Muslim Worlds

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز

9:50 PM nehal sagheer 0 Comments


   
عمر فراہی  ۔  ای میل  :umarfarrahi@gmail.com
   
خلافت کے بعد ملوکیت اور ملوکیت کے بعد بادشاہت میں در آئی خرابیوں پر ابھی تک بحث کا خاتمہ بھی نہیں ہوا تھا کہ اٹھارہویں صدی کے مادی انقلاب اور لبرل طرز سیاست نے مسلمانوں کو ایک اور فتنے میں مبتلا کردیا۔ بدلتے ہوئے جدید جمہوری ماحول میں جن اسلام پسند حکمرانوں اور علمائے دین نے احیاء اسلام کی تحریک کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی تو ان کے اپنے عقیدتمندوں نے ان کی تحقیق و تحریک پر غوروفکر کرنے کی بجائے اپنے اپنے پسند کی دیومالائی کہانیاں تخلیق کرلی ہیں ۔کسی کیلئے مصطفیٰ کمال پاشا اور جمال ناصر محترم ٹھہرے تو کوئی کہتا ہےکہ قذافی اس لیے مدبر تھا کیونکہ اس نے لیبیا کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ۔کسی کیلئے آل سعود ناقابل تسخیر و تنقید ہیں تو اس لیےکہ وہ خادم الحرمین شریفین ہیں۔ایرانیوں نے آیت اللہ خمینی کے جدید شیعی انقلاب کے استعماری عزائم کی تکمیل کیلئے پورے مشرق وسطیٰ کو خون میں نہلا دیا ہے اور ممکن ہے آنے والی دہائی میں یہ آگ پورے عالم وسطیٰ کو اپنی آغوش میں سمیٹ لے پھر بھی ایک طبقہ انہیں اپنا روحانی قائد تسلیم کرتا ہے ۔برصغیر کے تناظر میں جناح اور مولانا ابوالکلام آزاد کے تقابلی کردار کا عنوان آج بھی زیر بحث ہے ۔سوال یہ نہیں ہے کہ ان میں کون اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور کون ناکام ۔سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی شخصیت کی کامیابی اور ناکامی اس کے حق اور ناحق پر ہونے کی دلیل نہیں ہوتی اور اگر کسی علاقے کی ترقی ٹکنالوجی اور خوشحالی اس ملک اور قوم کے حکمرانوں کے تدبر کی علامت ہوتی تو اپنے وقت کی ترقی یافتہ اور خوشحال اسپین اور مغلیہ سلطنتوں کا زوال نہ ہوتا اور رسول عربی ﷺ ناخواندہ اور پسماندہ عربوں کو لیکر وقت کے سپر پاور ملک فارس اور روم کے فتح کی پیشن گوئی نہ کرتے۔ اور پھر جن انبیائے کرام کی دعوت کو ٹھکرا دیا گیا یا وہ شہیدکر دیے گئے کیا ان کے تدبر اور تفکر میں کوئی نقص تھا ؟ فرعون کی اپنی سلطنت بھی اپنے وقت کی ترقی یافتہ اور طاقتور حکومت تھی ۔اسے گمان ہی نہیں تھا کہ اس کی سلطنت کا بھی کبھی زوال ہوگا اور اس کی سلطنت کی تباہی کا منصوبہ اس کے محل میں ہی تیار ہورہاہے ۔صرف فرعون ہی کیوں قرآن میں قوم ثمود قوم عاد اور نمرود جیسی بے شمار طاقتور قومیں اور سلطنتیں تھیں جنھوں نے پہاڑوں کو کھود کر مضبوط عمارتیں اور قلعے بنالیے تھے کہ دیکھیں اب کون نبی انہیں پتھروں کی بارش کے عذاب سے ڈراتا ہے ۔لیکن اللہ کا عذاب ایسے راستوں سے آتا ہے کہ انسان اس کا گمان بھی نہیں کرسکتا ۔ایسے بھی بادشاہ پیدا ہوئے ہیں جن کی حکومتوں میں کبھی موت ہی نہیں ہوئی ۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود سے کہا کہ میرے رب کی بندگی اختیار کر لو کیوںکہ وہی زندگی اور موت کا مالک ہے تو نمرود نے کہا کہ یہ تو میرے اختیار میں بھی ہے اور پھر اس نے اپنی جیل میں قید ایک  شخص کو قتل کرکے اور دوسرے کو رہا کرکے اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ۔یہ خوشحالی ،ترقی اور انہونی سب اللہ کی آزمائش ہے اور اس کے ہونے نہ ہونے میں اللہ ہی کا اختیار ہے۔ انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ یہ سب اس کے منصوبے اور ارادے کی وجہ سے ہورہا ہے ۔ہاں انسان صرف ان لوگوں کے خطوط پر جو اللہ کے نیک بندے تھے خواہ وہ اصحاب کہف ہی کیوں نہ ہوں حق کی جدوجہد اور صراط مستقیم کا پابند ہے ۔ لیکن باوجود اس کے کہ اصحاب کہف کسی حکومت اور سلطنت کے مالک نہیں رہے اللہ نے رہتی دنیا تک ان کے ذکر کو بلند کردیا ۔ان کے بعد اسی ریاست میں دین بھی غالب آیا یہ تصویر اللہ نے بظاہر اصحابِ  کہف کو زندہ کرکے عام لوگوں پر آشکارکر دیا کہ تم صرف حق کی جہدوجہد کے پابند ہو ،رہا سوال کامیابی اور ناکامی کا تو اکثر اس جدوجہد میںنسلیں بھی ختم ہوجاتی ہیں ۔اصحاب کہف کے اس قصے میں آج کے مومنوں کیلئے نشان عبرت ہے کہ وہ باطل کی ظاہری کامیابی اور اپنی ناکامی سے مایوس ہونے کی بجائے جہاں تک ہوسکے حق کی جدوجہد جاری رکھیں ۔یہی خالق کا اپنی مخلوق سے مطالبہ ہے ۔کربلا کے میدان میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو کر بھی حق پر تھے اور یزید ناحق پر تھا۔یہ اقتدار اور سیاسی کشمکش کا معاملہ نہیں لوگوں میں یزید کے خلاف جو بے چینیاں تھیں اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو یزید سے نجات کیلئے لوگوں کے جو خطوط آرہے تھے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تو صرف ظالم حکمراں کے خلاف کوچ کرکے اسلام پرعمل کیا۔ اس بات پر ابھی تک کے علماء کا اتفاق ہے اور شاید یہ اتفاق ہی ہے کہ سخت گیر عالم علامہ ابن تیمیہ سے لیکر کٹر سے کٹر وہابی علماء نے بھی اپنے بچوں کا نام یزید رکھنے میں کراہیت محسوس کی ۔پچھلے سو ڈیڑھ سو سال کی تاریخ میں سعود خاندان میں بھی مجھے یزید نام کا کوئی عالم یا حکمراں نظر نہیں آیا۔ خیر یہ کوئی دلیل نہیں ہے لیکن میں یہ بات اس لیے لکھنے کیلئے مجبور ہوں کہ کچھ لوگ آج بھی یزید کو رضی اللہ عنہ اور رحمت اللہ علیہ لکھنے کی ضد پر قائم ہیں ۔یہ لوگ اپنے بیٹوں کا نام بھی شوق سے یزید رکھ سکتے ہیں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔فتنوں کے دور میں جہاں سلف صالحین کی عزت و احترام اور حق ناحق کی تمیز کا خاتمہ ہورہا ہے وہاں ابوجہل اور ابولہب کی طرح تھوڑی سی ہٹ دھرمی سے اسلام کا کیا نقصان ہونے والا ہے ۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
یزید کو رحمۃ اللہ علیہ کہنے یا یزیدی ذہنیت کو اپنے لیے رحمت قرار دینے والے کیا خود کو ایرانی رافضی صدر روحانی کی فہرست میں شمار کرنا پسند کریں گے ؟
ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ایک بیان میں شام کے ڈکٹیٹر بشارالاسد کو بہترین مزاحمت کار کہا ہے !
السیسی مظلوم ہے اور اخوان جنہیں ہتکڑیاں لگا کر جیلوں میں ڈال دیا گیا وہ ظالم !
کس نے سیسی کی حمایت کی؟
کون بشر کی حمایت کررہا ہے ؟
کیا فرق ہے دونوں میں؟
صرف لاشوں کا !
اقبال نے ظالموں کے بت بنا کر پرستش کرنے والے مسلمانوں کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ  ؎  یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے/صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الااللہ
 عمر فراہی

0 comments: