News
روسی سفارت کاروں کے اخراج کے پس پردہ حقائق
نہال صغیر
روس اور برطانیہ میں ایک بار پھر سرد جنگ جیسا ماحول ہے ۔ برطانیہ نے جاسوس
کے قتل کے تنازعہ میں روس کے تئیس سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے
دیا ہے ۔ برطانیہ ان سفارت کاروں کو جاسوس قرار دیتا ہے ۔ یہ تنازعہ غالباً
اس نو مسلم جاسوس کے قتل سے جڑا ہے جس نے روس سے فرار ہو کر برطانیہ میں
پناہ لے لی تھی اور اسے برطانیہ کے ایک ریسٹورنٹ میں سافٹ ڈرنک کے اندر زہر
دے کر ماردیا گیا تھا ۔ آج دنیا کے مہذب ملک اپنے حدود و قیود سے نکل کر
اپنے جاسوسوں اور خفیہ اداروں کی مدد سے ایک دوسرے کے ملکوں میں تخریب کاری
کی بدترین کارروائی انجام دیتے ہیں۔حالانکہ یہ اکیسویں صدی کے آزادی اور
جمہوریت کا دور ہے ، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ معلوم دنیا کی
تاریخ کا سب سے سنہرا دور ہے جہاں ایک دوسرے کی آزادی اور اس کے وقار کا سب
سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے ۔ہر طرف آزادی اظہار رائے اورسیکولرزم کے نام
پر رواداری کی بات کی جاتی ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب ایک ملک دوسرے ملک پر حملہ
آور ہوتا تھا تو فوجوں کے درمیان آمنے سامنے جنگ میں فیصلے ہوتے تھے
۔ ملکوں کے بادشاہ یا فرمانروا بھی جاسوس رکھتے تھے اور اس کی مدد سے وہ
دشمن ملکوں یا پڑوسی ممالک کی نقل حرکت پر نظر رکھتے تھے ۔ نبی ﷺ نے بھی
جاسوسی نظام کو مضبوط کیا تھا اور اس کیلئے آپ ﷺ ضروری ہدایتیں بھی دیا
کرتے تھے ۔اسلام کی مدنی ریاست میں جاسوسی نظام اتنا مضبوط ہوا کرتا تھا کہ
دشمن کی حرکت سے قبل ہی مسلمانوں کے پاس خبر آجاتی تھی کہ دشمن کے ارادے
کیا ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ مسلمان کمزور اور قلیل تعداد میں ہونے
کے باوجود دشمن پر فتح پالیا کرتے تھے ۔ اس جاسوسی کے متحرک نظام کو خلفائے
راشدین اور مسلم حکمرانوں نے زندہ رکھا۔یہی سبب ہے کہ آج سے دو سو سال قبل
تک مسلم حکمرانوں کی ہی قوت تسلیم کی جاتی تھی ۔دنیا کی تین بڑی قوتیں
مسلم حکمرانوں کی ہی تھی ۔ وہ سائنسی طور پر غیر ترقی یافتہ لیکن مہذب دور
تھا ۔اس دور کے حکمرانوں کواس جاسوسی نظام کے ذریعہ صرف اپنی سرحدی سلامتی
مقصود تھی ۔لیکن آج اکیسویں صدی کے جمہوری دور میں جاسوسوں کے ذریعہ ایک
ملک دوسرے ملک میں بیجا مداخلت کرتا ہے اور مداخلت ہی نہیں بلکہ بدترین
تخریب کاریوں کو بھی انجام دیا کرتا ہے ۔انہی تخریب کاریوں کا نتیجہ ہے کہ
فرضی تنظیموں کے ذریعہ ملکوں ملکوں بم دھماکے اور خود کش حملے ہو رہے ہیں
۔کسی بھی فرضی تنظیم کے سر ان دھماکوں کو مڑھ دیا جاتا ہے ۔جبکہ عام طور پر
ان تخریب کاریوں میں دشمن ملک کا ہاتھ ہوتا ہے جسے اپنے جاسوسی نیٹ ورک کے
ذریعہ وہ انجام دیتے ہیں ۔کئی بار تو دوسرے ممالک جس میں عام طور پر پڑوسی
ممالک ہوتے ہیں انہیں بدنام کرنے کیلئے اپنے ہی ملک میں کارروائی کراس ملک
کو یا اس میں متحرک کسی گروپ کو بدنام کیا جاتا ہے ۔کئی سال قبل چیچن
مزاحمت پسندوں کو دنیا کے سامنے دہشت گرد قرار دینے کیلئے روس ماسکو کے ایک
تھیٹر میں یہ کارنامہ انجام دے چکا ہے ۔کئی معاملے ہیں بدنام زمانہ امریکہ
کا نائین الیون معاملہ میں بھی تحقیقات کرنے والوں نے اسے امریکی حکومت کی
کارروائی دیا تھا۔یہ سیاہ کارنامے دیکھیں اور تصور کریں کہ اس مہذب دور کے
مہذب ممالک جہاں انسانی آزادی اور مساوات کا نعرہ بلند کیاجاتا ہے محض
اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے کتنے گھناؤنے کارنامے انجام دیتے رہتے
ہیں ۔
حالیہ روس برطانیہ تنازعہ میں بھی انہی تخریب کاری کو دخل ہے ۔تقریبا چھ سال قبل روس کے ایک جاسوس نے اسلام قبول کرلیا اور اس کے بعد اس نے جاسوسی کی شکل میں تخریبی سرگرمیوں سے توبہ کرلی لیکن یہ جاسوسی کا پیشہ یک رخی راستہ ہے ۔اس میں آپ داخل ہو سکتے ہیں لیکن باہر جانے کا راستہ بن ہوتا ہے ۔ برطانیہ کا الزام ہے کہ روس نے اس نومسلم جاسوس کوبرطانیہ کی سر زمین پر تخریب کاری کے ذریعہ مارڈالا ۔مذکورہ جاسوس کو ریڈیائی زہر دیا گیا تھا ۔روس نے ایک تو اپنے جاسوس کو خود ہی زہر دیا اور اس کے لے اپنے سفارت کاروں کا استعمال کیا اور الزام بھی برطانیہ کے سر ڈال دیا ۔یقیناًروس کی یہ کارروائی اشتعال انگیز تھی ۔لیکن ملک کے حکمراں اور سیاست داں ایسی کسی اشتعال انگیزی کو محفوظ رکھتے ہیں اور مناسب موقعہ پر اس کا استعمال کرتے ہیں ۔ٹھیک یہی کام برطانیہ نے کیا ہے ۔ چونکہ روس ابھی اپنی سابقہ سُپر پاور والی پوزیشن کو حاصل کرنے میں سرگرم ہے جس کا اظہار اس نے شام میں معصوم عوام کو قتل کرکے کیا ہے ۔اس کے اس ناپاک عزائم کو برطانیہ اور امریکہ دونوں مل کر خاک میں ملانا چاہتے ہیں ۔ برطانیہ کو اسی جاسوس قتل معاملہ کو دنیا کے سامنے لانے اور روس کو گھیرنے کا اس سے اچھا موقعہ اور کب ملتا جبکہ روس مشرق وسطیٰ میں ایران کی مدد سے مداخلت کرکے امریکی اثرات پر قد غن لگانا چاہتا ہے ۔اس کیلئے اس نے ایران کی مدد سے شام کو خون میں نہلا دیا ۔ روس اس قدر آگے نکلتا جارہا ہے کہ امریکی مفاد خطرے میں ہے ۔ اسی لئے امریکہ نے برطانیہ کی روسی سفارت کاروں کو جاسوس قرار دے کر ملک بدر کرنے کی کارروائی کی حمایت کی ہے ۔یقیناًروسی سفارت کاروں کی برطانوی سرزمین پر جاسوسی کے ذریعہ ایک جاسوس کو قتل کرکے اس کا الزام برطانوی حکومت پر ڈالنا اشتعال انگیز کارروائی ہے جس کے خلاف برطانیہ کی کارروائی درست ہی معلوم ہوتی ہے ۔ اب روس لاکھ یہ دھمکیا ں دیتا رہے کہ ’سفارت کاروں کو جاسوس قرار دینے کے عمل کا وہ مناسب وقت پر جواب دے گا ‘ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ روس بھی ایسے ہی کسی موقعہ کی تاک میں رہے گا ۔کچھ سال قبل روس نے بھی امریکی سی آئی اے ایجنٹ جولین اسنج کو اپنے یہاں پناہ دی تھی ۔ امریکہ کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر امریکہ بننے کے پیچھے میڈیا میں آج بھی روسی مداخلت کی بات آتی رہتی ہے ۔امریکہ میں یہ بات عام طور سے کہی جاتی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ روس کے ایجنٹ ہیں ۔
آخری بات یہ ہے کہ دنیا میں یہ سب کچھ چلتا رہے گا اور یہ ان ممالک کے درمیان زیادہ ہوگا جو دنیا میں امن کے ٹھیکیدار ٹھہرے ۔اوپر صرف ایسے واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ یعنی نائین الیون اور ماسکو تھیٹر اٹیک جس میں دونوں ممالک کی حکومتیں خود ملوث ہیں ۔لیکن دنیا میں انگنت نائین الیون اور ماسکو تھیٹر اٹیک طرح کے حملے ہوئے ہیں ۔ان حملوں میں بھی اسی طرح کی کہانیاں سامنے آئی ہیں ۔اس طرح کے حادثوں اور اور واقعات کے برسوں بعد خود حکومت کے اہلکاروں میں سے کئی لوگوں نے کہا کہ یہ ’انسائیڈ جاب ‘تھا۔لیکن چونکہ ان ممالک میں جمہوریت کے نام پر آمریت اور دیش بھکتی کا زہر پوری طرح سریات کرچکا ہے اس لئے وہاں امریکہ یا روس کی طرح آپ آزادی کے ساتھ اپنی بات نہیں رکھ سکتے ۔حالانکہ باور تو یہ کرایا جاتا ہے کہ وہاں امریکہ سے زیادہ آزادی اظہار رائے کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ اس لئے کسی دہشت گردانہ کارروائی یا کسی جاسوسی تخریب کاری کے واقعات کے فورا بعد حکومتی موقف پر یقین نہ کریں اپنی آبکھیں کھلی رکھیں اور دماغ کو خواہ مخواہ کے الجھنوں سے آزاد رکھیں تو آپ کو سب کچھ نظر آتا جائے گا ۔ماضی کے واقعات کو بھی ذہن میں محفوظ رکھنے کی کوشش کریں ۔آپ کے سامنے سارے راز منکشف ہوتے جائیں گے کہ اس مہذب دور میں مہذب ممالک کس طرح حیوانی کارروائی کرتے ہیں اور اس کو بڑی آسانی کے ساتھ اپنے کسی مطلوبہ یا اہدافی دشمن ملک یا فرضی تنظیم کے سر ڈال دیتے ہیں ۔
حالیہ روس برطانیہ تنازعہ میں بھی انہی تخریب کاری کو دخل ہے ۔تقریبا چھ سال قبل روس کے ایک جاسوس نے اسلام قبول کرلیا اور اس کے بعد اس نے جاسوسی کی شکل میں تخریبی سرگرمیوں سے توبہ کرلی لیکن یہ جاسوسی کا پیشہ یک رخی راستہ ہے ۔اس میں آپ داخل ہو سکتے ہیں لیکن باہر جانے کا راستہ بن ہوتا ہے ۔ برطانیہ کا الزام ہے کہ روس نے اس نومسلم جاسوس کوبرطانیہ کی سر زمین پر تخریب کاری کے ذریعہ مارڈالا ۔مذکورہ جاسوس کو ریڈیائی زہر دیا گیا تھا ۔روس نے ایک تو اپنے جاسوس کو خود ہی زہر دیا اور اس کے لے اپنے سفارت کاروں کا استعمال کیا اور الزام بھی برطانیہ کے سر ڈال دیا ۔یقیناًروس کی یہ کارروائی اشتعال انگیز تھی ۔لیکن ملک کے حکمراں اور سیاست داں ایسی کسی اشتعال انگیزی کو محفوظ رکھتے ہیں اور مناسب موقعہ پر اس کا استعمال کرتے ہیں ۔ٹھیک یہی کام برطانیہ نے کیا ہے ۔ چونکہ روس ابھی اپنی سابقہ سُپر پاور والی پوزیشن کو حاصل کرنے میں سرگرم ہے جس کا اظہار اس نے شام میں معصوم عوام کو قتل کرکے کیا ہے ۔اس کے اس ناپاک عزائم کو برطانیہ اور امریکہ دونوں مل کر خاک میں ملانا چاہتے ہیں ۔ برطانیہ کو اسی جاسوس قتل معاملہ کو دنیا کے سامنے لانے اور روس کو گھیرنے کا اس سے اچھا موقعہ اور کب ملتا جبکہ روس مشرق وسطیٰ میں ایران کی مدد سے مداخلت کرکے امریکی اثرات پر قد غن لگانا چاہتا ہے ۔اس کیلئے اس نے ایران کی مدد سے شام کو خون میں نہلا دیا ۔ روس اس قدر آگے نکلتا جارہا ہے کہ امریکی مفاد خطرے میں ہے ۔ اسی لئے امریکہ نے برطانیہ کی روسی سفارت کاروں کو جاسوس قرار دے کر ملک بدر کرنے کی کارروائی کی حمایت کی ہے ۔یقیناًروسی سفارت کاروں کی برطانوی سرزمین پر جاسوسی کے ذریعہ ایک جاسوس کو قتل کرکے اس کا الزام برطانوی حکومت پر ڈالنا اشتعال انگیز کارروائی ہے جس کے خلاف برطانیہ کی کارروائی درست ہی معلوم ہوتی ہے ۔ اب روس لاکھ یہ دھمکیا ں دیتا رہے کہ ’سفارت کاروں کو جاسوس قرار دینے کے عمل کا وہ مناسب وقت پر جواب دے گا ‘ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ روس بھی ایسے ہی کسی موقعہ کی تاک میں رہے گا ۔کچھ سال قبل روس نے بھی امریکی سی آئی اے ایجنٹ جولین اسنج کو اپنے یہاں پناہ دی تھی ۔ امریکہ کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر امریکہ بننے کے پیچھے میڈیا میں آج بھی روسی مداخلت کی بات آتی رہتی ہے ۔امریکہ میں یہ بات عام طور سے کہی جاتی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ روس کے ایجنٹ ہیں ۔
آخری بات یہ ہے کہ دنیا میں یہ سب کچھ چلتا رہے گا اور یہ ان ممالک کے درمیان زیادہ ہوگا جو دنیا میں امن کے ٹھیکیدار ٹھہرے ۔اوپر صرف ایسے واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ یعنی نائین الیون اور ماسکو تھیٹر اٹیک جس میں دونوں ممالک کی حکومتیں خود ملوث ہیں ۔لیکن دنیا میں انگنت نائین الیون اور ماسکو تھیٹر اٹیک طرح کے حملے ہوئے ہیں ۔ان حملوں میں بھی اسی طرح کی کہانیاں سامنے آئی ہیں ۔اس طرح کے حادثوں اور اور واقعات کے برسوں بعد خود حکومت کے اہلکاروں میں سے کئی لوگوں نے کہا کہ یہ ’انسائیڈ جاب ‘تھا۔لیکن چونکہ ان ممالک میں جمہوریت کے نام پر آمریت اور دیش بھکتی کا زہر پوری طرح سریات کرچکا ہے اس لئے وہاں امریکہ یا روس کی طرح آپ آزادی کے ساتھ اپنی بات نہیں رکھ سکتے ۔حالانکہ باور تو یہ کرایا جاتا ہے کہ وہاں امریکہ سے زیادہ آزادی اظہار رائے کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ اس لئے کسی دہشت گردانہ کارروائی یا کسی جاسوسی تخریب کاری کے واقعات کے فورا بعد حکومتی موقف پر یقین نہ کریں اپنی آبکھیں کھلی رکھیں اور دماغ کو خواہ مخواہ کے الجھنوں سے آزاد رکھیں تو آپ کو سب کچھ نظر آتا جائے گا ۔ماضی کے واقعات کو بھی ذہن میں محفوظ رکھنے کی کوشش کریں ۔آپ کے سامنے سارے راز منکشف ہوتے جائیں گے کہ اس مہذب دور میں مہذب ممالک کس طرح حیوانی کارروائی کرتے ہیں اور اس کو بڑی آسانی کے ساتھ اپنے کسی مطلوبہ یا اہدافی دشمن ملک یا فرضی تنظیم کے سر ڈال دیتے ہیں ۔
0 comments: