Muslim Issues

منزل یہی کٹھن ہے

6:20 PM nehal sagheer 0 Comments



قاسم سید
علامہ اقبال کہہ گئے کہ غلامی میں قوموں کاضمیری نہیں بدلتا‘ان کے طور طریق ‘اندازفکر‘اہداف سب کچھ بدل جاتے ہیں۔ماضی کی شاندار تاریخ کی افیم میں مدہوش‘ حالات کے چیلنجوں سے بے خبر اور مستقبل سے لاپرواہ۔ اسے طارق بن زیادکے سمندر میں گھوڑے دوڑادینے ‘کشتیاں جلانے‘ جلال الدین خوارزم کے پہاڑ کی چوٹی سے گھوڑے سمیت دریا میں چھلانگ لگادینے‘اسپین میں سینکڑوں سال کی حکمرانی‘ دنیا کے بیشتر خطوں تک خلافت کی وسعت ہندوستان میں صدیوں اقتدار کرنے اور مٹھی بھرہونے کے باوجود اکثریت پرتسلط تاج محل‘ لال قلعہ اور قطب مینارجیسی تعمیرات کا ورد کرکے اپنی ماضی کی شان وشوکت کے قصیدے بیان کرنے میں خوب لطف آتا ہے مگراس کے پیچھے کی جدوجہد قربانیاں یاد نہیں رہتیں۔ سقوط بغداد کی عبرتناک تاریخ پر غورکرنا نہیں چاہتا۔
صرف ہندوستان کے پس منظر میں بات کی جائے تو یہ سوال جواب چاہتا ہے کہ سیکڑوں سال کی بادشاہت کا ریکارڈ رکھنے والوں کے ساتھ ایساکیا ہوا کہ وہ صرف 70سال میں ہی کسی بوسیدہ عمارت کی طرح زمیں بوس ہوگئے ۔ کیا جاہ وحشمت کی بنیادیں اتنی کمزور تھیں کہ وہ جمہوری دور حکومت کے چند جھٹکے برداشت نہیں کرسکے۔ اس کی تہدیبی‘ ثقافتی‘تعلیمی اور سماجی اقدارشدید خطرات سے دوچار ہیں اور سیاسی طور پر اتنے مختصر عرصہ میں صفر بنادیاگیا۔ اس کا ووٹ نوٹ بندی کے بعد چلن میں موجود کرنسی کے کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح بنادیاگیا ۔ دوسری طرف ہزار سالہ ’غلامی‘ کےباوجود اکثریتی فرقہ اپنی تہذیبی ولسانی شناخت کےساتھ اٹھ کھڑاہوا۔ ہندی سرکاری سرپرستی سے محروم ہونے کے باوجود سرکاری زبان بنادی گئی اور اب تہذیبی جارحیت تکلفات کے تمام پردے ہٹاکر اقلیتی تہذیبی شناخت کو اپنے میں ضم کرناچاہتی ہے۔ آخر وہ بغیر سرکاری سرپرستی اورتحفظ کے خود کو کس طرح زندہ رکھنے میں کامیاب ہوئی اور کیوں۔ صرف 70سال میں ہماری ریڑھ کا ساراپانی نکال لیاگیا اور زمین پر رینگنے والے کیڑے سے بھی زیادہ بے حیثیت بنادئیے گئے۔ گذشتہ چند سالوں میں مزاحمت کی قوت میں کمی آئی اور مصالحت کی ہوا کچھ زیادہ ہی تیز چلنے لگی۔ابھی قربانی کے موقع پر علما کے ایک طبقہ کی طرف سے فدویانہ رویہ اختیار کیاگیا ۔ وہ یہ اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید’’قربانی‘‘ کے لئے تیار رہناچاہئے۔ پولرائزیشن کی آندھی سیاست میں بڑا چیلنج بن کر ابھری ہے۔ ہر معاملہ کو ہندومسلم کی حیثیت سے دیکھنے کی سیاست اثر دار ہونے لگی اور سیکولر پارٹیاں بھی حساس مسائل پر پوزیشن لینے سے گریز کرنے لگی ہیں۔ وہ پارٹیاں جن کے لئے ہم نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ گائے کی طرح ان کے کھونٹے سے بندھے رہے‘ کبھی اس یکطرفہ غیر حقیقی پالیسی کے منفی اثرات اور مضمرات پر توجہ نہیں دی اوروہ بڑے پیار سے ہماری جڑیں کاٹتے رہے۔ سروں کی فصل بوتے رہے۔ معاشیات کو فسادات کی آڑ میں تباہ کرتے رہے جب یہ حکمت عملی بے نقاب ہوئی اور دہشت گردی کے مسئلہ نے عالمی سطح پر سراٹھایاتو انہیں اس میں بھی وار کرنے اور نوجوانوں کے حوصلے توڑنے کا راستہ نظرآیا اور تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو ٹارگٹ بناکر ان کی حب الوطنی اور شرافت کو مشتبہ بنایا۔اس کا آغاز بھی خیر سے سیکولر دوستوں کی طرف سے ہوا ۔ وہ آج ٹی وی ڈبیٹ میں فخر سے کہتے ہیں کہ اس ملک کو ٹاڈا‘ پوٹا ‘مکوکا اور یو اے پی اے جیسے ظالمانہ اور غیرانسانی قانون ہم نے دئیے۔ یعنی بہت ہی عیاری کے ساتھ ہر سطح پر مظلوم کو ظالم‘ مشتبہ شہری بنانے کی منافقانہ مہم کے سرخیل سیکولر دوست ہی رہےبعض لوگوں نے ان سے غیر مشروط وفاداری کا کلمہ پڑھ لیا ہے کیونکہ اسلاف یہ وصیت کرگئے تھے کہ بیٹا کچھ بھی ہوجائے ان کا پایہ مت چھوڑنا بھلے تمہارا مثلہ کیوں نہ بنادیں اور کسی بھی حالت میں الگ راہ مت اپنانا۔ اپنامقدر ان سے تاحیات وابستہ کر لو اور طارق بن زیادہ کی طرح تمام کشتیاں جلادو۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی غلطی کروگے تو پتھر کے ہوجائو گے۔ جبکہ جمہوریت میں پل پل رویے بدلتے ہیں۔ ایشوز کی ترجیحات بدلتی ہیں۔ دوست اور دشمن بدلتے ہیں۔ ہرکمیونٹی اپنے مفادات کےتحت فیصلے لیتی ہے۔ ہر الیکشن میں محاذ بنتے اور بگڑتے ہیں۔ جمودیت پر مبنی پالیسی کا جو حشر ہوتا ہے اس کے اثرات نظرآرہے ہیں تو اس کی تعبیرات وتشریحات کی جاتی ہیں۔ ہمارے تہذیبی لسانی تعلیمی قاتلوں کا دفاع کیاجاتا ہے اور ان سے یہ سوال کرنابھی توہین کے دائرے میں آتا ہے کہ حضور آپ کے اقتدار میں ایسے عناصر شوریدہ سرکیو ںہوگئے جو بہت کمزور تھے۔ انہیں کس نے دودھ پلایا۔ رہی سہی کسر علما کے اس طبقہ نے پوری کردی جو دوسروں کو جزا وسزا کے ساتھ ایمان یافتہ ہونے کی تصدیق ‘تردید اور تنسیخ کرتاہے۔ مسلک کی بنیاد پر تفریق وانتشار اس کا محبوب مشغلہ ہے ۔ دائرہ اسلام میں رہنے یا باہر کرنے کے جملہ حقوق محفوظ ہیں جوغیروں کو گلے لگانے اس کے دسترخوان کا شریک اور سماجی روابط‘قومی یک جہتی کے نام پر بڑھ چڑھ کر حصہ دار بنتا ہے لیکن دینی بھائی اتفاق سے دوسرے مسلک کا ہوتو بھنویں تن جاتی ہیں۔ منہ سے جھاگ نکلنے لگتے ہیں۔ انہوں نے اپنی الگ کا ئنات بنائی ہے۔ جنت دوزخ کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ انگشت نمائی کرنے پر اسلام سے نکال باہر کرنے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ بقیہ علما نے ان کے لئے میدان کھلا چھوڑدیا ہے۔ مسلکی انتشار کو ہوا دینے والے نہ اسلام کے خیر خواہ ہیں نہ مسلمانوں کے وہ جانے انجانے میں ان طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں جنہوں نے تہیہ کررکھا ہے کہ اقلیتی طبقہ کو اتنے خانوں میں بانٹ دو کہ شیرازہ بکھر جائے۔ مسجدوں پر جھگڑے جماعتوں میں انتشار‘گروہ بازی‘علمائے کرام کی ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی ‘خودکو بہتر اور دوسرے کو مجموعہ خباثت بتانے کی کوشش اس کی علامتیں ہیں جن علما کرام پر سواداعظم بھروسہ کرتا ہے ۔ گوشہ عافیت میں رہناپسند کرتے ہیں ۔ خانقاہوں سے باہر نکلنا نہیں چاہتے۔ چنانچہ اس وقت امت پر اس طرح یلغار ہے جیسے کوئی بھوکا دسترخوان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ حیرت وافسوس ہے کہ شدائد کے پہاڑ بھی ایک جگہ بیٹھنے پر مجبور کرنے میں ناکام ہیں شاید مزید اذیتوں کا انتظارہے۔ حد تو یہ ہےکہ ایسے مناظر بھی گناہ گار آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ روہنگیائی باشندوں سے اظہار یک جہتی کے لئےبھی مسالک کی دیوار نہیں گرسکی۔ ایک ہی شہر میں الگ الگ مسلک کے علما ایک ساتھ نہیں آسکے اور الگ مظاہرے کئے۔ گھر گھر میں جھگڑے ہیں ۔ ایک ہی گھر میں دوجماعتیں اور 20کروڑ مسلمانوں کو متحد ہونے کی اپیلیں اس سے بڑا مذاق شاید ہی کوئی ہو اب توسوشل میڈیا پر سرگرم نوخیز نسل نے وہاں بھی کڑواہٹ گھول دی ہے ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم جا کہاں رہے ہیں۔ چاہتے کیا ہیں۔ منزل کیا ہے۔ اہداف کیا ہیں۔ کولہو کا بیل بنے آنکھوں پر پٹی باندھے گول گول گھمائے جارہے ہیں اور ہم گھوم رہے ہیں۔
موجودہ سیاست نے ہرمحاذ پر جکڑ رکھا ہے۔ مگر جینے کے طریقہ تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ داخلی کمزوریاں جیتی ہوئی جنگیں ہرادیتی ہیں اور شکست کی وجہ بن جاتی ہیں ۔ یہ باتیں سب جانتے ہیں پھر بھی سمجھنے کو تیار نہیں پتہ نہیں کس کی ڈور کہا ں سے ہلائی جارہی ہے کہ ہمیں دشمنوں کی ضرورت ہی نہیں۔ابھی وقت ہاتھ سے نکلا نہیں ہے۔ سنبھلنے اور سنبھالنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بارے میں سوچیں۔ اختلاف برقرار رکھ کر اس میں اتحاد نہیں تومفاہمت کی راہیں تلاش کریں۔ قوت برداشت کو جارحانہ رویوں میں جگہ دیں۔ نامرادی کے صحرائوں سے ہی کامیابی کا پانی نکلے گا ۔ انشاء اللہ۔
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: