Books

’راج رشی شاہو چھتر پتی ‘سماجی انقلاب کا بادشاہ

12:04 PM nehal sagheer 0 Comments



نہال صغیر


مہاراشٹر میں کولہا پور کو ایک خاص مقام اس لئے حاصل ہے جہاں کے راجا جن کا نام شاہو ہے نے آج سے سو سوا سو سال قبل سماجی آزادی کی جنگ لڑی اور اس میں بہت حد تک جیت حاصل کی ۔زیر نظر کتاب انہی کی زندگی کی کہانی پر مبنی ہے ۔یعنی یہ ایک سچے انقلابی کی روداد زندگی ہے ۔یہ روداد زندگی اسی مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے مراٹھی ادیب ڈاکٹر جئے سنگ راؤ بھاؤ صاحب پوار نے مراٹھی میں قلم بند کیا ہے ۔اس کے لکھنے کا مقصد اس عظیم مراٹھی مصلح کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے عدل اجتماعی اور انصاف کیلئے کئے گئے کارناموں سے عوام الناس کو با خبر کرنا ہے۔کتاب کے مصنف ،اس کو اردو کے قالب میں ڈھالنے والے اس کے مترجم سید افتخار سمیت پبلشر سے معذرت کے ساتھ کتاب کے نام کے دوسرے حصہ پرتھوڑا سا تحفظ کا اظہار کرنا چاہوں گا ۔انہیں ’سماجی انقلاب کا بادشاہ ‘لکھا گیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عظیم مصلح تھے اور نہ صرف مہاراشٹر بلکہ پورے ملک کی اس اکثریتی آبادی کے محسن تھے جنہیں ایک اقلیتی لیکن چالاک گروہ نے ہزاروں سال سے اپنا غلام بنا رکھا تھا ۔اس کے باوجود انہیں سماجی انقلاب کا بادشاہ نہیں کہا جاسکتا ۔کیوں کہ انقلاب لفظی اعتبار سے کامل ترین تبدیلی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے اور شاہو مہاراج باوجود اپنے اصلاحی نظریات میں مخلص ہونے کہ وہ اس سماج کو تبدیل نہیں کرسکے ۔وہ تبدیلی آ بھی نہیں سکتی تھی ۔کیوں کہ کوئی معاشرہ ہزاروں سال سے غلامی میں پلا بڑھا ہو تو اس میں یوں دس بیس سال میں تبدیلی نہیں آسکتی ۔اس کا اظہار خود شاہو مہاراج نے اپنی تقریروں اورتحریروں میں جابجا کیا ہے جس کو آپ اس کتاب میں پڑھ سکتے ہیں ۔ہاں شاہو مہاراج کو سماجی آزادی اور مساوات کا بادشاہ کہہ سکتے ہیں جس کے ثبوت میں اس پوری کتاب میں حوالوں کے ساتھ ان کی کوششوں کی حقیقی داستان موجود ہے ۔
مذکورہ کتاب کا اردو میں دستیاب ہونا بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ کتاب میں کل 33 عنوانات میں مصنف نے شاہو کی زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو تقریبا ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے ۔ پوری کتاب گرچہ شاہو مہاراج کی زندگی اور ان کے کارناموں پر مبنی ہے لیکن شاہو سے پہلے کا ہندوستان نامی باب میں مصنف نے مسلم بادشاہوں کے تعلق سے انہی جذبوں کا اظہار کیا ہے جو متعصب تاریخ دانوں نے پھیلائے ہیں ۔ لیکن یہ بات بہت ہی مختصر پورے دو صفحات بھی نہیں ہیں اور اس کتاب کے مقصد تحریر اور ہماری گفتگو کا وہ موضوع بھی نہیں ہے ۔ جو حالات شاہو مہاراج نے اپنے دور میں دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے دیکھے تھے اور جس کے لئے بحیثیت ایک انسان کے ان کے دل میں تڑپ اٹھتی تھی آج تقریبا انہی حالات کا سامنا آزادہندوستان میں مسلمانوں کو درپیش ہے ۔ ممکن ہے کہ میری اس بات سے اختلاف کیا جائے جس کا حق بہر صورت قاری کو ہے ۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ صورتحال جیسی ہے اسے اس خوبی سے میں بیان نہیں کر پارہا ہوں ۔لیکن جب آپ کتاب کا مطالعہ کریں گے اور آپ کو اس وقت جبکہ ہندوستان میں تحریک آزادی چھڑی تھی اور اس میں آگے آگے علم اٹھائے چل رہے تھے لیکن اس دور میں کولہا پور کا یہ راجا اپنے مخالفین جس میں یقینی طور پر برہمن تھے کی الزام تراشی کے جواب میں کہتا تھا کہ ہم سیاسی آزادی سے پہلے سماجی آزادی چاہتے ہیں ۔اس کیلئے اس کتاب میں مصنف نے سوامی وویکانند کے خطوط عنوان میں ایک خط پیش کیا ہے جس میں وویکانند لکھتے ہیں ’’انگریزی عملداری سے مزید آزادی کے حصول کے لئے ہمارے کچھ احمق نوجوان جلسوں کا اہتمام کرتے ہیں ،ان کی کوششوں کا انگریز مضحکہ اڑاتے ہیں ،جو دوسروں کو آزادی نہیں دینا چاہتے ،وہ خود بھی آزادی کے اہل نہیں ہوتے ،ذرا سوچئے کہ انگریزوں نے سارا اقتدار آپ کے حوالے کیا تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا ،جو صاحب اقتدار ہوں گے وہ باقی لوگوں کو دبا کر رکھنے کی کوشش کریں گے ،ان تک وہ آزادی کو پہنچنے نہیں دیں گے ۔ ایسے لوگ فی الواقع دوسرے لوگوں کو غلام بنانے کیلئے اقتدار کے طالب ہوتے ہیں ‘‘۔ اسی طرح کی بات شاہو نے بھی تحریک آزادی میں عدم شمولیت کے جواز میں کہی’’جس انداز میں سوراجیہ کا مفہوم لیا جاتا ہے اس کے مطابق گویا اقتدار چند افراد کے ہاتھوں منتقل ہوگا۔میں پھر ایک بار یہ دہرا تا ہوں کہ ہمیں سوراج چاہئے مگر برطانوی عہدیداروں کے ہاتھوں سے سیاسی اقتدارچھین کر اسے تعلیم یافتہ اقلیتی برہمنی طبقہ کو منتقل کرنا مجھے پسند نہیں ‘‘۔ وویکانند اور شاہو کے آزادی کی تحریکوں کے تعلق سے یکساں احساس رکھنے کے باجود شاہو مہاراج کو جس طرح برہمنوں نے نشانہ بنایا اس پر مصنف ڈاکٹر جئے سنگ بھاؤ راؤ پوار کا احساس قابل غور ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’ان دونوں بیانات اور اس کا معنی اور حقیقی مفہوم ایک ہی ہے ،فرق اگر ہے تو بس اتنا کہ اس طرح کی بات کرنے والے شاہو چھتر پتی بدقسمتی سے سوراجیہ کے مخالف ، عوام مخالف ٹھہرائے گئے ۔ سوامی وویکانند اس دل آزاری سے بچ گئے ‘‘۔
مصنف نے اپنی بیباکانہ رائے کے اظہار میں کہیں بھی تامل سے کام نہیں لیا آزادی کے تعلق سے لکھتے ہیں ’’15؍اگست 1947 کو ملک آزاد ہو ا،قومی تحریک آزادی حصول آزادی میں تبدیل ہوئی ،مگر اس آزادی نے بہوجنوں کو کوئی راحت بہم نہیں پہنچائی ۔ اس آزادی نے بڑے بڑے لوگوں کو مایوس کیا ‘‘۔ آخر ایسا کیوں ہوا ؟آزادی کی جنگ کی سرخیل کانگریس تھی اور کانگریس پر نسلی برتری کے غرور میں مبتلا برہمنوں اور اس کے زیر اثر طبقات کا قبضہ تھا ۔ یہی سبب ہے کے چھوا چھوت کے خلاف سماجی مصلح مہرشی وٹھل رام جی شندے کانگریس کی اسٹیج سے قرارداد منظور نہ کراسکے ۔ دس سال کے بعد 1917 کے کلکتہ اجلاس میں یہ قرارداد جب کانگریس کی صدر اینی بیسنٹ بنی تب جا کر منظور ہوا ۔ مصنف اس کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’قیام کانگریس سے لے کر 1930 کی سول نافرمانی کی تحریک کے اس دور میں قومی آزادی کی تحریک کی باگ ڈور اعلیٰ ذات یعنی برہمنوں کے ہاتھ میں تھی ۔ مہاراشٹر کی حد تک بات کی جائے تو 1930 تک کانگریس کی قیادت پر برہمنوں کا ہی قبضہ تھا ۔ برہمن کا یہ طبقہ اسٹیج پر کھڑے ہو کر برطانیہ کی سامراجی حکومت کو للکارکر اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کررہا تھا،مگر اپنے ہی برادران وطن پر صدیوں سے جو غلامی لادی ہوئی تھی اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا‘‘۔ 
کتاب کے مترجم سید افتخار جو لمبے عرصہ تک ممبئی سے پچھلے چالیس برسوں سے شائع ہونے والا مراٹھی ہفتہ روزہ ’’شودھن ‘‘ کے مدیر رہ چکے ہیں ، عرض مترجم کے تحت شاہو مہاراج کی عوامی شخصیت پر لکھتے ہیں ’’کسی بھی بادشاہ کے متعلق یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ خود اس نے اپنے عہد کی سماجی اور تہذیبی اقدار کے خلاف بغاوت کرکے عوامی انقلاب برپا کیا ہو ‘‘۔ یہاں بھی مجھے عوامی انقلاب سے اختلاف ہے ۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ انقلاب مکمل تبدیلی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اتنا ضرور ہے کہ شاہو مہاراج نے منفرد حیثیت میں اپنی ذات کو چھوڑ کر عوامی مفاد میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے جس سے ہندوستان کی حد تک مستقبل کے انقلاب کی راہیں متعین ہو گئیں ۔ آگے خود مترجم اس کو قبول بھی کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’شاہو مہاراج نے بہوجنوں کو سوراج کے ذریعہ ایوان اقتدار تک پہنچایا ۔ مگر ان کے بعد انہی بہوجنوں کے عہد میں قدیم بیورو کریسی جوں کی توں باقی ہے جو سارے فساد کی جڑ ہے ۔ اس کی وجوہات تلاش کرنا انہی بہوجنوں کا کا م ہے ‘‘۔ پوری کتاب جہاں ایک عوامی راجا کی زندگی کے کئی حقائق سے قاری کو روشناس کرائے گی وہیں یہ بھی نظر آئے گا کہ کس طرح اس راجا نے روایتی جنگ آزادی سے خود کو بچا کر حقیقی سواراج یا حقیقی آزادی کی جنگ کی قیادت کی اور اس میں بہت حد تک اسے کامیابی بھی ملی ۔ آج ریزرویشن کے سہارے پسماندہ طبقات حکومتی اداروں میں پائے جا تے ہیں جہاں برہمنوں کی طوطی بولا کرتی تھی ۔ جہاں برہمن قبضہ جمائے بیٹھے دیگر اقوام کے خلاف سازشیں کرکے انہیں تعلیم ،معیشت اور اقتدار سے باہر کئے ہوئے تھے اس کی مضبوط بنیاد شاہو نے رکھی اور صرف بنیاد رکھ کر ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس پر ایک مضبوط عمارت بھی کھڑی کردی ۔ یعنی انہوں نے 1902 میں ہی سرکاری محکموں میں پسماندہ طبقات کیلئے پچاس فیصد ملازمت محفوظ کرنے کا حکم نامہ جاری کیا اور اسے عملاً نافذ بھی کیا ۔ مذکورہ کتاب قاری کے سامنے جنگ آزادی کے کئی ایسے نکات سے پردہ اٹھائے گی جن کا علم موجودہ حالات میں ضروری ہے ۔ کتاب حاصل کرنے کیلئے مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ابراہیم رحمت اللہ روڈ بھنڈی بازار میں تشریف لے جائیں یا موبائل نمبر 8108307322 پر رابطہ کریں ۔

0 comments: