Muslim Issues

یہاں بے گناہ کون ہے قاتل کے سوا؟

1:45 PM nehal sagheer 0 Comments




نہال صغیر

بھوپال جیل میں مقید جبر کے ہاتھوں ممنوعہ قرار دی گئی تنظیم سیمی کے آٹھ ارکان کو جیل سے نکال کر دو رایک پہاڑی پر لے جاکر قتل کردیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ وہ لوگ جیل سے فرار ہوئے تھے جو پولس کے ساتھ تصادم میں مارے گئے ہیں ۔جیل سے فرار ہونے کی عجیب و غریب داستانیں سنائی گئیں۔یا تو ہماری پولس ، تفتیشی ایجنسی اور خفیہ محکمہ بہت اچھے اسکرپٹ رائٹر ہیں یا پھر ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے بہترین فکشن نگاروں سے انہوں نے خدمات مستعار لی ہیں ۔ لیکن فکشن تو بہر حال فکشن ہی ہوتا ہے ۔اس طرح کی کہانی میں کئی خامیاں رہتی ہیں وہ سیمی کے ان آٹھ مظلومین اور مقتولین کے لئے گھڑے گئے قصہ کہانیوں اور افسانوں میں بھی خامیاں تھیں ۔ مسلمانوں سمیت انصاف اور آزادی میں یقین رکھنے والے ہر فرد نے اس پر کئی سوالات اٹھائے ۔ ان سوالوں میں ایک سوال تویہ ہے کہ عین واقعہ کے وقت ہی سی سی ٹی وی کیمرے بند کیوں ہو جاتے ہیں ۔ کیا انہیں حیا آتی ہے کہ وہ یہ سب دیکھنا اوراسے ریکارڈ رکھنا نہیں چاہتے ۔اگر ایسا ہے تو ہماری پولس خفیہ ایجنسی اور دیگر تفتیشی اہلکاروں کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ بے جان کیمرے بھی ظلم کی داستانوں کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور ایک یہ گوشت پوست کا چلتا پھرتا انسان ہے جو کسی بے گناہ کو مارنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتا ۔شاید ان سے بہتر تو جنگل درندے ہیں ۔ بحالت مجبوری اس پر ایک یک رکنی تفتیشی کمیٹی مقرر کردی گئی جس نے قاتلوں کے گروہ یعنی اے ٹی ایس اور پولس کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ان اٹھ مظلوموں کو مجرم قرار دیدیا اور یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کا قتل عین قانون کے مطابق ہے ۔ بھوپال جیل کے باہر لے جاکر مسلم نوجوانوں کے قتل کی یہ نا ہی پہلی واردات ہے اور اگر مسلمانوں نے ہوش کے ناخن نہیں لئے اور مسلم تنظیموں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ تعمیر کرنے کی ذہنیت سے نکل کر امت کیلئے کام نہیں کیا تو یہ آخری بھی نہیں ہوگا ۔اس کے بعد ایک کے بعد ایک ایک سلسلہ دیکھیں گے جس میں زیر سماعت مسلم نوجوانوں کو اسی طرح قتل ہوتا دیکھیں گے اور گاندھی کے دیش میں امن کے راگ الاپتے رہیں گے ۔ ہر طرح سے یہ ثابت ہوتا جارہا ہے کہ یہاں کی عدالتوں اور یہاں کی انتظامیہ سے مسلمانوں کو انصاف نہیں ملنے والا پھر پتہ نہیں کیوں بین الاقوامی عدالت کے دروزاے نہیں کھٹکھٹائے جاتے ؟ کیوں اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ یہاں کی حکومت ،یہاں کی انتظامیہ اور یہاں کی عدلیہ سے ہمیں تحفظ نہیں مل سکتا ۔تقریباًدو سال قبل ابو عاصم اعظمی نے ایک پریس کانفرنس میں یہاں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کو اقوام متحدہ میں رکھنے کی بات کی تھی لیکن اس کے بعد ان کی جانب سے اس پر کسی پیش رفت کی کوئی اطلاع نہیں ملی ۔حالیہ دنوں میں اعظم خان نے بھی اقوام متحدہ جانے کی بات کہی تھی ۔ آخر کس قیامت کا انتظار ہے ؟

اسی طرح کچھ روز قبل پہلو خان کے قاتلوں کو بھی پولس کے ذریعہ کلین چٹ دے دی گئی ۔پہلو خان شاید یہ نام ابھی تک قارئین کی سماعت میں محفوظ ہوگا ۔ ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کیوں کہ یہاں ہر روز فرضی مسائل اس تندہی کے ساتھ اٹھائے جاتے ہیں کہ اصل مسائل عوام کے ذہنوں سے دور ہو جاتے ہیں ۔وہی پہلو خان جسے رام راجیہ میں بہادر گؤ رکشکوں نے پیٹ پیٹ کر قتل کردیا تھا ۔اب پولس نے ان قاتلوں کو پاک دامن ہونے کا سرٹیفیکٹ دے دیا ہے ۔ ہمارے یہاں کی عدلیہ میں مقتول و مظلوم افراد کے آخری وقت کے بیان کو کافی اہمیت دی جاتی ہے ، ماننا یہ ہے کہ مرتے وقت کوئی انسان جھوٹ نہیں بولتا ۔ لیکن اب ملک میں ہر گواہی اور ہر جرم کیلئے اس کی ذات اور مذہب دیکھ کر اس کے مطابق الزامات طے کئے جاتے ہیں ۔ یہاں بھی پہلو خان کے آخری وقت کے بیان پر اس لئے کوئی دھیان نہیں دیا گیا کیونکہ وہ ایک مسلمان تھا اور اسے مارنے والے بہادر گؤ رکشک اور دیش بھکت ہیں ۔ پہلو خان نے بھی مرتے وقت ان چھ قاتلوں کا نام لیا تھا۔لیکن ہمارے یہاں کی پولس انتظامیہ کا حال جاننا ہو تو فسادات کے بعد کی ساری کمیشنوں کی رپورٹ دیکھ لیں ہر جگہ یہی رو سیاہ محکمہ ہی ملزم گردانا گیا جسے اپنی اس رو سیاہی پر بڑا ناز ہے ۔ یہی اب ہماری پولس فورس کی پہچان اور اس کا طرہ امتیاز ہے ۔ شاید انہوں نے بھی وہ بات سن لی ہے کہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ۔ اسی بدنامی کے سہارے ہماری پولس کا پوری دنیا میں نام روشن ہے ۔ امید رکھیں کہ فی الحال جو نظام ہم پر مسلط ہے اس میں تو اس محکمہ کے سیاہ کارناموں پر شاباشی دینے والوں کی اکثریت ہی ہے ۔ ایسے میں پہلو خان کے قاتلوں کو کلین چٹ دینے سے حیرت زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔جب اخلاق کے گھر سے برآمد گوشت کو بدل کر دوسرا سرٹیفیکٹ حاصل کیا جاسکتا ہے تو محکمہ پولس کی جانب سے قاتلوں کو بے گناہ قرار دینا کوئی حیرت کا باعث نہیں ہو نا چاہئے ۔ اب تو عدالتوں سے بھی زیادہ امیدیں وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ہمیں تو کافی پہلے سے نہیں ہے جنہیں امیدیں ہیں وہ آنے والے وقت میں اپنی خوش فہمیوں کے نتائج دیکھ لیں گے ۔ آئے دن عدلیہ کے فیصلے انصاف و قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے ہماری نظروں کے سامنے رقص کرتے نظر آتے ہیں ۔زیادہ دور مت جائیے کیرالا کی اس بالغ لڑکی ہادیہ کا مسئلہ دیکھ لیجئے جس میں سپریم کورٹ نے اپنے سامنے اس کا بیان لینے کی بجائے این آئی آے کو تفتیش کی ذمہ داری سپرد کردی ۔
پاکستان کے خلاف پوری دنیا میں دہشت گردوں کی پشت پناہی پر واویلا مچانے والے ہمارے دیسی رہنما کیا یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ جب یہی کام پاکستان کرتا ہے تو آپ دہشت گردی اور انسانیت کی دہائی دیتے نہیں تھکتے ۔ ہر محفل اور ہر فورم پر آپ کا پسندیدہ مشغلہ پاکستان کی مذمت کرنا اس کے سیاہ کارناموں کو طشت از بام کرنا ہوتا ہے تو آپ کے ان کارناموں پر کیا دنیا غور نہیں کرے گی ؟فسادات میں مسلمانوں کی جان و مال کو دانستہ نقصان پہنچانے کے بعد اب فرضی گرفتاریوں کو کیا دنیا نہیں دیکھ رہی ہے ؟یقیناًدیکھ رہی ہے اور گاہے بگاہے اس تعلق سے رپورٹیں میڈیا میں آرہی ہیں ۔موجودہ مودی حکومت کے تین سال سے زائد کے میقات میں امریکہ سے حکومتی پیمانے پر کم از کم دو بار ہندوستان میں مسلمانوں پر حملہ کیخلاف تشویش کا اظہار کیا گیا ۔فی الحال روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ عالمی پیمانے پر انسانوں کے ضمیر پر دستک دے رہا ہے ۔ جس میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ایک ہزار سے زائد روہنگیائی مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیاگیااور لاکھوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ۔لیکن کیا ہندوستان میں مسلمانوں کی صورتحال اس سے کوئی زیادہ مختلف ہے ؟ یہاں بھی ایسے واقعات بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں ۔ اس کے باوجود ہندوستان کو پر امن خطہ ہونے کا فخر حاصل ہے ۔ یہاں نمازیوں پر گولیاں چلائی گئیں ۔ ممبئی اور گجرات جیسے علاقوں میں ہزاروں مسلمانوں کو اسی طرح اجاڑ دیا جاتا ہے ۔ آسام کے نیلی میں اسی طرح شہریت کا مسئلہ معلق اور متنازعہ ہے ۔ وہاں فروری 1983 میں محض چھ گھنٹے میں غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دس ہزار مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ ہماری حکومتوں کو ایسے مسلمان میسر آجاتے ہیں جو اندرون اور بیرون ملک سب خیریت ہے کا مزدہ سناتے رہتے ہیں ۔ایک شو بوائے کی خدمات انہیں حاصل رہتی ہے ۔ موجودہ حکومت جس کی سربراہی پردھان سیوک کے ہاتھوں میں ہے اور جن کی خاموش تائید و حمایت ایسے لوگوں کو حاصل ہیں جو کبھی اخلاق اور کبھی پہلو خان جیسے بے گناہ مسلمانوں کو اپنی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اس لئے موت کی نیند سلادیتے ہیں کہ کسی طور مسلم نوجوانوں کے جذبات بھڑک جائیں اور انہیں نیلی ، گجرات ، مرادآباد ، مظفر نگر دہرانے کا بہانہ مل جائے ۔ اگر کسی کو میری باتوں سے اختلاف ہے تو اسے چاہئے کہ وہ مجھے جھوٹا ثابت کرنے کیلئے کوئی عملی ثبوت پیش کرے ۔ ایسے حالات میں کسی شاعر نے کہا تھا ؂ تیغ منصف ہوجہاں ،دار ورسن ہوں شاہد/ بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

0 comments: