featured

غیرت اسلامی سے دور ہوتا ہوا مسلم معاشرہ !


عمر فراہی  ای میل  : umarfarrahi@gmail.com

رمضان کے مہینے میں ہمارے ایک سنی دوست نے افطار کیلئے مدعو کیا تو میں نے مذاقاً ان سے کہا کہ بھائی سوچ سمجھ کر اور اپنے مولانا سے اجازت لیکر تو یہ دعوت دے رہے ہو نا ، انہوں نے کہا مطلب ! میں نے کہا اس دن جنازے میں دیکھا نہیں کیا ہوا تھا ؟ بہت تیز ہنسے اور بولے یار یہ مولوی لوگ کی بات الگ رکھو ایسا عام حالات میں ممکن نہیں ہے -
قصہ یوں ہے کہ کچھ سالوں پہلے دوپہر کے وقت ہمارے آفس میں یہی دوست آئے ہم نے چائے منگائی دونوں نے پی اور پھر میں نے خیریت دریافت کی کہ کیسے آنا ہوا - انہوں نے کہا کہ آپ کے قریب ہی قبرستان میں جنازہ آنے والا ہے ابھی اس میں وقت ہے اس لئے سوچا آپ سے بھی ملتا چلوں - میں نے پھر پوچھا نہیں کہ کس کا ہے اور کچھ ضروری کام میں مصروف ہوگیا - اچانک ان کے نمبر پر کسی کا فون آیا توباتوں باتوں میں انہوں نے اپنے مخاطب سے کہا کہ ابھی میں  قاضی صاحب کے جنازے میں آیا ہوں بعد میں بات کرتا ہوں - میں چونکہ ان کی یہ گفتگو سن رہاتھا اس لئے پوچھ بیٹھا کہ کون قاضی - انہوں نے کہا وہ اکاؤنٹنٹ تھے میں نے کہا کہ یار وہ تو میرے بھی اکاؤنٹنٹ تھے آپ نے بتایا نہیں - انہوں نے کہا مجھے کیا معلوم کہ آپ بھی جانتے ہیں اور آپ نے پوچھا بھی نہیں - میں نے کہا کوئی بات نہیں پھر تو مجھے بھی جنازے میں شامل ہونا چاہئے - ہم دونوں جنازے میں شریک ہوئے اچانک جنازہ پڑھانے سے پہلے امام نے اعلان کیا کہ جنازے میں جو لوگ دیوبندی, وہابی اور گمراہ فرقے سے تعلق رکھتے ہوں وہ جنازہ نہ پڑھیں - ہمارے کچھہ دوسرے جاننے والے نکل کر جانے لگے اور ہم صف میں ہی کھڑے رہے تو کسی جاننے والے نے پھر کہا کہ چلئے کھڑے کیوں ہیں - میں نے کہا دیوبندی وہابی اور گمراہ فرقے کو نکلنے کیلئے کہا ہے میں تو مسلمان ہوں - انہوں کہا آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ مسلمان ہیں لیکن کیا میت کے رشتے دار بھی آپ کے بارے میں ایسا ہی سوچ رہے ہیں - کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو زبردستی نکالا جائے - مجھے بھی ان کی بات سمجھ میں آئی اور میں شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنازے سے نکل آیا - لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مخالف مسلک سے تعلق رکھنے والے ہمیشہ اور ہر وقت ایک دوسرے فرقوں کیلئے نفرت ہی رکھتے ہوں جیسا کہ اکثر بہت سارے سنی بریلوی اور  دیوبندی آپس میں رشتہ دار بھی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے مرنے ، جینے ، شادی اور کاروبار وغیرہ  میں شریک رہتے ہیں لیکن کسی طرح کی مسلکی تفریق کا سامنا نہیں ہوتااور یہ عام لوگوں کی فطرت بھی نہیں ہے کہ وہ لوگوں سے مسلک اور مذہب کی بنیاد پر نفرت کریں - لیکن اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم معاشرہ اس عصبیت سے پاک ہے - عام آدمی اگر اسے پسند نہیں کرتا تو اسے اپنے علماء کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے لیکن وہ اس کی جرات بھی نہی کرپاتا - یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہم مسلم قلم کار اخبارات اور اپنی عام تحریروں میں مسلمانوں کی مسلکی شناخت جیسے کہ سنیت دیوبندیت اہل حدیثیت وہابیت اور شیعیت وغیرہ کے لاحقہ کے ساتھ لعنت ملامت کرنے سے تو گریز  کرتے ہیں لیکن  دوسرے مذاہب کے فرقوں کے خلاف  براہ راست یہودیت ، نصرانیت اور برہمنیت کا استعمال کرتےہیں - چونکہ قوم یہود سے مسلمانوں کی دشمنی اور سازش کی تاریخ چودہ سو سال پرانی ہے اور فلسطینی مسلمانوں پر ان کے  ظلم کی  داستان بھی عیاں ہے اس لئے اگر مسلمان ان پر لعنت بھیجتا بھی ہے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے کہ یہ اس کا حق ہے  لیکن اکثر اردو صحافی جس طرح برہمنوں کو بھی اپنا تاریخی دشمن سمجھتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی -ہاں  ذاتِی گفتگو میں اگر ایسے  طنزیہ الفاظ کا استعمال ہو تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے جو اکثر مخالف گروہ  بھی مسلمانوں کے تئیں اسلامی دہشت گردی وغیرہ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں لیکن علانیہ طورپر کسی مذہب فرقے اور مسلک کے نام سے کراہیت ، نفرت اور بیزاری کا اظہار نہ صرف انسانی ادب اور فلسفے کے خلاف ہے بلکہ اسلامی ادب اور دعوت و اصلاح کی روح اور اقدار کے بھی منافی ہے - آپ کہہ سکتےہیں کہ جب اللہ نے ان کو دشمن کہا ہے تو ہم کیوں نہ کہیں - اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو جس بات کا اختیار ہے وہ اختیار بندے کو نہیں ہو سکتا ہے - وہ لوگ جو اس وقت زمین پر مسلمان ہونے کی صورت میں ایمان اور یقین کی دولت سے سرفراز ہیں انہیں یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کے اوپر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال خاندان اور پڑوسی کے ساتھ ساتھ اسلام  کےآفاقی پیغام کو جہاں تک ہوسکے دیگر قوموں تک بھی پہنچائیں - یہ کام ضروری نہیں ہے کہ آپ براہ راست لوگوں میں قرآن یا لیٹریچر بانٹ کر ہی پہنچائیں بلکہ بہترین شکل تو یہ ہے کہ قرآنی احکامات اور تعلیمات آپ خود اپنے اوپر اس طرح نافذ کر لیں کہ آپ کا اخلاق اور کردار خود انسانی ادب کی شکل میں آپ کی اپنی اسلامی شناخت کاترجمان بن جائے اور جس طرح آج لوگ مغرب کو اپنا اور آئیڈیل مان کر اس کی طرف دوڑ رہے ہیں امن سلامتی کی طلبگار دنیا مشرق کا رخ  کرنے کے لئے مجبور ہو - اس میں کوئی شک نہیں کہ چند فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی بھی قوم اور ملک میں سارے کے سارے لوگ فرقہ پرست نہیں ہوتے - ہم  یہ بھی کیوں  بھول جاتے ہیں کہ نفرت اور بغض کے یہ نمائندے تو خود مسلمانوں میں بھی موجود ہیں - ہمیں اب یہ بھی بتانے  کی ضرورت نہیں کہ ہندوستان اور اسرائیل میں جتنے مسلمان ستر سالوں میں نہیں قتل کئے گئے ایران اور شام نے پانچ سالوں میں پانچ لاکھ مسلمانوں کا قتل کر ڈالا - تعجب  ہوتا ہے کہ اس کے باوجود پچھلے دنوں جماعت اسلامی کے نمائندے اسلم غازی نے ایرانی سفارت خانے کی دعوت پر ایران اور ایران نوازوں کے ساتھ بیٹھ کر مسلم امہ کے اتحاد کی بات کر رہے تھے - اچھی بات ہے دشمن کے ساتھ بھی امن اور صلح کی بات ہونی چاہیے لیکن سوال پھراٹھتا ہے کہ کیا اب ہندوستان کا مسلمان ایرانی اور پاکستانی سفارت خانوں کے تیار کردہ اتحاد کی حکمت عملی کا محتاج ہے - اگر کل پاکستانی سفارت خانے میں یا کسی اسلامی کلچر ہاؤس میں اتحاد امہ کیلئے پاکستانی سفیر کو کسی مسلم تنظیم کی طرف سے مدعو کیا جاتا ہے تو غیر مسلموں میں اور خاص طور سے حکومت کو اس کا کیاپیغام جائے گا - سچ تو یہ ہے کہ اگر ایک سفاک اور ظالم قسم کے مسلم ملک کے سفیر کے ساتھ بیٹھ کر اتحاد کی بات ہو سکتی ہے تو 2002 کے گجرات فساد میں دو سے تین ہزار مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار ہندو تنظیم آر ایس ایس اور ملک کے وزیراعظم نریندر مودی سے کیوں نہیں ؟ شاید اس لئے کہ ان کامذہب الگ ہے - اس کا مطلب ہم قرآن کے اس نظریے کے مخالف ہیں کہ دنیا کے سارے انسان ایک آدم کی اولاد ہیں ، کسی قوم کو عربی اور عجمی کی بنیاد پر  فوقیت نہیں تو پھر مختلف انسانوں کے درمیان تفریق کے کیا معنی ؟ سچ   تویہ ہے کہ اتحاد و اتفاق اور بھائی چارگی کیلئے ہم جو محنت ایران اور غیر ملکی سفیروں کے ساتھ کر رہے ہیں اگر آر ایس ایس اور اس کے ہیڈ کوارٹر ناگپور میں کرتے تو ملک کے امن و امان کا ماحول بھی کچھ اور ہوتا ۔ یہ کام ایمرجنسی کے دوران جیلوں کے اندر جماعت کے لوگوں نے آر ایس ایس کے ساتھ کیا بھی ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی آئے لیکن ایران کے ساتھ ہنی مون کے نشے میں ایک مثبت سوچ منفی سوچ میں بدل کر رہ گئی ہے - سچ تویہ  بھی ہے کہ برہمن نہ صرف مسلمانوں  کا تاریخی دشمن نہیں ہے بلکہ برہمنوں کا ایک طبقہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عقیدت رکھتا تھا کہ جب نواسہ رسول ﷺ کو  کربلا کے میدان میں مشکل  پیش آئی تو ایک طبقے نے حضرت حسین کے ساتھ مل کر یزید کی فوج  کا مقابلہ کیا - ہندوستان میں آج بھی یہ  حسینی برہمن موجود ہیں - ہمارا کہنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ جس طرح ہم غیروں کیلئے یہود ونصاریٰ اور برہمنیت کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں کیا مسلمانوں کیلئے بھی وہابی رافضی سلفی دیوبندی نیچری تحریکی اور بدعتی جیسے غیر روایتی القابات سے مخاطب ہو کر بات کی جائے اور کچھ لوگ اپنے خطبات اور وعظ و تبلیغ میں اس کا استعمال کر بھی رہے ہیں ۔ لیکن فرض کر لیجئے کہ جس طرح ہم صہیونیت نصرانیت اور برہمنیت کیلئے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں دوسری قومیں بھی اسلام اور مسلمانوں کیلئے براہ راست اپنے مضامین میں قلم کا استعمال کرنے لگیں تو ہمیں کیسا محسوس ہوگا - جیسا کہ فرقہ پرست ہندو لیڈران کرتے بھی ہیں اور ہمیں برا بھی لگتا ہے - امریکہ کے موجودہ صدر اسی وجہ سے کچھ مہینوں سے میڈیا کی زینت بھی رہے ہیں اور مسلمانوں کی نگاہ میں اس لئے قابل نفرت قرار پائے کہ اس نے علی الاعلان مسلمانوں سے اپنی نفرت کا اعلان کیا تھا لیکن قربان جائیے یوروپ اور امریکی عوام پر کہ وہ  ڈونالڈ ٹرمپ کی ذہنیت کے خلاف احتجاج پر آمادہ ہوئے اور ایک امریکی تنظیم نے ٹرمپ کے ذریعے سات مسلم ممالک کے مسلمانوں پر لگائی گئی پابندی کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر دیا اور امریکی جج نے ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف تاریخی فیصلہ بھی سنادیا - سوال یہ ہے  کہ اگر امریکہ بدل رہا ہے امریکی عوام آداب انسانی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ؟ کیا ہم آداب اسلامی اور اسلامی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود اپنے لئے اور دوسروں کیلئے بھی محبت کی زبان کا استعمال نہیں کر سکتے - آخر اتحاد امہ کی نمائندگی  کرنے والے ایران میں ایرانی عوام نے اپنے ایرانی اور شامی حکمرانوں کے قتل عام کے خلاف کوئی  احتجاج اور مظاہرہ کیوں نہیں کیا ؟شاید اب وہ دن دور نہیں جب ہمیں یوروپ سے ہی اسلامی ادب کا سبق لینا پڑ جائے - تاتار کے افسانے سے یہ بات عیاں ہے کہ حرم کی پاسبانی کیلئے ایسا ہو بھی سکتا ہے -

0 comments:

featured

یوپی الیکشن اور گدھے کی سرگزشت


نہال صغیر

کرشن چندر کا ایک ناول ہے گدھے کی سرگزشت ۔اس میں انہوں نے ایک گدھے کی آپ بیتی بیان کی ہے کہ کس طرح وہ دھوبی کے گدھے سے ایک ادیب کا مداح بن گیا اور پھر اسے بھی ادب کی کچھ جانکاری ہو گئی ۔پھر تقسیم ہند کا روح فرسا زمانہ آیا اور اس میں کیسے مذکورہ ادیب کی لائبریری پر شرپسندوں نے قبضہ کرلیا اورالماریوں میں کتابوں کی جگہ دوسری چیزیں بھر دی گئیں ۔گدھا بے چارا ان باتوں سے بہت رنجیدہ ہوا اور وہ دہلی کو روانہ ہوا اور وہاں انڈیا گیٹ پر ہریالی دیکھ گھاس چرنے لگا جہاں وہ کسی کانسٹبل کے ہتھے چڑھ گیا اور اس نے اسے پاکستانی جاسوس قرار دے کر اپنے افسر کے سامنے پیش کردیا ۔ یہ تو اس گدھے کی کہانی جو کہ کسی ادیب کے رابطے میں اتنا مہذب ہوگیا کہ اس نے ادب اور ادب نوازوں کی قدر کو جانا اور اس پر دل سے فریفتہ ہوگیا ۔آج کل ملک میں انتخابی ماحول ہے اور یہاں انسان کے گدھا بننے کی کہانی دو روز سے میڈیا میں آرہی ہے ۔ہمارے وزیر اعظم خیر سے اپنی پیٹھ تھپتھپانے میں پوری دنیاکیا پوری دنیا کی تاریخ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔یقین نہیں آئے تو تاریخ کے اوراق پلٹنا شروع کردیں آپ تھک جائیں گے لیکن آپ کی تلاش کو منزل نہیں ملے گی۔اب ہمارے یہ وزیر اعظم جن کے کارناموں میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام رات کی سیاہی کی طرح تاریخ کے صفحات میں رقم ہے ۔ہر دن کوئی نہ کوئی نیا شگوفہ چھوڑتے رہتے ہیں ۔ایک دن انہوں نے کرنسی کی منسوخی پر سخت تنقید سے گھبرا کر کہہ دیا کہ وہ تو فقیر ہیں تھیلا اٹھا کر چلے جائیں گے ۔انہیں یہ یاد ہی نہیں رہا کہ انہوں نے ایک سوٹ ایسا بھی پہنا تھا جو کہ دس لکھیہ کا تھا ۔ہر چہار جانب سے کہا جانے لگا کہ اللہ کرے ہندوستان کا ہر انسان وزیر اعظم جیسا فقیر بن جائے ۔وزیر اعظم تو فقیر سے لاکھوں کا سوٹ پہننے والے فرد بن گئے لیکن اپنے اول جلول اقدامات سے ملک کو معاشی نا پائیداری کی اس کھائی میں پھینک دیا ہے جہاں سے نکلنا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔فقر و فاقہ میں مست عوام میں پہلے ساٹھ فیصد سے اوپر غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد تھے کوئی عجیب نہیں جب2021 کی مردم شماری میں سطح غربت سے نیچے کی آبادی 75 فیصد ہو جائے ۔وزیر اعظم کی یادداشت اچھی نہیں ہے ۔اسی لئے وہ ایسی بات بول گئے اور انہیں صرف ایک سال قبل پہنے اپنے دس لکھیہ سوٹ کی بات یاد نہیں رہی ۔ویسے جناب ابھی تک ایک کروڑ سے کچھ ہی کم کا سوٹ زیب تن کرچکے ہیں ۔انہوں نے گاندھی بھی بننے کی کوشش کی، چونکہ ان کی یاد داشت کمزور ہے اس لئے انہیں آزادی ہند کی تاریخ کا وہ واقعہ یاد نہیں رہا کہ گاندھی جی جب وطن لوٹے تو سوٹ بوٹ میں تھے لیکن انہوں نے ایک خاتون کو دیکھا جس کو ٹھیک تن ڈھانکنے کیلئے کپڑا بھی میسر نہیں تھا اور وہاں سے انہوں نے پوری زندگی ایک کپڑے میں گزارنی شروع کی ۔ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو اپنی حقیقی ہار کا یقین ہو چلا ہے اس لئے عام لیڈروں کو تو چھوڑیئے خود وزیر اعظم نے اپنے عہدے کے وقار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اول فول بولنا شروع کردیا ہے ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی قبرستان اور شمشان بھی ہے ۔اس پر بھی ان کا مذاق بن گیا ٹوئٹر پر یہ ٹرینڈ کرنے لگا کہ ’’تم مجھے ووٹ دو میں تمہیں شمشان دوں گا ‘‘۔خبر یہ بھی آئی ہے کہ وزیر اعظم کے ایک چہیتے نے اپنی بدزبانی میں یہ تک کہہ ڈالا کہ اگر یوپی میں ہم ہارے تو قبرستان بنا ڈالیں گے ۔چلئے انہوں نے ہارنے پر کہا لیکن وزیر اعظم تو ہندوؤں کو جیتنے پر شمشان دینے کی بات کہہ رہے تھے ۔ویسے ہم مسلمانوں کیلئے تو ہمارا ملک آزادی کے بعد سے قبرستان بنا ہوا ہے ۔کانگریس نے اپنے پینسٹھ سالہ دور حکومت میں مسلمانوں سے دو جگہوں کو تو آباد کیا ہے قبرستان یا قید خانہ ۔پھر ہم بھلا اس طرح کی دھمکیوں سے کیوں خوفزدہ ہونے لگیں۔یہ اور بات ہے دھمکی بی جے پی والے دیتے ہیں اوراس پر عمل کانگریس کرتی ہے ۔سچر کی رپورٹ دیکھ لیجئے کانگریس نے بی جے پی کے سامنے دستاویزی ثبوت پیش کردیا کہ تم تو صرف مسلمانوں کو حاشیہ پر پہنچانے کی بات کرتے ہو اور ہم تو اس پر عمل کرتے ہیں ۔یقیناًکانگریسیوں نے اپنی اس کارکردگی پر فخر سے سینہ 56 انچ کا کرلیا ہوگا ۔ممبئی کانگریس کے صدر اور سابق شیو سینک نے ایک ٹی وی شو میں کہا تھا کہ ہم پر رام مندر میں رخنہ ڈالنے کا الزام غلط ہے تالا ہم نے کھلوایا ۔شلا نیاس ہم نے کروایا ۔
کرنسی کی منسوخی نے عوام کو وہ زخم لگایا کہ وہ کراہ رہے ہیں ۔لیکن مودی بھکت انہیں یقین دلانے میں اب بھی مصروف عمل ہیں کہ دیش کی ترقی اور اس کی سلامتی کیلئے یہ تو کرنا ہی پڑے گا سو جنہوں نے دیش بھکتی کی گھونٹی کچھ زیادہ ہی پی رکھی ہے وہ اب بھی مودی حکومت کو اچھے دنوں کی چاہ میں ووٹ دے رہے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ اب جعلی نوٹ پاکستان یا جموں کشمیر یا کسی مسلمان کے گھر سے نہیں بلکہ بینک کے اے ٹی ایم سے نکل رہا ہے ۔آیا نا اچھا دن بھلا اس سے بھی زیادہ کوئی حکومت اچھے دن لاسکتی ہے کیا کہ مدھیہ پردیش سے بی جے پی بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے لوگ پاکستانی خفیہ ایجنسی کی خدمات انجام دیتے ہوئے پکڑے گئے ۔بے چارے وزیر اعظم کریں تو کیا کریں بولیں تو کیا بولیں اس خوار ہوتی پوزیشن میں انہیں گدھا یاد آگیا کہ شاید اس سے ہی کچھ سہارا مل جائے اور عزت بچ جائے کیونکہ وہ بیچارا کتنا کام کرتا ہے ۔وہ بھی اتنا ہی کام کریں گے ۔اب وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ وہ گدھے کی طرح کام کرتے ہیں ۔ انہیں گدھے کے کام کرنے کی صلاحیت اور جفا کشی سے سبق ملتا ہے ۔بہر حال یہ کوئی بری بات بھی نہیں ہے کہ کوئی کسی سے سبق لے کر اپنی زندگی کو جفا کشی کا عادی بنائے اور عوام کو راحت پہنچانے میں ہمہ وقت مصروف رکھے ۔گدھے کے بارے میں آنجناب فرمارہے تھے کہ وہ بہت ہی محنتی اور مالک کا وفادار جانور ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی عوام کو اس کی جانکاری نہیں تھی اس لئے وہ عوام کو سمجھا رہے تھے کہ دیکھو میں کتنا کام کرتا ہوں اور مثال میں گدھا کو پیش کردیا ۔وزیر اعظم کی اس بات سے یہ سمجھ میں لیکن آیا کہ وہ گدھا کس کو بنا رہے ہیں۔ویسے کاٹجو نے بھی ہندوستانی عوام کے بارے میں تھا کہ اسی یا نوے فیصد کے بارے میں یہ بتایا تھا کہ وہ احمق ہیں۔لیکن ایک بات تو طے ہے کہ وزیر اعظم ہندو کے مسیحا بن کر اسی فیصد عوام کو الو بنانے میں مصروف ہیں حالانکہ انہیں صرف بیس اکیس فیصد لوگوں نے ہی ووٹ دیا تھا ۔وزیر اعظم کی اس بات سے بیچارے گدھوں کے دلوں پر کیا بیتی ہوگی وہ ہمیں معلوم نہیں ہو سکتا کیونکہ اب ہمارے درمیان کوئی کرشن چندر تو ہے نہیں کہ وہ گدھے کی سرگزشت لکھ کر اس کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتا ۔جبکہ وزیر اعظم کیلئے ملک کے خزانوں سے اربوں روپئے بہا کر میڈیا کے ذریعے ترجمانی کا کام کیا جارہا ہے ۔جو کہ حکومت کے ہر نقص کو عوام کے سامنے سود مند بنا کر پیش کررہا ہے ۔شاید دنیا نے تاریخ کے کسی موڑ پر اتنا چاپلوس اور بے ایمان میڈیا نہ کبھی دیکھا ہو گا اور آگے نہ کبھی اسے دیکھنا نصیب ہوگا ۔امریکہ میں بھی نہیں ۔امریکہ کا میڈیا بھی کم از کم عوام کی بیداری اور ان کے تعلیم یافتہ ہونے کا کچھ تو لحاظ رکھتا ہی ہے اور ٹرمپ کی ناقص اور مجنونانہ پالیسی کیخلاف سخت انداز اپناتا ہے ۔کبھی کبھی مجھے خیال گزرتا ہے کہ شاید امریکہ اسی لئے امریکہ ہے اور دنیا کا سوپر پاور کیوں کہ وہاں واقعی آزادی اظہار رائے ہے۔اسی آزادی نے امریکہ کو عظیم بنایا ہے ۔بہر حال بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی میں کہنا چاہ رہا تھا کہ وزیر اعظم جب سب کچھ کہہ چکے ۔ سارے جھگڑے دیکھ چکے ۔یہ سمجھ آیا کہ عوام اس پر دھیان بھی نہیں دے رہے ہیں ۔رام مندر تو ایک فلاپ شو ثابت ہوا ہے ۔اب کہیں کہیں گاہے بگاہے اندھیری رات کے سناٹے میں جس طرح کسی کتے کے پِلے کی آواز سنائی دیتی اسی طرح کہیں کوئی زندگی کا ثبوت دینے کیلئے رام مندر کا راگ چھیڑ دیتا ہے ۔جس سے مسلمانوں سے زیادہ خود ہندوؤں کا منھ کڑوا کسیلا ہوجاتا ہے ۔یہ کتے کے پلے والی بات بھی عجیب ہے دو ہزار انسانوں کے قتل پر وزیر اعظم کو صرف اتنا دکھ ہوا تھا جتنا کہ آپ کی کار کے نیچے کوئی کتے کا پلا آجائے ۔دیکھئے یہ گدھے کی طرح کام کرنے والی بات کب تک مودی جی کا ساتھ دیتی ہے ۔یا گدھے کے توسط سے وہ عوام کو جو سمجھانا چاہ رہے ہیں ۔عوام وہ کب تک سمجھ سکتے ہیں کہ انہیں گدھا بنایا جارہا ہے ۔حالانکہ بقول نریندر مودی ’گدھا وفادار اور محنتی جانور ہے‘۔ ہندوستانی عوام بھی اپنے حکمرانوں کے وفادار ہیں۔اس کا ثبوت کرنسی منسوخی کے سبب آنے والی معاشی سنامی سمیت مہنگائی اور وعدوں کے وفا نہیں ہونے والے سلسلہ کے باوجود ان کا صبر و استقامت ہے ۔کیا دنیا میں اس کی کوئی مثال ملے گی ؟وینزوئلا نے بھی اپنے یہاں کرنسی بند کی عوام سڑکوں پر نکل آئے صرف دو دن بعد حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا لیکن ہمارے ملک کے عوام کو دیکھ لیجئے اتنی معاشی تباہی اور کسانوں کی خودکشی کے باوجود مہاراشٹر میں عوام نے بی جے پی کو ٹوکری بھر بھر کر ووٹ دیا ۔اجتماعی نوبل انعام کا کوئی شعبہ ہوتا تو وہ صرف ہندوستانی عوام کو ان کی بے مثال صبر کی وجہ سے دیا جاتا اور ہر سال ہندوستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک اس کا حقدار نہیں بنتا۔

0 comments:

featured

بند گلیوں کےسفر میں منزل کی تلاش

 
 قاسم سید
 
سنا ہے جب سیلاب آتا ہے ،پانی سر سے اونچا بہنے لگتا ہے ۔ نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے تو جنگل کے جانور ایک دوسرے کے ازلی دشمن،چیر پھاڑ کے لئے ہمہ وقت تیار ،دشمن کو دیکھ کر غرانے اور ترنوالہ بنانے والے، ایک دوسرے کے وجود کو برداشت نہ کرسکنے والے اس ہنگامی حالت میں اپنے تمام اختلافات ودشمنیاں بھلا کر انچے ٹیلہ پر اکٹھا ہو جاتے ہیں اور عارضی مدت کے لئے ہی سہی سرجوڑکر بیٹھ جاتے ہیں اور آفت ناگہانی کے گذرنے کا انتظار کرتےہیں ۔کیونکہ اس وقت ترجیحی مسئلہ جان کا تحفظ ہوتا ہے چھپ کر شکار کرنے والے ہوں یا اعلانیہ ،ظالم ہو یا مظلوم اس وقت کوئی کسی کے مظالم کی داستان سنا کر اسے شرمندہ یا مشتعل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ہر طرح کے تنازعات و اختلافات کو اٹھاکر رکھ دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی فطری جبلت اس وقت عود کرتی ہے یہ الگ بات ہے کہ جیسے ہی خطرہ ٹلتا ہے آسمان صاف ہو کر چمکیلی دھوپ بکھیرتا ہے اپنی فطرت کے خول میں چلے جاتے ہیں لیکن عارضی جنگ بندی اور امن کی مدت بھلے ہی مختصر ہو لیکن یہ پیغام تو ضرور دینے میں کامیاب رہتی ہے کہ ترجیحات و اقدامات وقت اور حالات کے حساب سے بدلتی رہتی ہیں ،بدلتی رہنی چاہئیں جامد فکر ہو یاعمل تاریخ کے سفر میں بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے دل کہتا ہے کہ اگر ڈھلان سے اترنےکا مرحلہ در پیش ہو تو قدم جما کر اور ہوش و حواس میںرہ کر پیش رفت کرنی چاہئے ۔سپاٹ راستہ پر ضرورت کے مطابق چال ہلکی یا تیز کی جاتی ہے اور اوپر چڑھنے کے لئے کبھی چھڑی کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے کیونکہ نگاہیں  ہدف پر ہوتی ہیں جب ’ساودھانی ہٹی دورگھٹنا گھٹی‘ کا بورڈ نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے اجتہاد کا پہلو اس لئے رکھا گیا ہے کہ مسلمہ اصول وفرامین کی روشنی میں منزل تک جانے کے لئے متبادل راستے تلاش کئے جائیں مگر اجتہاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کھونٹے کو کہ چھوڑ دیا جائے رسی کتنی بھی لمبی کیوںنہ ہو اسے کھونٹا کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے ۔
اترپردیش کے حالیہ انتخابات بھی سیلاب جنوںکی طرح ہیں نہیں معلوم کہ اس سیلاب میں کیا کیا چلا جائے جس کو ان خطرات کا احساس تھا اس سے نمٹنے کی تیاریاں عرصہ پہلے شروع کر دی تھیں ۔گاؤں گاؤں جاکر لوگوں سے رابطہ کرکے خطروں سے آگاہ کر رہے تھے ۔ایسے بھی تھے جو ایسے مواقع کونیک فال سمجھ کر سیلا ب کے دوران بہنے والے مال و اسباب اور مال غنیمت پر نگاہیں جمائے تھے کہ کب باندھ ٹوٹے اور اور وہ مال غنیمت میں حصہ داری طے کر لیں اور ایسے بھی تھے جو آنکھ مل کر اٹھے اور جب نگاہیں دیکھتی ہیں کہ پانی دروازے تک آنےمیںابھی کافی وقت ہے تو کروٹ بدل کر سو جاتے انہیں محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی اور وارننگ سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ہاں جب پانی گھر میں داخل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے تو عجلت میں اٹھتے ہیں اور شور ہنگامہ کرتے ہیں بچاؤ بچاؤ کی صدائیں سنائی دینے لگتی ہیں پھرکچھ نجات دہندہ اچانک نمودار ہوتے ہیں اور اپنی شرطوں پر بچانے کا معاہدہ کرتے ہیں کیونکہ اس کے پاس اور کوئی متبادل نہیں ہوتا اور مجبوری جو خود اس کی بد اعمالی ،بےحسی ،خود غرضی اور کم نگاہی  کا نتیجہ ہے اسے کبھی پناہ گزیں کیمپوں تو کبھی قبرستان تک پہنچا دیتی ہے اور اپنی کمزوری و خود فریبی کو چھپانے کے لئے اپنی حالت کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
یہ کون نہیں جانتا تھا کہ اترپردیش کے انتخابات نتائج کے لحاظ سے قومی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کریں گے جنہیں احساس تھا وہ اس کی تیاری میں لگ گئے تھےاور خود کو ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیں کررہے تھے ۔
جہاں تک ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کا سوال ہے وہ دوربین لگا کر آسمان میں ہونے والی ہلچل کا مشاہدہ کر رہی تھی اور اس کے رہنمامناسب وقت کا انتظار ۔ہر پارٹی کو مسلمانو ںکی اہمیت اور انتخابی رول کا بخوبی اندازہ تھا ان کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بنائی جانے لگیں ایک پارٹی نے سو مسلم امیدوار وں کو میدان میں اتار دیا تو دوسری نے مسلم ووٹوں کی تقسیم نہ ہونے کی غرض سے بدترین سیاسی حریف پارٹی سے اتحاد کر لیا جبکہ لڑائی کی تیسری فریق نے مسلم ووٹو ں کو بکھیرنے اور منتشر کرنے کے لئے مختلف حریفوں کےتیر اپنےترکش میں جمع کئے مگر مسلما ن خود اس لڑائی سے کوسوں دور ستاروں کی گذر گاہیں ڈھونڈنے والا اپنے افکار کی دنیا میں سحر کرنے سے نیا روزشب کی خرمستیوں میں ڈوبا تھااور ہے ۔
مسلم ووٹوں کی کھینچا تانی نے اسے تماشہ محض بنادیا اور ایسے وقت جب زیادہ حکمت و دانائی کی ضرورت تھی اتحاد و اتفاق کے نام پر دانے بکھیرنے کی مہم شروع ہو گئی ۔اتحاد کرنے والوں کو زعم ہے کہ وہ اور کہاں جائے گا اور اور سو مسلم امیدوار اتارنے والوں کو بھروسہ ہے کہ ہم نے وہ دانہ پھینکا ہے کہ کبوتر اسے چننے کے لئے یہیں اترے گا اورحرام ہیں آجائے گا جبکہ ووٹوں کو منتشر کرنے والے معاملہ کو شمشان گھاٹ اور قبرستان کی لڑائی تک لے آئے رمضان اور دیوالی کے قصے سنانے لگے اور اب اس بات کا خدشہ پید ا ہو گیا ہے کہ خوش فہمیاں عذاب میں نہ بدل جائیں اس لئے بحمداللہ ان کی منشا کے مطابق اتحاد کے لئے نعرہ نے وہ انتشار پیدا کیا ہے جو اس سے قبل نظر نہیں آیا ۔بی جے پی کو ہرانے کے نیک مقصد اور کارخیر نے حالات کو بہت نازک موڑ پر پہنچا دیا ہے ۔سیلاب کے موقع پر بھی ہم اپنے ظاہری باطنی اختلافات کو بھلانے میں ناکام رہے ہیں اور بے زبان لوگوں سے بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں جن کے پاس و ہ فہم و شعور نہیں جس کی بنا پر ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ عطا ہوا ہے ۔یا تو ہم سمجھ نہیں رہے ہیں یا سب کچھ جانتے ہوئے بھی سمجھنا نہیں چاہتے ۔ہماری حد سے بڑھی جذباتیت معاملہ کو سطحی طور پرسمجھنے کی عادت اور ان سے اختلاف رکھنے والے کو مردود ،ملعون اور  کسی کا ایجنٹ کہنے کی خرافات نے خلیج کو اتنا چوڑا کر دیاہے کہ افہام وتفہیم کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے اسی المیہ ہی کہاجائے گا کہ دوسروں کو کاندھوں پر بٹھانے ان کے سامنے سر بسجود ہونے اور وفاداری کا ہرممکن ثبوت دینے کو بےتاب جب اپنوں کی مجلس میں آتے ہیں تو ساری فراخدلی ،نرم دلی اور وسعت فکری کو گھر چھوڑ آتے ہیں۔ وجود برداشت کرنے کوتیار نہیں ہوتے ۔اجلے کپڑے پہننے والے عطر میںبسے خوبصورت لوگ ذہنی سفاکیت کا وہ مظاہرہ کرتے ہیں کہ اس کے تذکرہ سے بھی ڈر لگتا ہے ۔اتر پردیش کے انتخابات میںبدقسمتی ہے اہلیان فکر و نظر ،واعظان قوم وملت ٹھوس رہنمائی دینے میں ناکام رہے اور اپنی سیاسی وابستگیوں وفاداریوں سے اوپر اٹھ کر ملت کے بارے میں سوچنے کا زریں موقع گنوابیٹھے رہیںسیکولر پارٹیاں تو انہوں نے ساٹھ سالہ دور حکومت میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ سچر کمیٹی رپورٹ اس کا عبرت انگیز دستاویزہے مزید کچھ کہنے کی ضرورتنہیں رہی بھگوا طاقتیں تو انہوں نے اپنی دشمنی چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی اس لئے وہ جو کچھ بھی کرتی ہیں خلاف توقع نہیںہے تو اس بات کا غم ہے کہ ہمیں اپنوں نے لوٹا اور ہم ان سے خوش ہیں اور مزید لٹنےکے لئے بے قرار و بےتاب ہیں ۔
بی جے پی کو مرکز تک پہنچانے میں جہاں سیکولر پارٹیوں کا کلیدی رول ہے تو وہیں ٹیکٹکل ووٹنگ کے علمبردار بھی برابر کے مجرم ہیں ۔جوبی جے پی کو ہرائے اس کو جتاؤ کی منفی اور تباہ کن سیاست نے بی جے پی کا تو کچھ نہیںبگاڑا ان کی مہربانی سے لگاتار سیڑھیاں چڑھتی گئی 2سے0 28تک پہنچ گئی کیونکہ وہ تو یہی چاہتی ہے کہ اسکے خلاف پولرائزیشن ہو تاکہ مسلمان بی جے پی کو ہرانے کے لئے متحد ہو رہے ہیں اس کے رد عمل میں ہندو ووٹ کی صف بندی ہوجائے کیونکہ آپ زمین پر محنت نہیں کرتے گاؤں میں جاکر زمینی حالات کا جائزہ نہیں لیتے کوئی ڈیٹانہیں کمروں میں بیٹھ کر دانشورانہ انداز میں اپیلیں جاری کر دیتے ہیں اور اس کا خمیازہ پوری ملت بھگتتی ہے ۔آخر کبھی یہ سوال کیوں نہیں اٹھا کہ ہماری حکمت عملی میں کہاں غلطی ہوئی ہے ہم اپنے مقاصد جلیلہمیں ناکام ہوتے کیا ہماری ترجیحات و مطالبات محدود تھے ان کاہدف صرف ہماری ذات یا تنظیم تھی گزشتہ تین دہائیوں میں خوشحالی و فراوانی کےدریا نے کس کو سیراب کیااس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہےعام مسلمان پسماندگی کا شکارہے جیسے وہ چھتیس گڑھ کے قبائلی علاقوں یا کالا ہانڈی کی مخلوق ہو ں۔اب ایسی تمام کنڈلیوںکا جائزہ لینے کا وقت آگیا ہے ان جیو تشیوں کا بھی جو ہاتھ دیکھ کر ہمیں ادھر سے ادھربھٹکاتے  رہتے ہیں ۔اور اس پر بھی غور کرکرنا ہوگا کہ ایک ڈال سے دوسری ڈال پر کب تک پھدکتے اور آشیانہ عافیت کی تلاش میں سر پھوڑ تے رہیں گے ۔اتر پردیش سے خوبصورت انجام کا ٹھوس آغاز ہوسکتا تھا آزمائشیں اب بھی باقی ہیں ۔بس ذہن کی گرہیں کھولنے کی ضرورت ہے ۔پرانیلکیریںپیٹنے کی بجائے نئی لکیر کھینچی  جائے بند  گلیوں کا سفر کبھی منزل نہیں پہنچا سکتا ۔

0 comments:

featured

کموڈیٹی مارکیٹ یعنی آن لائین کاروبار




نہال صغیر

کچھ روز قبل چنئی میں منعقدہ تین روزہ فقہی سمینار کے حوالے سے یہ خبر آئی تھی کہ مفتیان کرام نے ’’کموڈیٹی مارکیٹ یا آن لائین کاروبار کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے ‘‘۔ہم کوئی مفتی یا عالم دین نہیں ہیں کہ اس پر کوئی حتمی رائے دیں ۔لیکن اس تعلق سے چند گزارشات پیش خدمت ہے ۔کموڈیٹی مارکیٹ اس دور میں تجارت کا نیا اور ترقی یافتہ طریقہ ہے ۔یہ اس وقت کی ضرورت بھی ہے ۔اس کا دائرہ صرف ہندوستان نہیں اور نہ ہی یہ کسی ایک شہر یا ریاست تک محدود ہے ۔اس لئے اس کے جواز اور عدم جواز یا حرام حلال کے معاملہ میں شریعت اسلامی کا نکتہ نظر جاننے کیلئے یہ ضروری ہے کہ جو مفتیان کرام اس تعلق سے گفتگو میں شامل ہو رہے ہیں وہ معاشیات کی مکمل جانکاری رکھتے ہوں ۔انہیں یہ بھی معلوم ہو کہ یہ مارکیٹ کیا ہے اور اس میں کس طرح کاروبار ہو تا ہے ؟اس کے علاوہ چونکہ یہ مقامی معاملہ نہیں ہے اس لئے اس میں مسلمانوں کے تمام عقائد کے لوگوں کو شامل کیا جانا چاہئے تھا ۔نیز چونکہ یہ کاروبار بین الاقوامی طور پر ہوتا ہے اس لئے اس میں دیگر مسلم ملکوں کے مندوبین کی بھی شرکت ہونی چاہئے تھی ۔لیکن خبروں کو پڑھ کر ایسا کچھ بھی نہیں محسوس ہوا کہ ان سب نکات کا خیال رکھا گیا ۔کموڈیٹی مارکیٹ اتنا سہل نہیں کہ اس کے بارے میں تین روزہ سمینار مقرر کرکے اس کے حرام و حلال کا فتویٰ دے دیاجائے ۔علمائے کرام سے بڑے عزت و احترام سے عرض ہے کہ جب آپ اس قسم کے  کسی پیچیدہ اور رائج نظام میں شریعت کا حکم جاننے اور مسلمانوں کو ہدایت دینے کیلئے قدم اٹھائیں تو اس میں ان لوگوں کو خصوصی طور سے شامل کریں جوجدید معاشی نظام سے واقفیت رکھتے ہیں ۔اس سے ان کے مشوروں میں وزن پیدا ہو گا ۔لیکن یہاں خبروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے ایک ہی گروہ کے چند علما نے بیٹھ کر اس اہم مسئلہ میںاپنا فیصلہ دے دیا ۔اس طرح سے بے وزنی پیدا ہوتی ہے جس سے فتویٰ اور علما و مفتیان کرام کا وقار عوام میں بلند نہیں ہوتا ۔

0 comments:

featured

دہشت گردی ،مذمت اور احتجاج !کیا اس سے خون آشامیاں تھم جائیں گی؟


نہال صغیر

دہشت گردی !یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا نام لیتے ہی یا اس سے جڑے واقعات کے نظر میں آتے ہی ایک خاص قوم کا نام اور اس میں ایک خاص طبقہ یا فرقہ کی شکل ذہن میں آجاتی ہے ۔اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا ہے ۔اکیسویں صدی میں ترقی یافتہ ملکوں اور نام نہاد ترقی یافتہ تہذیبوں نے دنیا کو کچھ دیا ہو یا نہیں لیکن انہیں ایک فرضی نام ضرور دے دیا جسے میڈیا کے ذریعے اتنا دہشتناک بناکر عوام کے دماغ میں پیوست کردیا گیا ہے کہ ہر کوئی وحشت زدہ ہے کہ جانے کب کیا ہوجائے ۔جمعرات کو پاکستان کے سیہون میں واقع درگاہ لعل شہباز قلندر پر خودکش حملہ میں سو کے قریب افراد ہلاک ہو گئے ۔اس پر ایک اردو اخبار کی خبر کے مطابق رضا اکیڈمی سمیت جمعیتہ العلماء مہارشٹر ،جمعیت اہل حدیث اور حریت کانفرنس نے مذمت کی ہے ۔اس شرمناک اور بزدلانہ حرکت پر ایک اردو اخبار نے اپنے اداریہ کے آخر میں لکھا ’’پاکستان میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگلا دھماکہ اب نہیں ہوگا ‘‘۔اس آخری سطر سے قبل بھی ایسا کچھ لکھا گیا ہے گویا یہ سب کچھ پاکستان کے اپنے کارناموں کا پھل ہے جسے وہ بھگت رہا ہے۔جبکہ ہم کہیں کے بارے میں بھی کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کب کیا ہو جائے لیکن ہمیں میڈیا کے ذریعہ ایسے واہموں میں مبتلا کردیا گیا ہے کہ وہ ہمارے ذہن و دل میں ثبت ہو گیا ہے۔ہم انہی واہموں میں جی رہے ہیں ۔اس میں وطن پرستی کا جنون بھی شامل ہے ہمیں یہ ثابت تو کرنا ہی ہے نا کہ ہم بھی وطن پرست ہیں ۔اصل میں ہم اس طرح کے واقعات کو ایک خاص عینک اور نکتہ نظر سے دیکھنے اور اسی کے مطابق عوام کو بتانے اور سمجھانے میں مصروف رکھتے ہیں ۔کوئی اس کے کسی دوسرے پہلو پر نظر نہیں ڈالتا کہ یہ کون کررہا ہے ؟کیوں کررہا ہے ؟اس کا مقصد کیا ہے ؟اس کا ہدف کیا ہے ؟ کہیں کوئی دھماکہ یا خود کش حملہ ہوا نہیں کہ ایک عدد ای میل یا فون کسی اخبار یا کسی ایجنسی کے پاس آجاتا ہے کہ انہوں نے یہ دھماکے کئے ہیں اور یہ مان لیا جاتا ہے کہ جس نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے اسی نے یہ گھناؤنا کارنامہ انجام دیا ہے ۔آج کل داعش نام سے ایک تیار شدہ تنظیم سب کے سامنے ہے جتنا کچھ جہاں بھی ہو بس یہ کام اس کے علاوہ کسی اور نے کیا ہی نہیں ہو ۔ہمیں قطعاً یہ نہیں سوچنا ہے کہ جس نے فون یا ای ایل پر دھمکی دی ہے یا حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اس کی حیثیت کیا ہے ۔وہ وجود میں بھی ہے یا عدیم الوجود محض ایک سایہ ہے ہم سب ایکفرضی ہیولے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔مسئلہ یہہے کہ اعترافی بیان ای میل یا فون کے ذریعہ موصول ہونا اور اس پر بیان داغ دینا یا کو ئی اسٹرائیک کردینا بہت آسان نسخہ ہے ۔اس کے برعکس اگر ملکوں کے حکمراں اور ان کے کار پرداز اس کی تہہ تک جانے اور اس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ مشقت طلب مرحلہ ہے ۔ کون جائے ایئر کنڈیشن کوٹھیوں اور آرام دہ کاروں سے نکل کر عوام کے درمیان یا جنگلوں میں بھٹک کر اصل مجرمین کو پکڑے اور یہ بھی کہ ایسے مجرمین حکومتی اہل کاروں میں ہی ہوں جو محض دو حکومتوں یا دو ملکوں کے تعلقات کو بگاڑنے کے درپے ہوں ۔اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صوفی درگاہوں پر حملہ کرکے ایک خاص گروہ اور ایک خاص مسلک کے خلاف رائے عامہ ہموار کرکے معاشرے میں فساد پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس کوشش کے پیچھے کون ہے اور اس کا مقصد کیا ہے ؟اس جانب جتنی جلد توجہ دی جائے اتنا ہی بہتر ہوگا ۔یہ انسانیت ،ملک اور پوری دنیا کی سلامتی کیلئے اچھا ہو گا کہ اصل مجرمین کو پکڑا جائے ۔ انہیں عوام کے سامنے لایا جائے اور اسلام کے نظام تعزیر کے مطابق سر عام سزا دی جائے ۔لیکن یہ ضروری ہے کہ محض انتقام اور مسلکی عناد کے سبب کسی کو سازش کے تحت نہ پھنسایا جائے ۔کیوں کہ ایسا کرنے سے امن کبھی قائم نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے بطن سے انتقام جنم لے گا اور انتقام در انتقام دنیا کو خون خرابہ کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتا ۔
دھماکے مسلم دنیا کا نصیب بن چکے ہیں ۔ہر روز کہیں نہ کہیں دھماکہ ہوتا ہی ہے اور اس میں بے گناہ اور معصوم شہری بے موت مرتے ہیں ۔کہیں بازار میں دھماکہ ،کہیں بسوں اور ٹرینوں میں دھماکہ اور کہیں مساجد و مقابر و درگاہوں میں دھماکہ ہوتا ہے جس میں آج تک ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔دھماکے درگاہوں میں ہوں یا مساجد و منادر میں بہر حال اس میں بے گناہ انسان ہی مرتا ہے ۔مرنے والا معصوم ہی ہوتا ہے ۔اس سے تفریق نہیں کرنی چاہئے کہ ہم کسی خاص جگہ دھماکہ ہو جب ہی مذمت کریں گے ورنہ خاموش تماشائی بنے رہیں گے ۔یہ مذمت بھی عجیب بلا ہے ۔میں بچپن سے یعنی اسی کی دہائی سے اخبارات میں لفظ مذمت پڑھ رہا ہوں ۔لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس مذمت سے بھلا مظلوم کو کیا مل جائے گااور ظالم کے ہاتھ کیوں کر کاٹے جاسکتے ہیں ۔بس جسے دیکھو ایک سطری مذمتی بیان داغ کر فارغ البال ہوجاتا ہے ۔روزانہ ہونے والے دھماکوں میں بے گناہ مرتے ہیں لیکن بہت خاص خاص دھماکوں پر ہی کوئی ردعمل پڑھنے یا سننے کو ملتا ہے ۔یہ تفریق کیوں ؟ہمیں چاہئے کہ ہم سارے انسانی جانوں کی حرمت کا یکساں خیال کریں ۔جیسا کہ قرآن کہتا کہ کسی انسان کو بغیر حق کے قتل کرنا ساری انسانیت کا قتل ہے لیکن ہم کسی خاص موقعہ پر ہی بیدار ہوتے ہیں ۔ایک بات اور یہ کہ اب یہ مذمت کا سلسلہ بند کیجئے اور عملی اقدامات کی جانب قدم بڑھائیں ۔بہت ہو چکا مذمت کا سلسلہ ۔اس مذمت سے قاتلوں جنونیوں اور انسانیت کے دشمنوں کا کچھ نہیں بگڑنے والا ۔اس لئے کچھ ایسا کریں کہ ان ظالموں کی گردن ناپی جاسکے ۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہو سکے گا جب ہم مذہب ،مسلک ، رنگ و نسل اور اونچ نیچ کے خود قائم کئے ہوئے فرضی طبقاتی نظام سے باہر نکل کر محض انسانیت کے درد کو محسوس کرتے ہوئے آگے آئیں اور کسی کے بہکاوے ،کسی کے کہنے ،کسی کی سازش سے کسی کو مجرم نہ گردانتے ہوئے اصل مجرم کو پکڑا جائے ۔خواہ وہ کوئی بھی کسی ملک کا سربراہ ہو ،کوئی سیاست داں ہو یا دنیا کی سوپر پاور ملک کا صدر یا گلی محلوں کا کوئی عام سے مجرم ۔امن و امان اور قتل و غارت گری تو صرف انصاف اور اس کے مکمل نفاذ سے ہی قائم ہو گا ۔اس کے بغیر محض مذمتی بیان ،احتجاج سے کچھ نہیں ہونے والا ۔آخری بات یہ کہ حق و انصاف کی لڑائی مسلمانوں کو ہی لڑنی ہے ۔مسلمانوں کو ہی اللہ نے حق و انصاف کا علمبردار بنے رہنے کا حکم دیا ہے۔

0 comments:

featured

عوام کا سیاسی مزاج اور سیاسی پارٹیوں کا دنگل


umarfarrahi@gmail.com عمر فراہی 



 وزیر اعظم نریندرمودی نے آٹھ نومبر 2016 کو اچانک یہ اعلان کر کے کہ رات بارہ بجے سے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ کو منسوخ کیا جاتاہے ہندوستانی عوام کو ایمرجنسی جیسی صورتحال میں مبتلا کر دیا تھا - حالانکہ کرنسی منسوخ کئے جانے کا یہ اعلان حکومت کے مالیاتی ادارے کے کسی عہدیدار کی طرف سے بھی کیا جاسکتا تھا لیکن شاید اس اہم اور انقلابی فیصلے سے وزیراعظم کو جس کامیابی اور پذیرائی کی امید تھی وہ اس کا سہراخود اوڑھنا چاہتے تھے - اور انہیں یہ امید بھی تھی کہ جس وقت وہ ٹی وی پر نوٹ بندی کے اس انقلابی فیصلے کا اعلان کرنے کیلئے نمودار ہونگے تو ہندوستان کی عوام ان کے اس فیصلے کے استقبال میں مصر اور ترکی کی طرح سڑکوں پر اتر آئے گی - اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام سڑکوں پر اتری بھی لیکن یہ بھیڑ مودی جی کے استقبال کیلئے نہیں بلکہ لوگوں میں نئے نوٹوں کو حاصل کرنے کی بھوک تھی - بینکوں کی قطاروں میں کھڑے کچھ لوگ حکومت کے فیصلے کی مذمت کر رہے تھے تو کچھ ایسے بھی تھےجنھیں یہ امید تھی کہ مودی جی ضرور ہندوستانی عوام کیلئے کچھ جادو کرنےوالےہیں اور حالات بہت جلد عام رفتار میں تبدیل ہو جائیں گے - اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات نارمل بھی ہو رہے ہیں لیکن ایک سوال ابھی بھی برقرار ہے کہ حکومت نے نوٹوں کی تبدیلی کے اتنے بڑے فیصلے کو نافذ کرنے کے لئے سرکاری خزانے کا جو کروڑوں روپیے صرف کیے ملک کو کیا فائدہ حاصل ہوا - لیکن جو بھگت ہیں ان کے خوش ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ ڈھائی سال کے اندر زعفرانی سرکار نے بہرحال کوئی ایسا فیصلہ تو ضرور لیا جس نے ملک کے سرمایہ داروں میں ہلچل پیدا کردی - مودی حکومت کے اس فیصلے سے کیا حقیقتاً سرمایہ داروں کا کالا دھن باہر آیا اور کیا حکومت ٹیکس چوروں پر لگام لگا نے میں کامیاب ہوسکی - حیرت ہے کسی نے پارلیمنٹ میں یہ سوال بھی نہیں اٹھایا کہ مودی جی جو کالا دھن اور کروڑوں کی بے نامی جائدادیں دستاویزات کی شکل میں سیاست دانوں کی تجوریوں میں بند ہیں اسے کب ضبط کریں گے - چور چور موسیرے بھائی کے بقول یہ سوال چونکہ عام سیاست دانوں کیلئے بھی نقصان کا سودا تھا اس لئے کوئی  سیاسی پارٹی  یہ سوال اٹھا بھی کیسے سکتی تھی - جہاں تک عام آدمی کا سوال ہے اسے کون بتائے کہ سیاست داں ، سرمایہ دار میڈیا سبھی ایک ہی تھیلی کےچٹے بٹے ہیں اور کہیں  کہیں بدعنوانی میں سب ایک دوسرے کے حصے دار ہیں - سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے تو1978 کی نوٹ بندی کے بعد ہی کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے فرضی کمپنیاں ، فرضی کاروبار اور فرضی کرنٹ اکاؤنٹ کھول رکھےتھے جو بظاہر کاغذ پر تو کاروبار کر رہی ہیں اور بینکوں میں کروڑوں کے ٹرانزیکشن بھی ہورہے ہیں لیکن حقیقت میں خریدو فروخت کا معاملہ صفر ہے یا ہے بھی تو برائے نام - مثال کے طورپر کبھی کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ سنسان اور غیر آبادی والے علاقوں میں بھی سڑکوں کے کنارے کھانے اور رہنے کے شاندار ہوٹل کھلے ہیں جنھیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ اپنا خرچ بھی پورا کر پارہے ہیں لیکن نقصان کے باوجود ایسے سینکڑوں پروجیکٹ پر روز کام ہو رہا ہے اور یہ بات سرکار کو بھی پتہ ہے - اس کا مطلب کہ ملک میں بھگتوں کو خوش ہونے کا  طریقہ نہیں آتا کہ وہ کس بات کیلئے خوش ہیں - اسی طرح ایک بارٹرین میں سفر کے دوران کچھ لوگ بحث کررہے تھے کہ راجیو گاندھی اور منموہن سنگھ نے اگر ملک میں آئی ٹی انڈسٹری اور کال سینٹر کو بڑھاوا دے کر بھارتی معیشت کو ترقی  دی تو مودی جی نے  بھی بہت جلد جاپان کے نقش قدم پر بلٹ ٹرین چلانے کا منصوبہ بنا لیا ہے - یہ بحث چل ہی رہی تھی اور لوگ سپنوں کی دنیا میں خوش بھی ہورہے تھے کہ اچانک ایک سر پھرے نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ بھائی ابھی تو ہم جس ٹرین سے سفر کر رہے ہیں ہماری حکومتیں ٹھیک سے ان ریل کی پٹریوں کی مرمت ہی نہی کرپارہی ہیں اور آئے دن کوئی نہ کوئی ٹرین اپنے وقت سے دس بیس گھنٹے تاخیر میں چلتی ہے کیا ہم بلٹ ٹرینوں کو محفوظ طریقے سے چلنے کی ضمانت دے پائیں گے اوراگر یہ سپنا پورا بھی ہو گیا تو کیا عام آدمی جو سلیپر کلاس کا کرایہ ہی مشکل سے ادا کر پارہا ہے اس کیلئے تو بلٹ ٹرین بھی ایک سپنا ہے - اس کا مطلب ملک کی ہر سیاسی پارٹی کا سیاسی فیصلہ سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کے حق میں ہوتا ہے - اس کے باوجود ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ منموہن سنگھ حکومت کے دور میں آئی ٹی انڈسٹری کی آمد ہی پی او انڈسٹری اور وال مارٹ کلچر سے کم سے کم عام آدمی کو کروڑوں کی تعداد میں نوکری تو ملی -لیکن اس کلچر نے بھی چھوٹے کاروبار کو نقصان ہی پہنچایا ہے اور نئی نسل نوکری کو ترجیح دینے لگی ہے جبکہ چھوٹے کسان اور چھوٹے کاروبار ہی کسی ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہوتےہیں - آزادی کے دوران گاندھی جی نے چرخہ انڈسٹری کی جو حوصلہ افزائی کی تھی وہ بظاہر اسی کارپوریٹ کلچر کے برخلاف گھریلو صنعت کو فروغ  دینے کی تحریک تھی مگر اس بات کو سودیشی تحریک کی علمبردار ہندو تنظیم آر ایس ایس کے لوگ تو سمجھنے سے رہے منموہن سنگھ جیسا ماہر معاشیات بھی نہیں سمجھ سکا اور انہوں نے بیرونی زرمبادلہ کی لالچ میں ہندوستان کو ایک بار پھر جدید ایسٹ انڈیا کمپنی کے نرغے میں ڈھکیل دیا - آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس حل کیا - ہمارا جواب یہ ہے کہ جب ہم امریکہ کے سائنسی ادارے میں اپنے سائنسدانوں کی کارگردگی کا دعویٰ کر سکتے ہیں تو پھر ہم اپنے یہاں موبائل سے لیکر لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانک سامان کیوں نہیں  بنا سکتے - کرنا یہ ہے کہ آپ اپنے انجینئروں کو تربیت دیں اور بیرونی زرمبادلہ حاصل کرنے کے بجائے ڈیجیٹل ٹکنالوجی حاصل کریں چاہے ہمیں دیگر ممالک کے انجینئروں اور کاریگروں کو خریدنا ہی کیوں نہ پڑے - اس کے برعکس ہم نے اپنے انجینئروں کو بھی کال سینٹر میں بیرونی کمپنیوں کا بندھوا مزدور بنا دیا ہے -  شاید ہماری نا اہل قیادت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں کہ وہ آزادی کے بعد بھی ہمیں غلامی کی زنجیروں میں قید رکھیں - بھگتوں کے خوش ہونے کیلئے تو جئے ہند کا نعرہ ہی کافی ہے جو ہر الیکشن میں تمام سیاسی پارٹیوں کا نعرہ ہوتا ہے - شاید ہم سب بھی اسی مزاج کے لوگ ہیں جو سیاسی پارٹیوں کے کھوکھلے نعروں سے بہلتے رہے ہیں اور بہلتے رہیں گے اور بہل رہے ہیں -

0 comments:

News,

آپ ان کومنتخب کریں جو آپ کے حقو ق کیلئے ایوان میں آواز بلند کریں

مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر اکبر الدین اویسی مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے (تصویر:شہزاد منصوری)


اکبر الدین اویسی نے آج ناگپاڑہ میں مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کیلئے ایوان میں آواز بلند کریں گے اگر آپ ہم پر اعتماد کرتے ہوئے ہمارے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں

ممبئی :ممبئی بلدیاتی انتخاب کی تشہیری مہم اپنے اختتام پر ہے ۔آج اکبر الدین اویسی نے انتخابی تشہیری مہم کی آخری تقریر کرتے ہوئے ناگپاڑہ جنکشن میں پر ہجوم اجلاس میں کہا کہ ہمارے منصوبے اس وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب ووٹ کے ذریعے آپ ہمیں موقعہ دیں ۔انہوں نے عوام کو بیدار کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کے بعد سے متعدد انتخابات آئے متعددحکومتیں بنیں ۔کئی لیڈر آئے اور گئے ۔ملک نے کافی ترقی بھی کی لیکن نہیں بدلی تو ہم مسلمانوں کی قسمت ۔مسلمان پہلے کی بنست اور زیادہ مفلوک الحالی کا شکار ہوا ۔یہاں ہم آپ کے سامنے آئے ہیں کہ دستوری اور جمہوری طور پر قوم کے لئے آواز اٹھائیں اور آپ کی زندگی میں تبدیلی لائیں۔اس میں ہماری ذاتی کوئی غرض نہیں ۔مجلس کی اپنی تاریخ ہے ۔انہوں نے آج ایک بار مسلمانوں کو سیاسی طور پر خود انحصار ہونے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ مجلس آپ کو متحد اور مرکز سیاسی پر جمع کرنے کیلئے آئی ہے آپ اس کی قوت بنیں ۔ہمارے سامنے صرف سیاست نہیں ہے بلکہ سیاست کے لئے ذریعہ قوم کی خدمت کرنا ہے۔انہوں نے مجلس اتحاد المسلمین کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ہم نے پہلے معیشت اور تعلیم کے میدان میں کام کیا ۔مجلس صرف جذباتی نعرہ بلند کرنے والی جماعت نہیں ہیں ہم کام کرتے ہیں ۔عملی اقدام اٹھاتے ہیں ۔انہوں نے مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی پر آج ایک بار بار پھر رائے کرتے ہوئے کہا کہ ہماری آواز سیاست کے اس شور میں کہیں نہیں ہے مجلس اسی آواز کو برپا کرنے آئی ہے ۔ہماری کوششوں کے پیچھے نا انصافی کی طویل داستان ہے۔زندگی کے ہر شعبہ میں ہمیں محروم رکھا گیا خواہ وہ تعلیم ہو معیشت ہو یا سیاست ہو ۔ہم نے آزادی کے بعد سب کا ساتھ دیا لیکن ہماری پسماندگی دور کرنے کیلئے کوئی آگے نہیں آیا ۔ناانصافیوں اور محرومیوں کے بعد ہمیں کچھ ملا تو کمیٹیاں اور کمیشنوں کا لامتناہی سلسلہ جس کی سفارشات کو کبھی نافذ نہیں کیا گیا ۔ستر برس کو جانے دیجئے میں پندرہ سال کے این سی پی کانگریس کی حکومت کا حساب مانگنے آیا ہوں ۔فرقہ پرستوں کا خوف دکھا کر یہ ہمارا ووٹ لیتے رہے لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا ہمارا حق ہمیں نہیں دیا ۔جب تک آپ کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا اس وقت تک آپ بھی انہیں ووٹ دیتے رہے لیکن اب آپ کے سامنے مجلس کی صورت میں ایک بہترین سیاسی متبادل موجود ہے ۔اکبر الدین اویسی نے آج بھی سیکولر سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی ختم کرنے اور سیاسی خود انحصاری کی بات کرتے ہیں تو یہ بات انہیں بری لگ رہی ہے لیکن ان کا دور گزر چکا ہے ۔انہوں این سی پی کانریس کی حکومت پر اوقافی جائداد کے خرد برد کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ستر اوقافی جائدادوں پر ریاستی حکومت قابض ہے ۔کئی روز سے وہ اپنے انتخابی اجلاس میں رائے گڑھ میں کانگریس اور شیو سینا اتحاد پر کہا کہ اگر اکبر الدین اویسی کی تصویر اودھ ٹھاکرے سے ہاتھ ملاتے ہوئے آجاتی تو آج ہر جانب ہنگامہ برپا ہوتا ۔کہا جاتا ہم فرقہ پرستوں سے مل گئے ہیں ۔اکبر الدین نے کرشنا کمیشن کا نفاذ نہیں کرنے کیلئے بھی کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس پر تنقیدکیا ۔انہوں نے ایک بار پھر بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد کے حالات پر عوام سے کہا کہ میں آپ کو بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد کے فسادات کی یاد دلانا چاہتا ہوں ۔انہوں نے کہا اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ عملی جد و جہد سے مسائل حل ہوں گے ۔خود کو بدلیں گے اپنی سوچ بدلیں گے تب ہی قوم کی تقدیر بدلے گی ۔آپ آج اگر مرکز سیاسی پر جمع نہیں ہوں گے تو ہمارا وقار قائم نہیں رہے گا۔انہوں نے اتحاد کی تلقین کرتے ہوئے انتشار ختم کرو ،یہ دیوبندی ،بریلوی کے جھگڑے بند کرو دشمن جب آ پ کو نقصان پہنچانے پر کمربستہ ہوتا ہے تو وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ آپ مسلمان ہیں ۔اس لئے براہ کرم میرے بھائیو اب بھی ان جھگڑوں کو ختم کردو۔انہوں مسلمانوں سے کہا کہ ہم اگر کچھ اور جذباتی تقریریں کریں گے تو آپ نعروں سے ہمارا حوصلہ بڑھائیں گے اس سے آگے بڑھ کر آپ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور وہاں پولس کی بے چین گولیاں ہمارا استقبال کریں گی ۔اس لئے میں ایک بار پھر آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ ایوان میں اپنے وہ نمائندے بھیجیں جو آپ کیلئے آواز بلند کریں حکومت سے لڑ کر آ پ کو آ پ کا حق دلائیں ۔اگر دس بیس بیباک نمائندے ایوان میں پہنچ گئے تو آ پ کے حقوق پر کوئی اس طرح ڈاکہ نہیں ڈلے گا جیسا کہ آزادی کے بعد اب تک آپ کی حالت رہی ہے۔انہوں نے پر جوش انداز میں کہا تمہاری عزت ہمارا وقار ہے ۔ہم تمہاری عزت و وقار کیلئے جد و جہد کررہے ہیں ۔اسی لئے میں تمہارے سامنے آیا ہوں کیوں تمہاری عزت ،وقار اور حقوق کا معاملہ ہے ۔ہماری پہچان آپ کا اعتماد ،آپ کی عزت آپ کا وقار ہے ۔انہوں نے کہاکہ ارپورٹ کے مطابق دیویندرفڑ نویس اور بی جے پی کے اجلاس میں خالی کرسیاں سامعین کو ترستی ہیں لیکن اس کے برعکس ہمیں سننے کیلئے آپ کی آمد اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ہم پر اعتماد کرتے ہیں ۔یہ آپ کا پر جوش انداز اس بات کو بتانے کیلئے کافی ہے کہ اب ممبئی اور مہاراشٹر میں گیروے جھنڈے کے ساتھ ہرا جھنڈا بھی لہرائے گا ۔ بیف بین پر ایک بار پھر تنقید کرتے ہوئے کہا اندرون ملک بیف بین اس لئے ہوا کیوں کہ اس کاروبار میں ہمارے غریب مسلمان اور دلت ہیں لیکن گوشت کا ایکسپورٹ اس لئے جاری ہے کیوں کہ اس میں بڑے بڑے جین مارواڑی ملوث ہیں اور انہی کے چندے سے بی جے پی کا پارٹی کا کاروبار چل رہا ہے ۔
اجلاس سے بائیکلہ حلقہ سے مجلس کے ایم ایل اے وارث پٹھان نے ناگپاڑہ جنکشن پر عوام سے خطاب میں کہا کہ میں آپ کا نیا نیا ایم ایل آیا ہوں ۔اس دوران میں نے آپ کے کئی کام کئے ۔ہم نے اسمبلی میں آپ کی آواز بلند کی ۔ہم نے وقف کی جائداد کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی ۔پرانی اور مخدوش عمارتوں کا کام کروایا باقی کا کام بھی اس بارش سے قبل ہوگا ۔پھر بھی ہم سے کچھ کوتاہیاں ہوئی ہوں گی لیکن اس کے لئے مجلس ذمہ دار نہیں ہے ۔آپ مجلس کو مضبوط کریں ۔اس سے آپ کی آواز میں قوت پیدا ہو گی ۔وارث پٹھان نے کہا کہ آپ اس بار بلدیاتی انتخاب میں مجلس کے حق میں ووٹ دیں اور دشمن کی سازش کو ناکام کریں ۔انہوں نے سماج وادی کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اب تک کیا کام کیا ہے ۔اسمبلی میں بھارت ماتا کے معاملہ سماج وادی سمیت کانگریس کے مسلم لیڈر دشمن کی صفوں میں نظر آئے ۔

0 comments:

News

تعداد ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہمارے سامنے عزم و حوصلے اہم ہیں


ممبئی میں انتخابی ریلی کے دوران مجلس اتحادالمسلمین ممبئی کے صدر شاکر پٹنی مجلس کے بائیکلہ سے ایم ایل اے وارث پٹھان اور جنرل سکریٹری آصف خان و عابد سید (تصویر:شہزاد منصوری)

اکبر الدین اویسی نے کرلا میں مجمع عام میں کہا کہ گلی نکڑوں پر شور مچانیکے بجائے ایوان میں اپنے مخلص نمائندوں کو بھیجیں جو آپ کی مضبوط و معتبر آواز بنیں

ممبئی :ممبئی بلدیاتی انتخاب کی تشہیری سرگرمیاں اپنے آخری مرحلہ میں ہیں ۔اس سلسلے میں آج مجلس اتحاد المسلمین نے جنوبی ممبئی میں ریلی نکال کر اپنی طاقت اور شاندار اجتماعیت کا مظاہرہ کیا وہیں اکبر الدین اویسی نے نماز جمعہ مسجد و درگاہ شیخ مصری وڈالا میں ادا کی جہاں انہوں نے مختلف سماجی و ملی شخصیتوں سے ملاقات کی ۔شام کو کرلا کے ایل بی ایس مارگ میں ہری مسجد کے قریب عوامی اجتماع کو خطاب کیا ۔وہ یہاں وارڈ نمبر 168 کی خاتون امیدوار نورجہاں عبد المجید کلیانیاکیلئے عوام سے ووٹ کرنیا کیلئے اپیل کرتے ہوئے مسلمانوں کو منظم ،متحد اور ایک مرکز سیاسی پر جمع ہونے کی تلقین کی ۔آج کا کرلا کا یہ اجتماع مجلس کے ایک پرجوش اور پر عزم کارکن عامر اسمعٰیل پائیک کی وجہ سے ممکن ہو سکا ۔اس نوجوان نے کافی محنت و مشقت کے ساتھ اس اجلاس کی کامیابی کیلئے کاوش اور جد و جہد کی ۔

ممبئی مضافات میں اکبر الدین انتخابی مہم اجلاس میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے (تصویر:شہزاد منصوری)

کرلا میں اکبر الدین اویسی نے اپنے انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلیوں نکڑوں اور چوراہوں کی آواز وں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔آواز ایوان میں جو گونجتی ہے اس کی اہمیت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم خواہ کتنا ہی کم تعداد میں ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ہم اپنے ذاتی فائدے کیلئے کچھ نہیں کررہے ہیں ۔انہوں نے معرکہ بدر و حنین و کربلا کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہم نے حق کیلئے لڑائی لڑی اور جیتی ہے ۔انہوں نے صلاح الدین ایوبی کے دور کی صلیبی جنگوں کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوری عیسائی دنیا مسلمانوں کے خلاف متحد ہو کر آئی لیکن صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے متحدہ عیسائی دنیا شکست فاش دی ۔ وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ یہ مت فکر کیجئے کہ ہماری تعداد کیا ہے بس ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔

مجلس اتحادالمسلمین کی انتخابی ریلی میں عوام کی تعداد دیکھ کر اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم عوام میں نئے سیاسی پلیٹ فارم کے تئیں کس قدر جوش و خروش پایا جاتا ہے(تصویر:شہزاد منصوری)   

انہوں نے جم غفیر سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی آواز بلند کرنے کے لئے ،آپ کے حقوق کی بازیابی کیلئے ضروری ہے کہ آپ ہم پر اعتماد کریں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں اس لئے ہم آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ کے ووٹ اور آپ کے اعتماد کو حاصل کریں تاکہ ہم ایوان میں آ پکی آواز بلند کریں ۔ایوان کی آواز پر ہی دنیا توجہ دیتی ہے ۔اسی پر کارروائی ہوتی ہے ۔اکبر الدین نے آج پھر بعض سیکولر اور کانگریس پرست مسلمانوں کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم ایجنٹ ہیں ۔ہم کسی کے ایجنٹ نہیں ہیں ۔ہم آپ کیلئے آئے ہیں ۔ہمیں کسی کا ڈر نہیں ۔ہم حق پرست ہیں ۔انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ہمارے ساتھ جو نا انصافی ہوئی ہے ہم اس کو حاصل کرنے کیلئے آئے ہیں ۔دنیا ہم پر چڑھتی آرہی ہے اور ہم ہیں کہ اختلافات میں پڑے ہوئے ہیں ۔انہوں نے یاد دلایا کہ جب ہر جانب سناٹا تھا جب یعقوب میمن کی پھانسی پر ہم نے آواز اٹھائی ۔میرے بھائیو میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے کسی چیز کی کمی نہیں ہے ۔لیکن آپ کی محبت قوم کی عظمت کیلئے ،آپ کی شان کی بلندی کیلئے ،آپ کے وقار کیلئے ہم اپنے آرام و سکون کو تج کر گھوم رہے ہیں ۔مشقت برداشت کررہے ہیں کہ میری قوم کو آرام ملے اس کو اس کے حقوق واپس ملیں ۔ہماری ساری تگ و دو صرف اس لئے ہے کہ ہماری قوم کا وقار بلند ہو ۔ہم سیاسی طور پر مضبوط ہوں گے تو ہماری آواز بلند ہو گی ۔آخر میں انہوں نے ایک بار پھر مسلمانوں سے اپیل کی کہ منظم رہئے ،متحد رہئے اور ایک مرکز سیاسی پر جمع ہوجائیے۔

0 comments:

Politics

امیدوار نہیں پارٹی کا نظریہ اور اس کی کارکردگی دیکھئے

ممبئی بلدیہ انتخابات کی تشہیری مہم کے دوران محمد علی روڈ پر ریلی میں آگے آگے ایک معذور شخص مجلس انتخابی نشان والا سبز پرچم لہرا کر اپنے جذبے کا اظہار کرتے ہوئے  ( تصویر: شہزاد منصوری )  

نہال صغیر

ممبئی بلدیاتی انتخابی میں بس دو دن ہی بچے ہیں ۔منگل 21 ؍فروری کو ووٹنگ کا عمل ہوگا اور 23 ؍فروری کو اس کے نتائج کا اعلان کردیا جائے گا ۔اس بار حیدر آباد سے مجلس اتحاد المسلمین ’’اپنی جماعت ،اپنا اتحاد ، اپنی کامیابی ‘‘ کے نعرے کے ساتھ انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کررہی ہے ۔اس نے ممبئی بلدیہ کے لئے 59 امیدوار کھڑے کئے ہیں ۔مجلس اتحاد المسلمین کے حیدر آباد سے باہر قدم نکالتے ہی اس پر یہ الزام عائد کیا جانے لگا کہ یہ پارٹی مسلم ووٹوں کو تقسیم کروانے کیلئے آئی ہے ۔2014 کے لوک سبھا انتخاب میں تو اس پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ اس نے بی جے پی سے درپردہ سمجھوتہ کررکھا ہے یا وہ وہ بی جے پی کی ایجنٹ ہے ۔یہ الزام اب بھی برقرار ہے ۔الزام ان پارٹیوں اور افراد کی جانب سے لگایا جا رہا ہے جو آزادی ہند کے بعد سے ہی مسلم ووٹوں کے ٹھیکیدار بن کر مسلمانوں کو آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کا خوف دکھا کر ووٹ لیتے رہے ۔لیکن انہوں مسلمانوں کی ترقی کیلئے کو ئی کار ہائے نمایاں انجام نہیں دیئے ۔حتی ٰ کہ فسادات ،بم دھماکے میں مسلم اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی فرضی گرفتاری سے مسلمانوں کا یہ حال کیا کہ آزادی کے وقت جس قوم کی معاشی حالت قابل قدرتھی آج پسماندگی کے عمیق کھائی میں ہے اور سرکاری نوکریوں میں 35 فیصد سے گھٹ کر 3 فیصد کے قریب آ گیا ہے ۔مسلم محلے گندگی ،مفلسی اور یاسیت کا منھ بولتا نمونہ ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ان حالات سے نکلنے اور قوم کی حالت سدھارنے نیز سیاسی بے چارگی دور کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا ۔انہوں نے کوششیں کیں اس نے کچھ پھل بھی دیئے لیکن مسلمانوں کو جس اجتماعی مجرم ضمیری میں مبتلا کردیا گیا تھا اس کی وجہ سے وہ درخت زیادہ دنوں تک تو کیا ایک موسم سے زیادہ پھل نہیں دے سکا اور سوکھ گیا ۔ایسے دگر گوں حالات میں مسلمانوں کی جانب سے ایک بار پھر ایک نئی آواز جو نئی بھی نہیں ہے بلند ہوئی ہے ۔یہ آواز ہے مجلس اتحاد المسلمین کی آواز جس نے قوم کے حالات دیکھ کر سکون و اطمینان کو تج کر حید رآباد سے باہر قدم نکا لا ۔اس کے بڑھتے قدم سے گھبرا کر مسلمانوں کے درمیان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے مسلم نما دلال حرکت میں آگئے اور انہوں نے طرح طرح سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور ان میں شکوک کے بیج بونے شروع کردیئے ۔وہی پرانا ڈر اگر تم نے مجلس کو ووٹ دیا تو آر ایس ایس کا منصوبہ کامیاب ہو جائے گا ۔ایک صحافی جو کہ سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہیں علی سہراب ان کا نام ہے انہوں نے ایسے ہی لوگوں پر اپنے ایک ٹوئٹ میں تنقید کیا ’’دلت ،دلت کو ووٹ دے تو آر ایس ایس نہیں جیتتا ،یادو یادو کو ووٹ دے تو آر ایس ایس نہیں جیتتا ،مسلم مسلم کو ووٹ نہ دیں ورنہ آر ایس ایس جیت جائے گی ، غضب کی منطق ہے‘‘۔
مجلس کے خلاف طرح کے پرپگنڈے کئے جارہے ہیں ۔اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جو کچھ بول رہے ہیں وہ جھوٹ ہے ۔لیکن میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں وزیر اعلیٰ تلنگانہ اسمبلی میں اکبر الدین کے سوالوں اور مطالبات کا جواب دے رہے ہیں ۔اس سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ مجلس اپنی کم مائیگی کے باوجود مسلمانوں کے مسائل کو اٹھاتی بھی ہے اور اسے اتنی قوت سے اٹھاتی ہے کہ حکومت اس کو قبول کرنے میں ہچکچاتی بھی نہیں ہے ۔مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد کی سیاسی غلامی سے پیدا شدہ حالت نے انہیں یہ سوچنے کے قابل ہی نہی رکھا ہے کہ وہ بھی سیاسی قوت بن سکتے ہیں اور مرکز میں وہ اس قابل بن سکتے ہیں کہ حکومت ان کے اشاروں پر بنے اور گرے گی ۔لیکن یہ صورتحال اس وقت بنے گی جب مسلمان کسی ایک سیاسی جھنڈے کے نیچے جمع ہوں اور بیس پچیس سال تک اس کے ساتھ رہیں ۔ یہ ساتھ ذاتی مفاد کیلئے نہ ہو کرفقط قوم کیلئے ہو تو انشاء اللہ اچھے نتائج بر آمد ہوں گے ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ آزادی کے بعد کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے ۔کانگریس اور اس کے کارنامے مسلمانوں کو بار بار بتائی جائیں ۔مسلمانوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ کس طرح مسلم چہروں والے سیاسی دلالوں نے کانگریس کی حمایت میں مسلمانوں کا برا حال کیا ۔ان دلال نما مسلم لیڈروں کو بنگلہ اور کار تو مل گیا لیکن مسلمان مفلوک الحالی انتہائی گہرائی میں گرتا چلا گیا ۔اب اگر مجلس مسلمانوں کو آواز دے رہی ہے انہیں سیاسی طور پر متحد کرنا چاہتی ہے تو مسلمانوں کو ان کی آواز پر لبیک کہنا ہی چاہئے اور یہ دکھا دینا چاہئے کہ وہ اب جاگ گئے ہیں اور اپنے حقوق کیلئے سیاسی قوت بننے کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں ۔یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مجلس کا کہیں کوئی امیدوار انکے معیار پر کھرا نہیں اترے لیکن انہیں امیدوار کو نہیں مجلس کو ووٹ دینا چاہئے تاکہ ہم مستقل میں سیاسی قوت بن کر ابھر سکیں اور ہماری بیچارگی کا دور ختم ہو ۔ ہم اگر اسی طرح ذرا ذرا سی باتوں اور مختلف پہلو سے اپنے نمائندوں میں خامیاں ہی ڈھونڈتے رہیں گے تو یقین جانئے آپ کی سیاسی غلامی کا دور کبھی ختم نہیں ہوگا ۔دائیں بائیں مت دیکھئے سیدھا اس شخص کو دیکھئے جو اپنے سکون و آرام کو قربان کرکے آپ کی سیاسی بے وزنی ختم کرنے کیلئے فکر مند ہے ۔

0 comments:

featured

دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر



      قاسم سید
لکھنؤ سے دہلی بس جارہی تھی جب وہ بس اسٹیشن سےچل پڑی تو فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ایک بزرگ جو اچھی شکل و صورت کے تھےکھڑے ہو گئے اور باقی مسافروں سے مخاطب ہوکر کہا بھائیو بہنو میںکوئی بھکاری یاگداگرنہیں ہوں بھگوان نے مجھے اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہےکچھ دن گزر ے میری فیکٹری میں آگ لگ گئی تیار شدہ مال جل کر خاک ہو گیا اور کچھ مدت گزری کہ مجھے دل کا دورہ پڑاتھا۔ رشتہ داروں نےجب یہ محسوس کیا کہمیرے برے دن آگئے تو انہوں نےہم سے رابطہ منقطع کرلیا ۔ڈاکٹروں نے مرے بچنے کی ضمانت کم ہی دی ہے میری یہ جوان بیٹی ہے اس کی فکر کھائے جاتی ہے یہ کہہ کر اس شخص نے ہچکی بندھ گئی جواں سال لڑکی جو پاس ہی بیٹھی تھی اٹھی اور باپ کو سہارا دے کر سیٹ پر بٹھا دیا ۔بس کی پچھلی سیٹ سےایک آدمی کھڑا ہو ااور کہنے لگاجو اس شخص کے آگے بیٹھا ہے انجینئر ہے میرا بیٹا ہے مجھے اس کے لئے اچھی لڑکی کی تلاش تھی میں اس بزرگ سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی بیٹی کی شادی میرے اس بیٹے سے کر دے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اسے کبھی باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا ۔لڑکا یہ سنتے ہی اپنی سیٹ سے اٹھا اور کہا مجھے اپنے باپ کا فیصلہ قبول ہے ۔ بس میں اتفاق سے ایک پنڈت جی بھی موجود تھے وہ کھڑے ہوکر گویا ہوئےیہ سفر بہت مبارک سفر ہے نیک کام میں دیری کیا آپ لوگ کہیں تو ہم سات پھیروں کی رسم ادا کر دیتے ہیں اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔
یہ سب باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک صاحب نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں چھٹی پر جا رہا تھا اپنے گھر والوں کے لئے لڈ ولے کر مگر اس مبارک عمل کو دیکھ کر سمجھتا ہوں کہ ادھر ہی تقسیم کردوں اس نے لڑکی کےباپ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تو بس والوں نے تائید کر دی ۔اس پر لڑکی کے باپ نے کہاکہ ڈرائیور صاحب کسی جگہ بس روک دینا تاکہ سب لوگ مل کر شادی طے ہونے کی خوشی میں منہ میٹھا کرلیں ،ڈرائیور نے خوش ہو کر کہا کیوں نہیں بابا جی جب ہلکا سا اندھیرا ہونے لگا تو بابا جی نے ڈرائیور سے بس روکنے کو کہا اور سب مسافر ہنسی خوشی باتیں کرتے ہوئے لڈو کھانے لگے ،لڈو کھاتے ہی سارے مسافر سو گئے کئی گھنٹوں بعد جب آنکھ کھلی تو صبح کےآٹھ بجے تھے مگر دلہن ،دولہا ان کےباپ ،پنڈت جی اور لڈو بانٹنے والا بس سے غائب تھے اتنا ہی نہیںہر مسافر کا سارا قیمتی مال و اسباب غائب تھا ۔ان کو یہ چھ افراد  کا گروپ مکمل طور پر لوٹ کر اگلے شکار کی تلاش میں جا چکا تھا ۔
یہ ایک معمولی سی کہانی ہے اور بہت سوں نے اس کو ضرور پڑھا ہوگا لیکن ہم غور کریں تو یہ صرف ہمارے معاشرے میں زوال پذیر اقدار ،نیکی کے نام پر لوٹنے اور لٹنے کےرجحان کاہی پتہ نہیں دیتی بلکہ ہندوستانی جمہوریت کا کچھا چٹھا بیان کرتے تمام کردار موجود ہیں ۔عیارانہ ذہنیت رکھنے والے سیاستداں نیکی و خیر خواہی کا لبادہ اوڑھ کر جمہوریت و سیکولرز م کے نام پر عوام کو ٹھگتے آرہے ہیں انہیں وعدوں کا لڈو کھلا کر تمام قیمتی مال واسباب یعنی اقتدار و اختیارات اور وسائل لوٹ کر پانچ سال کے چمپت ہو جاتے ہیں پھر نئے ناموں سے سامنےآتے ہیں جب انہیں اپنی رسوائی و بدنامی کے خوف سے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کا یقین نہیںہوتا تو پھر نیا گٹھ بندھن بنا لیتے ہیں تاکہ ٹھگے ہوئے لوگ ان کے ماضی کو بھول جائیں ۔ اس طرح سارا کاروبار سیاست ہرپانچ سال میں نئے عنوانوں کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔لوٹنے والا خوش اور لٹنے والا بھی مطمئن اس کے ہر راستےمیں رہزن بیٹھے ہیں ۔ خود کو معتبر بنانے کے لئے ضرورت کے مطابق ایسی مذہبی قیادت کو بھی ساتھ جوڑدلیتے ہیں جو دینوی جاہ و جلال اور اقتدار کے پایوں سے چمٹے رہنے کو باعث توقیر سمجھتی ہے اور انہیں ظل الٰہی و امام الہند ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے ۔
ہندوستان آزادی کے ستر سال بعد بھی حقیقی جمہوریت کی تلاش میں گوتم بدھ کی طرحنروان کے لئے بھٹک رہا ہے ۔موجودہ ریاستی ڈھانچہ حقیقی جمہوریت کو جنم دینے میں بانجھ رہا ہے کیونکہ ملک کو چلانے والی زیادہ تر پارٹیاں خاندانیت موروثیت اور داخلی  آمریت کے تحت کام کرتی ہیں ۔مذہبی جماعتوں کا کم و بیش یہی حال ہے ۔پورا نظام مٹھی بھر لوگوں کے گرد گھومتا نظر آتا ہے ۔جس بس کے مسافروں کو اپنی لفاظی چلاکی بھری حکمت عملی اور ہمدردانہ جذباتی لب ولہجے کے ذریعے لوٹنے میں کامیاب ہے ۔ گذشتہ تاریخ بتاتی ہے کہ ووٹوں کے ذریعے خاندانی بادشاہت بخوبی چل رہی ہے ۔سیاسی دھڑوں میں منقسم ووٹروں کو ہر الیکشن میں مخصوص خاندانوں کے حق میں ووٹ ڈالنے کا موقع ملتا ہے یہی حکومتوں پر کلی اختیارات کے مالک ہوتے ہیں ۔پارٹی میں عہدوں کی نامزدگی انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم اور حکومت کی تشکیل سے لے کر وزارتوں کی تقسیم تک تمام فیصلو ں کا اختیار ہائی کمان کے پاس ہوتا ہے اور یہ اس پارٹی کے خاندان کے لوگ ،ان کے چنندہ رفقاء یا پھر کوئی ایک دو شخص ہوتے ہیں ۔ یعنی تھالی کا سارا گھی یا وسائل چند ہاتھوں میں ہوتے ہیں اختیارات کی جنگ میں اورنگ زیب اور شاہ جہاں کے کردار اس دور میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔اس کے لئے باپ اور بیٹے ،چچا اور بھتیجے کے رشتوں کا خون ہو جائے تو گھاٹے کا سودا نہیں ۔
جہاں تک ملک کی سب سے بڑی اکثریت یا ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا سوال ہے اختیاراور اقتدار کی لڑائی میں اس کا نقصان سب سے زیادہ ہوا ہے وہ صرف مہرے اور ریپر کی جگہ استعمال ہوئے ہیں ۔ہر اس پارٹی نے جو سیکولر ہونے کا دعوی کرتی ہے صرف اور صرف استحصال کیا اور مسائل کے انبار میں لگاتار اضافہ کیا۔سچر کمیٹی کی رپورٹ اس کا مظہر ہے کہ ستر سال میں ان کے ساتھ کیا ہوا ملک میں زیادہ تر حکومتیں ان پارٹیوں کی رہیں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں جب کہ ان کا ٹریک ریکارڈ بہت ہی خراب ،مایوس کن اور قابل مواخدہ رہا ہے ۔انہوں نے صرف معاشی اور سیاسی راہوںپر بریک نہیں لگائے بلکہ پہلے فسادات اورپھر دہشت گردی کے نام پر خوف دہشت کی نفسیات کو توانا کیا ۔ان ریاستوں کی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی جہاں سیکولر پارٹیوں کی حکومت تھی یا ہے ۔خاندان بکھر گئے زندگیاں تباہ ہوگئیں ،معصوم بچوں کا مستقبل تاریکی میں کھو گیا ،دہشت گردی کے داغ نے نا جانے کتنے نوجوانوں کی سماجی زندگی کو برباد کر دیا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ہر سیکولر پارٹی نے وعدوں کے نام پر صرف بھیانک مذاق کیا ۔انکے صبر و ضبط کی داد دیجئے کہ کبھی حرف شکایت زباں پر آیااور نہ ہی سرکاروں کو توفیق ہوئی کہ وعدوں کی سمت میں ایک انچ بھی آگے بڑھتی اس سے زیادہ نہ مرادی اور کیا ہو سکتی ہے کہ احتجاج کرنے والوں اور سوالوں کا جواب مانگنے والوں کو فرقہ پرستوں کا ایجنٹ کہہ کر زباں بند کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔شاید ان کا قصور یہ ہے کہ اپنی مذہبی تعلیمات کے برخلاف خاندانی بادشاہتوں کو استحکام دیا اور ان کے کہار بنے اقتدار کی ڈولیوں کو بندھوا مزدوروں کی طرح ڈھوتے رہے کیونکہ ترجیحی مسئلہ جان و عزت کی سلامتی کا تھا ۔پھر بھی جان و مال محفوظ رہے نہ ہی عزت وآبرو ۔کسی بھی پارٹی کا دامن پاک نہیں خواہ فرقہ پرست ہو یا نام نہاد سیکولر سب کی قمیص پر خون کے دھبے ہی نہیں پوری قمیص لال ہے ۔کوئی گجرات دیتا ہے توکوئی ہاشم پورہ کوئی ممبئی اور بھاگلپور تو کوئی مظفر نگر اس حمام میں سب ننگے ہیں ۔کوئی سیکولرزم کا نام لے کر ٹھگتا ہے تو کوئی فرقہ پرستی کے نام پر ڈراتا ہے ۔سیاسی منافقت کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی ہوا ہے ۔
کیا ان کی غلطی یہ ہے کہ اپنی قیادت کو گالیا ںدیں اس پر شبہ کیا بے آبرو کیا اور سیکولر کہی جانے والی قیادت کو امام الملت اور رفیق الملک بنا کر سب کچھ نچھاور کر دیا وہ مقتل لئے گئے تو خوشی خوشی چلے گئے ،لٹتے پٹتے رہے اف تک نہ کی ،حب الوطنی کے جذبوں پر سوالیہ نشان لگا رہا سیاسی اقتصادی طور پر ایک ایک رگ کاٹ دی گئی پھر بھی ان کی مسکراہٹ کے لئے ترستے رہے ۔سیاسی پارٹیوں نے اس لائق بھی نہ سمجھا کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ان کا مزاج ہی پوچھ لیا جائے ۔حال ہی میں سماج وادی پارٹی نے کانگریس سے اتحاد سے قبل رائے لینا تک گوارہ نہیں کیا ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے ۔سیاسی پارٹیوں نے تیسرے درجے کے شہری کی طرح سلوک کیا اور ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا اور ہم یہ سوچ کر استعمال ہوتے رہے کہ کبھی تو اچھے دن آئیں گے ۔سوال یہ کہ کیا سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کا وقت نہیں آیا کیا اسی طرح بندھوا گیری کی جاتی رہے گی ۔اللہ کے پٹے کے علاوہ اور کتنے پٹے گلے میں باندھیں گے ۔کیا اتر پردیش میں ہی 20فیصد ووٹوں کے سہارے معمولی ووٹ رکھنے والی اکائیاں اقتدار پر قبضہ حاصل کرتی رہیں گی ۔اور ہمارے کاندھے اسی کام میں آئیں گے سیاست مذہب و عقیدے کا نہیں اقتدار اور حصول کا معاملہ ہے ۔آزادانہ سیاست اور شرائط پر مبنی ساجھیداری کے لئےکچھ تو کرنا ہی پڑے گا ۔ہزار سجدوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے جرامندانہ قدم اٹھانے پر غور کرنا پڑے گا ۔



0 comments: