International,

افغانستان : الہ کے اصل مفہوم اور نظریے کی فتح

12:50 PM nehal sagheer 0 Comments


  
عمر فراہی ۔ ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com

بالآخر افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے بیچ قطر کی راجدھانی دوحہ میں جہاں طالبان کا ہیڈ کوارٹر پہلے سے موجود تھا امن معاہدے پر دونوں ملکوں کے نمائندوں نے دستخط کر دئیے ہیں ۔ امید کی جارہی ہے کہ برسوں سے اس خطے میں جو خونریزی کا ماحول تھا اب اس میں کمی آئے گی یا اس پر قابو پالیا جائے گا ۔ لیکن ابھی بھی ایک طبقہ شک اور شبہے میں مبتلا ہے کہ کیا اس معاہدے سے افغانستان میں امن دیرپا ثابت ہوگا ۔ ان کا خدشہ یہ ہے کہ اسی طرح کا معاہدہ تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس اور افغان مجاہدین کے درمیان بھی ہوا تھا مگر اس کے بعد کیا ہوا ۔مجاہدین آپس میں ہی لڑ پڑے اور اپنے ہی بھائیوں کے خون کے پیاسے ہو گئے۔بات تو صحیح ہے کہ جس طرح افغانستان میں اور بھی کئی دھڑے ہیں اور خود کابل میں ایک نام نہاد منتخب حکومت موجود ہے یہ معاہدہ کہاں تک اپنی کامیابی کی دہلیز تک قدم رکھ پائے گا کہا نہیں جاسکتا۔ہمارا بھی خیال یہی ہے کہ امریکہ کے افغانستان چھوڑنے کے بعد بھی طالبان کیلئے اتنی جلدی خطے میں امن قائم کرنا بہت آسان اس لئے نہیں ہوگا کیوں کہ خود امریکہ چور دروازے سے اپنے ہم خیال گروہوں کی مدد سے باز نہیں آئے گا ۔ لیکن اگر امریکہ نے ایسا کیا تو طالبان جن سے کہ اس معاہدے میں وعدہ لیا گیا ہے کہ وہ القاعدہ سے تعلقات منقطع کر لیں گے ان کا استعمال کر سکتے ہیں ۔
خیر جو بھی ہو سن اسی کی دہائی کے افغان مجاہدین جن میں برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار، رشید دوستم اور ملا مسعود خان کی کمان میں مجاہدین کے کئی گروہ اس معاہدے میں شامل تھے۔ 2020 کے طالبان اور افغانستان میں کئی تبدیلیاں آچکی ہیں ۔آج کا معاہدہ صرف امریکہ اور طالبان کے درمیان نہیں طے پایا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ معاہدہ امارت اسلامیہ افغانستان اور یونائیٹیڈ اسٹیٹ آف امریکہ کے درمیان طے پایا ہے ۔ امریکہ چاہتا تھا کہ اس معاہدے میں افغان حکومت کو بھی شامل کیا جائے مگر طالبان نے امریکہ کے اس مطالبہ کو اس لئے رد کر دیا کہ افغانستان میں ابھی بھی طالبان کی امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت قائم ہے اور امریکہ کو ان کے اس دعوے کو تسلیم کرکے ہی معاہدہ کرنا ہوگا یعنی ابھی بھی افغانستان میں طالبان ہی اصل حکمران ہیں جبکہ کابل حکومت امریکہ کی مدد سے ناجائز طریقے سے بنائی گئی ہے ۔
اس معاہدے کا مطلب صاف ہے کہ طالبان جن علاقوں پر قابض ہیں امریکہ نے فی الحال ان کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے اور ماضی میں کابل پر کس کی حکومت ہوگی یہ افغانستان کے عوام طے کریں گے اور معاہدے کے تحت امریکہ کو کسی طرح کی مداخلت کا حق نہیں ہوگا ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ نے جس طرح فوجی طاقت سے طالبان سے کابل اور قندھار کے علاقوں کو چھینا تھا امریکہ دوبارہ پرامن طریقے سے ان شہروں کو طالبان کو سونپ کر جاتا لیکن کہیں نہ کہیں اگر امریکہ کی اپنی نیت میں کھوٹ ہے تو کہیں طالبان نے بھی مستقبل کے لائحہ عمل کے طور پر پیچھے ہٹ کر پسپائی قبول کر لی ہے ۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اب طالبان کیلئے کابل اور قندھار تک جانے کا راستہ صاف ہو چکا ہے اور اس معاہدے میں جس طرح پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جیسا کہ ابھی حال ہی میں ڈونالڈ ٹرمپ نے احمدآباد کے اسٹیڈیم میں خطاب کے دوران افغانستان کا تذکرہ کرتے ہوئے عمران خان کی تعریف کی ایک بار پھر پاکستان یہ چاہے گا کہ طالبان کابل پر حکومت بنا لیں اور اس حکومت کو اقوام متحدہ میں تسلیم بھی کر لیا جائے۔یاد رہے پچھلی بار بھی طالبان کی حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا تھا بعد میں سعودی عرب نے بھی منظوری دے دی تھی ۔ اب عالمی حالات تھوڑےسے بدلے ہوئے ہیں ۔
اس بار ترکی اور ملیشیا کے ساتھ کئی اور مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ یوروپی ممالک بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے آگے آسکتے  ہیں ۔ممکن ہے کہ روس چین یا خود امریکہ میں سے بھی کوئی طاقت آگے بڑھ کر اسے تسلیم کرنے کی پہل کریں ۔وقت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس خطے میں دائمی امن کےمدنظر بھارت بھی پہل کرے جیسا کہ نومبر 2013 میں گوا میں منعقد ایک کانفرنس کے دوران ترون تیج پال کو ایک سیکس اسکینڈل کے ذریعے پھنسایا گیا تھا اس کانفرنس میں بھارت سے محمود مدنی اور طالبان کے ترجمان ملا عبدالسلام ضعیف کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔اس اجلاس میں محمود مدنی کی شمولیت ملا عبدالسلام ضعیف کی وجہ سے تھی تاکہ محمود مدنی کی دستار سے ملا ضعیف کے سامنے ہندوستانی مسلمانوں کا ملائی چہرہ پیش کیا جائے۔ٹائمس آف انڈیا نے ایک چھوٹے سے کالم میں اس خبر کا تذکرہ کر دیا تھا ورنہ حکومتی سطح پر ملا عبدالسلام ضعیف کے اس دورے کو بہت مشتہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے اس دورے کا سبب ہی معلوم ہو سکا لیکن اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے صدر اوبامہ نے عراق سے جس طرح امریکی فوجوں کا مکمل انخلاء کر لیا تھا افغانستان سے بھی آدھی فوج بلا لی تھی بھارت کو اندازہ تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء سے طالبان کا عروج لازمی ہے اس لئے کیوں نہ حفظ ماتقدم کے تحت سفارتی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔بعد میں بھارت نے حالات کو کچھ اپنے حق میں دیکھتے ہوئے بہت سنجیدگی نہیں دکھائی ۔ خاص طور سے ٹرمپ کے صدر بنتے ہی ایسا لگا کہ وہ ایک بار پھر افغانستان میں اپنی مہم تیز کر دیں گے اور تیز کیا بھی مگر ڈونالڈ ٹرمپ نے شاید اقبال کے بقول ابلیس کا فرمان ٹھیک سے پڑھا نہیں تھا ۔ ابلیس کہتا ہے کہ؎ وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا/رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو /فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات/اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو /افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج/مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو ۔
امریکہ عرب حکمرانوں کی فکر پر فرنگی تخیلات غالب کرنے میں تو کامیاب ہو سکا ہے لیکن ملاؤں کو ان کے کوہ و دمن سے نکالنے کی بجائے خود نکلنے کا راستہ پانے کیلئے ان سے معاہدہ پر مجبور ہو گیا ۔افغانی ملاؤں کی یہی سب سے بڑی فتح ہے کہ روس کے بعد دوسری سپر پاور امریکہ کو بھی ان کے جذبہ حریت کو تسلیم کرنا پڑا ۔دیکھتے ہیں حالات آگے کیا رخ اختیار کرتے ہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس بار سرد جنگ کی طرح کے حالات نہیں ہیں ۔اس وقت افغان مجاہدین کئی دھڑوں میں بٹے ہوئے تھے اس بار طالبان امارت اسلامیہ افغانستان کے تحت نہ صرف متحد اور منظم ہیں بلکہ انہیں حکومت کا تجربہ بھی ہے ۔
قوی امید ہے کہ کچھ مزاحمت کے بعد افغانیوں کو دوبارہ امن کا ماحول میسر ہو جائے گا ۔ ویسے طالبان کے پانچ سالہ دور میں مکمل امن ہی تھا جو امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے ناپید ہو چکا تھا ۔خود 2001 سے 2020 تک کے سفر میں طالبان جن کے بارے میں کئی منفی افواہیں اڑائی گئی انہوں نے ثابت کیا کہ وہ متحد ہیں اور افغانستان میں ان کے وجود کو تسلیم کئے بغیر امن ایک ٹیڑھی کھیر ہی ثابت ہوگا ۔اللہ کرے افغانیوں کو امن کا ماحول نصیب ہو ۔اب یہ تو آنے والے حالات ہی طے کریں گے کیوں کہ ابھی بھی کچھ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ایسا ہو ۔یہ سوال اپنی جگہ ،مگر دوسرا سوال اللہ کے ان بندوں سے ہے جو امریکہ کی زبان بولتے ہوئے کبھی افغانیوں کو مجاہد اور طالبان کو دہشت گرد بولتے اور تسلیم کرتے ہوئے‌نظر آئے اب وہ نئے طالبان کیلئے کیا لقب استعمال کرتے ہیں؟ 
کیا یہ معاہدہ امریکہ اور دہشت گردوں کے درمیان طے پایا ہے ؟نہیں امریکی نمائندوں نے باعزت طریقے سے اپنے ان مخالف حکمرانوں سے معاہدہ کیا ہے جو کبھی امارت اسلامیہ کے نام سے افغانستان کے حاکم تھے ۔مشکل یہ ہے کہ اب امریکہ نے اپنی زبان بدل دی تو کیا اہل ایمان بھی اپنی زبان بدل دیں گے ؟۔دیکھئے غور کیجئے اور سوچئےکہ کہیں آپ الہ کے اصل مفہوم اور نظریے کے باغی تو نہیں ہیں ؟


0 comments: