وہ جو صراط مستقیم سے بھٹک گئے

3:18 PM nehal sagheer 0 Comments




ہٹلر نے اپنی کتاب ’’ میں کیمپف‘‘ (Mein kampf ) میں لکھا ہے کہ کمیونزم چونکہ خدا کے تصور کو تسلیم نہیں کرتا اس لئے اسے آفاقی بنانا ممکن نہیں تھا جبکہ یہودی سرمایہ داروں نے جس طرح پوری دنیا میں اپنی ناجائز صنعتوں کے جال کے جال بچھا رکھے ہیں اسے ترقی دینے کیلئے ایک ایسی طرز سیاست اور حکومتی نظام کی ضرورت تھی جو عام طور پر دنیا کی اس% 75 آبادی کیلئے قابل قبول ہو سکے جو کسی بھی صورت میں ان لوگوں پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں جو خدا کے منکر ہیں۔اسی لئے انہوں نے مذہب کو عوام کا ذاتی معاملہ قرار دیکر اس نظام سیاست میں سیکولرزم کی تحریف کرکے لبرل جمہوریت کانام دیدیا ۔بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ اس طرز جمہوری سیاست میں کوئی بھی حصے دار ہو سکتا ہے اور اس قدیم روایت کو مٹادیا گیا ہے جب راجہ رانی کے پیٹ سے ہی پیدا ہوا کرتا تھا اور شاید جمہوریت کی مقبولیت میں اس نظریے کا بہت بڑا عمل دخل بھی رہا ہے ۔مگر یہ صرف ایک دھوکہ ہے سچائی یہ ہے کہ راجہ اب سرمایہ دار وں کے پیٹ سے پیدا ہونے لگے ہیں اور پہلے تو صرف ایک راجہ پیدا ہوتا تھا اب تو جمہوری پارلیمنٹوں میں سینکڑوں راجاؤں کی قطار اور بھیڑ نظر آتی ہے یعنی اس طرز سیاست میں کوئی بھی جماعت اور قوم اس وقت تک حکومت اور اقتدار میں آہی نہیں سکتی جب تک کہ وہ سرمایہ داروں کی چوکھٹ پر سجدے نہ کریں یا ان کے ساتھ سرمایہ داروں کی مدد و حمایت نہ شامل ہو ۔ظاہر سی بات ہے جہاں سرمایہ داروں کا تعاون اور دخل لازمی ہوگا وہاں کوئی بھی قانون ان کی مرضی اور منشا کے خلاف کیسے بنایا جاسکتا ہے۔بد قسمتی سے پریس یعنی میڈیا کی آواز بھی سرمایہ داروں کی مدد اور تعاون کے بغیر موثر نہیں ہو سکتی اور یہ دیکھا گیا کہ کس طرح ایک اچھی تحریک اور اس کے تعلیم یافتہ اور باصلاحیت افراد کے خلاف منفی پروپگنڈہ کرکے رائے عامہ کو ان کا مخالف بنادیا جاتا ہے جبکہ ایک مفاد پرست جماعت اور ان کے بدعنوان لوگ پریس اور میڈیا کی پذیرائی سے انتخابات میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
آج کے دور میں امریکہ میں لبرل جمہوری طرز سیاست ایک ایسی تازہ مثال ہے جہاں الیکشن سے پہلے سیاسی پارٹیاں صدارت کے متمنی دو ایسے اہل امیدواروں کا انتخاب عمل میں لاتی ہیں جو ان میں سے پارٹی کو زیادہ فنڈ فراہم کرتا ہے اور ایک وقفے کے بعد اسے صدارتی امیدوار کے طور پر ریس کے میدان میں اتاردیا جاتا ہے جو سرمایہ دارانہ مسابقت کی دوڑ میں دوسرے سے زیادہ آگے نکل چکا ہو تا ہے۔اس کے برعکس پورے یوروپ اور برصغیر میں جہاں رائے شماری کی روایت اور بدعت قائم ہے کیا ان ممالک کے حکمراں یا پارلیمنٹوں اور اسمبلیوں کے ممبران عوام کے اصل نمائندے ہوتے ہیں یا پنچایت کے اس معیار اور اصول پر کھرے اترتے ہیں جس بنیاد پر جمہوریت کو شہرت حاصل رہی ہے ۔کیا حقیقت میں الیکشن الیکشن ہوتا ہے یا ریس کا میدان جن کی ہار جیت پر کرکٹ کی سٹے بازی کی طرح ہزاروں کروڑ روپئے کی رقم داؤ پر لگی ہوتی ہے اور گندگی کے اس حمام میں تمام سیاسی پارٹیوں کے لباس یکساں طور پر اترے ہوئے ہوتے ہیں ۔مگر حکومت اور ان کی پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کرکٹروں کے خلاف تو کارروائی کی گئی یعنی انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں بھی ڈالا گیا اور ماضی میں اظہر الدین اور جڈیجا وغیرہ پر تاحیات پابندی بھی لگائی گئی لیکن سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کی سٹے بازی کے خلاف کوئی جانچ اور گرفتاری کی آواز بھی کون اٹھائے جبکہ آواز اٹھانے والے خود اس بدعنوانی کے دلدل میں پورے کا پورا غرق ہیں۔ممتا بنرجی جو کہ اسی جمہوری سیاست کا حصہ ہیں اور ممکن ہے کہ اس بے ایمانی کی سیاست میں بھی ان کے اندر ایمان کی جرات باقی ہو اسی لئے میڈیا ان کی سیاست کو پسند نہیں کرتا اور ممتا بنرجی کو شکایت ہے کہ میڈیا ان کے خلاف پروپگنڈہ کرتا ہے ۔انہوں نے میڈیا اور میڈیا کے ذریعے مدعو کئے گئے لوگوں پر بھی حملے کرتے ہوئے بالکل صحیح کہا ہے کہ عصمت دری کے معاملے میں ہمارا میڈیا جن سماج سیوک کے نام سے کچھ نام نہاد شخصیتوں کو مدعو کرتا ہے ان میں سے اکثر عریانیت اور فحاشی کے کاروبار سے منسلک ہیں ۔
جمہوریت کا یہ بھی ایک عجیب تماشہ ہے کہ برسہا برس سے جس علاقے کی عوام نے اپنے قائد کی شکل و صورت ہی نہیں دیکھی وہ ممبئی مدراس سے آکر اتر پردیش میں امیتابھ بچن،راج ببر اور جیا پردا کا خوبصورت لباس اوڑھکر صرف اپنی دولت ،شہرت اور گلیمر کی بنیاد پر الیکشن جیت لیتے ہیں ۔یہ عوام کا دل بھی جیتتے ہیں یا نہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ عوام پر مسلط کئے گئے امیدوار ہوتے ہیں نہ کہ عوام کے اصل قائد اور نمائندے ۔سوال یہ ہے کہ اس طرح کے تھوپے گئے امیدواروں سے جو حکومت تشکیل پاتی ہے کیا آپ اسے لوک تنتر کہیں گے۔سچ تو یہ ہے کہ اس طرز سیاست اور حکومت کو ملوکیت اور آمریت سے بھی زیادہ اس لئے سنگین اور خطرناک قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ ان کی حکومتوں میں صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں اور سرمایہ داروں کی شکل میں ایسے سیکڑوں اور ہزاروں آمروں کی قطار کھڑی ہوجاتی ہے جن کا مقابلہ کیا اسی انتخابی سیاست کے ذریعے ممکن ہے؟بقول اروندھتی رائے جو لوگ الیکشن کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کیلئے آگے بڑھے تھے وہ خود بھی اسی الیکشن کے ذریعے تبدیل ہو گئے ۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ،نکسلزم اور ماؤ وادیوں کی دہشت گردی اور دہشت گردی کے الزام میں سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاری سے لیکر عصمت دری اور لوٹ کھسوٹ کے لاکھوں واقعات اور مسائل پر ہر روز بحث و تکرار موجودہ لبرل جمہوریت کی ناکامی کی ایسی منھ بولتی تصویر ہے جو پوری طرح واضح بھی ہے مگر سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کی دولت پر قائم لبرل میڈیا کی توجہ صرف ان لوگوں پر مرکوز ہے جنہوں نے پانچ سال تک عوام کو فریب میں مبتلا کیا ہے اور 2014 کے الیکشن میں یہ تاج کس کے سر پر ہوگا ۔بے چارے اناہزارے تو بیزار ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرچکے ہیں۔دیکھنا یہ ہے اروند کیجریوال گندگی سے گندگی کو صاف کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں ۔ہم تو بہر حال ہر پانچ سال بعد دھوکہ کھانے کیلئے تیار ہی رہتے ہیں اور کھاتے ہی رہیں گے مگر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا ؟مودی ،اڈوانی ،راہل گاندھی اور نتیش کمار کی سیاسی تقدیر تو بدلتی رہے گی مگر ملک کی سیاسی تقدیر کا کیا ہوگا ؟اس کا جواب ملک کے کسی سیاسی اور سماجی لیڈر کے پاس نہیں ہے ۔مگر جن کے پاس حل موجود ہے اب وہ سیاست کے امام نہیں رہے ۔

umarfarrahi@gmail.com 09699353811 عمر فراہی۔موبائل۔

0 comments: