Politics

ضمنی انتخابی نتائج سے زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں !

11:38 AM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر
ہمارا عوام کے ساتھ آخری سانس تک کا اٹوٹ معاہدہ ہے اور نتیش جی کا بی جے پی کے ساتھ موقعہ پرستی کا لٹھ بندھن ہے ‘ یہ تیجسوی یادو کے ایک ٹوئٹ کے چند الفاظ ہیں ۔بہار کے ضمنی الیکشن میں ان کی پارٹی کی شاندار کامیابی پر ایک پرجوش ردعمل ہے ۔ان کے لئے یہ صحیح بھی ہے کہ پارٹی سپریمو لالو پرساد اس وقت برہمنوں کی مخالفت کی پاداش میں بدعنوانی کے ایک مقدمہ میں پابند سلاسل ہیں ۔اس حالت میں برہمنی ٹولہ ان کی پارٹی کے خاتمہ کی پیش گوئی کررہا تھا لیکن اس کے برعکس اسے مزید تقویت مل رہی ہے اور آئندہ بھی امید ہے کہ لالو پرساد کی پارٹی دیگر کسی بھی علاقائی سیاسی جماعت سے کہیں زیادہ بہتر مظاہرہ کرے گی ۔اسی طرح گورکھپور اور پھول پور میں بھی بی جے پی کو شدید صدمہ والی ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔گورکھپور کی سیٹ پر ہارنا بی جے پی کیلئے زوردار جھٹکہ تو ہے ہی کہ وہاں سے کئی دہائی تک ہندو توا کا جھنڈا گاڑے رہنے کے بعد اچانک ان کا بے زمین ہو جانا یوگی کے لئے دس ڈگری کے زلزلہ سے زیادہ خطرناک ہے ۔بہار میں نتیش کمار کو بی جے پی سے ہاتھ ملانے کی قیمت چکانی پڑرہی ہے اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی کو گورکھپور میں آکسیجن سے مرنے والے بچوں کی روحوں نے انتقام لے لیا ہے ۔گورکھپور میں یوگی کے زمین کھونے سے ان معصوم بچوں کے لاچار والدین کے دلوں کو بھی راحت ملی ہوگی جنہیں یوگی کے اس بیان سے شدید صدمہ پہنچا تھا کہ کیا سرکار لوگوں کے بچے بھی پالے گی ۔اب انہیں اپنے اس احمقانہ بیان کی شدت کا اندازہ ہو رہا ہوگا۔ایک تو غیر ذمہ دارانہ بیان اور دوئم بچوں کی زندگی بچانے کیلئے جد و جہد کرنے والے مسلم ڈاکٹر پر الزام عائد کر انہیں جیل بھیج دیا ۔امید تو نہیں ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور یوپی کے یوگی اس سے سبق لیں گے ۔یوگی نے تو ایس پی بی ایس پی اتحاد پر ہی تنقید کرڈالی بجائے اس کے کہ وہ اپنے گریبانوں میں جھانکتے ۔
بی جے پی نے حسب سابق اپنی نفرت انگیزی کی سیاست کو ان ضمنی انتخابات میں بھی استعمال کیا چنانچہ بہار بی جے پی کے سربراہ نتیانند رائے نے اپنے ایک نفرت انگیز بیان میں کہا تھا کہ ’’اگر آر جے ڈی کے امیدوار سرفراز عالم جیت جاتے ہیں تو ارریہ آئی ایس آئی کا اڈہ بن جائے گا ‘‘۔لیکن عوام نے ان کی نفرت کی سیاست کو رد کردیا اور سرفراز عالم فاتح قرار دیئے گئے ۔ بی جے پی کے لوگوں نے ہندوتوا کا ایسا کارڈ کھیلا کہ پسماندہ طبقات کو بھی اپنی پسماندگی سے زیادہ ہندوتو ہی نظر آتا ہے ۔
یہی سبب ہے کہ بہار بی جے پی کا چیف بھی ایسی گھٹیا اور نفرت انگیز بیان بازی سے کام لیا ۔ملک کی پوری سیاست دو محوروں پر گھومتی ہے اول مسلم مخالفت اور دوئم پاکستان کی دہشت ۔حالانکہ ہندوستان جیسے عظیم ملک کیلئے پاکستان کبھی کوئی حقیقی مسئلہ نہیں رہا لیکن کیا کیا جائے کہ اس کی مخالفت سے ارتکاز ووٹ کا فائدہ میسر آجاتا ہے ۔ اس لئے پاکستان اور آئی ایس آئی کی سیاست کی جاتی ہے ۔یہ بی جے پی کا ہی کمال ہے کہ بہار میں بھی اس طرح کی سیاست کی جانے لگی ہے ورنہ اب سے پہلے بہار میں اس طرح کی گھٹیا سیاست نہیں کی جاتی تھی اور بہار و اتر پردیس کے لیڈروں کے اس طرح کے بیان آتے تھے ۔مودی حکومت جس نے 2014 کا الیکشن ترقی اور سب کا ساتھ کے نعرہ کے ساتھ لڑا تھا اس نے کھلی فرقہ پرستی اور مسلمانوں اور دلتوں کیخلاف بدزبانی کا رنگ اختیار کرلیا ہے ۔بے چارے کریں بھی تو کیا چار سال کا عرصہ انہوں نے نئے نئے نعروں اور منصوبہ بندی میں نکال دیا اور ملکی معیشت کا بیڑا غرق کردیا جس سے عام آدمی کو میسر دو وقت کی روزی روٹی کا سہارا بھی جاتا ہے جبکہ جناب دو کروڑ سالانہ روزگار کے وعدہ پر آئے اور نتیجہ ہوا کہ حواس باختہ ہو کر پکوڑے کی دکان لگانے کا مشورہ دینے لگے جس میں چوکیدار اور تڑی پار دونوں شامل ہیں۔حالیہ ضمنی نتائج سے عوام کے اس طبقہ کے دلوں کو تھوڑی ٹھنڈک تو ملی ہوگی جو ان کے احمقانہ پالیسیوں کے سبب بے روزگار ہو گیا اور جن کے بچوں کے بھوکوں مرنے کی نوبت آگئی ہے لیکن بہر حال حالیہ ضمنی الیکشنی نتائج سے زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایسی خوشی ہمیں دہلی اور بہار میں ان کی شرمناک ہار سے بھی ہوئی تھی اور لوگوں نے شادیانے بجانے شروع کردیئے تھے کہ بھائی بس بہت ہو گیا اب ان کے زوال کی شروعات ہو گئی ہے پر کیا ہوا ہم نے دیکھا کہ ریاست پر ریاست ان کے پرچم تلے آتی گئی ۔کہیں انہوں نے واقعی انتخابی جیت حاصل کی اور کہیں جوڑ توڑ اور خرید و فروخت سے کام لے کر بدترین سیاسی بدیانتی کا مظاہرہ کیا ۔ہر چند کہ سنگھ اور بی جے پی بہت قوت حاصل کرچکے ہیں اور ان کے منصوبہ سازوں کے پاس ترکش کی کمی نہیں ہے ۔2019 کا الیکشن جیتنے کیلئے وہ نئے پینترے استعمال کریں گے ۔لیکن اپوزیشن متحد رہا بی جے پی کو ناکوں چنے چبانے پڑ سکتے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو اپنی سیاسی قوت کیلئے بھی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔دوسروں کے کاندھوں پر کب تک سفر کرتے رہیں گے ۔

0 comments: