featured

دستاویزات اور سمجھوتوں کے غائب ہونے کی کہانی

11:50 AM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر


خبر آئی ہے کہ مکہ مسجد بم بلاسٹ کے تفتیشی دستاویز میں سے دو صفحات غائب ہیں ۔خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ ان دو صفحات میں کئی آر ایس ایس لیڈروں کے نام ہیں جن کا اعتراف اسیمانند نے سی بی آئی کے سامنے کیا تھا ۔وطن عزیز میں تعصب نے حکومت کی سرپرستی میں وہ گل کھلائے ہیں کہ اس نے ملکی سلامتی اور اس کے استحکام کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں ۔انتظامی اداروں میں مسلمانوں سے نفرت میں اسقدر اضافہ ہو گیا ہے کہ کسی بھی قسم کا مقدمہ ہو اگر اس میں مسلمان ملزم ہے یا اسے بالجبر ملزم بنایا گیا ہے تو اس کی شامت ہے ۔تفتیشی افسران تو خیر سے اس سے وابستہ ہوتے ہیں اس لئے تعصب برتتے ہوئے پوری ملت کو گالیاں دے کر اپنا سینہ چھپن انچ کا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جیل میں بند بدنام مجرمین اور بدترین جرائم کی سزا بھگتنے والے بھی دیش بھگت بن کر مسلم ملزمین کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کرنے کوفخر سمجھتے ہیں اور جیل انتظامیہ بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔لیکن معاملہ اگر غیر مسلم خصوصی طور سے ہندو اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والوں کا ہو تو اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ۔اہم ملزمین کو قانون کی زد سے بچانے کے لئے دستاویزات کو غائب کیا جاتا ہے ، گواہوں کو ڈرا دھمکا کر انہیں سچ کی گواہی دینے سے روکا جاتا ہے اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو گواہوں کو جان سے مار دیا جاتا ہے ۔سرسری طور پر بھی دماغ کو ذرا سے زور دے کر سوچیں گے تو کئی مقدموں میں آپ کو یہ سب واضح ہوتا ہوا نظر آجائے گا ۔معاملہ دستاویزات کو غائب کرنے گواہوں کو ڈرا کر ان سے جھوٹی گواہی دلوانا یا سچ بولنے سے روکنے کیلئے جان سے مار ڈالنے سے بھی آگے جا کر اب نیا فیشن ظہور پذیر ہوا ہے کہ جج کو ہی خریدو اور اگر وہ نہ مانے تو اسے بھی مار ڈالو ۔جج لویا کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ۔
بی جے پی جو خود کو مہذب اور ایماندار پارٹی کے طور پر اپنا پیٹھ تھپتھپاتی ہوئی نظر آتی ہے ۔اس کی حکومت والی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک تکنیکی تعلیمی بدعنوانی کا معاملہ سامنے آیا تھاجس سے وابستہ ملزمین اور گواہوں میں سے پچاس سے زائد افراد مشتبہ حالت میں چوہوں کی طرح جہاں تہاں مرے ہوئے ملے ۔آشا رام باپو کے جنسی زیادتی مقدمہ میں بھی کئی گواہان مارے جاچکے ہیں یا خود کشی کرچکے ہیں ۔بہار اور جھارکھنڈ کے مویشیوں کے چارہ بدعنوانی معاملہ میں بھی کئی گواہوں کا یہی انجام ہوا ہے ۔بم دھماکوں کے مقدمہ میں بھی اس طرح کے معاملے سامنے تھے ۔اس کے علاوہ شاید سب سے آسان کام یہ ہے کہ دستاویز ہی غائب کردی جائے تاکہ مجرم پوری طرح محفوظ ہو جائے ۔مجرمین کو اپنے نظریہ کے مطابق بچانے کا جو چلن اس ملک میں رائج ہو چکا ہے وہ شاید ہی دنیا کے اور کسی ملک میں ہو ۔یہ تو خیر چھوٹے معاملات ہیں ۔وطن عزیز کی ادا تو نرالی ہے یہاں تو بڑے معاملات اور بین الاقوامی حیثیت کے مسائل کے سمجھوتوں کے بارے میں بھی خبر آتی ہے کہ اس کی فائل غائب ہے ۔مثال کے طور پر بابری مسجد مقدمہ کے بارے میں بھی خبر آچکی ہے کہ اس کی فائل نہیں مل رہی تھی ۔اس کے علاوہ ایک بار یہ خبر بھی اخبارات کی زینت بنی تھی کہ کشمیر سمجھوتے کی فائل بھی پارلیمنٹ میں نہیں مل رہی تھی ۔ شاید ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی مسئلہ سے جان چھڑانے کا آسان حل یہ ہے کہ اس طرف دیکھنا ہی بند کردیا جائے یا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے لیا جائے ۔ ابھی مودی حکومت میں یہ خبر بھی آئی تھی کہ پارلیمنٹ کے پرانے ریکارڈ تلف ہو گئے یا کردیئے گئے ۔ اتنے اہم اہم معاملات میں ایسی ایسی خبریں آتی ہیں لیکن حکومت اس کو سنگینی کو سمجھتے ہوئے یہ کرتی ہے کہ عوام کو کسی اور فرضی مسائل میں الجھادیتی تاکہ وہ سوال نہ کرے کہ میاں آپ لوگ دستاویز بھی نہیں سنبھال سکتے تو حکومت کے اہم معاملات کیسے سنبھالیں گے ۔ عوام دیکھ بھی رہے ہیں کہ حکومت کس طرح سنبھالی اور چلائی جارہی ہے ۔
مکہ مسجد ،مالیگاؤں اور اجمیر درگاہ دھماکوں میں آر ایس ایس کے کئی لوگوں کے نام آئے تھے لیکن پتہ نہیں سنگھ نے کون سی بوٹی سونگھائی کہ وہ نام بس وہیں تک محدود رہے ۔اس سلسلے میں نہ کسی کی گرفتاری ہوئی اور کسی کو تفتیش کیلئے طلب کیا گیا ۔ اس میں سے ایک نمایاں نام سنگھ کے مسلم برانچ (مسلم راشٹریہ منچ ) کے سربراہ اندریش کمار ہے ۔اس دور میں اخبارات اور میڈیا میں وہ نام آنے کے باوجود اس پر کسی تفتیش کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔کانگریس کے لیڈروں نے بھی صرف زبانی بیان بازی تک ہی خود کو محدود رکھا ۔ان بیان بازی کرنے والوں میں دگ وجئے سنگھ بہت اہم ہیں ۔ اب تو اس دستاویز کے ہی غائب ہونے کی خبر ہے جس میں ان لیڈروں کے نام خود اسیمانند نے سی بی آئی کے سامنے لئے تھے۔کیوں کہ اب تو سیاں خود ہی کوتوال ہیں پھر کسی کا ڈر کیوں ہو ؟ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کی صورتحال خواہ جان بوجھ کر ہو یا تعصب اور کسی کے ساتھ نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر ہو ملک کے مفاد میں درست ہے ؟ آخر اس طرح کی حرکتیں یا غیر ذمہ دارانہ طریقہ کار سے ملک کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کی بھر پائی کون کرے گا ؟کیا اسی طرح ایک خاص نظریہ کے حامل غنڈوں ، بد معاشوں اور مجرموں کو انسانی آبادی میں مزید جرائم انجام دینے کیلئے چھوڑ دیا جاتا رہے گا ؟ اس طرح کی سوچ ملک کو کہاں لے کر جائے گی اور دنیا کے نقشے پر اس ملک کی حیثیت کیا رہ جائے گی جس کی پوزیشن یہ تھی کہ وہ دنیا کی سربراہی کے فرائض انجام دے لیکن تعصب اور تنگ نظری نے اسے کہاں پہنچا دیا ہے۔اس طرح کی خبروں سے ملک کا کردار عالمی پیمانے پر مجروح ہوتا ہے ۔ اس گندگی اور گھٹیا سوچ اور طرز عمل سے ملک کو آخرکون نجات دلائے گا؟ مسلمان یونہی بھیک کا کٹورا لئے پھرتے رہیں گے یا ملک کی کمان سنبھالنے کی جانب کوئی پیش رفت بھی کریں گے ؟ہمارے بعض اکابرین اور قائدین مسلمانوں کی پچھلی قربانیوں کا تذکرہ بڑے فخر سے کرتے ہیں تو کیا اب وہ قابل فخر دور واپس نہیں آئے گا ؟یا اب بھی مسلمان لمبی تان کر سوتے رہیں گے ؟

0 comments: