Muslim Worlds

طالبان : یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے




   نہال صغیر ۔ ای میل  sagheernehal@gmail.com 

علامہ اقبال نے مومن کے تعلق سے ایک بات کہی تھی ؎ جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں/اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے۔ اقبال کے اسی بندہ مومن کی زندہ مثال طالبان ہیں جن کی بے پناہ قربانیوں کے سبب ملت سر اٹھا کے جینے کے قابل ہے ورنہ کچھ اس کی خامیوں اور کچھ اغیار کے پروپگنڈوں نے تو مسلمانوں کو دنیا کی ذلیل ترین مخلوق کے مشابہ بنادیا تھا ۔ مگر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ مومنین صادقین کی مدد کرنے سے اپنا ہاتھ نہیں روکے گا ۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر یہ ہم پر ہے کہ ہم اپنے مومن ہونے اور اللہ کے پاکباز بندوں میں اپنا نام لکھوانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ۔ طالبان کو دنیا بدنام کرتی رہی ، ان کے خلاف جھوٹے پروپگنڈے ہوتے رہے اور صرف اسلام دشمن قوتیں ہی نہیں مسلک کے قیدی مولوی اور ان کے مرید مسلمان نیز مسلمانوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والے سیکولر لبرل جمہوریت پرست طبقہ بھی طالبان کو ہدف تنقید بناتا رہا اور امریکہ کے آگے سرنگوں رہا مگر بقول اوریا مقبول جان ملا عمر ؒ نے کہا تھا ’میں اپنی زندگی میں ایسا کوئی بھی کام نہیں کروں گا جس سے مسلمانوں کو شرمندہ ہونا پڑے‘۔ ملا عمر ؒ اور ان کے ساتھیوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کے وقار بلند کرنے والے لوگ ہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اسلام نے ہمیں عزت بخشی ہے ۔ یہ بات قیامت تک کیلئے اٹل ہے کوئی اسلام سے الگ ہٹ کر اگر عزت تلاش کرے گا تو وہ ذلیل و رسوا ہوگا ۔ تاریخ کے صفحات ایسے افرادسے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے اسلام میں عزت پائی ، انہیں فرعون وقت نے ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کی مگر جیسا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ’عزت تو الله اوراس کے رسول اور مومنین ہی کے لیے ہے لیکن منافق نہیں جانتے‘ سورہ منافقون آیت ۸ ۔اللہ نے اپنے نیک بندوں کیلئے عزت مختص کررکھی ہے کسی کو یہ سمجھ میں آئے یا نہیں آئے ویسے طالبان کے ساتھ امریکی سمجھوتہ سے تو یہ بات سمجھ میں آجانی چاہئے ۔ کتنے متکبرانہ انداز میں جارج بش نے کہا تھا طالبان ختم ہوگئے ۔ مگر آج دنیا نے دیکھ لیا کہ جو ٹھیک ٹھیک اسلام نافذ کرنا چاہتا ہے اس کیلئے مشکلات دنیا کے شیاطین کی جانب سے کھڑی تو کی جاسکتی ہیں مگر اللہ اپنے مسلم بندوں کو رسوا نہیں ہونے دے گا ،وہ انہیں عزت دے کر رہے گا ۔طالبان کےمعاہدہ کی پہلی شق ہی ان کے کامل ایمان کیلئے کافی ثبوت ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے سبھی اداروں کو اسلامی خطوط پر ترقی دیں گے ۔ 
غلامی ایسی نحوست بھری چیز ہے جس میں انسان خود کو پہچاننا بھول جاتا ہے ۔ دنیا میں ہم اس کی کئی مثالیں دیکھ سکتے ہیں ۔ خود وطن عزیز کی پچاس فیصد سے زائد تعداد رکھنے والی آبادی برہمنوں کی غلامی میں اپنی خودی کو اتنی بھول چکی ہے کہ وہ ہندو نہیں ہوتے ہوئے بھی سارے ہندو رسم و رواج مناتی ہے ۔ حالانکہ ان کے لیڈر انہیں بتاتے نہیں تھکتے کہ وہ ہندو نہیں ہیں اور ہندو کے نام پر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کی جارہی ہے مگر وہ پندرہ فیصد والی آبادی میں برہمنیت کے علمبرداروں کی سازش کا شکار ہوکر مسلمانوں کی دشمنی میں دیوانے ہورہے ہیں اور یوں اپنا ہی نقصان کررہے ہیں ۔ یہ لوگ تو خیر تین ہزار سال کی غلامی کے سبب اس ذہنی سطح تک پہنچے ہیں مگر اسی ملک میں مسلمانوں کی حالت محض ستر پچھتر برسوں میں یہ ہوگئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی کسی بڑی کامیابی کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے ۔ غلطی عام مسلمانوں کی بھی نہیں ہے ،یہ ان عناصر کے پھندے ہیں جو عافیت پسند ہیں اور مغرب یا امریکہ کے ٹکنالوجی اور اس کی ترقی سے مرعوب ہیں ۔اس مرعوبیت میں یہ حضرات قوم پر بھی مایوسی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ طالبان اور امریکہ کے درمیان سمجھوتے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ سمجھوتہ کامیاب نہیں ہوگا یا پھر ان کا یہ ماننا ہے کہ طالبان نے یہ سمجھوتہ گر کر کیا ہے اور طالبان کی جیت نہیں ہار ہے ۔ اس طرح کے خیالات پیش کرنے والے افراد قوم کو مغالطہ میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ بزدل ہیں ویسے ہی پوری قوم بن جائے ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ پوری ملت بزدلی کے مرض میں مبتلا نہیں ہوئی ہے ۔ 
اگر طالبان امریکہ سے خائف ہوتے اور وہ کمزور پڑتے تو امریکہ کبھی ان سے سمجھوتہ نہیں کرتا مگر طالبان کے دبائو نے امریکیوں کو مجبور کیا کہ وہ سمجھوتہ کرلیں اور یوں اپنے آٹھ دس ہزار فوجیوں کو موت کے منھ سے بچاکر لے جائیں ۔ اس کے برعکس یہ صحرا نشین طالبان پوری دنیا سے بے نیاز اور دنیاوی قوت سےبے خوف ہوکر گوریلا جنگ لڑتے رہے اور بالآخر فرعونی قوت کو ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔کئی سال قبل طالبان کی روسیوں پر فتح کی ضمن میں شاہنواز فاروقی نے لکھا تھا اور اپنی کسی تقریر میں اس کا حوالہ بھی دیا تھا کہ جو کچھ طالبان نے حاصل کیا ہے اگر یہ کسی مغربی ملک کو میسر ہوا ہوتا تو پانچ ہزار سے زائد کتابیں محض اس موضوع پر شائع ہوچکی ہوتیں ۔مگر غلام ذہنیت اور ٹکنالوجی کی مرعوبیت کے سبب مسلمانوں کے دانشور طبقہ کو یہ بات ہضم ہی نہیں ہوتی کہ طالبان نے محض چالیس سال میں دنیا کی دوبڑی طاقتوں کو شکست دے کر تاریخ رقم کردی ہے ۔یہ اس دانشور طبقہ کا ہی حال نہیں ہے مسلمانوں کے درمیان کئی اہم تحریکی شخصیت کا بھی یہ خیال ہے کہ مسلمان اس دور میں کوئی کارنامہ انجام دے ہی نہیں سکتے ۔ جیسے ایک بار نوجوانوں کی تنظیم کے ایک ذمہ دار سے یہ کہا گیا کہ امریکہ میں دو مسلم تنظیمیں اتنی متحرک ہیں کہ وہ کئی اہم پالیسی پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں تو یہ بات انہوں نے تسلیم ہی نہیں کی ۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے آگے کچھ نہیں ہو سکتا وہ جو چاہے گا وہی ہوگا ۔ ان کے اس طرح کے خیال سے بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا اس امر پر ایمان کمزور ہے کہ اس کائنات کا نظام اللہ چلا رہا ۔
بہر حال امریکہ طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کرچکاہے اور سمجھوتہ کوئی اسی وقت کرتا ہے جب وہ سامنے والے سے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتا اور یہ اسی طرح حقیقت ہے جیسا کہ دن کے وقت سورج ۔ذرا سوچئے کفار قریش نے حدیبیہ میں مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کیوں کیا ؟ جبکہ اس سے قبل وہ مسلمانوں سے گفتگو کو تیار نہیں تھے ، ان کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے تھے کہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھا جائے ۔ مگر جب کفار قریش کو یہ یقین ہو گیا کہ مسلمان ایک بڑی طاقت بن چکے ہیں اور جلد یا بدیر وہ پورے عرب پر چھاجائیں گے تو انہیں سمجھوتہ کی میز پر آنا ہی پڑا ۔ اسلام کسی سے اسی وقت تک لڑنے کی تاکید کرتا ہے جب تک وہ لڑنا چاہئے ، اگر وہ صلح چاہے تو اسلام فوراً صلح کو اہمیت دینے کی بات کرتا ہے ۔ کیوں کہ اسلام کے نزدیک بلا عذر کسی انسان کوقتل کرنا پوری انسانیت کا قتل ہے ۔
طالبان سے بھی جب امریکہ نے صلح کی پیش کش کی تو انہوں نے اپنی شرائط کے ساتھ اسے قبول کیا ۔غور کیجئے ایک وقت تھا جب افغانستان کو طالبان سے پاک کرنے کی بات کی گئی تھی ، دنیا کی ساری قوتیں اس پر متفق تھیں لیکن طالبان ہمیشہ اصولوں کی بات کرتے رہے ۔امریکہ چونکہ طالبان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے عہد کے ساتھ آیا تھا اس لئے اس کی اس میں بڑی سُبکی تھی کہ جنہیں اس نے مٹانے کا عزم کیا تھا ان کو (قوت کے معاملہ میں) اپنا ہم پلہ سمجھتے ہوئے مذاکرات کرے ۔ اس سُبکی سے بچنے کیلئے اوبامہ کے دور میں اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح ایجاد کی گئی اور گفتگو کرنے کیلئے اچھے طالبان کا انتخاب کیا گیا ، حالانکہ طالبان جو تھے وہی اب بھی ہیں ۔ان کی گفتگو کے انداز زمین پر چلنے پھرنے کا طریقہ ان کے لباس وغیرہ کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔وہ جہاں بھی گئے جس سے بھی گفتگو کی اسی عاجزی و انکساری والے رویہ کے ساتھ لیکن اسلامی اقدار کی روشنی میں ، مسلمانوں کے عزت و وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ۔اب کسی کو وہ لوگ جاہل احمق اور دہشت گرد نظر آتے ہیں تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانے کی ضرورت ہے ۔
طالبان کے عروج پر علامہ اقبال کا ایک شعر صادق آتا ہے ؎ نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا/سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا۔ وہ شیر طالبان کی صورت میں ہوشیار ہوچکا ہے اور وہ دوسرے شیروں کو جو کہیں اخوان المسلمین اور حماس کی شکل میں موجود ہیں اور جو فرعونی جبر کا مقابلہ پامردی کے ساتھ کررہے ہیںانہیں بھی قوت بخشے گا کیوں اللہ کے نبی ﷺ نے کہا مومن ایک عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسرے کو قوت دیتی ہے ۔علامہ اقبال نےاسپین وغیرہ میں مسلمانوں کی ماضی کے باقیات دیکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا تھا ؎کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے/عشقِ بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!۔ علامہ رحمتہ اللہ علیہ کی روح کو ان کے سوالوں کاجواب افغان طالبان کی صورت میں مل گیا ؎ افغان باقی، کُہسار باقی/اَلْحُکْمُ لِلّٰہ! اَلْمُلْکُ لِلّٰہ!۔

0 comments:

Muslim Issues

دہلی قتل عام اور حکومت کی بے شرمی


نہال صغیر

دہلی فساد جسے قتل عام کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے میں اب تک تصدیق شدہ انسانی اموات کی تعداد ۴۲ سے زائد ہوچکی ہیں ۔ تین دن تک دہلی جلتی رہی اور ہمارے پردھان سیوک ٹرمپ کے ساتھ انسانیت اور دہشت گردی پر گفتگو کرتے رہے ۔ پوری دنیا سے حکومت پر لعنت کے ٹھیکرے برس رہے ہیں مگر ہمارے وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کانگریس اور حزب مخالف نے کرایا ہے ۔ مہاراشٹر سے ایک اور دلت لیڈر اور برہمنزم کے غلام رام داس اٹھاولے کہتے ہیں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے یہ فساد کرایا ہے ۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ ایک نہیں دسیوں ویڈیو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فسادات ہوتے رہے فسادی آزاد  گھومتے رہے اور دہلی کی نکمی اور بے شرم پولس خاموش تماشائی رہی ۔ انہیں ان کے آقائوں نے امن کے قیام کی کوشش کیلئے متحرک ہونے کا حکم ہی نہیں دیاتھا ۔ پولس کے اسی رویہ کے سبب مسلم نوجوانوں نے بحالت مجبوری حفاظت خود اختیاری کے طور پر اپنا دفاع کیا اور یوں انہوں نے مزید نقصان ہونے سے بچالیا اور کئی فسادی بھی مارے گئے ۔
واضح ہوکہ مسلمان جن سیکولر اور جمہوریت پسند طبقہ پر جان چھڑکتے ہیں ان کے نزدیک مسلمانوں کا حفاظت خود اختیاری والا رویہ بھی قابل مذمت ہے ۔ حفاظت خود اختیاری کی بنیاد پر ہی طاہر حسین نے جو احتیاطی تدبیر کی اس کی وجہ سے انہیں فساد کا ماسٹر مائنڈ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ میڈیا اور پولس کا یہ رویہ نیا نہیں ہے تقریبا آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا آیا ہے ۔ ابھی تک گرفتار لوگوں کے تعلق سے یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ ان میں فسادی کتنے گرفتار کئے گئے اور مسلمان کتنے مگر مجھے یہاں کے بدترین متعصب انتظامیہ سے یہی امید ہے کہ انہوں نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا ہوگا جیسا کہ طاہر حسین کے معاملہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔مگر حکومت کی بے شرمی دیکھئے کہ پوری دنیا جس کی حقیقت کو اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اس کے تعلق سے سچائی تسلیم کرنا قصورواروں کیلئے مشکل ہورہا ہے ۔ سچ ہی کہا ہے نبی ﷺ نے ’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘۔ (بخاری،ج 2،ص470، حدیث:3484) ۔ مذکورہ حدیث کی روشنی میں ہم حکومت کی بے شرمی بے غیرتی اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔
موجودہ حکومت عوام اور اس کی تحریک سے اتنی خوفزدہ ہے کہ وہ انہیں دھوکے میں رکھنے والا کام رات کے اندھیرے میں ہی کیا کرتی ہے ۔ رات کے اندھیرے میں نوٹ بندی ، جی ایس ٹی کا نفاذ اور مہاراشٹر میں اپوزیشن کو دور رکھنے کیلئے رات کے اندھیرے میں ہی صدر راج اٹھانا اور صبح تڑکے ہی حلف برداری ۔اسی طرح اس نے جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ بھی رات کے اندھیرے میں ہی کردیا ۔ شاید یہ تاریکی کے پجاری ہیں ۔دہلی فساد میں پولس اور انتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی کیخلاف دہلی ہائی کورٹ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے دہلی پولس کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے اشتعال انگیز بیانات دینے والے بی جے پی لیڈروں پر کارروائی کا حکم کیا دیا کہ حسب روایت بی جے پی کی موجودہ حکومت میں رات کے بارہ بجے جج مرلی دھر کا تبادلہ اچانک اور فوری اثر کے ساتھ کردیا گیا ۔
الزامات کے جواب میں کہا جارہا ہے کہ کالجیم نے ان کے تبادلہ کی سفارش ۱۲؍ فروری کو ہی کردی تھی ۔ لیکن یہ محض ایک بہانہ ہے اور اس کی حیثیت تار عنکبوت سے زیادہ نہیں ہے ۔ دنیا جانتی ہے کہ آناً فاناً میں جج کا تبادلہ صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ بی جے پی کے لیڈر کو موجودہ فساد کے الزام اور مواخذہ سے بچایا جاسکے ۔ اس کی وجہ یہ ہے جسٹس مرلی دھر نے فسادکے دوران پولس کے کردار پر اٹھ رہے سوال پر بہت سخت تیور اپنائے تھے اور وہ تاریخی اور نہایت شدید ریمارک دیا تھا کہ ہم ۱۹۸۴ جیسے فساد کا اعادہ نہیں ہونے دیں گے ۔ جج کے اس طرح کے انصاف پر مبنی رویہ کو دیکھتے ہوئے ہی جسٹس مرلی دھر کو رات میں ہی فوری تبادلہ کے احکام دے دیئے گئے ۔ حکومت کا یہ رویہ انتہائی شرمناک ہے ۔ یہ شرم و حیا والا معاملہ ان کے لئے ہے جن میں یہ موجود ہو۔ دنیا کی تاریخ میں اتنے بے شرم اور ڈھیٹ قسم کے حکمراں شاید ہی کہیں دیکھے گئے ہوں ۔ وہ بھی اکیسویں صدی کے جمہوری دور میں جس پر دانشوروں کا طبقہ بضد ہے کہ دنیا میں اس سے بہتر نظام حکومت نہیں ہے ۔ جبکہ ہمیں اس جمہوری نظام نے وہ حکمراں عطا کئے ہیں جن کا تصور بادشاہت اور آمرانہ طرز حکومت میں بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ کانگریس نے بجا طور پر الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کو بچانے کیلئے جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ کیا گیا ہے ۔ یہ بات اسی طرح سچ اور واضح ہے جس طرح دوپہر میں سورج کی موجودگی ۔ خواہ اب بی جے پی یا حکومت کے ذمہ داروں کی جانب سے کچھ بھی جواز گڑھے جائیں ۔
ہندوستا ن میں موجودہ حکومت کے دور میں سارے عوامی ادارے تباہ ہو چکے ہیں ۔ جمہوریت کے جتنے بھی ستون کہے جاتے ہیں ان میں کہیں کوئی جان نہیں بچی ہے ۔ عدلیہ بھی پوری طرح اپنا وقار کھو چکی ہے ، بس اتنا ہے کہ کچھ ججز جن کا ضمیر زندہ ہے اور وہ عدلیہ کا نام روشن دیکھنا چاہتے وہ اپنی جانب سے بساط بھر کوشش کرتے ہیں ۔ ایسی ہی کوشش جسٹس مرلی دھر نے کی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ جہاں پوری دنیا کے انصاف پسندوں نے ان کے جرات کی ستائش کی وہیں ان کے فیصلہ کی زد پر آنے والوں کے حامیوں نے بہر حال انہیں اس سیٹ سے ہٹانے کے احکام دے دیئے جہاں رہ کر وہ مظلوموں کی دادرسی کرسکتے اور ظالموں کی گردن ناپ سکتے تھے ۔ہندوستان میں جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جانے والا ذرائع ابلاغ تو کب سے حکومت کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکا ہوا ہے اسی کا انجام ہے کہ اب کوئی ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیتا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں  ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ لوگ حکومت کی چاپلوسی کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے ۔ مگر عدلیہ کے بگاڑ کے باوجود بعض ججوں کی اپنے فرائض اور ذمہ داری کے تئیں سنجیدگی شاید یہاں کے بے بس عوام کا آخری سہارا ہیں ۔ اگر انہیں بھی کام نہیں کرنے دیا گیا تو عوام میں جو بے چینی پھیلے گی اور اس بے چینی کے نتیجہ میں جو نقصان ہوگا اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟
یہ سوال آج کے ہر اس شخص کو اعلیٰ حکومتی اہلکاروں سے ضرور کرنا چاہئے جو موجودہ حالات سے واقف ہیں اور اس کے ردعمل سے بھی ۔ وطن پرستی کے نام پر پورے ملک میں جس اندھیرے کو مزید گہرا کیا جارہا ہے ایک دن ایسا بھی آئےگا جب اس اندھیرے سے کبھی ہم اجالے کی جانب پہنچ پائیں گے تو ہمیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوگا کہ اس عرصہ میں ہم نے کیا کیا کھو دیا ۔بہتر ہوتا کہ ہم اس اندھیرے کی گہرائی میں پہنچنے سے پہلے ہی تیزی سے پیچھے کی جانب پلٹیں ورنہ اس وقت پچھتانے سے کچھ نہیں ہوگا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’اب پچھتاوت کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت‘۔بیدار ہو جائیے باہر نکل آیئے کہ خواتین ناقابل تصور حوصلہ دکھاتے ہوئے دوماہ سے زائد عرصہ سے گھر کا سکھ چھوڑ کر ملک اور اپنے آنے والی نسلوں کے مستقبل کیلئے سڑکوں پر نکل آئی ہیں ۔ موجودہ حکومت تاریک ذہن کی ہے اور وہ پورے ملک کو تاریک دور میں لے جانا چاہتی ہے ۔کیا آپ یہ چاہیں گے کہ یہ لوگ ملک کو تاریک دور میں لے جائیں اور ہم دیکھتے رہیں ؟

0 comments:

International,

افغانستان : الہ کے اصل مفہوم اور نظریے کی فتح


  
عمر فراہی ۔ ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com

بالآخر افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے بیچ قطر کی راجدھانی دوحہ میں جہاں طالبان کا ہیڈ کوارٹر پہلے سے موجود تھا امن معاہدے پر دونوں ملکوں کے نمائندوں نے دستخط کر دئیے ہیں ۔ امید کی جارہی ہے کہ برسوں سے اس خطے میں جو خونریزی کا ماحول تھا اب اس میں کمی آئے گی یا اس پر قابو پالیا جائے گا ۔ لیکن ابھی بھی ایک طبقہ شک اور شبہے میں مبتلا ہے کہ کیا اس معاہدے سے افغانستان میں امن دیرپا ثابت ہوگا ۔ ان کا خدشہ یہ ہے کہ اسی طرح کا معاہدہ تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس اور افغان مجاہدین کے درمیان بھی ہوا تھا مگر اس کے بعد کیا ہوا ۔مجاہدین آپس میں ہی لڑ پڑے اور اپنے ہی بھائیوں کے خون کے پیاسے ہو گئے۔بات تو صحیح ہے کہ جس طرح افغانستان میں اور بھی کئی دھڑے ہیں اور خود کابل میں ایک نام نہاد منتخب حکومت موجود ہے یہ معاہدہ کہاں تک اپنی کامیابی کی دہلیز تک قدم رکھ پائے گا کہا نہیں جاسکتا۔ہمارا بھی خیال یہی ہے کہ امریکہ کے افغانستان چھوڑنے کے بعد بھی طالبان کیلئے اتنی جلدی خطے میں امن قائم کرنا بہت آسان اس لئے نہیں ہوگا کیوں کہ خود امریکہ چور دروازے سے اپنے ہم خیال گروہوں کی مدد سے باز نہیں آئے گا ۔ لیکن اگر امریکہ نے ایسا کیا تو طالبان جن سے کہ اس معاہدے میں وعدہ لیا گیا ہے کہ وہ القاعدہ سے تعلقات منقطع کر لیں گے ان کا استعمال کر سکتے ہیں ۔
خیر جو بھی ہو سن اسی کی دہائی کے افغان مجاہدین جن میں برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار، رشید دوستم اور ملا مسعود خان کی کمان میں مجاہدین کے کئی گروہ اس معاہدے میں شامل تھے۔ 2020 کے طالبان اور افغانستان میں کئی تبدیلیاں آچکی ہیں ۔آج کا معاہدہ صرف امریکہ اور طالبان کے درمیان نہیں طے پایا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ معاہدہ امارت اسلامیہ افغانستان اور یونائیٹیڈ اسٹیٹ آف امریکہ کے درمیان طے پایا ہے ۔ امریکہ چاہتا تھا کہ اس معاہدے میں افغان حکومت کو بھی شامل کیا جائے مگر طالبان نے امریکہ کے اس مطالبہ کو اس لئے رد کر دیا کہ افغانستان میں ابھی بھی طالبان کی امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت قائم ہے اور امریکہ کو ان کے اس دعوے کو تسلیم کرکے ہی معاہدہ کرنا ہوگا یعنی ابھی بھی افغانستان میں طالبان ہی اصل حکمران ہیں جبکہ کابل حکومت امریکہ کی مدد سے ناجائز طریقے سے بنائی گئی ہے ۔
اس معاہدے کا مطلب صاف ہے کہ طالبان جن علاقوں پر قابض ہیں امریکہ نے فی الحال ان کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے اور ماضی میں کابل پر کس کی حکومت ہوگی یہ افغانستان کے عوام طے کریں گے اور معاہدے کے تحت امریکہ کو کسی طرح کی مداخلت کا حق نہیں ہوگا ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ نے جس طرح فوجی طاقت سے طالبان سے کابل اور قندھار کے علاقوں کو چھینا تھا امریکہ دوبارہ پرامن طریقے سے ان شہروں کو طالبان کو سونپ کر جاتا لیکن کہیں نہ کہیں اگر امریکہ کی اپنی نیت میں کھوٹ ہے تو کہیں طالبان نے بھی مستقبل کے لائحہ عمل کے طور پر پیچھے ہٹ کر پسپائی قبول کر لی ہے ۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اب طالبان کیلئے کابل اور قندھار تک جانے کا راستہ صاف ہو چکا ہے اور اس معاہدے میں جس طرح پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جیسا کہ ابھی حال ہی میں ڈونالڈ ٹرمپ نے احمدآباد کے اسٹیڈیم میں خطاب کے دوران افغانستان کا تذکرہ کرتے ہوئے عمران خان کی تعریف کی ایک بار پھر پاکستان یہ چاہے گا کہ طالبان کابل پر حکومت بنا لیں اور اس حکومت کو اقوام متحدہ میں تسلیم بھی کر لیا جائے۔یاد رہے پچھلی بار بھی طالبان کی حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا تھا بعد میں سعودی عرب نے بھی منظوری دے دی تھی ۔ اب عالمی حالات تھوڑےسے بدلے ہوئے ہیں ۔
اس بار ترکی اور ملیشیا کے ساتھ کئی اور مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ یوروپی ممالک بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے آگے آسکتے  ہیں ۔ممکن ہے کہ روس چین یا خود امریکہ میں سے بھی کوئی طاقت آگے بڑھ کر اسے تسلیم کرنے کی پہل کریں ۔وقت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس خطے میں دائمی امن کےمدنظر بھارت بھی پہل کرے جیسا کہ نومبر 2013 میں گوا میں منعقد ایک کانفرنس کے دوران ترون تیج پال کو ایک سیکس اسکینڈل کے ذریعے پھنسایا گیا تھا اس کانفرنس میں بھارت سے محمود مدنی اور طالبان کے ترجمان ملا عبدالسلام ضعیف کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔اس اجلاس میں محمود مدنی کی شمولیت ملا عبدالسلام ضعیف کی وجہ سے تھی تاکہ محمود مدنی کی دستار سے ملا ضعیف کے سامنے ہندوستانی مسلمانوں کا ملائی چہرہ پیش کیا جائے۔ٹائمس آف انڈیا نے ایک چھوٹے سے کالم میں اس خبر کا تذکرہ کر دیا تھا ورنہ حکومتی سطح پر ملا عبدالسلام ضعیف کے اس دورے کو بہت مشتہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے اس دورے کا سبب ہی معلوم ہو سکا لیکن اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے صدر اوبامہ نے عراق سے جس طرح امریکی فوجوں کا مکمل انخلاء کر لیا تھا افغانستان سے بھی آدھی فوج بلا لی تھی بھارت کو اندازہ تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء سے طالبان کا عروج لازمی ہے اس لئے کیوں نہ حفظ ماتقدم کے تحت سفارتی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔بعد میں بھارت نے حالات کو کچھ اپنے حق میں دیکھتے ہوئے بہت سنجیدگی نہیں دکھائی ۔ خاص طور سے ٹرمپ کے صدر بنتے ہی ایسا لگا کہ وہ ایک بار پھر افغانستان میں اپنی مہم تیز کر دیں گے اور تیز کیا بھی مگر ڈونالڈ ٹرمپ نے شاید اقبال کے بقول ابلیس کا فرمان ٹھیک سے پڑھا نہیں تھا ۔ ابلیس کہتا ہے کہ؎ وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا/رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو /فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات/اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو /افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج/مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو ۔
امریکہ عرب حکمرانوں کی فکر پر فرنگی تخیلات غالب کرنے میں تو کامیاب ہو سکا ہے لیکن ملاؤں کو ان کے کوہ و دمن سے نکالنے کی بجائے خود نکلنے کا راستہ پانے کیلئے ان سے معاہدہ پر مجبور ہو گیا ۔افغانی ملاؤں کی یہی سب سے بڑی فتح ہے کہ روس کے بعد دوسری سپر پاور امریکہ کو بھی ان کے جذبہ حریت کو تسلیم کرنا پڑا ۔دیکھتے ہیں حالات آگے کیا رخ اختیار کرتے ہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس بار سرد جنگ کی طرح کے حالات نہیں ہیں ۔اس وقت افغان مجاہدین کئی دھڑوں میں بٹے ہوئے تھے اس بار طالبان امارت اسلامیہ افغانستان کے تحت نہ صرف متحد اور منظم ہیں بلکہ انہیں حکومت کا تجربہ بھی ہے ۔
قوی امید ہے کہ کچھ مزاحمت کے بعد افغانیوں کو دوبارہ امن کا ماحول میسر ہو جائے گا ۔ ویسے طالبان کے پانچ سالہ دور میں مکمل امن ہی تھا جو امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے ناپید ہو چکا تھا ۔خود 2001 سے 2020 تک کے سفر میں طالبان جن کے بارے میں کئی منفی افواہیں اڑائی گئی انہوں نے ثابت کیا کہ وہ متحد ہیں اور افغانستان میں ان کے وجود کو تسلیم کئے بغیر امن ایک ٹیڑھی کھیر ہی ثابت ہوگا ۔اللہ کرے افغانیوں کو امن کا ماحول نصیب ہو ۔اب یہ تو آنے والے حالات ہی طے کریں گے کیوں کہ ابھی بھی کچھ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ایسا ہو ۔یہ سوال اپنی جگہ ،مگر دوسرا سوال اللہ کے ان بندوں سے ہے جو امریکہ کی زبان بولتے ہوئے کبھی افغانیوں کو مجاہد اور طالبان کو دہشت گرد بولتے اور تسلیم کرتے ہوئے‌نظر آئے اب وہ نئے طالبان کیلئے کیا لقب استعمال کرتے ہیں؟ 
کیا یہ معاہدہ امریکہ اور دہشت گردوں کے درمیان طے پایا ہے ؟نہیں امریکی نمائندوں نے باعزت طریقے سے اپنے ان مخالف حکمرانوں سے معاہدہ کیا ہے جو کبھی امارت اسلامیہ کے نام سے افغانستان کے حاکم تھے ۔مشکل یہ ہے کہ اب امریکہ نے اپنی زبان بدل دی تو کیا اہل ایمان بھی اپنی زبان بدل دیں گے ؟۔دیکھئے غور کیجئے اور سوچئےکہ کہیں آپ الہ کے اصل مفہوم اور نظریے کے باغی تو نہیں ہیں ؟


0 comments: