علامہ اقبالؒ :موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے

10:36 PM nehal sagheer 1 Comments


نہال صغیر

آج 9 ؍ نومبر علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے ۔اقبال صدیوں میں پیدا ہوتا ہے ۔اس نے آج کے ہی دن 1877 میں سیالکوٹ میں نور محمد کے گھر آنکھیں کھولیں۔علامہ کی شخصیت اردو شاعری اور زبان و ادب میں محترم ہے وہیں تحریک احیائے اسلام کے صف اول میں شامل ہونے کا قابل رشک کارنامہ بھی انہی کے سر ہے ۔ یوں تو اردو نے اپنے دامن میں بڑے بڑے شاعروں کو پالا ہے ۔لیکن اقبال کا مقام ان سب میں جدا ہے انہوں نے اردو شاعری کو محبوب کے زلف گرہ گیر سے آزاد کراکے اس کو نیا انداز عطا کیا ۔ ابتدائی اور ایف ایس سی کے امتحانات پاس کرنے کے بعدعلامہ کا ذہن شاعری کی جانب ملتفت ہوا ۔انہوں لاہور کے ایک مشاعرے میں اپنی غزل سنائی اس کا ایک شعر کچھ یوں ہے ؂ موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے /قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے 
مذکورہ غزل سے علامہ کی پہچان ایک شاعر کے طور پر ہوئی۔علامہ کی زندگی اور شاعری کے کئی حصے ہیں جس میں ان کے خیالات میں مطابقت نہیں ہوتی ۔شروع میں وہ ہمالہ اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستان جیسی نظمیں لکھتے ہیں لیکن فلسفہ سے ایم اے کرنے کے بعد فکر کے غلبہ نے ان کے مطالعہ کو وسیع کیا اور یوروپ کے سفر نے انہیں اسلام کی گہرائی عطا کی ۔انہوں نے یوروپ کے فلسفہ کا مطالعہ کیا جس نے انہیں اس کے راز ان پر افشا کئے ۔وہ خود کہتے ہیں ؂ حکمت مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے / ایک نکتہ کہ غلاموں کے لئے اکسیر/ دین ہو ،فلسفہ ہو ،فقر ہو،سلطانی ہو/ ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنیاد پر تعمیر 
یہاں سے ان کا زاویہ نگاہ تبدیل ہوا ان کی شاعری میں پیغام کا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔جہاں انہوں نے مغربی تہذیب سے بیزاری کا اظہار کھلے طور پر کیا ۔وہ کہتے ہیں ؂ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی / جو شاخ نازک پر بنے گا آشیانہ نا پائیدار ہوگا 
علامہ اقبال کی اس ببانگ دہل چیلنج کو آج وقت نے ثابت کردیا ہے ۔علامہ اقبال کی شاعری آدمی کے اذہان کو جھنجھوڑ دیتی ہے ۔اسے ہر حال میں سوچنے اور غور و فکر پر مجبور کردیتا ہے۔یوروپ جانے سے قبل جہاں اقبال آزاد خیال ،وطن پرست اور کانگریس کے حمایتی تھے ۔لیکن 1911 میں تقسیم بنگال سے ان کا رجحان مسلمانوں اور ان کے گم شدہ ماضی کی جانب مڑ گیا جو آخر وقت تک ان کے لئے روح و جسم کا مسئلہ رہا ۔1922 کے آس پاس انہوں نے شکوہ لکھا جس میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کو بڑے دلنشیں انداز میں پیش کیا جس سے مسلمانوں کے خوابیدہ اذہان میں تحریک پیدا ہوئی ۔شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا اور کفر کے فتوے بھی جاری ہوئے لیکن انہوں نے جواب شکوہ لکھ کر ان ساری شکایتوں اور فتاویٰ کو بے اثر کردیا ۔جواب شکوہ کا آخری شعر ہی علامہ کی ذہنی پختگی اور ان کے محمد ﷺ سے محبت کی وارفتگی کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے ؂ کی محمد سے وفا تونے تو ہم ترے ہیں / یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم ترے ہیں۔وہ ملت میں نئی روح پھونکنا چاہتے تھے اور اس میں کامیاب بھی رہے ۔چنانچہ ان کی تحریک اور شعری پیغام سے کئی تحریکیں پروان چڑھیں ۔ان کی ایک دعائیہ نظم کے اشعار اس طرح ہیں ؂ یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے /جو قلب کو گرما دے ،جو روح کو تڑپادے / پھر وادی فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے / پھر شوق تماشا دے ،پھر ذوق تقاضا دے
وہ ہر حال میں خواہ خزاں کا ہی موسم ہو ۔حالات کتنے ہی دیگر گوں ہوں لیکن ملت اور اجتماعیت کی تعلیم دینا نہیں بھولتے ؂ ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ / پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ 
وہ عشق الہٰی کے لئے کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتے اور اس کا مشورہ وہ قوم کو بھی دیتے ہیں ؂ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق/ عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی 
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ حساس دل رکھنے والے شاعر تھے ۔انہوں نے زندہ شاعری کی زندہ قوم کو حالات کے بھنور میں جانے سے خبر دار کیا انہیں قدم قدم پر ٹوکا اور چودہ سو سال پہلے لوٹنے کے لئے اپنی پوری شاعرانہ کمالات کو وقف کردیا ۔ان کی نگاہ میں مسلم نوجوانوں کی حالت بھی تھی جو کہ مغرب کے عروج سے مرعوب تھا ۔انہوں نے اسے جھنجھوڑا ، ان کا صحیح مقام انہیں یاد دلایا ؂ میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے / خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر۔دوسری جگہ وہ نوجوانوں کو ان کا اصلی مقام یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں ؂ کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے / وہ کیا گردوں تھا تو جس اک ٹوٹا ہوا تارا
علامہ اقبال حالات سے ناامید اور مایوس نہیں ہوئے اور یہی درس مسلمانوں کو بھی دیا ۔ناامیدی مسلمانوں کا شیوہ نہیں وہ اللہ سے ہمیشہ لو لگائے رکھتا ہے اور اس کی رحمتوں کا امیدوار رہتا ہے ؂ نہیں ناامید اقبال اپنی کِشت ویراں سے / ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی
موت ہر چیز پر غالب ہے ۔جو اس جہان رنگ و بو میں آیا ہے ایک دن اسے اس دنیا کو الوداع کہنا ہی ہے ۔یہ عندلیب باغبان حجاز آخر کار 21 ؍اپریل 1938 کو ہم سے جدا ہو گیا ۔عمومی طور سے دنیا کے مسلمان اور خصوصاً بر صغیر کا مسلمان اقبال کاہمیشہ احسان مند رہے گا جس نے اپنی سوچ سے مایوسی کے دور میں امیدوں کے چراغ روشن کئے ۔

1 comment: