Muslim Worlds

طالبان : یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے

11:21 AM nehal sagheer 0 Comments




   نہال صغیر ۔ ای میل  sagheernehal@gmail.com 

علامہ اقبال نے مومن کے تعلق سے ایک بات کہی تھی ؎ جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں/اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے۔ اقبال کے اسی بندہ مومن کی زندہ مثال طالبان ہیں جن کی بے پناہ قربانیوں کے سبب ملت سر اٹھا کے جینے کے قابل ہے ورنہ کچھ اس کی خامیوں اور کچھ اغیار کے پروپگنڈوں نے تو مسلمانوں کو دنیا کی ذلیل ترین مخلوق کے مشابہ بنادیا تھا ۔ مگر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ مومنین صادقین کی مدد کرنے سے اپنا ہاتھ نہیں روکے گا ۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر یہ ہم پر ہے کہ ہم اپنے مومن ہونے اور اللہ کے پاکباز بندوں میں اپنا نام لکھوانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ۔ طالبان کو دنیا بدنام کرتی رہی ، ان کے خلاف جھوٹے پروپگنڈے ہوتے رہے اور صرف اسلام دشمن قوتیں ہی نہیں مسلک کے قیدی مولوی اور ان کے مرید مسلمان نیز مسلمانوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والے سیکولر لبرل جمہوریت پرست طبقہ بھی طالبان کو ہدف تنقید بناتا رہا اور امریکہ کے آگے سرنگوں رہا مگر بقول اوریا مقبول جان ملا عمر ؒ نے کہا تھا ’میں اپنی زندگی میں ایسا کوئی بھی کام نہیں کروں گا جس سے مسلمانوں کو شرمندہ ہونا پڑے‘۔ ملا عمر ؒ اور ان کے ساتھیوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کے وقار بلند کرنے والے لوگ ہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اسلام نے ہمیں عزت بخشی ہے ۔ یہ بات قیامت تک کیلئے اٹل ہے کوئی اسلام سے الگ ہٹ کر اگر عزت تلاش کرے گا تو وہ ذلیل و رسوا ہوگا ۔ تاریخ کے صفحات ایسے افرادسے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے اسلام میں عزت پائی ، انہیں فرعون وقت نے ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کی مگر جیسا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ’عزت تو الله اوراس کے رسول اور مومنین ہی کے لیے ہے لیکن منافق نہیں جانتے‘ سورہ منافقون آیت ۸ ۔اللہ نے اپنے نیک بندوں کیلئے عزت مختص کررکھی ہے کسی کو یہ سمجھ میں آئے یا نہیں آئے ویسے طالبان کے ساتھ امریکی سمجھوتہ سے تو یہ بات سمجھ میں آجانی چاہئے ۔ کتنے متکبرانہ انداز میں جارج بش نے کہا تھا طالبان ختم ہوگئے ۔ مگر آج دنیا نے دیکھ لیا کہ جو ٹھیک ٹھیک اسلام نافذ کرنا چاہتا ہے اس کیلئے مشکلات دنیا کے شیاطین کی جانب سے کھڑی تو کی جاسکتی ہیں مگر اللہ اپنے مسلم بندوں کو رسوا نہیں ہونے دے گا ،وہ انہیں عزت دے کر رہے گا ۔طالبان کےمعاہدہ کی پہلی شق ہی ان کے کامل ایمان کیلئے کافی ثبوت ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے سبھی اداروں کو اسلامی خطوط پر ترقی دیں گے ۔ 
غلامی ایسی نحوست بھری چیز ہے جس میں انسان خود کو پہچاننا بھول جاتا ہے ۔ دنیا میں ہم اس کی کئی مثالیں دیکھ سکتے ہیں ۔ خود وطن عزیز کی پچاس فیصد سے زائد تعداد رکھنے والی آبادی برہمنوں کی غلامی میں اپنی خودی کو اتنی بھول چکی ہے کہ وہ ہندو نہیں ہوتے ہوئے بھی سارے ہندو رسم و رواج مناتی ہے ۔ حالانکہ ان کے لیڈر انہیں بتاتے نہیں تھکتے کہ وہ ہندو نہیں ہیں اور ہندو کے نام پر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کی جارہی ہے مگر وہ پندرہ فیصد والی آبادی میں برہمنیت کے علمبرداروں کی سازش کا شکار ہوکر مسلمانوں کی دشمنی میں دیوانے ہورہے ہیں اور یوں اپنا ہی نقصان کررہے ہیں ۔ یہ لوگ تو خیر تین ہزار سال کی غلامی کے سبب اس ذہنی سطح تک پہنچے ہیں مگر اسی ملک میں مسلمانوں کی حالت محض ستر پچھتر برسوں میں یہ ہوگئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی کسی بڑی کامیابی کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے ۔ غلطی عام مسلمانوں کی بھی نہیں ہے ،یہ ان عناصر کے پھندے ہیں جو عافیت پسند ہیں اور مغرب یا امریکہ کے ٹکنالوجی اور اس کی ترقی سے مرعوب ہیں ۔اس مرعوبیت میں یہ حضرات قوم پر بھی مایوسی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ طالبان اور امریکہ کے درمیان سمجھوتے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ سمجھوتہ کامیاب نہیں ہوگا یا پھر ان کا یہ ماننا ہے کہ طالبان نے یہ سمجھوتہ گر کر کیا ہے اور طالبان کی جیت نہیں ہار ہے ۔ اس طرح کے خیالات پیش کرنے والے افراد قوم کو مغالطہ میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ بزدل ہیں ویسے ہی پوری قوم بن جائے ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ پوری ملت بزدلی کے مرض میں مبتلا نہیں ہوئی ہے ۔ 
اگر طالبان امریکہ سے خائف ہوتے اور وہ کمزور پڑتے تو امریکہ کبھی ان سے سمجھوتہ نہیں کرتا مگر طالبان کے دبائو نے امریکیوں کو مجبور کیا کہ وہ سمجھوتہ کرلیں اور یوں اپنے آٹھ دس ہزار فوجیوں کو موت کے منھ سے بچاکر لے جائیں ۔ اس کے برعکس یہ صحرا نشین طالبان پوری دنیا سے بے نیاز اور دنیاوی قوت سےبے خوف ہوکر گوریلا جنگ لڑتے رہے اور بالآخر فرعونی قوت کو ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔کئی سال قبل طالبان کی روسیوں پر فتح کی ضمن میں شاہنواز فاروقی نے لکھا تھا اور اپنی کسی تقریر میں اس کا حوالہ بھی دیا تھا کہ جو کچھ طالبان نے حاصل کیا ہے اگر یہ کسی مغربی ملک کو میسر ہوا ہوتا تو پانچ ہزار سے زائد کتابیں محض اس موضوع پر شائع ہوچکی ہوتیں ۔مگر غلام ذہنیت اور ٹکنالوجی کی مرعوبیت کے سبب مسلمانوں کے دانشور طبقہ کو یہ بات ہضم ہی نہیں ہوتی کہ طالبان نے محض چالیس سال میں دنیا کی دوبڑی طاقتوں کو شکست دے کر تاریخ رقم کردی ہے ۔یہ اس دانشور طبقہ کا ہی حال نہیں ہے مسلمانوں کے درمیان کئی اہم تحریکی شخصیت کا بھی یہ خیال ہے کہ مسلمان اس دور میں کوئی کارنامہ انجام دے ہی نہیں سکتے ۔ جیسے ایک بار نوجوانوں کی تنظیم کے ایک ذمہ دار سے یہ کہا گیا کہ امریکہ میں دو مسلم تنظیمیں اتنی متحرک ہیں کہ وہ کئی اہم پالیسی پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں تو یہ بات انہوں نے تسلیم ہی نہیں کی ۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے آگے کچھ نہیں ہو سکتا وہ جو چاہے گا وہی ہوگا ۔ ان کے اس طرح کے خیال سے بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا اس امر پر ایمان کمزور ہے کہ اس کائنات کا نظام اللہ چلا رہا ۔
بہر حال امریکہ طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کرچکاہے اور سمجھوتہ کوئی اسی وقت کرتا ہے جب وہ سامنے والے سے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتا اور یہ اسی طرح حقیقت ہے جیسا کہ دن کے وقت سورج ۔ذرا سوچئے کفار قریش نے حدیبیہ میں مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کیوں کیا ؟ جبکہ اس سے قبل وہ مسلمانوں سے گفتگو کو تیار نہیں تھے ، ان کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے تھے کہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھا جائے ۔ مگر جب کفار قریش کو یہ یقین ہو گیا کہ مسلمان ایک بڑی طاقت بن چکے ہیں اور جلد یا بدیر وہ پورے عرب پر چھاجائیں گے تو انہیں سمجھوتہ کی میز پر آنا ہی پڑا ۔ اسلام کسی سے اسی وقت تک لڑنے کی تاکید کرتا ہے جب تک وہ لڑنا چاہئے ، اگر وہ صلح چاہے تو اسلام فوراً صلح کو اہمیت دینے کی بات کرتا ہے ۔ کیوں کہ اسلام کے نزدیک بلا عذر کسی انسان کوقتل کرنا پوری انسانیت کا قتل ہے ۔
طالبان سے بھی جب امریکہ نے صلح کی پیش کش کی تو انہوں نے اپنی شرائط کے ساتھ اسے قبول کیا ۔غور کیجئے ایک وقت تھا جب افغانستان کو طالبان سے پاک کرنے کی بات کی گئی تھی ، دنیا کی ساری قوتیں اس پر متفق تھیں لیکن طالبان ہمیشہ اصولوں کی بات کرتے رہے ۔امریکہ چونکہ طالبان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے عہد کے ساتھ آیا تھا اس لئے اس کی اس میں بڑی سُبکی تھی کہ جنہیں اس نے مٹانے کا عزم کیا تھا ان کو (قوت کے معاملہ میں) اپنا ہم پلہ سمجھتے ہوئے مذاکرات کرے ۔ اس سُبکی سے بچنے کیلئے اوبامہ کے دور میں اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح ایجاد کی گئی اور گفتگو کرنے کیلئے اچھے طالبان کا انتخاب کیا گیا ، حالانکہ طالبان جو تھے وہی اب بھی ہیں ۔ان کی گفتگو کے انداز زمین پر چلنے پھرنے کا طریقہ ان کے لباس وغیرہ کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔وہ جہاں بھی گئے جس سے بھی گفتگو کی اسی عاجزی و انکساری والے رویہ کے ساتھ لیکن اسلامی اقدار کی روشنی میں ، مسلمانوں کے عزت و وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ۔اب کسی کو وہ لوگ جاہل احمق اور دہشت گرد نظر آتے ہیں تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانے کی ضرورت ہے ۔
طالبان کے عروج پر علامہ اقبال کا ایک شعر صادق آتا ہے ؎ نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا/سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا۔ وہ شیر طالبان کی صورت میں ہوشیار ہوچکا ہے اور وہ دوسرے شیروں کو جو کہیں اخوان المسلمین اور حماس کی شکل میں موجود ہیں اور جو فرعونی جبر کا مقابلہ پامردی کے ساتھ کررہے ہیںانہیں بھی قوت بخشے گا کیوں اللہ کے نبی ﷺ نے کہا مومن ایک عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسرے کو قوت دیتی ہے ۔علامہ اقبال نےاسپین وغیرہ میں مسلمانوں کی ماضی کے باقیات دیکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا تھا ؎کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے/عشقِ بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!۔ علامہ رحمتہ اللہ علیہ کی روح کو ان کے سوالوں کاجواب افغان طالبان کی صورت میں مل گیا ؎ افغان باقی، کُہسار باقی/اَلْحُکْمُ لِلّٰہ! اَلْمُلْکُ لِلّٰہ!۔

0 comments: