Muslim Worlds

آہ ! وہ تیرِنیم کش ...!

11:13 AM nehal sagheer 0 Comments



عمر فراہی  ۔  ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com

میر سپاہ نا سزا ، لشکریاں شکستہ صف/آہ ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف۔اقبال کہتے ہیں کہ جس لشکر کا امیر نااہل اور نالائق ہو اس کی مثال اس بدبخت بے حس اور شکستہ صف فوج کی طرح ہےجس کی ساری تگ دو ایسی ہی ہے جیسے کوئی بددلی سےہوا میں تیر چلائے ،نہ کمان ہی زور سے کھینچی گئی ہو نہ ہی تیر ہی کسی نشانے پر پھینکا گیا ہو ۔
اقبال نے تقریباً اسی نوے سال پہلے جب یہ بات کہی تھی تو اس وقت مسلمانوں میں ہزاروں علمائے دین اور ذہین افراد بھی موجود تھے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ملت اپنے فکر و عمل کے فنا ہونے کا سبب اور اپنی شان وشوکت کے زوال کا حل ڈھونڈھتی لیکن ہوا یہ کہ ملت اسلامیہ اپنے درمیان سے اجتماعی دانشمندی اور دانشمند علماء اور اقبال سے بھی محروم ہوگئی۔یہ بھی سچ ہے کہ کل کی بنسبت آج مسلمان ہزاروں مدارس کالج اور یونیورسٹیوں کی تعلیم سے مستفید ہورہے ہیں پھر بھی نرگس اور بھی شدت کے ساتھ اپنی بےنوری پہ نوحہ خواں ہےاورکسی دیدہ ور کے انتظار میں ہے ۔پچھلی دہائیوں میں علماء کا ایک بہت بڑا دور مسلکی مناظرے بازی میں گذر گیا ۔یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کے علماء اور دانشوروں کی اپنی ساری جدوجہد اپنے فکری زوال کو عروج میں بدلنے کی جستجو اور تحقیقی تصنیفات میں گذرنا چاہئے تھا لیکن ایک مسلک نے دوسرے مسلک پر کیچڑ اچھالنے میں گذار دیا ۔دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی کچھ مسلمانوں کو ہر سال رمضان کے مہینے میں اس بحث میں الجھا ہوا پایا جاتا ہے کہ تراویح نفل ہے یا سنت ۔تراویح آٹھ رکعت ہے یا بیس ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ جس کو جو سمجھ میں آتا ہے اس پر عمل کرے اور اپنے مسلک کی دیگر فلاح بہبود کی مصروفیات کیلئے منصوبے تجویز کرے تاکہ اس کے اس فلاح و بہبود کے کام سے دیگر مسلک اور مذہب کے لوگ بھی مستفید ہوں ۔جیسا کہ ارشاد ربانی بھی ہے کہ’’اب دنیا  میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے دنیا میں ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا ہے ۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘۔
لیکن ابھی بھی ہو وہی رہا ہے جو اسلام اور انسانی فطرت دونوں کے خلاف ہے۔اپنی ذات اور فرقے سے وابستگی اور دوسرے مسلک کے خلاف جھوٹ اور بہتان کے لامتناہی بحث اور عنوان سے بچوں کے ذہن میں نفرت اور تصادم کا جو ماحول پیدا ہو رہا ہے مسلمانوں کے اپنے درمیان یہ صورتحال بذات خود بھی برما فلسطین کشمیر اور چچنیا کی شورش سے کم نہیں ہے ۔یہ تو اچھا ہے کہ ہمارے ذہنوں کا یہ فساد ہند و شدت پسندوں کے خوف سے قابو میں ہے ورنہ ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کی حالت پاکستان افغانستان ایران عراق شام اور مصر سے مختلف نہ ہوتی جہاں پچھلی ایک صدی سے مسلمان آپس میں ہی متصادم ہیں۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت نہ صرف اپنی اسلامی غیرت اور حمیت سے محروم ہے بلکہ انسانی فطرت میں جو تعمیری سوچ اور رحم کے جذبات پائے جاتے ہیں اس کا بھی فقدان ہے ۔ جس طرح ہندوستانی سیاستدانوں نے اپنی کمزوری کو چھپانے کیلئے یہاں کے باشندوں کو لسانی ، علاقائی اور مذہبی عصبیت میں الجھا رکھا ہے ہماری اپنی مسلکی عصبیت کی شدت بھی عروج پر ہے ۔ایک بار کا واقعہ ہے جب آٹھویں کلاس میں پڑھ رہی ہماری بچی سے اس کے ساتھ پڑھ رہی ایک دوسری بچی نے پوچھا کہ تم لوگ وہابی ہو ؟ بچی نے کہا کہ یہ کیا ہوتا ہے دوسری بچی نے کہا ارے پاگل چوبیس نمبر ! ہماری بچی  نے پھر کہا مجھے یہ سب سمجھ میں نہیں آتا میرے پاپا نے بتایا ہے کہ ہم لوگ مسلمان ہیں ۔دوسری بچی نے پھر کہا کہ میں جب اپنے گھر کے پاس بس سے اتری تو دیکھی تیرے پاپا غیر مقلدوں کی مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہے ہیں۔بچی نے کہا کہ یہ غیر مقلد کیا ہوتا ہے دوسری بچی نے کہا تم کو نہیں معلوم یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ۔میری بچی نے کہا اچھا چھوڑ یہ سب بات میں اپنے پاپا سے پوچھونگی کہ یہ سب کیا ہے۔بچی نے گھر آکر جب یہ بات بتائی تو مجھے بالکل تعجب نہیں ہوا کہ ہمارے مسلم معاشرے میں کتنے بچپن سے بچوں کے ذہن میں مسلکی عصبیت کا زہر گھول دیا جاتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا یہی اسلام ہے؟۔ ٹھیک ہے آپ دوسروں سے اختلاف رکھیں جو انسان کی فطرت میں بھی ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اختلاف صرف نفرت اور بغض پیدا کرنے کیلئے ہی ہو۔اختلاف امن اور انصاف کے حصول اور نافذ کرنے میں بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے سامنے حضرت معاویہ ؓ اور حضرت علیؓ اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اختلاف ایک نمونہ ہے کہ کس طرح حضرت علی ؓاور عائشہ ؓ نے اور بعد میں حضرت حسنؓ اور معاویہؓنے امت کے درمیان فساد کو رفع دفع کرنے کیلئے آپس میں مصالحت اختیار کر لی۔ کیا کبھی ہم نے اپنے بچوں سے یہ پوچھا کہ اسلام کیا ہے اور آپ مسلمان کیوں ہیں؟ کیا ہم نے اپنے بچوں کو کبھی یہ بتایا کہ اسلام ایک تحریک اور دین کا نام ہے اور دین کے معنی اس نظام کے ہوتا ہے جہاں انصاف ہو ۔جیسا کہ قرآن کی یہ آیت ہم ہر نماز میں دہراتے ہیں کہ’مالک یوم الدین یعنی دین کے دن کا مالک مطلب انصاف کے دن کا مالک‘۔قرآن کی ایک دوسری آیت ہے کہ ان الدین عند اللہ الاسلام ’اللہ کے نزدیک بہترین دین اسلام ہے‘۔
قرآن میں اللہ نے یہ بات اس لئے کہی کیونکہ کہ اللہ جانتا تھا کہ انسانوں کی دنیا میں دوسرے دین اور حکمراں بھی ہونگے اور مسلمانوں کے گروہ اس نظام سیاست کی طرف بھی مائل ہوسکتے ہیں اس لیئےاللہ نے پہلے ہی آگاہ کردیا کہ اصل دین یعنی نظام سیاست اور انصاف تو اسلام اور قرآن ہی ہے۔اس پوری بحث کا مدعا یہ ہے کہ اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ لوگوں کی عبادت کا طریقہ کیا ہے اسلام یہ ہے کہ انسان ظالم اور مظلوم کے درمیان تمیز کرنا سیکھے اور دنیا میں مسلمان اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے لوگوں کے درمیان انصاف کے علمبردار ہونے کا حق ادا کرے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب قونو بالقسط کے علمبردار نظام سیاست پر غالب ہوں ۔
دوسروں کو اس کی تمیز رہے یا نہ رہے لیکن ایک مسلمان کو  دنیا کے حالات پر تبصرہ کرتے وقت یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کا مذہب اور عقیدہ کیا ہے ؟بہت افسوس ہوا اس وقت جب سوشل میڈیا پر برما کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور ہمدردی کو لیکر بھی کچھ مسلم نوجوانوں نے کبڈی کبڈی کھیلا۔ کسی نے سعودی عرب کی فراخ دلی کے قصیدے گائے اور انہیں عالم اسلام کا قائد اور مسیحا قرار دیا تو کہیں ترکی کے اسلام پسند رہنما طیب اردگان کی پزیرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ۔اس بیچ میرجعفروں نے مسلکی تنازعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ افواہ بھی اڑائی کہ ترکی فوجوں نے برما پر حملہ کردیا ہے ۔اگر یہ بحث غیروں میں پڑھی اور سنی جائے تو کیا ان کے حلقوں میں مسلمانوں کی جہالت کا مذاق نھیں اڑایا جائے گا ۔ یا مسلم تنظیمیں جو ہر روز غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت اور حالات کے تعلق سے بیداری کی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کے اوپر اس کے اثرات کیا ہونگے۔کوئی آپ کو بھلے ہی جواب نہ دے کہ پہلے آپ خود اسلام سے واقف اور بیدار ہوجائیں پھر ہمیں درس دینا لیکن دل ہی دل میں وہ آپ کی بیوقوفی پر اسی طرح ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا جیسے کہ اکثر کالج وغیرہ میں جب کوئی پروفیسر اپنے سبجیکٹ پر ہوم ورک کیے بغیر کسی عنوان کی تشریح کرتے ہوئے بھٹک جائے تو بچے دل ہی دل میں یا پروفیسر کی غیر حاضری میں مذاق اڑانا شروع کردیتےہیں اور پھر ایسا بھی ہوتا ہےکہ بچے ایسے پروفیسروں کے لیکچر کو بہت اہمیت نہیں دیتے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ قومی میڈیا ہمارے اداروں اور مسلم دانشوروں کی طرف سے قومی مسائل پر ہونے والے بہت اہم اجلاس اور سمپوزیم وغیرہ کو زیادہ توجہ نہیں دیتا۔
افسوس مدارس کے موجودہ نظام اورفضلا کی سوچ پر بھی ہوتا ہے کہ انہیں آج بھی نہ جانے کیسی تعلیم دی جارہی ہے کہ وہ ظلم اور ناانصافی پر مبنی عام تبصرے کو بھی مسلک مذہب اورفرقہ وارانہ نظریے سے دیکھتے ہیں جبکہ اسی ملک ہندوستان میں سگاریکا گھوش ،برکھا دت ،تیستاسیتلواد، ارون دھتی رائے ،کنہیا کمار ، ہرش مندر ،رام پنیانی ، امریکی دانشور نوم چومسکی، اپوروا نند، مہیش بھٹ اورسنجیو بھٹ جیسے بہت سارے ہندو صحافی اور دانشور بھی جب اپنا قلم اور زبان کو جنبش دیتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا مذہب مسلک اور ملک کیا ہے اور وہ مسلمانوں کے کس مسلک کی حمایت کرتے ہیں ۔کلبرگی ،پنسارے ،نریندر دابھولکر اور کرکرے کو شاید اپنی اسی انصاف پسندی کی سزا ملی ہے ۔گور ی لنکیش نے وہ کام کیا جو مسلمانوں کیلئے خاص تھا اور باالآخر شہید کر دی گئی ۔ وہ تو ہمارے خلاف ہونے والی ناانصافی کی وجہ سے ہمیں مسلمان سمجھ رہے ہیں لیکن ہم ؟ شاید اب ہمیں دوسری قوموں سے سیکھنا ہوگا کہ اسلام دنیا سے ظلم اور ناانصافی کے خاتمے کا نام ہے نہ کہ قوم اور مسلک کے نام پر اندھی تقلید کا ۔ اقبال بالکل درست کہتے ہیں کہ  ؎
آہ !وہ تیرے نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

0 comments: