featured

گریبانوں کو الجھانے کا کھیل

12:07 AM nehal sagheer 0 Comments



قاسم سید 
عوام کو متحد کرکے سیاسی جدوجہد کرنا اور کامیابی حاصل کرنا جمہوری سیاست کا حصہ ہے۔ اقتدار کی منتقلی جمہوری نظام کو طاقتور بناتی ہے جب رائے دہندگان کسی پارٹی کے نظم ونسق اور طریقہ حکومت سے نالاں ہوجاتے ہیں تو ہمارا جمہوری نظام اسے یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی پارٹی کواقتدار میں لاسکے اگر چہ اب یہ مداری کا کھیل ہوگیا ہے اور ہر قیمت پر اقتدار کا حصول سیاسی پارٹیوں کا اکلوتا ایجنڈہ بن گیا ہے ۔ سوائے مسلمانوں کے سب اس کھیل کےاہم کھلاڑی ہیں کیونکہ وہ دماغ لگاتے ہیں جبکہ مسلمان دل سے کھیلتا ہے حالانکہ موجودہ دور کی سیاست کے سینہ میں پتھر کا دل ہے جو جذبات اقدار‘روایات واخلاقیات کوبے وقوفی سمجھتی ہے جس کے نمونے ہمیں آئے دن دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اہم قومی شخصیات کی مورتیوں کو توڑے جانے کی مہم اس سفاکیت‘شقاوت اور سنگدلی کا تازہ ترین اظہار ہے۔ اس بات کا خدشہ ظاہرکیاجاتا رہا ہے کہ جمہوریہ کی وراثت اگر بھیڑاورمشتعل ہجوم کو سونپ دی گئی تو آنے والے دنوں میں سماجی وسیاسی زندگی میں ہجوم کا عمل دخل بڑھتا جائے گا۔ یہ بھیڑ بہت محنت سے تیار کی گئی ہے۔ اس کو مخالفین کا دماغ درست کرنے‘دیش دروہیوں کے مزاج ٹھکانے لگانے‘ غیر ملکیوں کے ہاتھ پیر توڑنے‘پیٹ پیٹ کر قتل کرنے کے بعد ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر عام کرکے دلوں میں خوف ودہشت بٹھانے اورپراچین سنسکرتی کے راستے میں آنے والوں کو دوسری دنیا میں پہنچانے ان کے گھروں میں آگ لگانے‘ املاک کو تباہ کرنے اور قوم پرستی کے نام پر کھل کرقانون شکنی کرکے آئین کی بے توقیری وبے حرمتی کرنے کے لئے تیار کیاگیا ہے۔ اس بھیڑ کی برین واشنگ تو ہوئی ہے لیکن ذہنی تربیت میں اس ’معیار‘ کا خیال نہیں رکھاگیا جو مطلوب تھا۔ اس لئے وہ شرمندگی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ جب وہ لینن کا مجسمہ توڑتی ہے تو آئینی عہدے پر جلوہ افروز گورنر موصوف اور حکمراں جماعت کی اعلی قیادت پیٹھ تھپتھپاتے ہیں۔ مگر یہی بھیڑ کمال جوش میں دلتوں کے مسیحا‘ آئین کے معمار بھیم رائو امبیڈکر اور عظیم سماجی ریفارمر پیریارکے مجسموں پر ہاتھ ڈالتی ہے توبھیڑ کے تربیت کاروں کو پسینہ آجاتا ہے کیونکہ ایسے واقعات ہندوئوں کے درمیان باہمی ٹکرائو اور لڑائی کا میدان ہموار کرتے ہیں۔ اس سے ہندوتو کی بڑی محنت سے تیار کردہ کھیتی تباہ ہوتی نظرآتی ہے تو پورا میکنزم متحرک ہوجاتا ہے۔ پارٹی سے لے کر سرکار تک ڈیمیج کنٹرول کے لئے نکل پڑتی ہے۔ آگے چل کر ہونا یہی ہے امبیڈکر ہوں یا پیریار بچے گا کوئی نہیں۔ یہ واقعات قبل ازوقت ہوگئے ہیں۔ ابھی معاشرہ میں مزاحمت کی قوت باقی ہے۔ دلتوں کے کس بل ابھی باقی ہیں۔ انہیں اپنے نظریہ سازوں کی بے حرمتی ناقابل برداشت ہے۔ ووٹوں کی اس مشین کی فی الحال ضرورت ہے۔ دلتوں کی قیادت بھلے ہی منتشر اور کمزور محسوس ہوتی ہے مگر کورے گائوں اوراونا جیسے واقعات اس کی مضبوطی کا احساس ضرور دلادیتے ہیں لیکن بھیڑ کی طاقت بڑھ رہی ہے۔ اس کو احترام کا درجہ مل رہا ہے۔ اس کے کارناموں کی تعریف اور اقدامات کا دفاع کرنے والے موجود ہیں ۔ بلاشبہ اس کو سرکار اور حکمراں پارٹی کے ساتھ مدر آرگنائزیشن آر ایس ایس کا آشیرواد حاصل ہے۔ شرم ولحاظ اور تکلفات کے تمام پردے ہٹادئیے گئے ہیں کیونکہ ہندوتو کی بالادستی کی لڑائی فیصلہ کن دور میں داخل ہوگئی ہے۔2019آخری معرکہ ہے اگر یہ معرکہ ہندوتو وادی طاقتوں نے سرکرلیاتو پھر بازی ان کے ہاتھ آجائے گی۔ یہ رام مندر‘ تین طلاق جیسے معاملات تو لڑائی کا صرف ایک محاذ ہیںاصل نشانہ آئین ہے جس نے ہندوستان کی سالمیت‘ سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ یک جہتی کو قائم کر رکھا ہے۔اقلیتوں کی جو کچھ بھی آبروباقی ہے وہ آئین کے سبب ہےتصور کیاجاسکتا ہے کہ جب آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوگی جیسا کہ اس کےایک وزیر صاف طور پر کہہ چکے ہیں کہ ہمیں آئین بدلنے کے لئے مینڈیٹ ملا ہے پھر ہندوستان کیسا ہوگا۔
دراصل جب ہجوم کے ہاتھوں پانچ سو سالہ قدیم بابری مسجد کو توڑاگیا حکومت خاموش تماشائی بنی رہی تو یہ پہلی منظم انارکی تھی معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا سرکاری تحفظ میں مسجد توڑنے والوں کو بحفاظت ٹرینوں اور بسوں کے ذریعہ گھروں تک پہنچایاگیا۔ آزاد ہندوستان میں مشتعل بھیڑ کی سرکاری سرپرستی میں استعمال کا گرچہ یہ پہلا واقع نہیں تھا فرقہ وارانہ فسادات میں اقلیتوں کی جان ومال اور عزت کو نقصان پہنچانے والوں کو آج تک سزا نہیں ملی سوائے بھاگلپور فساد کے۔سرکار کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی واقعات کی نوعیت میں فرق ہوسکتا ہے لیکن بھیڑ کی سفاکانہ تربیت میںدونوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اب تو کانگریس بھی بے شرم وبے حیا ہوگئی ہے اس کے لیڈر عوامی جگہوں اور ٹی وی ڈبیٹ میں سینہ ٹھونک کر کہنے لگے ہیں کہ تالہ ہمارے دور میں کھلا ‘شیلا پوجن وشیلا نیاس ہم نے کرایا۔ رام راجیہ لانے کا عہد کانگریس کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے اجودھیا سے کیا اور اب مندر بھی بھگوان نے چاہا تو کانگریس کے دور حکومت میں بنے گا۔ اس لئے جو لوگ کانگریس کو نجات دہندہ سمجھتے رہے ہیں اور بھولے بھالے عقیدت مندوں کو سمجھاتے رہے ہیں وہ بھی کم مجرم نہیں ہیں۔ کانگریس نے ہندوتو کا نقشہ تیار کیا اور بی جے پی اس میں رنگ بھر رہی ہے۔ اس کے حرکات وسکنات سے کہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کانگریس مکت ابھیان کی مزاحمت میں صدق دل سے کوشاں ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ اندر سے دونوں نے ہاتھ ملا لیا ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا فروغ اس کی حمایت ودفاع اور خطرناک رجحان کی سرپرستی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے۔ لینن کے مجسمہ بلڈوزر سے گرانے کا تماشہ معمولی اشارہ نہیں ہے یہ علامتی کارروائی آنے والے دنوں میں ان ہوائوں کا پتہ دے رہی ہے جو مخالفین کو زندہ رہنے کا بنیادی حق بھی چھین لیناچاہتے ہیں ہمارے دست نگر بن کر رہیں ورنہ آپ کو بلڈوزکردیاجائے گا اور آئین کے محافظ کچھ نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں لینن کے مجسمہ سے کوئی دلچسپی نہیں اس رجحان سے مطلب ہے جو رگ وپے میں سرایت کردیاگیا۔ یہ وائرس ایڈس سے زیادہ خطرناک اور نتائج کے اعتبار سے تباہ کن ہے کیونکہ اس کا اثر سب سے زیادہ دلت کمزور طبقات اور اقلیتوں پر ہوتا ہے جیلوں میں سب سے زیادہ دلت آدیباسی اور مسلمان ہیں۔ اترپردیش میں جولوگ انکائونٹر میں مارے یا زخمی کئے جارہے ہیں ان میں دلت مسلمان اور اوبی سی میں صرف یادو ہیں یعنی بدمعاشوں کو بھی ذات اور مذہب دیکھ کر ٹھکانے لگانے کی ذہنیت اور حکمت عملی یہ بتاتی ہے کہ ہندو راشٹر کے خدوخال کیا ہوں گے‘ آر ین کلچر‘ تہذیب وثقافت اور برہمنوں کی بالادستی وتسلط کا نظریہ اس کی روح ہے۔ جہاں دلتوں‘اقلیتوں اور خواتین کی حیثیت غلام وداس کی ہوگی ظاہر ہے اس تصور کویقین میں بدلنے کی راہ کا سب سے بڑا روڑہ آئین ہے اس لئے آئین کی بے توقیری کو ہوا دینے کے لئے پرتشدد ‘بگڑیل‘ آوارہ‘جذباتی وپاگل بھیڑ تیار کی گئی ہے۔ پہلے گئو بھکتوں کے غول تیار کئے گئے اس رجمنٹ کو سردست غیر متحرک کردیاگیا اس کا ہدف خوف ودہشت پیداکرناتھا وہ مسلمانوں میں بیدار ہوگیا ۔
بہرحال سوال یہ ہے کہ کیا ملک کو بھیڑ کے حوالہ کیاجارہا ہے۔ سوال کسی مورتی کو توڑنے کا نہیں اس ذہنیت پر ہے جس کی خاموش کھلی حمایت سے پرورش کی جارہی ہے۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ شیر کو جب خون منہ لگ جاتا ہے اور شکار جنگل میں نہ ملے تو وہ آبادی کارخ کرتا ہے۔ کیونکہ اسے ہر قیمت پر لہو پینا ہے اس لئے یہ سوچنا کہ معاملہ صرف اقلیتوں تک محدود رہے گا خودکش ہوگا۔ بھیڑ کا دائرہ پھیل جائے تو وہ کسی کے قابو میں نہیں رہتی۔ ملک جمہوریت اور آئین کی قیمت پر کیاگیا سودا سب کو تباہ کردے گا۔ مورتیاں توڑنے کا نیا ایپی سوڈ اس کی دل دہلادینے والی جھلک ہے۔ بھیڑ کلچر کی سرپرستی اور گریبانوں کو الجھانے کا کھیل بہت مہنگا پڑنے والا ہے۔ کیا وطن عزیزاسے برداشت کرسکے گا شایدنہیں۔
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: