنے کا حق بھی ہے کیوں کہ انہوں نے ترکی کی زوال پذیر اقتصادی صورتحال میں سابقہ حکومتوں کی نسبت تین گنا کا اضافہ کروایا ہے اور یہ ترقی اس لئے نہیں ممکن ہو سکی کہ انہوں نے لبرل طرز سیاست میں خاطر خواہ تبدیلی لانے کی جلد بازی نہیں کی ،جبکہ ترکی کی سابقہ حکومتوں کا طریقہ بھی یہی تھا بلکہ انہوں نے جمہوری طرز سیاست میں اپنی صالح اسلامی سوچ کو بھی بروئے کار لانے کی کوشش کی ۔ بیشک مصر کی زوال پذیر معیشت کی ترقی میں بھی ایک صالح قیادت کی ضرورت ہے اور یہ کردار اخوان المسلمون کے رہنماؤں کے علاوہ کوئی دوسری سیاسی جماعت ادا ہی نہیں کر سکتی ۔مگر ہمارے دور کی بد قسمتی یہ ہے کہ ہم اپنی ہر سوچ اور عمل کو سائنس اور ریاضی کے statistics اصول پر تولنا چاہتے ہیں اسی لئے ترقی پسند دانشوروں نے مسلمانوں میں کثرت ازدواج کی مخالفت کی ہے کیوں کہ ان کے Statistics یعنی جمع نفی اور ضرب کے حساب کے مطابق اس طرح دنیا کی آبادی میں جو اضافہ ہو گا یہ صورتحال لوگوں میں غذا اور خوراک کی قلت پیدا کرسکتی ہے۔جبکہ انکا ادھورا علم ابھی تک یہ اندازہ لگانے سے قاصر ہے کہ اگر زمین کسی وقت میں پھل فروٹ اور اناج اگانا بند بھی کردے تو مالک کائنات انسانوں کی ضرورت سمندروں کی مچھلیوں سے بھی پوری کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ عرب ممالک میں جہاں کثرت کے ساتھ ایک مرد ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرتا ہے اور بچوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے ۔چین اور ہندوستان سے کئی گنا کم آبادی ہے ۔جبکہ چین میں ایک سے زیادہ بچہ پیدا کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے اور ہندوستان میں کثرت کے ساتھ فیملی پلاننگ پر عمل ہو رہا ہے ۔اسی طرح اگر statistics کے اس اصول پر یقین کیا جائے تو اب تک پوری دنیا سے گائے ، بھینس اور بکروں کی نسل کا خاتمہ ہو جانا چاہئے تھا کیوں کہ یہ جانور ایک سال میں صرف ایک بچہ تو جنم دیتے ہیں مگر ہر روز لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ذبح ہو جاتے ہیں ۔جبکہ دنیا کے ہر گھر کے اطراف میں ابھی تک کم سے کم ایک ہزار کتے ضرور بھونکتے ہوئے نظر آنا چاہئے تھا کیوں کہ ہر کتیا ہر چھ مہینے میں دس سے بارہ بچوں کو جنم دیتی ہے اور انہیں کوئی ذبح بھی نہیں کرتا ۔اسرائیل ،مصر اور شام کے حکمراں شاید اسی statistics اصولوں کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل عام کرکے اس گمان میں ہیں کہ وہ ان کی نسلوں کا صفایا کر دیں گے اورجس انقلاب سے یہ لوگ خوف زدہ ہیں وہ ناکام ہوجائے گا۔مگر تاریخ اور مشاہدے نے ہمیشہ اس نظریے کو رد کیا ہے اور ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیوں کہ جو نسل چالیس سے پچاس سال پہلے امریکہ روس اور برطانیہ کی فوجی طاقت اور ٹکنالوجی سے خوف زدہ اور مرعوب نظر آرہی تھی بعد کی نسل نے ان کے فوجی بیڑے کو افغانستان ،ویتنام اور صومالیہ کی کھائی میں دفن ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ 22؍اگست 2013 کے انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون نگار نے اپنے مضمون No fear of Death ’’موت کا خوف نہیں ‘‘ میں ایک مصری ڈاکٹر کے حوالے سے لکھا ہے کہ مصر میں فوج کے فاشسٹ عزائم کبھی کامیاب نہیں ہونگے اور میں نے رابعہ العدویہ میں ذاتی طور پر مصری نوجوانوں کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے ،مگر وہ خوفزدہ نہیں تھے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جدید نسل دشمن کی سازش اور اپنے مقصدسے واقف ہے ۔
عمر فراہی،موبائل۔09699353811 umarfarrahi@gmail.com


0 comments: