Muslim Worlds

شام کی شام غریباں

11:28 AM nehal sagheer 0 Comments



پروفیسر محسن عثمانی ندوی             
    مسلمانوں کو آنحضرت ۃﷺنے تعلیم دی ہے کہ وہ مسلمان بھائیوں کے مسائل سے واقف رہنے کاپورا اہتمام کریں یہاں تک کہ ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے امور سے واقف نہ ہو اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کا اہتمام نہ کرے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے ۔ اس حدیث  کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے شامی بھائیوں کے مصائب کے بارے میں جانیں  اور جو ممکن ہو اس سے دریغ نہ کریں ۔ ملک شام سے وابستگی  کا حکم بھی ہے حدیث میں حکم ہے’’ علیکم بالشام‘‘ یعنی  ملک شام سے تمہارا خصوصی تعلق ہونا چاہئے ۔ پھر ملک شام کے بارے میں آپ نے فرمایا’’ یجتبی الیہا خیرتہ من عبادہ ‘‘ یعنی اللہ کے بہترین بندے  اس سرزمین کے لئے چنے جاتے ہیں ۔ آج اگر احساس کی شدت موجود ہے  تو ہزاروں میل کی دوری سے مظلومین شام کا یہ نوحہ غم جو کبھی  بیوہ کی زبان سے اور کبھی یتیم کی زبان سے یا اور کسی محزون وغم نصیب کی صد ابن کر بلند ہوتا ہے  ہمارے کانوں تک پہونچ سکتا ہے’’غم کا فسانہ کس کو سنائیں ۔ ٹوٹا ہوا دل کس کو دکھائیں ‘‘ اور ’’ اے خاصہ خاصان رسل  وقت دعا ہے ‘‘
    حدیث نبوی کے مطابق دنیا کے تمام مسلمان ایک جسد واحد کے مانند ہیں اگر کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف پہونچتی ہے تو سارا جسم  بخار اور درد سے تڑپتا ہے ۔ آج ہم مسلمانوں کا دل بہت غمزدہ ہے ، آج شامی مسلمانوں کی تکلیف سے اور غم سے سارے مسلمان غم زدہ ہیں ۔ دنیا میں بہت سے خطہ ارض ہیں جہاں قتل وغارتگری کا بازار گرم ہوتا ہے لیکن پھر یہ قتل وغارتگری ایک دن رک جاتی ہے لیکن ایک سرزمین ایسی ہے جہاں خون ریزی رکنے کا نام نہیں لیتی ہے ۔ دن گذر جاتے ہیں ہفتے اور مہینے اور برس گذر جاتے ہیں خون کی پیاس نہیں بجھتی ہے ، قاتل کا دست سفاک قتل سے بازنہیں آتا ہے ۔ پہلے درعا پھر دیر الزور پھر حلب اور اب غوطہ دمشق ، پہلے بھی جان بچانے کے لئے لوگ سمندروں میں کود گئے تھے اور پھر کشتیاں پانی میں ڈوب گئی تھیں ایلان کردی جیسے بچوں کی لاشیں انسانیت کو پکارتی رہیں ، پھر حلب میں ملبے کے نیچے دبا ہوا بچہ احمد اپنی معصومیت کے ساتھ آوازیں دیتا رہا ۔ پانچ سالہ جنگ میں پچاس ہزار سے زیادہ معصوم بچے مارے گئے ۔ اب پھر وہی شام ہے ، وہی شبخون ہے اور وہی خوں آشامی ہے ۔ غوطہ دمشق میں ظلم وتشدد کا طوفان ہیٍ ہر شخص لہو لہان ہے ۔ سکونتی عمارتیں  مسمار  ہو گئی  ہیں  مسجدیں شہید ہوگئی ہیں اسپتال منہدم  ہو گئے ہیں اس بار غوطہ دمشق میں خون کی ندی میں  مظلوم شامی مسلمان غوطہ زن ہیں  شام کیٍ کماندار ناوک فگن ہیں اور حاکم شام کے فوجی کھلے آسمان سے بمباری کرکے سیکڑوں معصوم انسانوں کی زندگی کا چراغ بجھا رہے ہیں ۔ غم کا فسانہ روز و شبانہ  ہے ۔ یہ سلسلہ۲۰۱۱ سے شروع ہوا ور رکنے کا نام نہیں لیتا ہے ۔ گذشتہ چند روز کے اندر غوطہ دمشق میں ۱۸۰۰ اشخاص کی زندگی کا چراغ گل ہوچکا ہے  ۸  لاکھ اشخاص سیریا میں  ظالم  بشار الاسد اور اس کے حلیفوں کے ہاتھ سے شہید ہوچکے ہیں اور ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زیادہ  ہجرت کر چکے  ہیں اب تک لاکھوں زندگیاں ایک حکمراں کی ضد اور رعونت  کے آگے قربان ہوچکی ہیں اور لاکھوں  انسان اپنا گھر بار اپنی تجارت اور ملازمت چھوڑ کر افتاں وخیزاں لرزاں اور ترساں ، چاک گریباں خوں بداماں راہ فرار اختیار کرچکے ہیں اب نہ ان کا کوئی گھر ہے نہ در ہے نہ آشیانہ ہے بس سر کے اوپر خیموں کا سائبان ہے جو پڑوسی ملک ترکی نے اپنے یہاں مہیا کردیا ہے
    ان جاںگسل حالات میں غیرت سے عاری اور حمیت سے خالی بعض مسلم عرب ملک ہیں جو سیریا میں جو کچھ ہو رہاہے اس کے بس تماشہ بیں ہیں اور ان میں بعض حکمراں ہیں جو بت خانے کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں یاوہ ملک ہیں جو مقدس  سرزمین کے تقدس کی پرواہ کئے بغیر تین سو سینما ہاوس کی تعمیر کا ’’عظیم الشان‘‘ منصوبہ رکھتے ہیں اورامریکی کلچر کو در آمد کرنا چاہتے ہیں  اور اپنے شبستان عیش میں اپنی دولت سے داد عیش دے رہے  ہیں ۔ غوطہ کے مظالم پرخلیجی تعاون کونسل  یا عرب لیگ کی  طرف سے  مذمت کا کوئی بیان بھی ابھی تک نہیں آیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ خون خشک ہوگیا ہے یا خون پانی بن گیا ہے  حالانکہ انسان وہ ہے جس کے اندر انسانیت کا درد پایا جائے جو سب کے غم کواپنا غم بنائے اور جو مسلمان ہوتے ہوئے  مسلمانوں پر ظلم  دیکھے اور اس پر وہ نہ تڑپے وہ مسلمان نہیں ہے  حدیث میں ہے جو مسلمان مسلمانون کے معاملات کا اہتمام نہ کرے اور پریشانیوں کو دور کرنے کی فکر نہ کرے وہ مسلمان نہیں ۔ یہ عرب حکمراں بے حس  ہیں ، بے ضمیرہیں اور اس لائق نہیں ہیں کہ حکمرانی کریں ۔ کیا انہوں نے قرآن کی یہ آیت  نہیں پڑھی  وما لکم لا تقاتلوں فی سبیل اللہ والمنستضعفین من الرجال والنساء والولدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ہذہ القریۃ الظالم اہلہا  واجعل لنا من لدنک ولیا واجعل  لنا من لدنک نصیرا ( النساء ۷۵)  ترجمہ : کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں  ان بے بس مردوں ، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا دیئے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایاہم کو اس بستی سے نکال  جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے  ہمارا کوئی حامی اور مددگار پیدا کردے ۔
   دنیا میں بدی اور خباثت  کی سب سے بڑی علامت بشار الاسد ہے جس کی فوج  ہر طرف ملک میں رقص بسمل کا تماشہ دکھا کر اب غوطہ دمشق میں عمارت شکن اور زمین شگاف بمباری میں مصروف ہے جس میں ہر روز سیکڑوں مرد اور عورتیں اور بچے  لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔ قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے دھماکوں اور شیل باری  سے زمین پر لرزہ طاری ہو جاتا  ہے  بموں کا دھواں آسمان تک بلند ہورہا ہے عمارتیں تاش کے پتے کی طرح زمین بوس ہورہی ہیں ۔ غوطہ دمشق ایک ملبہ میں تبدیل ہورہا ہے اور اس کے بڑے حصہ پر اب شامی فوج کا قبضہ ہورہا ہے ۔ روسی مشیرکار بھی بشار کی  رہنمائی اور کمک کے لئے بر سر موقعہ موجود ہیں ۔ دنیا میں مختلف تنظیمیں اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہی ہیں لیکن عرب دنیا کی طرف سے احتجاج کی کوئی آواز  بلند نہیں  ہوتی ہے ، جیسے شامی ان کے بھائی نہ ہوں دشمن ہوں ۔ اقوام متحدہ نے ایک ماہ کی جنگ بلندی  کی قرار داد منظورکی ہے لیکن اس پرعمل درآمد نہ دارد ۔ بعض طاقتیں روس سے مداخلت کی اپیل کررہی ہیں ۔ میر کی سادگی بھی ضرب المثل  ہو گئی ہے ’’ میر کیا سادہ  ہیں ۔۔۔‘‘
     شام اس وقت ایک ایسے جسم کے مانند ہے جس کے اعضاء کٹے ہوئے اور بکھرے ہوئے ہیں اور اس کے جسم کو مثلہ کرنے میں تمام بڑی طاقتیں اور چھوٹی طاقتیں شریک ہیں ۔ شام کے مزاحمتی گروپ  جس میں اسلام پسند بھی شامل ہیں  اس کو توڑنے میں ترکی کے سوا سب متحد ہیں ۔ حلب ہو یا درعا ، حمص ہو یا دیر الزوریا غوطہ دمشق ہر جگہ زمین خون مسلم سے لالہ زار ہے ۔ سقوط شام پرعرب اسلامی دنیا میں سکوت صبح وشام طاری ہے حقیقت یہ ہے کہ ان عرب مسلم ملکوں پر مرگ غیرت اور مرگ حمیت اورمرگ دوام طاری ہے ۔ کچھ خیر وخیرات کے اچھے کاموں کے باوجود یہ اچھی حکومتیں نہیں ہیں اگر شام میں آبادی بجائے مسلمانوں کے عیسائیوں کی ہوتی اور ان کے ساتھ یہ خون ریزی اور خون آشامی کا معاملہ ہوتا تو دنیا چیخ پڑتی ۔ شام کی جنگ کے تمام فریق ۔ مسلمان  مجاہدین مزاحمتی گروپ اور ترکی کو چھوڑ کر۔ سب خوش ہیں کہ اسلام کا نام لئے بغیر مسلمانوں کے جسم کی تکابوٹی کی جارہی ہے ۔ اور ان بڑی طاقتوں کوخوب معلوم ہے کہ پڑوس کے عرب ملک بے طاقت اور بے حیثیت ہیں وہ کچھ نہیں کرسکتے ، وہ عشرت کدوں میں داد عیش دینے کے سوا کچھ نہیں جانتے جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن وہ یہی عرب ہیں ۔ صلاح الدین ایوبی کی قبر بھی دمشق میں ہے اور صلیبی طاقتوں کو صلیبی جنگ : کا حوالہ دیئے بغیرصلاح الدین ایوبی  سے  بدلہ لینے کا موقعہ ہاتھ آیا ہے ۔ مسجد اقصی  صلیبیوں کے قبضہ میں ہے اور اب یروشلم میں امریکہ کا سفارت خانہ جلد ہی کھلنے والاہے ۔ عیسائی دنیا  بیت المقدس  مقدونیہ اور قسطنطنیہ پر مسلمانون کا قبضہ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے ۔ عیسائی دنیا چاہتی ہے کہ پوری دنیا شور ناقوس کلیسا سے گونج اٹھے اور نغمہ توحید اور گلبانگ ا ذاں کہیں سنائی نہ دے ۔ اسے مسلمانوں سے انتقام لینا ہے اور پایان کار مرغان حرم کے سب سے مقدس آشیانہ  پر قبضہ کرنا ہے  ۔خادم الحرمین کو اس کی خبر نہیں ۔ بے ید بیضاء ہے پیران حرم کی آستیں ۔
   شام وہ بدقسمت ملک ہے جس میں ایک نہیں ظلم وستم کے خونیں پنجے بہت سے ہیں داعش کو ختم کرنے کے نام پر روس اور امریکہ دونوں مسلسل شہری علاقوں پر بم باری کرکے عمارتوں کو منہدم کرتے رہے ہیں مسجدوں اور اسپتالوں تک کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان دونوں آقائوں کی فضائی سرپرستی میں بشار الاسد کی فوج فتح کا جھنڈا بلند کرتی رہی ہے ایران کی آرمی بشار کی فوج کے ساتھ لڑتی رہی ہے حزب اللہ نے بھی بشار کی مد کرنے میں کوتاہی نہیں برتی ہے ۔ یہ سب طاقتیں مل کر خون کی ہولی کھیلتی رہی ہیں بالکل ابتداء میں جب یہ بیرونی طاقتیں میدان میں نہیں کودی تھیں شام کے مجاہدین نے جنہیں باغی کہا جاتا ہے ملک کے اسی فی صدی علاقوں پر زمینی قبضہ کرلیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ پورے ملک شام پر باغیوں کا قبضہ اب چند روز کی بات ہے ۔ اور اسلامی فکر اور جذبہ سے سرشار باغی ملک کے درو بست پر قبضہ کرلیں یہ اسرائیل اور بڑی طاقتوں کے لئے ناقابل برداشت بات تھی اور اسرائیل کا وجود خطرہ میں پڑ سکتا تھا ۔ بشار الاسد کے ظالمانہ رویہ کے باوجود دنیا کی طاقتیں اسی پیکر ظلم حاکم کو کو برسراقتدار دیکھنا چاہتی تھیں اور ایران کے نزدیک ایک شیعی اقتدار خواہ وہ کیسا ہی برا ہو سنی اقتدار سے بہتر ہے ۔ ایران کی یہی شیعی توسیع پسندانہ پالیسی شام کے علاوہ عراق میں یمن میں بحر ین میں ہر جگہ جاری ہے ۔ اس کا تقریب بین المذاہب کا نعرہ مکر وفریب کے ایک جال کے سوا کچھ نہیں ۔
        قرآن  کے حکم کے رو سے شام کے مسلمانوں کی مدد مسلمانوں پرواجب ہے جس طرح اہل فلسطین کی مدد واجب ہے ۔ شام میں جن لوگوں کے ہاتھ میں انقلاب کی قیادت تھی ان کی ذہنی اور فکری وابستگی اخوان المسلمون کے ساتھ تھی اور خلیج کے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ انہیں لفظ اخوان کے الف سے بھی ڈر لگتا ہے اور اسی لئے انہوں نے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے میں بڑی طاقتوں کی پوری مدد کی اور خلیجی حکومتوں کے حاکموں کے کفش بردار مفتی حضرات  اخوان پر اور ان تمام علماء پر جو اخوان کے طرفدار تھے دہشت گردی کا الزام لگاتے رہے ۔ علم دین اور افتاء کی ایسی رسوائی چشم فلک نے کم دیکھی ہوگی ۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم عرب ملکوں کو بڑی طاقتوں کا خوف ہے اس لئے وہ  شام کی کوئی مدد نہیں کرسکتے تھے ۔ یہان سوال یہ ہے کہ آپ شمالی کوریا کر طرح بڑی طاقت کیوں نہیں بن سکے پٹرو ڈالر اور سیال سونا آپ کودیا گیا تھا آپ نے اس کا مصرف کیوں نہیں لیا آپ نے سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی کیوں نہیں کی ۔ اورکیوں پوری قوم کو صارفین کی قوم بنا دیا ۔ کیا قرآن میں  یہ حکم نہیں ہے کہ تمہارے پاس  ایسے اسلحے ہوں کہ  دین اسلام کے دشمن  اور تمہارے  دشمن (  آج کے زمانہ میں اسرائیل اور امریکہ وغیرہ ) خوف سے لرزہ براندام  ہو جائیں ۔ تصور کیجئے کہ  شام کے پڑوسی عرب ملکوں میں کوئی ملک اگر  اسرائیل یا مغربی ملکوںکی طرح طاقتور ہوتا تو کیا  بشار کو یہ جرآت  ہوتی کہ ڈکٹیٹر بن کر  شامی مسلمانوں پر ظلم کرے  یا کیا ایران کو ہمت ہوتی کہ وہ بشار کا حلیف بن کر سنی مسلمانوں پر ظلم  ڈھائے  یا کیا  روس کی ہمت ہوتی کہ شام کے معصوموں پر بمباری کرے ۔ کیا یہ خلیجی ملکوں کا جرم نہیں ہے کہ وہ پٹرول کی دولت سے صرف عیش کرتے ہیں اور اپنے ملک کو صنعتی اعتبار سے طاقتور نہیں  بناتے ہیں ۔ اگر وہاں کے باشعور مسلمان  حکومت کے خلاف کھڑے ہوجائیں  اور حکومت کو بدلنے کی کوشش کریں توان کو قصور وار نہیں ٹھرایا جاسکتا کیونکہ وہاں کے حاکموں نے  قرآن  کے حکم کو پامال کیا ہے ، آج  خلیجی ملکوں کا ایک ولی عہد سلطنت  ترکی کو جس نے شامیوں کی مدد کی ہے  بدی کا محور قرار دیتا ہے، وہ شخص قرار دیتا ہے جو سرزمین مقدس کو  بدی کی آماج گاہ بنانے پر تلا ہوا ہے  اور وہاں  کے بڑے مفتی سے لے کر چھوٹے مفتی تک سب کی زبانیں  خاموش ہیں۔منبر ومحراب حق گوئی کے لئے  ترس رہے ہیں ۔
      شام بحیرہ روم کی مشرقی  کنارے پر واقع  ایک بے حد خوبصورت اور شاداب ملک ہے اس کے مغرب میں لبنان اور شمال میں ترکی ہے اور مشرق میں  عراق ہے اور جنوب میں اردن واقع ہے یہ دو کروڑ کی آبادی کا ملک ہے اس میں ۹۰ فی  صد سے زیادہ مسلمان ہیں  غالب اکثریت سنیوں کی ہے ۔ لوگ  خلیجی ملکوں کی  طرح امیر نہیں ہیں کیونکہ پٹرول کی پیداوار کم ہے لیکن ان کے معاشرتی اخلاق  بہت بہتر ہیں ان میں شرافت ہے اور دلجوئی اور دلنوازی  ہے ۔ فرانس کے اقتدار کے ختم ہونے کے کچہ عرصہ کے بعد  حافظ الاسد نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا  جو علوی شیعہ تھا اور فوج میں ملازم تھا چونکہ فوج میں علویوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لئے اس نے بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کرلیا اور دینی ذہن رکھنے والوںاور اخوان کو کچلنا شروع کیا  اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا تخت اقتدار پر بیٹھا  اور اس نے باپ سے زیادہ ظلم کئے ۔ پورے ملک میں ایمرجنسی جیسی حالت ہمیشہ رہی ۔ کسی کو تحریر وتقریر کی اجازت نہیں تھی یہان تک کہ سیرت کے جلسے بھی بندمکانوں میں  منعقد ہوتے تھے ۔ بشار الاسد کے مظالم کے خلاف ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ ء کوشام میں مظاہرے شروع ہوئے  جس کو اس نے آہنی  ہاتھوں سے کچل دیاپھر پورے ملک میں  مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور طاقت سے ان پرامن مظاہ روں کوروکنے کی وجہ بغاوت کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے  پھر وہ وقت آیا کہ ملک  کی سرزمین  کا ۸۰ فی صد حصہ بشار کے قبضہ سے نکل کر باغیوں کے قبضہ میں چلا گیا  جن کی قیادت کرنے والوں میں دینی ذہن کے لوگ  اور اخوان المسلمون  کے لیڈر تھے ۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں  خوف کی نفسیات میں مبتلا تھے بشار کو ہٹا کر اخوان کو برسر اقتدار لانا  بساط شطرنج  پڑ اسرائیل کے، لئے شہ مات کے مرادف  تھا ۔ چنانچہ مذاکرات  کی میز سے ان چہروں کو ہٹایا گیا  جن پر دینی جماعت کا ٹھپہ  لگا ہوا ہوا تھا  ۔ چنانچہ دینی ذہن کے مجاہدین نے جبہۃ النتصرۃ ، جیش الاسلام اور عفلق الشام  وغیرہ  کے نام سے  اپنی تنظیمیں قائم کرلیں  دینی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور پھرر وس اور امریکہ دونوں نے  ان کو اپنا  نشانہ بنایا شامی فوج کے نشانہ پر وہ پہلے سے تھیں ۔ یہ وہ جماعتیں تھیں جو شدید مظالم کے خلاف  کھڑے ہونے والوں میں صف اول میں تھیں  انہوں نے نام نہاد مذاکرات سے خود کو الگ رکھا اور مذاکرات کا منصوبہ بنانے والوں  نے بھی  ان سے زیادہ دلچسپی نہیں  لی ۔ مصر ہو یا تیونس ہو لیبیا ہو یا شام ہو ہر جگہ انقلابات کی اصل وجہ وہ شدید ظلم ہے جو ان ملکوں میں  حاکم اپنے عوام پر کرتے تھے  اور کسی کو شکایت کرنے اور احتجاج کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ آزادی تحریر وتقریردنیا میں تمام ملکوں میں ہر انسان کا بنیادی  حق سمجھا جاتا ہے ۔ اس دور کی جمہورت کے نقطہ نظر سے بھی اور اسلامی شریعت کے اعتبار سے بھی شکایت احتجاج اور تنقید ہر شہری کا حق ہے لیکن شام میں اور بہت سے ملکوں میں انسانیت کا نہیں بلکہ جنگل کا قانون رائج ہے وہان ہر طاقتور حکمران کمزور پر ظلم کرنے کا عادی  ہے وہاں کا ماحول ایسا ہے کہ ظالم کی ثناخوانی ہے اور قاتل کی پذیرائی ہے اور انصاف کی رسوائی ہے ،  وہ ایک تالاب ہے جس میں ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے ۔ یہان بڑی مچھلی وہ ہے جس کے پاس فوج ہے ، پولیس ہے حکومت کی طاقت ہے اور ہر طرح کے ہتھیار ہیں ۔ اسلامی تاریخ میں  متعدد اسلامی تحریکیں اسی فوجی اور حکومتی طاقت سے کچل دی گئی ہیں سانحہ کربلا صرف ایک بار تاریخ میں نہیں پیش آیا ہے بلکہ باربار پیش آتا رہتا ہے ۔ اس لئے کہ ان تحریکوں کے ہاتھ میں  ہتھیار نہیں ہوتے اور حکومت کی طاقت نہیں ہوتی ۔ اس لئے ہر دور کا یزید انہیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے ۔
      مسلمانوں میں بعض اصحاب فکر ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ دینی ذہن اور تحریک کے لوگوں کوشام میں اور کئی ملکوں میں شکست کا سامنا ہوا کیونکہ جب تک طاقت کا توازن نہ ہو اور حکومت سے مقابلہ کی طاقت نہ ہو انقلاب کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ باغی گروپ شام میں  کامیابی کی دہلیز تک پہونچ گیا تھا ۸۰ فی صد  ملک پر باغی مجاہدین کا قبضہ تھا ۔ کیا یہ طاقت کافی نہیں تھی کہ حکومت کے ظلم وستم کی خلاف  اور بے دینی اور اباحیت کی  حکمرانی کے خلاف باشعور عوام کھڑے ہوں ۔ یہ بیرونی طاقتیں تھیں جوحکومت کی کمک پر آگئیں ۔ ایران جسے بشار سے ربط خصوصی تھا  میدان میں کود پڑا تاکہ نام نہاد شیعی حکومت کوبچایا جائے ایرانی ملیشیا حزب اللہ کے سپاہی شیعی حکومت کو بچانے کے لئے شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے سامنے آگئے ۔ اس پر بھی انقلاب بردوش مجاہدین اور باغیوں کا پلڑا بھاری ہورہا تھا  اب شامی حکومت نے روس کو کو دعوت دی کہ وہ آئے  اور گرتی ہوئی حکومت کو سنبھالا دے ۔ روس ایک عالمی طاقت ہے اسے اپنے روایتی حلیف شام کی مدد بھی کرنی تھی اور افغانستان میں شکست کا بدلہ بھی لینا تھا  اور ملک شام میں اپنے اقتصادی مفادات کی حفاظت بھی کرنی تھی ۔داعش کے نام پر روس نے شام کی مزاحمتی فوج پر خوب بمباری کی اور یہ مزاحمتی فوج وہ ہے جو بشار کے خلاف بر سر پیکار ہے ۔ روسی طیارے آسمان  سے مجاہدین اور مزاحمتی فوج پرجنہیں فری سیرین آرمی  بھی کہا جاتا ہے  آگ برسانے لگے اور پھر حلب انقلابیوں یا باغیوں یا فری سیرین آرمی  کے ہاتھ سے نکل گیا ۔شام میں جو جنگ کا منظرنامہ ہے وہ چھوٹے پیمانہ پر عالمی جنگ کا منظر نامہ ہے ۔ یہاں روس بھی بشار کی حمایت میں  بمباری کر رہا ہے اور داعش سے کہیں زیادہ  مزاحمتی گروپ کو  نشانہ بنارہا ہے   اور امریکہ نے داعش کو ختم کرنے کے نام پر اپنی فضائی فوج  ملک کی ویرانی میں اضافہ کرنے کے لئے لگا دی ہے  ایران کی بری فوج  زمینی لڑائی میں بشار کی فوج کا ساتھ دے رہی ہے اور حزب اللہ کے فوجی بھی  شامی فوج کے مدد گار ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ شام میں آزادی اور انقلاب  کا نعرہ بلند کرنے والوں نے بشارالاسد سے شکست کھائی ہے انہوں نے تو بشار الاسد کو زمین کے بڑے حصہ سے بے دخل کردیا تھا۔ انہوں نے دراصل  روس اور امریکا اور ایران  اور حزب اللہ کی  متحدہ فوج سے شکست کھائی ہے ۔  ، محدود پیمانہ پر ترکی کی فوجی مداخلت بھی سرحد پر کردوں پر کنٹرول کرنے کے لئے موجود ہے یہ کرد وہ  ہیں جو ترکی میں بھی خلفشار پیدا کرتے ہیں اور امریکہ کی ہمدردیاں کردوں کے ساتھ ہیں  ۔شام کی بہتی گنگا میں یا دریائے فرات میںسب ہاتھ دھورہے ہیں،مرنے والے سب شام کے مسلمان ہیں ۔شام ایک بہت  بڑا  مذبح بن گیا ہے  جس میں رات دن  انسانوں  کا خون بہہ رہا ہے ۔اور دنیا تماشہ بیں بنی ہوئی ہے ۔  سقوط شام پر اسلامی عرب  دنیا میں مرگ دوام ہے سکوت صبح وشام ہے ۔
      مسلم دنیا کے خلاف عالمی سازش ہے ۔ مغربی ملکوں نے مسلم ملکوںکو اپنا آلہ کار بنایا ہے خلیجی ملکوں  کی مدد سے جمہوری اور دستوری  حکومت کا مصرمیں  تختہ پلٹا گیا ہے ۔ سعودی عرب کے ذریعہ  قطر کا بائیکاٹ باہمی  افتراق  پیداکرنے کی  ایک سازش ہے  سعودی عرب نے اسرائیل کے لئے ہندوستان کو فضائی راہ داری بھی دے دی ہے  وصال یار میں اور’’ من تو شدم  تو من شدی ‘‘ میںیعنی سعودی عرب اور اسرائیل کی دوستی میںجوکسر باقی ہے وہ بھی جلدپوری ہوجائے گی  اور پھر’’ معتدل اسلام ‘‘ کا نعرہ ۔  اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب مغرب کے  جال میں کس قدر پھنس چکا ہے۔ سعودی  عرب ہی میں شاہ فیصل بھی ہوا کرتے تھے  جو اخوان المسلمین کے خیرخواہ اور ہمدرد تھے  اوراب  موجودہ سعودی حکمراں اخوان  پر دہشت گردی کا  جھوٹا الزام  لگاتے ہیں کیونکہ امریکی آقا  یہی چاہتے ہیں  اکتوبر ۱۹۷۳ کی جنگ میں  جب اسرائیلی فوج نے  امریکی اسلحہ کی مدد سے مصر کو شکست  فاش دی تھی تو یہی شاہ فیصل تھے جنہوں نے  امریکہ اوراسرائیل کے ہم نوا مغربی ملکوں کو  پٹرول کی سپلائی روک دی تھی جس سے امریکی معیشت  غیر معمولی طور پر متاثر ہوئی ۔ پٹرول پمپ پر کئی کیلومیٹر کی لائینیں  نظر آنے لگی تھیں، ایک شدید  اقتصادی بحران  پیدا ہوگیا تھا ۔مغربی طاقتوں نے اسرائیل پر دباو ڈال کر  فوجوں کے واپسی پر مجبور کیا  اور اسرائیل کو صحرائے سینا کو خالی کرنا پڑا تھا ۔ آج وہی سعودی عرب ہے جہاں  شاہ فیصل کے جانشین  شاہ سلمان اور ان کے ولی عہداب  زلیخائے تہذیب حاضر یعنی  امریکہ کے چشم وابرو  کے اشارے پر چل رہے ہیں ۔ اس صورت حال کی اس سے بہتر  تصویر نہیں ہوسکتی ہے  جو ایک فارسی شاعر نے کھینچی ہے  ۔
                             
             غنی روز سیاہ پیر کنعاں  را  تماشا کن
                              
             کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
              شاعر کہتا ہے کہ ضعیف پیر کنعاں( یہ استعارہ ہے حضرت یعقوب کا ، یہاں شاہ فیصل کوتصور کیجئے ) کی سیاہ بختی اور تیرہ نصیبی  ذرا  دیکھنے  کے لا ئق ہے کہ اس کے  نور دیدہ  لخت جگر ( سعودی ولی عہد)نے  زلیخا ئے تہذیب  کی ہوس پوری کرکے اسے  روشن چشم اوردلشاد کردیا ۔    
   اسلام اور مسلمانوںکا درد  ترکی کو ضرور ہے  لیکن امریکہ نے ترکی میں انقلاب کی سازش  کرکے  اردگان کو محتاط کردیا ہے وہ مجبور ہے کہ روس اور ایران کے ساتھ رشتہ نہ توڑے  اور تعلقات قائم رکھے ۔ شام اس کے لئے پل صراط ہے  اور اسے سنبھل کرکے  چلنا ہے  اور اس نے اپنی جنگ کرد  ملیشیا  تک محدود رکھی ہے ۔ لیکن اس نے لاکھوں شامی مہاجرین کو پناہ دی ہے  اس کی نیکی اور شرافت اور وسیع القلبی اوردینی حمیت  کا یہ سب سے بڑا ثبوت ہے ۔
  شام میں جنگ بندی پر اتفاق کے باوجود عملی طور پر  بموں سے حملے جاری ہیں ۔ آزادانہ انتخابات اور عبوری حکومت کے قیام کا وقت کب آئے گا  اللہ بہتر جانتا ہے ۔ امریکہ کی فوجی مداخلت بھی روس کی جارحیت کو روک نہیں سکی ہے ۔ ترکی کی زیادہ پیش فدمی  ایران کے لئے دعوت مبارزت بن چائے گی ۔ بظاہرابھی  افق پر اندھیرا ہے ،کہیں دور تک روشنی کی کرن نظر نہیں آتی ہے سفینہ ساحل نجات تک کب پہونچے گاکسی کونہیں معلوم ۔جب  ہر ناخدا سے  امید کا سر رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تب غیب سے خدا کی کارسازی  کا ظہور ہوتا ہے ۔  وہ ’’ فعال لما یرید‘‘  ہے ۔  ’’وللہ جنود السموات والارض ‘‘۔ آسمان اور زمین کے تمام لشکر اس کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔ مشیت الہی کے تحت  حضرت یوسف کو اندھے کنویں میں ڈال  دیا گیا  تھا  پھر ان کو غلام بنا کر بازار مصر میں فروخت کردیا گیا تھا  اور یہ سلسلہ اسباب  اس لئے تھا کہ ایک دن ان کو مصر کا بااختیار فرماں روا بنا دیا جائے ۔ یہ بات پہلے کسی کو نہیں معلوم تھی  حضرت یوسف کو بھی نہیں معلوم تھی ۔شام میں یہ سب کیوں ہورہاہے  اور اللہ کو کیا منظور ہے نہیں معلزم ۔ انسان بس احکام الہی کی پیروی  کا مکلف ہے ۔ جزا اور انعام  اللہ ضرور عطا کرتا ہے  ظالم کو ظلم کی سزا ضرور ملتی ہے  اور وہ کیفر کردار تک پہونچتا ہے اور ہمیں دعا بھی کرنی چاہئے اللہم خذہ  أخذ عزیز مقتدر ۔  لیکن دعاکب قبول ہوگی  یہ سب پردہ تقدیر  میں ہے ۔ اللہ کے ارادوں کو کوئی نہیں جان سکتا ہے
                              
                       فرزیں سے بھی  پوشیدہ  ہے شاطر کا ارادہ

0 comments: