بنجر زمینیں اس ایک انقلاب کی راہ تکتی ہیں

بنجر زمینیں اس ایک انقلاب کی راہ تکتی  ہیں
زبیر حسن شیخ
    انسان کی فطرت میں آفاقیت، یکجہتی اور  یگانگی ودیعت کردہ ہے اور اس کی روح قومیت  اور رنگ و نسل کے جھمیلوں سے چھٹکارا پانے کی متلاشی رہتی ہے،  بھلے ہی  اس کا دل و دماغ دنیا کے جھمیلوں میں لگا رہنا چا ہتا ہو.....ہزاروں اختلافات کے با وجود کبھی کہیں وہ اپنے اندر موجود اس روحانی جذبہ سے چھٹکارا نہیں پاتا اور بین الاقوامیت میں پناہ ڈھونڈتا آیا ہے،  اسکی تخلیق کا یہ خاصہ ہے کہ وہ روحانیت،   وحدت و وحدانیت  سے تعلق رکھتا ہے.... تمام تر تنوع، تغیرات، نااتفاقی، مختلف جغرافیائی اور تا ریخی پس منظر اور عقائد و رسومات میں اختلا فات کے باوجود انسان فطری طور پر اتحاد   و اتفاق کا خواہش مند رہتا ہے اور اس اتفاق و اتحاد میں اسکی روحانیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے- خیر کی غیر موجودگی میں اسے شر کے راستے اگر عارضی طور پر یہ اتحاد  اور یکجہتی حاصل ہو جائے تو بھی یہ   اسے قبول کر لیتا ہے.... جسمانی، لسانی، فکری، مادی، جغرافیائی اور تاریخی تفرقات و تضاد اپنی جگہ  جو انسان  کی شناخت  ،  پرکھ  اور تہذیبی ارتقائی سفر کے لئے نا گزیر  ہیں، لیکن اس کی روح  ان سب کے باجود  اسے روحانی یکجائی کے لئے بے چین رکھتی ہے....  پھر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ روحانی اتحاد عارضی طور پر تہذیب جدیدہ کے دامن سے حاصل ہو رہا ہے، ، اور یہ بھی بھول جاتا ہے کہ در حقیقت اسکی روح دائمی اتحاد چا ہتی ہے، اور یہ بھی کہ تمام تر پاکیزگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور آلودگی سے پاک ہوکر چاہتی ہے - تہذیب جدیدہ اپنے تمام ترنقائص و شرور کے ساتھ چند ایک ایسے عارضی فوائد کی حامل رہی ہے کہ جسکی افادیت سے انکار اہل خیر کے لئے محال ہے-    عالمی سطح پر انسانوں کا رسمی اور عارضی طور ہی سہی،  یکجا   ہونے کی کوششیں کرنا انسانی تہذیبی ارتقا کے لئے فائدہ مند  رہا ہے،  اور اس کے بغیر  ارتقا کا سفرغیرممکن ہے .... لیکن یہ ارتقا روحانیت  سے عاری   وہ  مادی ارتقا ہے جس پر  مہذب  انسان  قانع نظر  آتا ہے ،  وہ خاندانی، سماجی، ملکی، سیاسی، تجارتی  اور    انفرادی و اجتما عی معاہدات بھی لر لیتا  ہے،   جس میں   انسانی  گواہ   بے شک موجود ہوتے ہیں  لیکن    خدا وند ندارد،   ایسے معاہدات عموماً عارضی ہوتے ہیں اور اکثر نیک نیتی پر مشتمل نہیں ہوتے..... وہ مختلف  عالمی ایام کو بطور یاد گار  بنا کر  جشن  کرلیتا ہے اور  مجالس بھی  سجا  لیتا ہے،   ہو ہا اور ہلڑ گلڑ کا اہتمام بھی  کرلیتا ہے ،  فنون لطیفہ کا سہارا لے کر احتجاج و ماتم بھی کر لیتا ہے اور  غیر تعمیری  طرز فکر و عمل سے معاشرے کی عکا سی  بھی کر لیتا ہے ...اخلاقی  اصول و ضوابط سے بغاوت  بھی کرلیتا  ہے ...یہ سب اسی مادی  ترقی  کی دین ہے جس میں اتحاد  و اتفاق  کی تڑپ ضرور ہوتی  ہے لیکن  روحانیت کا نام و نشان ڈھونڈے نہیں ملتا.....اس میں  مصنوعی اور عارضی خوشیاں  و  غم،  وصل و فراق اور معاہدات و  تعلقات  ہوتے ہیں.... اور   اب تو   مصنوعی صدائیں  اور دعائیں، وبائیں  اور  دوائیں ،   غذائیں  اور فضائیں بھی  اس نے ایجاد کر لی  ہیں ، اور اس طرح  مہذب انسان     مصنوعی  زمینوں  پر   روحانی  و جسمانی اتفاق و اتحاد کے  بیج بونے کی اپنی سی  کوششیں  کرتا رہتا ہے ......لیکن جب  زمینیں ہی  بانجھ  ہوں  تو تخم ریزی   سے کیا ہوتا ہے،  یا     تخم ہی ناکارہ  ہو جائیں تو  زرخیز  زمینوں  میں آبیاری  سے کیا ہوتا ہے ...اور کچھ  پودے   تو  بنیاداً   کڑوے  کسیلے  بھی  ہوتے ہیں اور بقول  شیخ  سعدی ...ببول  کے بیج  اگر  جنت میں  بو ئے جائیں  اور کوثر  و تسنیم سے اسکی آبیاری  کریں  تو بھی  ببول کا درخت کانٹے  ہی  اگا ئے گا ......اب بنجر زمینیں    ایک ایسے انقلاب  کی راہ تکتی  ہیں جو نہ صرف یہ کہ   کار آمد تخم  ریزی کی بنا ڈالے بلکہ   زمینوں کو زرخیزی   بھی عطا کرے ....

کہتے ہیں   بہاریں آتی ہیں لائی نہیں جاسکتی... اور یہ بھی کہ بہاریں آکر چلی بھی جاتی ہیں.... یعنی اس پر کسی کا قابو نہیں ہوتا-  تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کے سیا سی چمن میں بھی بہا ریں آتی رہی ہیں....لیکن پچھلی چند   صدیوں سے سیاست کے چمن میں بہاروں کے بھیس میں صرف  خزائیں آنے لگی ہیں....اورانسان  اب اتنی بھولا   بھی نہیں رہا  کہ خزاؤں کے بھیس میں آتی جاتی بہاروں کو  سمجھ نہ سکے..کیا  کیا جا  ئے  کہ    جمہوریت میں عوام کے لئے  متبادل  تو بہت ہیں لیکن  کارآمد ایک بھی نہیں  ... ڈیموکریٹک ہے یا ری پبلک ... لیبر ل یا کنزرویٹیو ،  کمیونسٹ یا نیشنلسٹ ،  کانگریس  یا بی جے پی..سماج وادی یا نکسل وادی ..... پی پی  یا مسلم لیگ، عرب لیگ  یا   دیگر لیگ .. عوامی  یا سماجی ، قومی یا ملی..حریت پسند   یا  ذریت پسند  ..... شدت پسند  یا دہشت پسند .....آزاد یا متحد... الغرض شیرینی میں لپٹی یا تو سنکھیا ہے یا سائینایڈ ... کم برا ئی اور زیادہ برائی میں انتخاب کرنا اب ممکن نہیں رہا .... اب مبالغہ کا صیغہ بھی  نا کا فی ہوتا ہے کہ بد ترین اور انتہائی بد ترین کے درمیان کس کا انتخاب کیا جائے.... اب جمہوریت کی آب و ہوا زہریلی ہوچکی ہے اور سیاست کی زمین بنجر... انسان پھر بھی اس پر ہل چلا رہا ہے... اب ایک سیاسی  زمین کا ہی کیا رونا ہر ایک زمین بنجر ہوچکی ہے .. انسان کے دل کی زمین اور اسکے ضمیر کی زمین کا حال بھی کچھ کم برا کہاں ہے....یہ   ساری زمینیں ایک انقلاب چاہتی ہیں....اور  وہ انقلاب ہی کیا جو قلب کو منقلب نہ کرسکے.... انسانی تاریخ میں جتنے بھی معلوم انقلاب رونما ہوئے ہیں ان میں ایک بات مشترک رہی ہے کہ اس کا منبع و   محور انسانی قلب ہی رہا ہے...لغوی اوراوصافی دونوں نقطہ نظر سے ہر ایک انقلاب میں ذہنی قوت سے زیادہ قلبی جذبہ کی کارفرما ئی رہی ہے....یہی وجہ ہے کہ انقلاب لایا نہیں  جاتا بلکہ برپا کیا جاتا ہے.... یہ منفی بھی ہوسکتا ہے اور مثبت بھی، تعمیری بھی ہوسکتا ہے اور تخریبی بھی....یہ ناکام بھی ہوسکتا ہے اور کامیاب بھی... اور ناکا می کی صورت میں بطور ایک تحریک قائم بھی رہ سکتا ہے ... یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک تحریک انقلابی صورت کی حامل ہو اور ہر ایک نظریہ انقلاب برپا کرسکتا ہو ....البتہ یہ بات  یقینی ہے کہ ہر ایک انقلاب کسی نہ کسی  نظریہ  کا  حامل ضرور ہوتا ہے  .... اور ہر ایک نظریہ کسی نہ کسی مقصد کی عکاسی کرتا ہے... بغیر نظریہ کے کوئی تحریک وجود میں نہیں آتی اور نہ ہی کوئی انقلاب برپا ہوسکتا ہے....انقلاب یہ نہیں دیکھتا کہ نظریہ اور مقصد میں کیا کجی ہے، اوصاف منفی ہے یا مثبت، حق ہے یا باطل، انجام اچھا ہونا ہے یا برا...بلکہ صرف اور صرف قوت وجذبہ کی شدت دیکھتا ہے اور برپا ہوجاتا ہے...اور جب برپا ہوتا ہے تو پھر یہ سوائے قدرت کے کسی کے قابو میں  نہیں رہتا... اس کا انجام صرف اور صرف قدرت کے ہاتھوں طے پاتا ہے....انقلاب برپا کرنا انسانوں کا کام ہے اور قدرت سے اسکی پشت پناہی  ثابت  ہے... جہاں وہ عذاب و رحمت اور ارضی و سمائی آفات سے کبھی  انقلاب  لانے کا با عث  بنتی ہے تو کبھی  انقلاب  کو کامیاب اور ناکام بناتی ہے...انسان کو محدود اختیارات حاصل ہونے کا احساس دلاتی ہے..... اسے عدل و انصاف پر قائم رہنے کی یاد دہانی کرتی ہے... اسے امتحانات و نتائج، یوم حساب اورسزاجزا کے احساس سے باندھے رکھتی ہے....

دنیا کے عظیم الشان انقلابات کا تجزیہ کیا جائے تو انقلابات کو دو بنیادی زمروں میں رکھا جاسکتا ہے.... اول روحانی اور دوم مادی.. پھر یہ دونوں   مختلف شاخوں میں تقسیم ہوجاتے  ہیں    مثلا  مذہبی ،   دینی، ادبی، تعلیمی، جنگی ،   خونی ،  سائینسی، تحقیقاتی، تہذیبی، سماجی، تجارتی، صنعتی، تقافتی، سیاسی، وغیرہ ... لیکن  ہر ایک انقلاب کا سر چشمہ فکری انقلاب ہوتا ہے جو اول اول ایک مقصد اورنظریہ کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہے، اور تدریجا ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور بلآخر روحانی یا مادی انقلاب برپا کرنے کا باعث بنتا ہے....فکری انقلاب کے بغیر ایک روحانی انقلاب کا ظہور پذیر ہونا  قطعی غیر ممکن ہے جبکہ  ایک   مادی انقلاب کا رونما ہونا  ممکن تو  ہوسکتا ہے لیکن ایسا انقلاب دیرپا نہیں ہوتا.... فکری انقلاب برپا ہونے کے بے شمار اسباب ہیں لیکن ان میں ظلم و نا انصافی اور جہالت سر فہرست ہے... فکری انقلاب  کی علامت کوئی موضوع،  تصنیف، مضمون، کتاب، مقالہ، جملہ، محاورہ، شعر یا قول و اقوال یا   کوئی شہ بھی ہوسکتی ہے..اور یہ  انقلاب دہرایا بھی جاتا ہے.....اکثر انقلابات  گرچہ عارضی ہوتے ہیں لیکن اس کے اثرات دیر پا  ہوتے ہیں.....دنیا کے معلوم انقلابات میں ایک جمہوری انقلاب بھی واقع ہوا ہے... اور جس کے اثرات  موجودہ  بدلتے موسموں کی طرح بہاروں  سے کم اور   خزاوں سے   زیادہ  میل کھاتے ہیں .... ایک صنعتی انقلاب بھی برپا ہوا ہے جس کے مفید و مضر اثرات جگ ظاہر ہیں....اسی طرح علمی، سیاسی ، تہذیبی ، تمدنی،  سائینسی، صنعتی، تجارتی اور اطلاعاتی انقلابات بھی رونما ہوئے ہیں  جسکے اثرات کہیں عارضی ہیں تو کہیں طویل المدتی ،   اور کبھی مفید ثابت ہوئے ہیں تو کبھی مضر بھی....اسی طرح مذہب و عقائد پر مشتمل انقلابات  بھی برپا  کیے  گئے ہیں اور جو سب کے سب مندرجہ بالا کسی نہ کسی انقلاب کا شکار ہوکر رہ گئے... اور  بالآخر  ان  کے برے  اثرات سے  مذاہب کے ساتھ ساتھ  پیروکار  بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے..... بجز دین فطرت کوئی بھی مذہب مذکورہ   انقلاب کا شکار ہونے سے نہ بچ سکا.... اور ان میں سب سے بڑا انقلاب انسان نے جمہوریت کی شکل میں برپا کیا ہے...... جمہوریت جو تہذیب جدیدہ کی کوکھ سے پیدا ہو ئی ہے.....اور  یہ وہی تہذیب ہے جو ظلم، استحصال واستبداد، تنفر،   توہم پرستی ،  جنگ و جدل اور دین بیزاری کے مراحل سے گزر کر وجود میں آئی، اور اس کے بطن سے مختلف  سیاسی  اور  مادی انقلابات رونما ہوئے   اور  مختلف نظام پیدا کیے  گئے -   یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کی کامیابی میں  مادیت پرستی   کلیدی کردار ادا کرتی رہی  ہے،  اور اسکے بغیر جمہوریت  کامیاب ہو بھی  نہیں  سکتی، جس کا مبین ثبوت مغرب میں جمہوریت کی کامیابی اور  مشرق میں جمہوریت کی مسلسل  ناکامی سے اور تہذیب جدیدہ کی نشو نما اور ترویج سے ملتا ہے، جہاں سیاست تمام تر نئے مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے...جہاں سیاست داں سیاست سے  کھیلتے ہیں....جہاں عوام جوئے شیر لاتی ہے اور  سیاست  ہمشیرہ  بن جاتی  ہے اور جہاں  سرمایہ داری  شیر خوار پیدا کرتی ہے،  اور  پھر سب وطن پرستی  میں  شیر و شکر ہوجاتے ہیں.... اور اس طرح جمہوریت کی شیرینی قائم رہتی ہے اور انسانیت کا شیرازہ بکھرتا جاتا ہے.... زمینیں سب بنجر ہوئی جارہی ہیں اور ایک نیا انقلاب چاہتی ہیں، پھرایک روحانی  انقلاب ...ایک دینی انقلاب ... تاکہ روحانیت اور مادیت میں درکار توازن قائم ہو، پچھلی چند صدیوں میں ہر قسم کے  روحانی  اور مادی انقلابات  سے دنیا گزر چکی ہے، انہیں پرکھ  چکی  ہے  اور اب ان  کا خمیازہ  بھگت رہی ہے.....

تاریخ میں چند روحانی، مذ ہبی اور دینی   انقلابات ایسے بھی  درج ہوئے ہیں   جو  روحانیت اور مادیت میں وہ توازن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو کارخانہ حیات کے لئے ضروری  ہواقع  ہوئےہیں .... اوراگر ان میں کسی نے مفید اثرات قائم بھی کیے تو وہ عارضی واقع ہوئے  اور   رد  و بدل کا شکار  ہو گئے... یا تو ان انقلابات نے  دنیا کو شر  کے حوالے  کر دیا تھا  اور  ترک دنیا اختیار کر لیا،  یا پھر   توہم پرستی،   مصلحت پرستی کی راہ اپنا کر  مذہب  کو بھی مادیت  پرستی کے رنگ میں رنگ لیا .....ایسے  انقلابات   تغیر شدہ  مذہبی عقاید و رسومات اور عبادات پر مبنی ہوا کرتے  تھے ..جبکہ کامیاب  روحانی انقلاب صرف دین فطرت نے برپا کیا تھا ،  جسکے    قوانین انسانی فطرت  سے  مطابقت رکھتے  اور   یہ قو انین   خود  پختہ  اصول و ضوابط  کے پابند  ہوا کرتے ... یہ وہ روحانی  انقلاب تھا  جو  کارخانہ  حیات میں  ضروری  روحانی اور مادی  توازن  کو قائم کرنے  میں کامیاب  ہوا تھا  ....اور جس کے مفید اثرات آج بھی دنیا پر قائم ہیں ...گرچہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دین فطرت کے پیروکارایسا روحانی انقلاب دوبارہ   برپا  نہ کر سکے، لیکن  اس سے ملتے جلتے کچھ انقلابات ضرور برپا ہوئے ہیں .... جن میں کچھ انقلابات  کے اثرات طویل المدتی تھے اور کچھ کے عارضی...حالیہ صدی  میں  کچھ روحانی اور  مذہبی  انقلاب ایسے بھی برپا کیے گئے  جس میں  انتقام ،تنفر ، شدت پسندی، عجلت پسندی ، عسکریت  اور غیر منطقی   سوچ اور جذبے  غالب  رہے،  جہاں مادی انقلابات کی روش اپنا ئی گئی  اور  صرف طاقت و قوت  سے دنیا کو  جنت بنا نے  کا خواب دیکھا گیا ...انقلاب  سے   دنیا کو   جنت بنانے  کا طرز فکر و عمل غیر منطقی     ثابت  ہوا ہے...   دنیا کو   جنگل میں  تبدیل  ہونے سے روکنے  کے مقصد  سے برپا کیا  گیا انقلاب  ہی دراصل   کامیاب ہوتا ہے  ، پھر چاہے وہ کوئی  روحانی  انقلاب ہو یا مادی .....تاریخ کے پس منظر میں اس بات کا تصفیہ بھی ضروری ہے کہ روحانی  انقلاب کے لئے جنگ نا گزیر نہیں ہوتی،   جبکہ مادی انقلاب کے لئے  جنگ  اکثر نا گزیر ثابت ہوئی ہے اور مسلسل  اور  طویل بھی ،  اور کبھی مختلف بھیس بدل  کر   دائمی بھی..... بر عکس  روحانی  انقلاب مادی  انقلاب   کے تحت    بنا ئے  گئے    قوانین خود  اپنے لئے  کوئی    پختہ  اصول و ضوابط  نافذ نہیں کرتے  اور   مسلسل تغیر کا شکار ہوتے رہتے ہیں...گرچہ ہر قسم  کے  انقلاب میں جنگ  کے قوی امکانات ہوتے ہیں لیکن  روحانی   انقلاب مسلسل اور طویل المدتی جنگ کا  حامل نہیں ہوتا ، خاصکر  جب یہ  دینی اصول و ضوابط  کے تحت  برپا کیا  گیا ہو ... یہ     انقلاب  جنگ  سے اس وقت تک  گریز کرتا ہے جب تک  اسکے وجود  کو خطرہ محسوس نہیں ہوتا ... لیکن  جب یہ   جنگ  کو ناگزیر  جان لیتا ہے تو  پھر اسے انقلاب کا ایک مرحلہ  سمجھتا  ہے ناکہ  حل ..ایک پڑاو سمجھتا ہے  نا کہ منزل ..اور  یہ  فیصلہ کن جنگ  کا حامل ہوتا ہے ... دینی انقلاب میں جنگ  کا مقصد  مخالف کو  زیرکرنا  نہیں ہوتا  بلکہ  اپنا بنا  کر دم لینا ہوتا   ہے ....اور اس طرح    یہ اپنی جیت درج کرتا ہے .....تاریخ میں   ایسے ہی ایک  دینی   انقلاب  کی مکمل   جیت  درج ہے ...جسے دوبارہ  برپا کرنا    اب    نا گزیر   ٹہرا  اور  اس کے خلاف  تمام توجیہات  اور دلائل لا یعنی -  

0 comments:

عقل و خرد کی منزلیں سب ہوئیں دھواں دھواں..

عقل و خرد کی  منزلیں  سب ہوئیں دھواں دھواں..
زبیر  حسن شیخ
Zubair H Shaikh <zubair.ezeesoft@gmail.com>
بات وہی پرانی ہے ۔ سب مٹی ہے  سب پانی ہے۔  پانی جو بالآخر سائینس کی تمامتر علت اور معلول کے  نتیجے  میں دھواں ثابت  ہوا  ہے۔ے کے ذہن میں بے شمار سوال ہیں۔ بچہ جو انسان ہے اور انسان  جو  بچہ   واقع  ہوا ہے نظام قدرت کے سامنے، پھر  بھی سوچتا ہے۔یہ جسم ،  یہ  بال و پر و   جلد ،  یہ  سب کہاں اور کیسے بنتے ہیں؟   یہ دانت کہاں سے نکل آتے ہیں؟ یہ ناخن کیوں بڑھ جاتے  ہیں؟انکا مادہ اور مواد جسم میں کیسے پیدا ہوتا ہے؟کہاں سے آتا ہے ؟. جسم کے اعضا کیسے پروان چڑھتے ہیں؟ سب سائینس کی کرشمہ سازی ہے۔ اسے   تویہی  بتایا جاتا ہے ۔لیکن  خود سائینس کس کی  کرشمہ  سازی ہے۔ بچہ جاننا چاہتاہے، اسے جواب نہیں ملتا۔ آخر انسان کا بچہ ہے۔سوچتا ہے ۔علوم و فنون مٹی سے،  تخم  اور شاخیں مٹی سے،  پھول پتے مٹی سے،  شجر وحجر مٹی سے، فولاد و معدنیات  مٹی سےاور پھر سب مٹی ہوجاتے ہیں۔حسن و شباب مٹی ۔جاندار و بے جان  مٹی .. انسان بھی مٹی -  چلئے عقدہ حل ہوا.... علم کا سر اونچا ہوا ....خرد کو سر خروئی ہوئی.......اسناد بانٹ دی گئیں ...تحقیقات  رنگ لائیں  ... دریافتیں  قبولیاب ہوئیں  ... مٹی کو مٹی کر دکھایا گیا.... بے شمار" کوڈ ز "  اور اشارات متعارف کرادئے گئے ....  اور انہیں مختلف مادوں سے منسوب کر دیا گیا...لیکن سوال تو پھر بھی یونہی بچے کا منہ چڑا رہا ہے اور بچہ  مٹی  کا .... مٹی کہاں سے آئی .... پانی کہاں سے آیا...   پھر تحقیق کے جھنڈے گاڑ دئے گئے ... بچے کو بتا دیا گیا کہ مٹی پا نی سب محلول ... سب لائق تحلیل.... اور سب کسی نہ کسی    عمل کے تحت    اپنی ظاہری ہیت سے تبدیل ہوکر دھواں بن سکتے ہیں،  بلکہ بن جاتے ہیں... بنتے آئے ہیں....لیجیے،  سب کچھ دھویں سے تھا  اور سب کچھ دھواں دھواں ہوا...... لا متنا ہی دھواں ...بچے کے احساسات دھواں... بچے کے جذبات دھواں، عقل و خرد دھواں ... بچہ جو انسان ہے ... اور انسان جو نظام فطرت کے سامنے ابھی بچہ ہے...
 بچہ سوچتا ہے..... آفات ناگہانی کیوں اور .کیسے آتی  ہیں؟ ... کیوں نہ سوچے... انسان جو ٹہرا..... جب جب آتی  ہیں  تب تب  سوچتا ہے....جب نہیں آتی تو نہیں سوچتا.....اسکے پاس اچھے خاصے  علوم ہیں سوچنے کے لئے..... زلزلہ میں زمین کے اندر کی سطحوں کا  پھیلنا یا سمٹنا ، سکڑنا یا ٹکرانا ، مختلف تدریجی عمل سے گزرنا..... اور اپنے اثرات مرتب کرنا.....بچہ  مختلف پیمانے  یا "اسکیل" بھی کھوج لیتا ہے ... اور زلزلوں کے  دایرۂ اثر کا تخمینہ بھی بہ آسانی لگا لیتا ہے....زلزلوں  کا  عارضی مرکز  بھی ڈھونڈ لیتا ہے، جبکہ  پتہ نہیں کیوں  دائمی مرکز اسکی سوچ سے بہت دور رہتا ہے! ...... پھر کچھ اور زوردیتا ہے  تو زمین کے اندر پیدا ہونے والے اس انتشار کا محرک بھی  تلاش کرلیتا ہے ، اور  یہ بھی ڈھونڈ لیتا ہے کہ مختلف مائع، گیس اور محلول کا انتشار زلزلوں کا باعث بنتا ہے....  عقل و خرد کے گھوڑے  کچھ  اور دوڑا  دئے تو اسے قوت و طاقت یا "اینرجی" کہہ کر علم و فن کی دھائی دے دی جاتی  ہے.....اور کچھ نہ بن سکا تو سائینسی طاقت سے اسے موسوم کر دیا  جاتا ہے ..انسان جو ٹہرا ....اور اگر خرد نے ذرا آگے جانے کی کوشش کی ...اور کس کی طاقت اور کس کی قوت جیسے سوالات کے جوابات دینے پر آمادگی جتائی تو بچہ  کا سر گھوم جاتا ہے ... اور ونہیں جا پہنچتا ہے جہاں سے  شروع  کیا  تھا ...پھر  سب کچھ دھواں دھواں ...... کچھ اسی  طرح زلزلہ کی علت و معلول کی زلف پیچاں  بھی سنور جاتی ہیں ....اور اس کا اختام اینرجی، طاقت و قوت پر ہوجاتا ہے ..سائینس  کی طاقت !!..لیجیے  زندگی اور موت کا عقدہ حل ہوگیا...اور صرف  تباہی اور بربادی کا تخمینہ لگانا باقی بچا....کچھ اسی طرح دیگر آفات نا گہانی کے عقدے بھی بچے نے حل کر لئے ....طوفان میں ہواؤں کی سازش  اور برق میں گھٹاؤں  سے انتشار  ،  آتش فشاں میں آگ کی سوزش  .....مختلف عناصر و عوامل کا پریشاں ہونا بھی ثابت  کردیا .....اور پھر انکے اجزائے ترکیبی و ترتیبی کے منتشر  ہونے کو انرجی کا نام دے دیا.....الغرض علت و معلول کی طویل بحث کا اختتام بھی انجانی طاقت و قوت پر کردیا گیا...سائینس  اور علم الطبیعات کی کرشمہ سازی کی حد بس یہیں تک تھی....  قصہ  یہ سب سچا  ہے اور     کچھ کچھ  تمام ہوا... اور  اسی طرح   زلزلوں کی قوت  ثابت ہوئی .....بچہ  سمجھدار کیا ہوا  ... زلزلے  بھی اب تواتر  سے آنے لگے   ...زلزلوں کے  گزرجانے  کے بعد انسانی احساسات و جذبات اور روحانیت کا دور دورہ شروع ہوتا ہے .. اسکا مظاہرہ بھی ضروری   ہے .. بھلے وقتیہ ہی سہی.... بچہ آخر انسان ہی تو ہے.....محبت و مروت ،  انسانیت اور  جذبات و احساسات کا،  امداد و ہمدردی کا ،  عالمی انسانی مساوات و بھائی چارگی اور امداد باہمی کا مظاہرہ.....علوم و فنون، افکار و بیانات کی طاقت کا مظاہرہ ..... سیاسی، ملکی  و عسکری قوت  کا مظاہرہ.... اور جب جب ان طاقت و قوت اور علوم فنون کے ساتھ ادب و شاعری کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے   تو بات عقل و خرد سے آگے نکل  جاتی ہے ....
کہتے ہیں ادب کی پہنچ خرد سے آگے ہے ،  بشرطیکہ   بچہ   بے ادب واقع نہ ہوا ہو  ..اور شور و غل  نہ کرنے لگے  کہ...ادب پہلا قرینہ ہے  محبت کے قرینوں میں... ادب تو یہی کہتا ہے کہ تم وہاں تک نہ پہنچے ہم جہاں تک آگئے.....ادب کی کوئی حد نہیں....اور انسان ادب کے شانے پر سوار ہوکر خرد سے آگے نکل جاتا ہے..... لیکن اگرایمان کی منزل پر  پہنچ نہیں پاتا  تو پھر سب دھواں دھواں.....افکارات دھواں..احساسات دھواں،  جذبات دھواں ...پھر نظریں دھواں دھواں اور  تمنائیں لڑکھڑاتی ہیں.....کیا کیا جائے   بچہ آخر کو  انسان ہی ہے ...اور انسان ابھی بچہ ہے نظام قدرت کے سامنے  .لیکن .."جب  اس انگارۂ خاکی  میں ہوتا ہے یقیں پیدا .....تو کرلیتا ہے  یہ بال و پرِ روح الامیں پیدا..ادب کی بات مانے تو  آفات ناگہانی میں اور خاصکر زلزلوں میں  اس کی سوئی ہوئی رگ رگ پھڑک اٹھتی ہے...... محبت و رحم دلی کی رگ ......مساوات و بھا ئی چارے کی رگ .... انسانی حقوق و فرایض کی رگ .....خیر و خیرات کی رگ..... انسانیت و روحانیت کی رگ....پھر کچھ اور کرشمہ سازیوں کے  دور  چلتے ہیں... اور خوب چلتے ہیں کہ درد دل کے واسطے  پیدا کیا انسان کو....پھر  محبت فاتح عالم ہوجاتی ہے....ساری کدورتیں بھلا دی جاتی ہیں... سارے سیاسی قضیے نمٹا لئے جاتے ہیں.....درد و الم میں سب یکجا ہوجاتے ہیں ..... اور خوب ہوتے  ہیں... پھر انسان و قتیہ طور پر ہی  سہی  مثل حباب آبجو رہتا ہے .... یہ  سب کچھ نیا نہیں ہے لیکن عارضی ضرور ہوتا ہے... .. پتہ نہیں مہذب انسان کی ان رگوں کو پھڑکنے کے لئے قدرت کو کتنی بار زمین اور آسمان کے دروازے کھٹکھٹانے پڑیں گے .....یہ سب رگیں وقتیہ طور پر ہی کیوں پھڑکتی ہیں.. سب تکلفات بجا سہی لیکن عارضی کیوں  ہیں  .. دائمی کیوں نہیں...اور پھر سب کچھ ویسا ہی ہوجاتا ہے..جیسے  پہلے  تھا ...وہی بے بضاعتی، وہی نفس پرستی، وہی بے نیازی، وہی مادہ پرستی، وہی بد عنوانی، وہی سیاسی و ملکی اور ذاتی خود غرضیاں.وہی مفادات  و سیاست ..ساری خوبیاں پھر دھواں دھواں  ہوجاتی ہیں .....بچہ کیا کرے... انسان جو ٹہرا ... اور وہ بھی اکیسویں صدی کا .....وہ  علت و معلول کی کسوٹی سے سب کچھ  اخذ کرسکتا  ہے،   اور کارخانہ حیات کے تمام جاندار اور بے جان پرزوں کو مٹی مٹی  کردیتا  ہے،   اور پھر علوم و فنون کی  منزلیں طے  کر  انہیں  پانی پانی کردیتا ہے ...اور بالآخر دھواں دھواں .... وہ کیوں  اور کیسے کی کنہ  تک تو بہ آسانی  پہنچ جاتا  ہے.لیکن بھول جاتا ہے کہ یہ لا متنا ہی مادہ کی شکل میں دھواں کہاں سے آیا؟ کس نے بنایا .....اسکا علم و فن اسے پھر مادہ کی بھول بھلیوں میں لے جاتا ہے ... مادیت پرستی  کی بھول بھلیوں میں...جسکے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتا.... بلکه سوچ ہی نہیں پاتا .... مہذب و متمدن جو ٹہرا.... لیکن اندر کہیں اسکا تحیر باقی رہتا ہے... تحیر جو ضمیر سے جڑا ہے....اور ضمیر روح سے... روح کو سب کچھ پتہ ہے ... وہ عقل و خرد سے بے نیاز  ہے...بس بول نہیں پاتی.....بتا نہیں سکتی... یہ اختیار اسے نہیں ہے......ورنہ تو سارے عقدے حل ہو گئے ہوتے...عقل و خرد کے پاس روح کی علت و معلول نہیں ہے،  اور وہ اسکے وجود سے نہ انکار کر سکتی ہے اور نہ  ہی اقرار ....اور نہ ا نکار ثابت  کرسکتی اور  نہ ہی اقرار...روح صرف ایمان کو جانتی ہے....اورایمان علت و معلول کا محتاج نہیں ہوتا .... ایمان صبر و تحمل کا پیکر ہوتا ہے ... دائمی مساوات، بھا ئی چارگی اورانسانیت کا، درد مندی کا، احسان و شکر کا..وحدانیت کا....ایمان لا فانی ہوتا ہے....ایمان جو درد کو سمجھتا ہے اور دعا بن جاتا ہے... ایمان جو علم و فن و ادب کی طرح دھواں نہیں ہوجاتا....  مکر و غرور سے پاک ہوتا ہے...... خود غرضی اور انا و پندار سے پاک ... توہم پرستی اور ایسی تمام برائیوں سے پاک..ایمان جو مختلف انسانی رگوں کو پھڑپھڑاتا رہتاہے.....انسانی خوبیوں کو جگاتے رہتا ہے .... ایمان کو پتہ ہے دھویں کے بعد کیا ہے... حیات و ممات کے بعد کیا ہے..اور ان سے پہلے کیا تھا ....عدم کیا ہے.... طاقت و قوت دراصل کس کی ہے ....عدم نفی ہے تو ثبات کیا ہے...... ثبات کسے ہے...... باقی کون ہے  کون تھا اور  کون رہے گا.....لیکن پھر وہی تک بندی کہ بچہ آخر کو انسان ہے.... اور انسان آخر کار بچہ ہی ہے... قدرت کے سامنے ....اسکی طاقت و قوت کے سامنے ..وہ لا محدود طاقت و قوت  جسے وہ سائینسی   علوم و فنون کے  ترازو پر آسانی سے تول تو لیتا ہے، لیکن اسے   سائینٹفک انرجی سے تعبیر کر کے محدود کردیتا ہے.......

سب کچھ دھواں ہورہا ہے اور یونہی ہوتا رہے گا...جب تک ایمان کا اجتماعی  ہمہ وقت  قیام نہیں ہوتا....جب تک ایمان مجسم دعا نہیں بن جاتا اور  دعا مجسم ایمان نہیں ہو جاتی ... پھر آفات نا گہانی بھلے ہی  مشیت الہی کے تحت وارد ہوتی رہے...اور کارخانۂ حیات میں انسان با اختیار ہو کر بھی یونہی  بے اختیار رہے...... خود کار مشینی پرزوں کی طرح بھلے ہی مجبور و بے بس رہے..... لیکن اسے اینرجی یا طاقت و قوت کا اصل سرچشمہ کہاں ہے  اور کس کا ہے یہ معلوم ہونا چا ہیے....جب تک اسے یہ نہیں معلوم ہوتا عقل و خرد کی انتہا دھواں دھواں ہوتی رہے گی...زلزلے اور دیگر آفات ناگہانی یونہی آتی رہی ہیں اور آتی رہیں گی ....یہ اسوقت بھی آیا کرتی تھیں  جب بچے کو اینرجی کی حجہ  بھی نہیں پتا تھی، تابکاری کا نام و نشان نہیں تھا.....تحقیق و مشاہدات نے،  ترقی و تمدن نے اور  بارود و اسلح کی صنعتوں نے نظام قدرت کو چھیڑا نہیں تھا ..... تعمیراتی  منصوبوں نے  زمین کی چھاتی  میں سوراخ نہیں کیے   تھے  ..پہاڑوں کے  وقار  کو پارہ پارہ نہیں کیا  گیا تھا ،  دریاؤں   کو بربادی پر آمادہ  نہیں کیا گیا تھا اور جنگلوں کو بے لباس نہیں کیا گیا تھا، اور نہ ہی انسان  نے سائینسی   طاقت و قوت اور شان و شوکت  کے نشے میں قدرت  کو للکاراتھا.... قدرت کے پاس  اپنی نشانیوں کو نمایاں کرنے اور  بچے  کو سبق سکھانے  کے  لئے بے شمار ترجیحات   تھیں اور ہمیشہ  رہتی  ہیں ... تب بھی زلزلے آتے تھے.... لیکن  اس وقت بھی آج  ہی کی طرح جرم و گناہ اور بے ایمانی کا بول بالا ہوا کرتا تھا...اس وقت بھی ا نسان  مغرور  ہوا جاتا تھا  اپنے جہل  میں،  جیسے  آج مغرور ہوا جاتا ہے اپنے  علم  میں..... ساینسی علوم غالیہ اور ادب عالیہ چاہے اپنی اپنی توجیہات پیش کرتے رہیں جو بجا  ہیں ،   چاہے سیاست و حکومت اور عوام یونہی عارضی امداد باہمی کا مظاہرہ کرتے رہیں  یہ بھی بجا سہی ......مگر بچہ یونہی پریشان رہے گا...  نظام قدرت کے سامنے ...اسکی لا محدود قوت   کے سامنے.. انسان آخر بچہ  ہی توہے .....پتا  نہیں  یہ کب بڑا ہوگا...با ایمان اور ہونہار ہوگا!!...

0 comments:

گردش ایام میں فکر و ادب کی گرمیاں و شوخیاں

گردش ایام میں فکر و ادب کی گرمیاں و شوخیاں
زبیر حسن شیخ        zubair.ezeesoft@gmail.com  
اہل حق یہی کہتے آئے  ہیں کہ دیکھ ! اے گردش ایام ہم حقیقت ہیں ۔تری مجال کیا کہ تو ہمیں بیگانہ کردے۔ گرمیاں اور شوخیاں فطرت و ادب کا خاصہ رہی ہیںاور جب تک فطرت اور ادب کا ظہور ہوتا رہے گا   یہ گرمیاں اور شوخیاں باقی رہینگی۔فطرت اور ادب کا ساتھ ازلی ہے۔اور فطرت سے اعلی و ارفع ادب کوئی تخلیق نہ کرسکا کہ جہاں ادب اپنے منتہائے کمال پر ہونے سے خود نازاں رہتا ہے......جہاں افکار و خیال کو نور میں ڈھالنے کے نسخے بتائے گئے ہیں۔ جہاں سمندر کو کوزے میں اتارنے کا فن سکھایا گیا ہے اور قطرہ کو صدف میں سمو کر موتی بنانے کا ہنر بھی۔جہاں بلند نگہی اور قلندری کے آداب بھی بتائے گئے ہیں اور شہریاری کے رموز و نقاط بھی۔جہاں دنیا کو مقام جستجوئے حق اور توکل و قناعت کی منزل قرار دیا گیا ہے۔جہاں انسان کو سوچنے اور ماننے پر مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ اگر خود آیا نہیںہے اور لایا گیا ہے، تو کیوں لایا گیا ہے ؟اور بغیر بلائے اب جا بھی نہیں سکتا، تو جب بلایا جائے گا تو کیا ہوگا؟ پھر انکے جوابات بھی دئے جاتے ہیں۔جہاں احسانات کی قدر کرنا سکھایا جاتا ہے۔جہاں انسانی رشتوں کے علاوہ دیگر تمام مخلوقات کے روابط و ضوابط بتا ئے گئے ہیں۔جہاں نظام حیات کے بنیادی اصول و قواعد بھی متعارف کرائے گئے ہیں اور فرد و جمع ، تخصیص و تعمیم، نصوص و مباحات ، رخصت و تحریم ،   اضطرار و  ترجیحات  کے قواعد بھی۔جہاں علوم و فنون کو لا محدود کر انہیں شر و خیر میں تقسیم کردیا گیا  ہے اور انکی بنیاد اخلاقیات اور ایمانیات پر قائم کی گئی ہیں۔ جہاں احکامات کو ماننے نا ماننے کے اختیارات دئے گئے ہیں وہیںپند و نصائح اور تلقین و تبلیغ کے بھی، بلکہ کارخانہ حیات کے لئے انکو واجب قررار دیا گیا ہے ۔جہاں محبت ہو یا جنگ، عشق حقیقی ہو یا مجازی، دوستی ہو یا دشمنی سب کے قرائین رقم کر دئے گئے ہیں۔ جہاں عدل و انصاف کو نظام حیات کے علاوہ عشق کی گرمیوں اور حسن کی شوخیوں کے لئے بھی ضروری بتایا گیا ہے۔جہاں آتش نمرود میں بے خطر کود جانے کو عشق حقیقی مانا گیا۔جہاں متاع حیات کی قربانی کو رب کی دوستی سے موسوم کیا گیا، اور فرزند کے گلو پر خنجر رکھ کر دوستی میں رکھ رکھاؤ کے آداب سکھائے گئے۔جہاں حسن کو بہ مثل لولوالمقنون اورعروبا اترابا لازوال کردیا گیا۔جہاں زلیخا کا عشقِ مجازی حسنِ یوسف کے سامنے مجبور نظر آتا ہے، اور یوسف کا عشق حقیقی حصار خیال یار میں تحفظ پاتا ہے۔جہاں عشق جب دیدار کا تقاضا کرتا ہے تو تجلی سے سرشار کر دیا جاتا ہے۔جہاں محبوب کی دلجوئی کی خاطر مکاں و لا مکاں کے فاصلے ختم کر دئے جاتے ہیں اور پھر وصال یار کے رموز متشابہات میںپنہاں کردئے جاتے ہیں، اور عشق کو معراج عطا کردی جاتی ہے۔الغرض ادب کی ابتدا اور انتہا سب کچھ فطرت سے ہے اور قرآن اس کا مظہرہے۔ نبئ مرسل  مجسم قرآن ہے اور اولین قارئین و سامعین کرام عینی و قلبی شاہد۔جو عشق حقیقی کی مثال قائم کر گئے۔یہی وہ ادب ہے جو لازوال ہے۔اب وہ اہل منتہائےادب نہ رہے اور نہ ہی پھر ان سا کوئی ہوا.... ہاں کچھ ایسے باکمال ضرور گزرے جن میں انکا پرتو نظر آیا اور جنہوں نے اس بحر بیکراں میں غواصی کی اور عشق حقیقی کو گرمایا، اور اس بحر بیکراں سے اٹھتی موجوں کے حسن میں پوشیدہ شوخیوں کو اجاگر کر دکھایا۔ اور اس طرح عشق میں وہ گرمیاں اور حسن میں وہ شوخیاں باقی رہ گئیں جو انسانی تہذیب و تاریخ میں ثبت ہوئیں۔یہ تو عشق حقیقی کی داستانیں ہوئیںجوہمیشہ سے حسن و عشق کی بھول بھلیوں سے دور صراط مستقیم پر قائم و دائم رہیں۔لیکن عشق مجازی جسکے بے شمار رخ ہیں اور جن میں اکثر و بیشتر اب مسخ ہورہے ہیں۔ جو اکثر صراط منحنی پر لے جانے کا با عث بنتے رہے ہیں۔ عشق کے نام پر دنیا کی ہوس ، دولت و شہرت کی اور پھر حسن کی ۔جس میں کیا خاص و عام اور کیا جاہل و فاضل، اکثر کو لٹتے دیکھا گیا ۔اورآئے دن یہ خبر آتی رہتی ہے کہ۔ عجب ایک شور سا اٹھتا ہے کہیں ۔پھر کوئی شخص لٹ گیا ہے کہیں۔اور اکثرسنا گیا کہ۔حسن پہ ہر کوئی مرتا ہے یہاں۔عشق میں کب کوئی مرا ہے کہیں۔الغرض انسان عارضی بلکہ لمحاتی خوشیوں کا مارا ہوا جا  رہا ہے ۔کیا کیا جائے کہ عشق کے جراثیم موروثی ہیں، اور قدرت کے ودیعت کردہ ہیں، اور جو منفی اور مثبت دونوں صورت میں پائے جاتے ہیں۔ یہ تو انسان پر منحصر ہے کہ وہ کسے پروان چڑھاتا ہے اور کس کو کس پر حاوی کرتا ہے۔ بس اسی سے اسکے اندر عشق حقیقی اور مجازی میں جنگ جاری رہتی ہے۔ کبھی ادب کا، کبھی خرد کا اور کبھی جنوں کا، اور کبھی رسم و رواج کا سہارا لے کر عشق مجازی کو حقیقی بتایا جاتا ہے، یا عشق مجازی کو عشق حقیقی کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے ۔اور انسان یہی سمجھتا ہے کہ ۔ "نشّہ عشق میں ہر چیز اڑی جاتی ہے ۔کون ذرہ ہے کہ سر شار محبت میں نہیں"
اہل حق اپنے افکارات اور تحریر میں آج بھی بولتے ہیں کہ نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں۔اہل فکر کی پیشانیاں اور اہل نظر کی آنکھیں آج بھی پوچھتی ہیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ منعم کے پاس رب کے سوا سب کچھ ہے، مفلس کے پاس رب کے سوا کچھ بھی نہیں ۔روزگار کے مسائل روز روز کے مسائل بن گئے۔ کہیں دہقاں کو روٹی تو کہیں روٹی کو دہقاں میسر نہیں۔خوشۂ گندم کو جلانے کی اب  ضرورت بھی نہ رہی کہ وہ سرکاری گوداموں میں لا پرواہی کی آگ میں جل رہا ہے۔اہل دانش خموش ہیں کہ کسان کی خود کشی جرم ہے تو پھر سزا کیا ہے۔زندگی خود کشی کا قرض ہے یا خودکشی زندگی کا۔ سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔آئینہ کرچی کرچی ہورہا ہے کہ شکستہ ہوتا تونگاہ آئینہ ساز میں عزیز بھی رہتاجو شیشہ گر تھے وہ بھی اب نہیں رہے۔اور اب آئینوں کو ٹوٹنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔موسم خزاں میں تو خزائیں آتی ہی ہیں اب  موسم بہارمیں بھی آتی ہیں ۔عوام کا ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا، پھر بھی مدعا ادا نہیں ہوتا۔دولت میں جمہوریت کی اور جمہوریت میں دولت کی گنتی جار ی ہےجمہوریت معیشت کے ہتھے چڑھ گئی ہے اورمعیشت سیاست غلیظہ کے۔ جنگ سے امن کو ممکن بنایا جارہا ہے اور امن و امان سے جنگ کو۔ایجاد ضرورت کی ماں ہوئی اور ضرورت دولت کی۔صارفیت سے روزگار اور روزگار سے صارفیت کا سلسلہ نسب قائم ہورہا  ہے ۔غربت بہ حالت مجبوری چیتھڑے زیب تن کرتی ہے تو امارت بہ حالت بدمستی و خرمستی ۔عورت کے لفظی معنی بدل دئے گئے اور اسکی کنہ ہی انسان کو یاد نہ رہی۔اور "عورات النسا" کو عریاں کردیا گیا۔
فرنگی ذہن کی عجب اختراع ہے   ہیں عریاں اور دامن بچانے چلے ہیں
عورت کے لفظی معنی بدل کر       چھپانا ہے جو وہ دکھانے چلے ہیں
تکالیف سارے جہاں کی  اٹھا کر   عورت کے سر یہ منڈانے چلے ہیں
ذرا بوجھ کا تم تناسب نکالو!!   جمع کو ضرب سے بٹانے چلے ہیں
دیا کیا ہے تم نے عورت کو اب تک     مہ خانے چلے کار خانے چلے ہیں
الغرض اب آفتیں بھی ناگہاں نہیں آتیں بلکہ ماہرین انکی آمد کی خبر دے دیتے ہیں۔ اور انسان اپنی  بربادی کا منتظر رہتا ہے۔خوشی سے کوئی خوش نظر نہیں آتا۔ محبت میں بد گمانی اور بد گمانی میں محبت کی جا رہی ہے ۔دل لگی میں عشق اور عشق میں دل لگی ہورہی ہے ۔عشق آج بھی ام الکتاب ہےاور علم آج بھی ابن الکتاب لیکن کیا کیجیے گا کہ دولت اب دخترتیز طرار بن کر بنت علم و فن ثابت ہورہی ہے۔ اب دولت اور علم ایکدوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہوئے۔ قانون اندھا بنا  دیا گیا  ہے، مظلوم انصاف سے محروم ہیں اور رکھوالے معذور و اپاہج۔ قانونی موشگافیوں سے شریف کو مشکوک، معصوم کو خطا کار ،مظلوم کو مجرم بنایا جارہا ہے اور مجرم با عزت بری ہے۔ ظلم عدل کا باپ بن گیا ہے اور بقول شاعر بچے جن رہا ہے۔پیشہ ور شوریدہ سر ہوا چاہتے ہیں اور شوریدہ سر پیشہ ور۔جس کی گائے بھینس ہے اب اسی کی لاٹھی ہے۔انسان سماجی جانور ہوا کرتا تھا مگراب سیاسی ہورہا ہے اور اکثر سیاستدانوں کو دیکھ کر اس کا یقیں پختہ ہوا جاتا ہے۔جمہوریت اپنے تین کھوئے ہوئے ستون تلاش کر رہی ہے جبکہ چوتھا ستون دیمک زدہ ہے اور وہ اس پر ٹیک لگائے رورہی ہے، ابھی گری اور تبھی۔ صحافت مجبور کر دی گئی ہےاور اکثر کی بلاغت کو اشتہارات نگل گئے۔ اب تو عشق سے کھیل کیا جا رہا ہے اور کھیل سے عشق ۔عشق ناتواں اور حْسن پہلوان ہوا جاتاہے۔ لوٹ مار سے عزت اور عزت سے لوٹ مار کی جارہی ہے۔ اب رشتوں کا احترام باقی رہا نہ احترام کا رشتہ۔ تہذیب کے رشتوں سے رشتوں کی تہذیب جا تی رہی۔اب وصل کی شب ہی رشتوں کا وصال ہوا جاتا ہے۔ اب 'من تو شدی، تو من شدی کے قصے عارضی ہوتے ہیں۔چند دنوں کے بعد ہی "من دیگری تو دیگری" کا لمحہ آجاتا ہے۔بلکہ کبھی کبھی تو چند گھنٹوں کے بعد ہی یہ جدید طرز ازدواج تہذیبی زوال کی منہ بولتی تصویر  ہے۔ اور اس سے بھی ایک قدم آگے جا کر اس طرز ازدواج میں ہم جنس پرستی کو شامل کر ایک ہی جست میں اخلاقی زوال کے سارے مراحل طے کر لئے گئے ہیں ۔شادی بیاہ، نکاح، گھر بار، خاندان ، طلاق ، اخراجات ، انحصار ، رفاقت سب سے انسان جان چھڑانا چاہتا ہے ۔سائینس کی مانیں تو پتھروں کے دور میں ایسے رشتے عام ہوا کرتے تھے ۔اب انسانوں کا دور ہے اور پتھروں کی بستی ہے ۔یہ مادی دورعجیب  بھی ہے اور غریب بھی ۔تجارت میں فائدہ نہیں ہورہا لیکن فائدے میں تجارت ہے۔ قرض کی زندگی میں زندگی کا قرض اتارنا مشکل ہواجارہا ہے۔کہیں بندگی میں عیش ہے اور کہیں عیش میں ہے بندگی۔ نہ عشق حقیقی رہا نہ ہی مجازی۔بس کچھ گرمیاں اور کچھ شوخیاں بصورت فطرت و ادب باقی ہیں، اور جو ثقہ اہل علم و نظر اور خبر و نشر کا سہارا ہیں۔

0 comments:

کارٹون شائع کرنے والی براڈ مائنڈیڈ ایڈیٹر کو بڑھاوا دینے کی کوشش

ابو عدنان ۔ ممبئی

اتر پردیش کے ایک ملٹی ایڈیشن اخبار اودھ نامہ کے ممبئی ایڈیشن کی نام نہاد ایڈیٹر جس نے نبی ﷺ کا وہ گستاخانہ کارٹون شائع کیا تھا جسے فرانس کے دریدہ دہن میگزین چارلی ہیبڈو نے شائع کیا تھا اور اس پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج تھے ۔دوسرے دن حالات کو بگڑ تا دیکھ اس نے اخبار کے اول صفحہ پر معذرت نامہ شائع کیا تھا ۔اس طرح کے معذرت نامے صرف دنیا وی قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے ہوتے ہیں ۔اس کی شرعی حیثیت کچھ نہیں ہے ۔شریعت میں شاتم رسول کی کی سزا صرف موت ہے الا یہ کہ وہ اس فعل قبیح سے توبہ کرلے اور اس پر دل سے شرمندہ ہو تو اللہ بڑا توبہ کرنے والا ہے ۔لیکن یہ باتیں اس کے چال ڈھال اس کے بات برتاؤ سے ظاہر ہونی چاہئے ۔جبکہ اس کے چال ڈھال سے یہ ساری باتیں ظاہر نہیں ہوتیں ۔تسلیمہ نسرین کی ’لجا ‘ میں اسے کوئی کمی نظر نہیں آتی ۔نہال صغیر کہتے ہیں کہ جس وقت اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اس ناول میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے اس کی اسلام دشمنی ظاہر ہو میں نے اس سے اس وقت کہا تھا اگر آپ لجا پڑھ چکی ہیں اور اس میں کوئی کمی آپ کو نظر نہیں آئی تو ایک بار اور پڑھ لیں ۔لیکن ظاہر سی بات ہے کہ وہ خود اسی ملعونہ ذہنیت کی تھی اور ہے اس لئے اسے اس کتاب میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی اصل میں وہ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتی ہے تو اسے اپنے قبیلہ والوں میں کوئی کمی کیوں نظر آئے گی۔
مذکورہ معاملہ میں امت کی طرف سے سوائے ایف آئی آر درج کرانے کے اور کوئی احتجاج یا کورٹ میں انٹروین پٹیشن وغیرہ داخل نہیں ہوا جس کے نتیجہ میں اس کی گرفتاری تک نہیں ہوئی ۔ صرف ایک دن جبکہ ممبرا میں تھانہ کے سامنے کچھ تنظیموں نے احتجاجی دھرنا اور بھوک ہڑتال کیا تھا تب پولس نے دباؤ کے تحت چند گھنٹوں کے لئے اسے حراست میں لیا گیا ۔اگر اسی طرح کا دباؤ مسلسل ڈالا جاتا تو وہ آزادانہ طور پر نہیں گھوم رہی ہوتی ۔اگر امت کی جانب سے اس کے مقدمہ میں کورٹ میں انٹروین پٹیشن داخل ہوتا اور مسلمانوں کا وکیل ہوتا تو شاید اس نام نہاد براڈ مائنڈیڈ ایڈیٹر گستا خ رسول ﷺ کچھ سزا ملتی ۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور اب تو ہائی کورٹ میں جج نے اسکے مقدمہ کی طویل تاریخیں دینی شروع کردی ہیں اب اس کے مقدمہ کی تاریخ ۱۵ ؍جون ہے ۔کچھ تاریخوں کے بعد اسے ختم کردیا جائے گا اور وہ ایڈیٹر مسلم معاشرے میں گھل مل کر تسلیمہ نسرین کی راہوں کی مسافر بنی رہے گی اور نئی تسلیمہ اور شیریں کو جنم دیتی رہے گی ۔یہ باتیں یونہی ہوا میں نہیں کہی جارہی ہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک ٹھوس حقیقت ہے ۔اس گستاخ ایڈیٹر کی اس معاملے میں سب سے زیادہ مدد ایک اردو کے سب سے پرانے اخبار کے مالک و ایڈیٹر نے کی میڈیا میں اسے جو شہرت ملی اور اسے مظلوم بنا کر پیش کیا گیا وہ سب اسی اخبار کے مالک کا کارنامہ تھا ۔اب اس اخبار کے مالک نے اس پر ایک احسان اور کیا ہے کہ اخبار کے ہفتہ واری ادبی کالم کی مرتبہ اسے بنایا ہے اور اندنوں کے نام سے اس کے کالم کو بھی جگہ دی جارہی ہے ۔لیکن امت میں کہیں کوئی ہل چل نہیں ۔وہ قوم کے ٹھیکیداروں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور قوم کے ٹھیک دار اس کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں ۔قوم کے ٹھیکیدار سے ایک بات یاد آئی ،جس دن یہ کارٹون شائع ہوا تھا اس دن ایک رپورٹر نے ایک ایسے ہی ٹھیکیدار کو شام کے چار بجے فون کیا تو انہوں نے اس معاملہ سے لا علمی ظاہر کی ۔یہ ہیں قوم کے ٹھیکیدار جن کا ایک زمانہ مداح ہے ان کی بے خبری کا یہ عالم ہے ۔اسی رپورٹر نے شام کے چھ بجے دوبارہ فون کیا تو ان کا فون بند تھا ۔ایک دوسرے بڑے اخبار کے رپورٹر نے رات گئے غالباً گیارہ بارہ بجے تک فون کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ارے بھائی میں نے بہت سنھبالا ورنہ آگ لگ جاتی ‘‘۔لیکن آگ اگر بجھادی گئی تو کم سے کم آگ لگانے اور مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی میں کیا قباحت تھی ۔جبکہ وہی مذکورہ ٹھیکیدار اور ان کے حالی موالیوں نے ایک اخبار والے پر صرف اس لئے کئی ہتک عزت کا مقدمہ کردیا جس نے ان کے خلاف کوئی خبر شائع کردی تھی ۔یعنی نبی ﷺ کی عزت و تکریم صرف زبانی اور اپنی عزت کے لئے نامی گرامی اور مہنگے وکیل کے ذریعہ فوری مقدمہ اور گرفتاری کے لئے دباؤ یہ ہے کتھنی اور کرنی کا فرق ان قوم کے ٹھیکیداروں میں۔
ایک خاتون قلم کار جو کہ خواتین کے مسائل پر لکھا کرتی ہیں اور مذہبی رجحان رکھتی ہیں نے اپنے وہاٹس ایپ گروپ پر کسی کے پوسٹ کے جواب میں اسے ملعون لکھ دیا تو کچھ لوگ ان سے ناراض ہو گئے کہ اسے ملعون مت کہئے کیا پتہ کہ کل وہ توبہ کرلے ۔یہاں میرا کہنا اس سلسلے میں یہ ہے کہ آج وہ ملعون ہے تو ملعون ہے کل اگر وہ توبہ کرلیتی ہے اور اس کے رہن سہن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واقعی اس نے توبہ کرلیا ہے تو ہمیں بھی اس کو ملعون کہنے سے توبہ کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔لیکن ابھی کے حالات تو یہ ہیں کہ اس کے رہن ساہن چال ڈھال سے یہ بالکل بھی نہیں لگتا کہ اس نے توبہ کرلیا ہے ۔بلکہ اس نے کچھ ہفتہ قبل تک تو میڈیا کو انٹر ویو دینا اس میں اپنی مظلومیت کا رونا رونا اور اپنے کارٹون کی اشاعت کے لئے جواز پیش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔ایک بات اور ذہن نشین رہے کہ آر ایس ایس کے ترجمان پانچ جنیہ نے اس کا کئی صفحات پر مشتمل اسٹوری شائع کیا ہے ۔ اس میں بھی اسے مظلوم بنا کر پیش کیا گیا ہے ۔اب لوگ خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں جس کی حمایت آر ایس ایس کرے وہ کیسا ہوگا اس کی خصلت اور ذہنیت کیسی ہو گی ؟اب بھی وقت ہے کہ امت ہائی کورٹ میں ۱۵؍جون کو اس کے مقدمہ میں انٹر وین کرے اور اگر یہ نہ کرسکیں تو اتنا تو ضرور ہو سکتا ہے کہ اس کو تاوقتیکہ وہ توبہ نہ کرے مسلم کمیونٹی کا حصہ بننے سے روکیں ۔لوگوں میں اس کے فعل قبیح کو مشتہر کریں کہ اس نے کتنا گھناؤنا جرم کیا ہے اور کیسی کیسی کالی بھیڑیں امت میں ایسی ہیں جو اس کے ساتھ ہیں کچھ کھل کر اور کچھ خفیہ طور پر ۔اللہ ہم لوگوں کو اپنے اور اپنے رسولﷺ کے دشمنوں کا مقاطع کرنے کی ایمانی قوت عطا کرے۔آمین

0 comments:

کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا

کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا


اوریا مقبول جان
کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ ہم جسے حقائق کی دنیا کہتے ہیں اور جس میں کامیابی و ناکامی پر قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں رقم کرتے ہیں میرا اللہ اسے ’’متاعِ غرور‘‘ یعنی دھوکے کا سامان کہتا ہے۔ یہ دنیا اگر کسی سیاستدان، بادشاہ، سائنسدان، دانشور یا کالم نگار نے تخلیق کی ہوتی تو میں یقیناً اسے حقائق کی دنیا تسلیم کر لیتا اور اپنا تمام ماتم دنیا میں کامیابی اور ناکامی سے منسلک کر دیتا۔ لیکن میں کیا کروں، میرا کامل ایمان ہے کہ یہ دنیا اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق کی ہے اور وہ اس دنیا کی اس سے زیادہ تعریف نہیں فرماتا کہ یہ دھوکے کا سامان ہے۔ سید الانبیاء ﷺ نے اس دنیا میں رہنے، زندگی بسر کرنے یا ایک معلوم وقت گزارنے کے لیے اس دنیا کی جو تعریف کی ہے اور جس طرح اس کی بے وقعتی کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے خوبصورت اس دنیا کو بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔
آپؐ نے اسے ’’عابر السبیل‘‘ یعنی عارضی پڑاؤ، ٹرانزٹ لاؤنج “Transit Lounge” کہا ہے۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی صدیوں پر محیط ہماری زندگی تھی اور اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ایک لامتناہی زندگی ہمارا مقدر ہے اور ہم ایک تھوڑے سے وقفے کے لیے اس عارضی پڑاؤ یا ٹرانزٹ لاؤنج میں آئے ہیں۔ اللہ نے ہمارا یہ سفر اور یہ عارضی پڑاؤ ایک خاص مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ ’’ہم نے موت اور حیات کو تخلیق کیا ہے تا کہ دیکھیں کہ تم میں سے اچھے اعمال کون کرتا ہے‘‘ (الملک)۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اچھے اعمال کی تعریف میں نہ عبادات آتی ہیں اور نہ ہی دنیا کی مادی کامیابی۔ عبادات تو ایک فرض ہے کہ جسے آپ نے اللہ کے حکم کے مطابق ادا کرنا ہے جب کہ ’’اچھے اعمال‘‘ تو آپ کا وہ تمام طرز عمل ہے جو آپ اس ’’عارضی پڑاؤ‘‘ میں اختیار کرتے ہیں۔
آپ جھوٹ نہیں بولتے، دھوکا نہیں دیتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے، غیبت نہیں کرتے، قتل نہیں کرتے، ملاوٹ نہیں کرتے، لوگوں کا مال ہڑپ نہیں کرتے، اپنے کمائے ہوئے مال سے قرابت داروں، یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں، آپ والدین کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے سامنے اف تک نہیں کرتے، آپ اولاد کی نیک اور صالح اصولوں پر پرورش کرتے ہیں، آپ زنا نہیں کرتے، آپ غیر فطری فعل سے نفرت کرتے ہیں، غرض اعمال صالح کی ایک طویل فہرست ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بتائی ہے اور اسے ہی دنیا میں کامیابی اور ناکامی کا معیار بتایا ہے۔ آج اس ہنستی بستی دنیا کے ہر معاشرے میں انھی اچھے اعمال کو ہی معاشرے کی کامیابی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔
دنیا کا کوئی صاحب عقل شخص کسی معاشرے یا سوسائٹی کی خوبصورتی کی تعریف کرتا ہے تو وہ کبھی یہ نہیں کہتا کہ وہاں بلب کتنے بنتے تھے، کاریں کتنی تھیں، پل کس قدر تھے، بلند و بالا عمارتیں کتنی تھیں، بلکہ وہ معاشرے کی خوبصورتی کا معیار اس ماحول کی انسانی اقدار سے لیتا ہے۔ وہاں چوری، ڈاکہ، زنا بالجبر، دھوکا، فریب، جھوٹ، قتل، اغوا اور دیگر جرائم کسقدر کم ہیں، وہاں انسان نے انسانوں کی فلاح کے ادارے کس قدر قائم کر رکھے ہیں۔ وہ اپنے بوڑھوں، معذوروں، یتیموں اور بیواؤں کا کس طرح خیال رکھتے ہیں۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسان آج کے اس ترقی یافتہ دور سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے یہ اچھے اعمال ان معاشروں میں کرتا تھا جنہوں نے موجودہ شہری زندگی یعنی ’’اربن لائف‘‘ کی شکل تک نہیں دیکھی تھی اور آج بھی دنیا بھر کے دیہی معاشرے انسانی ہمدردی اور اچھے اعمال میں ترقی یافتہ دنیا سے کہیں آگے ہیں۔
دنیا کی کسی سائنسی اور مادی ترقی کا کوئی تعلق انسان کی اخلاقی اور معاشرتی ترقی سے نہیں ہے بلکہ دنیا میں کارپوریٹ کلچر نے بدترین اخلاقیات کی بنیاد رکھی ہے۔ اپنی کاروباری سلطنت کی وسعت کے لیے انھوں نے جنگیں کیں، ملکوں پر قبضے کیے، دھوکے اور فراڈ سے مال بیچ کر کمپنیوں کے سرمائے میں اضافہ کیا، اسی زمین پر کروڑوں لوگوں کا خون بہایا اور آج بھی بہایا جا رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں اس قدر انسان قتل نہیں ہوئے جتنے موجودہ مادی ترقی کی دوڑ میں ہوئے۔ جنگ عظیم اول سے لے کر عراق کی جنگ تک کیا ٹیکنالوجی انسانوں کی فلاح، امن اور سکون کے لیے استعمال ہوئی۔ ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ صرف اور صرف انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے استعمال ہوئی۔
کیا ہم کسی عارضی پڑاؤ یا ٹرانزٹ لاؤنج میں مستقل پڑاؤ کا رویہ رکھتے ہیں۔ کیا ہم کسی ایئر پورٹ، ریلوے اسٹیشن، یا بس اڈے پر کچھ دیر کے لیے رکیں اور ہم سب کو علم ہو کہ ہماری بس، ٹرین یا جہاز نے کسی بھی وقت آ جانا ہے اور ہم نے چند لمحے اس ٹرانزٹ لاؤنج میں گزارنے ہیں تو ہمارا رویہ کیا ہو گا۔ ہم زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کو آرام پہنچانے کی کوشش کریں گے، کسی چیز کو اپنی مستقل ملکیت تصور نہیں کریں گے، ہم بس، ٹرین یا جہاز پر سوار ہوتے ہوئے پریشان نہیں ہوں گے، اس لیے کہ ہمیں یقین ہو گا کہ اگلی سواری پر میرے باپ بھائی، بیوی بچوں اور دوستوں نے بھی میرے ساتھ آ کر مل جانا ہے اور جو پہلے چلے گئے ہیں، میں ان سے جا کر ابھی ملاقات کر لوں گا۔
ہمیں ٹرانزٹ لاؤنج میں کونسے لوگ زیادہ اچھے لگتے ہیں، وہی جو ہم پر سب سے زیادہ مہربان ہوں، جو اپنی جگہ ہمارے لیے چھوڑ دیں، اپنا آرام ہمارے لیے قربان کر دیں۔ دنیا میں بڑے سے بڑے مادہ پرست کو بھی جب اور جہاں اس بات کا یقین ہو جائے کہ وہ یہاں صرف چند لمحوں کے لیے آیا ہے اور پہلی فلائٹ پر چلا جائے گا تو اس کا رویہ بدل جاتا ہے۔ وہ مستقل رہائش کے بندوبست اور سامان نہیں کرتا۔ ’’متاع غرور‘‘ اور عابر السبیل‘‘ یہ دو تصورات ہیں جو انسانی دنیا کو خوبصورت بناتے اور انسانی کامیابی کے اصول متعین کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کما کر اپنی معاشی سلطنت بڑھانے والا محترم نہیں گردانا گیا بلکہ اپنی معاشی سلطنت مستحق افراد میں بانٹنے کے بعد اس عارضی پڑاؤ سے چلے جانے والا قابل احترام تصور ہوا ہے۔
دنیا کی اس حیثیت کو اگر ہم سمجھ لیں تو پھر ہمارے لیے اللہ کی ذات کا تصور اور کامیابی کا معیار سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ اللہ انسانوں کو اپنی ہر نعمت ایک امتحان کے طور پر عطا کرتا ہے۔ امتحان یہ کہ وہ اس نعمت پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس سے کس طرح خلق خدا کی خدمت کرتے ہیں اور پھر ایسا کرنے پر اس کا وعدہ ہے کہ وہ نعمتوں میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ مسلمانوں معاشروں اور حکومتوں میں جب یہ چلن عام رہا ان پر نعمتوں کی بارش ہوتی رہی۔ لیکن یہی چلن جب دوسروں نے اختیار کر لیا تو نعمتوں کا رخ ان کی جانب موڑ دیا گیا۔ اللہ کے ہاں کسی بھی معاشرے پر رحمتوں کی بارش ان کی ٹیکنالوجی میں ترقی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اچھے اعمال کی صورت میں ہوتی ہے جو اس دنیا میں انسان کو بھیجنے کا مقصد ہیں۔ خالصتاً مادہ پرستی کی کوکھ سے ظلم، زیادتی، ناانصافی اور جبر برآمد ہوتا ہے جس کا تجربہ آج پوری دنیا کو ہے۔
انسان کی ساری ترقی کا صرف اور صرف ایک ہی اعلیٰ اور ارفع مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے پرسکون زندگی۔ اگر وہی حاصل نہ ہو سکے تو ساری جدوجہد ناکام۔ کیا پوری انسانیت کی جدوجہد ناکام نہیں۔ کیا پوری انسانیت بے چینی، بے اطمینانی، خوف، غربت، افلاس، جنگ، جہالت، ظلم اور قتل و غارت سے عبارت نہیں۔ ہر معاشرے کی اپنی بے چینی اور اضطراب ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کا اپنا اور ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کا اپنا۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا کے ہر تجزیہ نگار، معیشت دان، سیاسی ماہر نے ترقی کا ایک ہی پیمانہ بنا رکھا ہے۔ یعنی مادی ترقی، معیشت، ٹیکنالوجی اور مادی سہولیات میں ترقی۔ یہ ہے متاع غرور کا سودا۔
دھوکے کے سامان سے محبت، دھوکے کے سامان کو ترقی کی معراج سمجھنا۔ یہ دھوکے کا سامان ہر کسی کو اس کے مزاج، حیثیت اور مقام کے مطابق دھوکا دیتا ہے۔ ٹرانزنٹ لاؤنج میں بیٹھے لوگ اپنی فلائٹ کے لیے زیادہ بے چین ہوتے ہیں، انھیں جلد اپنی منزل پر پہنچنے کی دھن مضطرب کر رہی ہوتی ہے۔ ہمیں یقین ہی نہیں کہ ہماری کوئی منزل ہے، ہم تصور کیے بیٹھے ہیں کہ ہماری فلائٹ کینسل ہو چکی ہے۔ ہم ٹرانزٹ لاؤنج سے اسقدر محبت کرتے ہیں کہ ہمیں اسی کے اجڑنے پر اپنی زندگی اجڑنے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اس سے زیادہ دھوکے کا سامان اور کیا ہو سکتا ہے۔ اقبال نے اس قرانی اصلاح کا کیا خوب شعری اظہار کیا ہے؎
کیا ہے تونے متاعِ غرور کا سودا
فریب سود و زیاں لا الہ الا اللہ
----------------------
بشکریہ روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘

0 comments:

جمہوری ملک کی انتظامیہ ہی نہیں عدلیہ بھی سلیبریٹی کے لئے ہے

نہال صغیر،کاندیولی،ممبئی ۔موبائل: 9987309013
جمہوری ملک کی انتظامیہ ہی نہیں عدلیہ بھی سلیبریٹی کے لئے ہے
اس پورے ہفتہ میں کیا ملکی اور کیا غیر ملکی ہر میڈیا میں بس ایک ہی خبر چھائی رہی اور وہ ہے سلمان خان کے بدنام زمانہ ہٹ اینڈ رن مقدمہ کی سماعت اور تیرہ سال کے بعد اس میں فیصلہ آنے کا ۔ ادھر سیشن کورٹ میں جج نے اسے پانچ سال قید اور ۲۵ ہزار روپئے جرمانے کی سز ا سنائی ادھر صرف دو گھنٹے بعد دو دن کی عبوری ضمانت مل گئی ۔جسے بعد میں ہائی کورٹ نے ۸ ؍مئی کو سیشن کورٹ کے فیصلہ کو اگلی شنوائی تک معطل کردیا ہے ۔مذکورہ فیصلہ اور اس پر ہائی کورٹ کے فوری دو روزہ عبوری ضمانت منظور کئے جانے پر سوشل میڈیا پر کسی نے کیا خوب طنز کیا ہے ’’سلمان کی ہائی کورٹ نے اتنی سرعت سے ضمانت منظور کی جتنی دیر میں عام آدمی کو بھیل(ممبئی کی ایک مشہور ڈش) دستیاب نہیں ہو پاتا‘‘ ۔یہ ملک عزیز میں عدم مساوات پر برملا اظہار ہے ۔اس طرح کے کمینٹ سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں جمہوریت کے نام پر عام آدمی کتنا مجبور و مقہور ہے جبکہ سلیبریٹی کے لئے سارے راستے کھلے ہوئے ہیں ۔دولت کی ریل پیل میں انہیں حمایت دینے کے لئے لوگ قطار میں نظر آتے ہیں ۔سیاست داں بیورو کریٹ بھی ان کی خدمت کے لئے حاضر رہتے ہیں ۔لیکن یہ تو ایک عام سی بات ہے اور اس پر زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن جب عدلیہ اور عدالتی نظام بھی ان سلیبریٹی اور عام آدمی میں فرق کرنے لگے تو یقینی طور پر عوام میں عدالت کا وقار مجروح ہوتا ہے ۔لوگ سوال کر سکتے ہیں کہ اس معاملے میں عدالتوں نے کیا امتیاز برتا ہے ؟ایک سوال ہے اور بظاہر اس سوال میں قوت نظر آتی ہے لیکن صرف سیشن کورٹ میں ہی تیرہ سال لگ جانا اور سزا سنانے کے صرف دو گھنٹے کے اندر ہی ضمانت مل جانا یہ کیا ہے ؟کیا ایک غریب اور عام آدمی اس کا تصور بھی کر سکتا ہے ؟بالکل نہیں ! پھر اسے ہم امتیاز کیوں نہ مانیں ؟
عدالتی نظام کی خرابی ہی کی وجہ ہے کہ لاکھوں مقدمات عدالتوں میں اپنی تاریخ کے انتظار میں ہیں ۔اگر کوئی نئے مقدمات نہیں آئے تب بھی برسوں اسے نپٹانے میں لگ جائیں گے ۔ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ ایک عورت وجئے کماری جھوٹے مقدمہ اور پولس کی رشوت خوری اور آرام طلبی کی وجہ سے قتل کے مقدمہ میں جیل چلی جاتی ہے جج اس کے لئے پانچ ہزار کی ضمانت منظور کرتا ہے ۔لیکن اس کے پاس پانچ ہزار روپئے نہ تھے اور نہ ہی کسی نے اس کی مدد کی ۔جیل جاتے وقت وہ حاملہ تھی جیل میں ہی اس کو ولادت ہوئی ۔وہ بچہ (کنہیا)جیل میں ہی پل بڑھ کر بڑا ہو ا اور کماکر پانچ ہزار ضمانت کی رقم جمع کی جب کہیں جاکر انیس سال کے بعد وہ آزاد فضاؤں میں سانس لے سکی ۔وہ آزاد تو ہو گئی لیکن اس کی زندگی کے اکیس سال وہ بہترین ایام اسے کون لوٹائے گا ؟ایک بدنصیب اور جو ہماری عدالتی نظام کی بھینٹ چڑھ گیا کانپور کا محکمہ ڈاک کا ایک ملازم ڈاکیہ جس پر ستاون روپئے ساٹھ پیسے غبن کا الزام لگا کر اس کے سینئر نے اس پر مقدمہ قائم کیا اس کو اس الزام سے بھی پچیس تیس سال کے بعد کورٹ نے بری کیا ۔ لیکن وہ اس درمیان زندگی کے وہ قیمتی لمحات جو اس پر ان الزام کے کلنک کے ساتھ گزرے اس کا ذمہ دار کس کو مانا جائے ؟ایک بدنصیب کوتو بغیر کسی مقدمہ کے صرف تفتیش کے نام پرپولس کے ذریعہ اٹھائے جانے کے بعد جیل کے اندر زندگی کے پینتیس چالیس سال گزارنے پڑے ۔وہ جوانی کے ابتدائی ایام میں جیل گیا تھا ۔پولس عدالتیں اور انتظامیہ سب اسے جیل میں ڈال کر بھول گئے اور زندگی کے آخری ایام میں اسے کسی غیر سرکاری تنظیم کے سروے کے دوران انکشاف ہونے پر رہائی نصیب ہوئی ۔یہ تین مثالیں ہماری انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کی مالا جپنے کی قلعی کو پوری طرح کھول دینے کے لئے کافی ہیں ۔ لیکن یہ تو صرف چند مثالیں ہیں جو کسی ایماندار صحافی کے تگ و دو کی وجہ سے ہمارے سامنے آگئے ورنہ اس ملک کے عقوبت خانوں میں نہ جانے کتنی معصوم زندگیاں ایڑیاں رگڑ رہی ہیں اور حکومت ،اس کی انتظامیہ اور عدالتوں میں سے کسی کو فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ ان معصوم زندگیوں کوبچاکر ملک و قوم کی ترقی میں ان کا تعاون لے ۔
دنیا کے نقشے میں اور بہت سے ملک ہیں وہاں کی حکومتوں اور انتظامیہ میں بھی خرابیاں ہوں گی کیوں کہ وہاں بھی انسان ہی بستے ہیں ۔لیکن جس قدر خرابیاں اور عدم مساوات ملک عزیز کا مقدر ہے وہ کہیں اور نہیں ملے گا ۔یقین نہ آئے تو میڈیا کی خبروں کے برعکس کبھی خود سے بھی ایک ملک کادورہ کر آئیں ۔وہاں کی عدالتوں کے بھی چکر کاٹ آئیں ۔وہاں کی جیلوں کو بھی دیکھ آئیں ۔خرابیوں میں اور کوتاہیوں میں ہمارا نمبر اول ہی ہو گا۔یہاں عام آدمی کی خیر خبر لینے والاکوئی نہیں ۔ابھی تک تو عام طور پر میڈیا کے سامنے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں یہاں کے عدالتی نظام پر پورا بھروسہ ہے ۔لیکن ذرا تنہائی میں کسی غریب اور بے سہارا سے جو کہ مہنگے وکیل کی خدمات لینا تو دور کی بات ہے ان کے دفتر میں جانے کی ہمت بھی نہیں دکھا سکتا اس سے پوچھ لیجئے وہ بتائے گا کہ اسے یہاں کی انتظامیہ اور عدالتوں پر کتنا بھروسہ ہے ۔ سامنے کی مثال سلمان خان کے مقدمہ کی ہے ۔اگر کسی غریب کو سزا سنائی جاتی تو کیا وہ اس پوزیش میں تھا کہ اس کے لئے وکیلوں کی فوج ہائی کورٹ میں اس کی ضمانت کی عرضی لگانے کے لئے موجود ہو تی یا اگر کوئی عام آدمی کو ہی سزا ہوتی اور اس کے پاس اتنی دولت ہوتی تب بھی کیا ہائی کورٹ کے جج صاحبان سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے وہ صرف دو گھنٹے میں اسے ضمانت دے دیتے ۔ہر گز نہیں اسے ہر حال میں جیل تو جا نا ہی ہوتا ۔اوپر کی تین مثالیں تو انتہائی مقہور ،مجبور اور لاچار لوگوں کی ہیں جو اسی ملک کے شہری ہیں اور ایک بات اور بتادیں کہ اوپر کی تین مثالوں میں کوئی بھی مسلمان نہیں ہے ۔اس سے ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے علاوہ بھی جو کوئی قوت نہیں رکھتا اس کی گنتی شاید انسانوں میں نہیں ہوتی اس لئے اسے کوئی سہولت نہیں ہے ۔شاید اسی کا اظہار سلمان کے ایک مداح ابھجیت نے کیا ہے کہ فٹ پاتھ پر کتے کی طرح سوؤ گے تو کتے کی طرح ہی مارے جاؤگے ۔یہ ہے اس ملک میں غریبوں اور عام آدمی کی اوقات ۔لیکن ان بگڑے مغرور اور متکبر لوگوں کو یہ کوئی بتانے والا نہیں ہے کہ انسانوں کی آبادی میں انسانوں کی ہی طرح رہنا چاہئے کتوں کی طرح نہیں اور فٹ پاتھ اگر سونے کے لئے نہیں ہے تو وہ کتوں کی طرح گاڑی چلانے کے لئے بھی نہیں ہے۔
بہت تلخی ہے میری باتوں میں لیکن جو کچھ دیکھتا ہوں اسے ہی بیان کرتا ہوں ۔ان سرپھرے متکبر اور مغرور لوگوں کی پزیرائی دیکھتا ہوں اور غریب اور بے بس لوگوں کی بے بسی بھی دیکھتا ہوں ۔پھر اس پر نام نہاد دانشوروں کو جمہوریت اور سیکولرزم کی مدح سرائی کرتے دیکھتا ہوں تو میرے سامنے اس کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔سلمان کو سزا تو سنائی جاتی ہے لیکن اس میں تیرہ سال بیت جاتے ہیں اور صرف دو گھنٹے میں عبوری اور پھر دو دن میں مکمل ضمانت مل جاتی ہے ۔اب اگر یہی جمہوریت اور سیکولرزم ہے تو یہ انسانی معاشرے کے لئے خطرناک ہے ۔جو دعویٰ تو مساوات کا کرتا ہے لیکن عمل اس کے برعکس ۔جہاں ایک عورت پانچ ہزار کی ضمانت کی رقم جمع نہ کروا پانے کی وجہ سے اکیس سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتی ہے ۔لیکن ایک شخص جو مشہور و معروف ہے اس کے پاس دولت کی ریل پیل ہے وہ صرف دو گھنٹے میں ضمانت لے کراپنے لئے آزاد ی خرید سکتا ہے ۔اسی تضادکا نام اگر جمہوریت اور سیکولرزم ہے تو اس سے کس طرح بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے؟یا جس جمہوریت اور سیکولرزم کی لوگ دہائی دیتے ہیں اگر اس میں ذرہ برابر بھی صداقت ہے تو اس ملک میں جہاں سلمان ضمانت لے کر آزاد رہتا ہے وہیں اس خاتون وجئے کماری کو بھی آزاد رہنے کا حق حاصل ہونا چاہئے جس نے کوئی جرم ہی نہیں کیا اور شاید کوئی جرم نہیں کرنا ہی اس جمہوری ملک میں اس کی سب سے بڑی خطا بن گئی جس کی وجہ سے اسے زندگی کے بہترین اکیس سال جیل میں گزارنے پڑے۔ 
نہال صغیر،کاندیولی،ممبئی ۔موبائل: 9987309013

0 comments:

ایران امل ملیشیا اور حزب اللہ کی حقیقت

عمر فراہی ،جوگیشوری،ممبئی۔موبائل:9699353811
ایران امل ملیشیا اور حزب اللہ کی حقیقت
’’ایران اسرائیل کے نقش قدم پرِ ‘‘اس مضمون کی اشاعت کے بعد ہمیں تقریبا پندرہ سے بیس فون موصول ہوئے ان میں سے تقریبا ہر قاری اس بات پر تو متفق ہی تھا کہ مشرق وسطیٰ کے تعلق سے ایران کے جو وسعت پسندانہ عزائم ہیں شام کے بعد یمن میں اس کا یہ چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایران آگے بڑھ کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈتامگر اس کے لوگ ڈھکے چھپے لفظوں میں دھمکی دے رہے ہیں کہ سعودی عرب کے جارحانہ اقدام سے یہ جنگ اس کی سرحدوں میں بھی داخل ہو سکتی ہے ہمیں یہاں پر یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ جب ہندوستان سے لیکر پاکستان کے بیشتر اخبارات میں ایران کی بات ہی نہیں ہو رہی اور تمام لکھنے والے صرف عراق اور شام میں خلافت کی شکل میں ظاہر ہونے والے ایک نئے فتنے کا ذکر کر رہے ہیں اس کے باوجود عام قاری عام لکھنے والوں اور دانشوروں کے بالکل برعکس کیوں سوچ رہا ہے؟
قارئین کی اپنی سوچ اور فکر سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔اصل میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پچھلے کئی سالوں سے رواداری اور اتحاد کے جنون میں حق اور نا حق کی تمیز کرنا بھی بھول چکے ہیں ۔یہی وہ کمزوری ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے وہ اتحادی جو مخلص نہیں ہیں اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں ۔ہر شخص وہ چاہے کسی بھی مسلک اور فرقہ سے تعلق رکھنے والا مسلمان ہواس کا صرف ایک ہی موضوع ہے عرب انقلابیوں نے اپنی خلافت کا اعلان کر کے فتنے اور عذاب کو دعوت دی ہے حالانکہ ابھی تک ہم نے دنیا کے عظیم فتنوں میں صرف ایک ہی فتنہ کا نام سنا تھااور وہ ہے فتنۂ دجال اور خلافت راشدہ کا منہدم ہو جانا۔مولانا شبلی نے الفاروق میں لکھا ہے کہ اس فتنہ کا آغاز حضرت عمرؓکی شہادت کے بعد ہی شروع ہو چکا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اہل فارس حضرت عمرؓ کے ذریعہ اپنی عظیم تر سلطنت کی تباہی کا صدمہ برداشت نہیں کر سکے تھے اسی لئے انہوں نے گھات لگا کر انہیں شہید کروادیا۔بعد کے حالات میں جب مدینے میں غیر مسلوں کی رہائش اور داخلے پر پابندی لگادی گئی تو عبداللہ ابن سبا جیسے منافق ،اسلام اور مسلمانوں کا حلیہ اختیار کر کے مدینہ میں داخل ہونے لگے ۔
جزیرۃ العرب میں ایران اور حزب اللہ اسی کردار کے ایسے درخت اور پھل ہیں جن کے ظاہر اور باطن کے اسی تضاد کی وجہ سے مسلمانوں کو ہر دور میں نقصان اٹھانا پڑاہے۔ایرانی حکمراں اور علماء اسلام کی پندرہ سو سالہ تاریخی کارنامے اورمساوات کی عظمت کے بر عکس فارس کی تین ہزار سالہ تاریخ پر فخر کرتے ہیں عظمت رفتہ کے اسی جنون میں غرق ایران کے مرحوم بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے جب یہ دیکھا کہ سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور عربوں میں اب کوئی ایسی طاقت ور ریاست نہیں رہی جو ایران کے منصوبہ کو ناکام بنا سکے اس نے امریکہ اور اسرائیل سے تعلق بحال کرتے ہوئے بے شمار اسلحوں کے ذخیرے جمع کرنا شروع کر دیئے تاکہ وہ طاقت کے ذریعہ پورے عرب کو ایران میں شامل کرکے فارس کی عظیم سلطنت کا وقار دوبارہ بحال کرسکے۔دوسری طرف عربوں کو مزیدکمزور کرنے کے لئے اس نے شام کے آخری سپہ سالار ،اور مصر کے صدر جمال عبدالناصر جو عربوں کے لئے میر جعفر اور میر صادق کا کردار نبھا رہے تھے ان کے ذریعے عربوں کو اسرائیل کے خلاف جنگ میں جھونک دیا ۔جمال عبدالناصر نے جان بوجھ کر اپنے تمام چار سو بیس لڑاکا طیارے کو ایک ہی میدان میں کھڑا کر کے اسرائیل کے ذریعے تباہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا اورآخری سپہ سالار حافظ الاسد نے بغیر کسی مزاحمت کے گولان کے سر سبز و شاداب پہاڑی علاقہ کو اسرائیل کے حوالہ کر دیا ۔۱۹۶۷ ؁ ء کی اس جنگ میں پریشان حال فلسطینی مسلمانوں نے جب اپنے آپ کو ان مشکل حالات میں بھی اپنے عزم و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے پڑوسی ملک لبنان میں اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کیا تو فلسطینی مسلمانوں کے اس عزم و حوصلے سے اسرئیل کا خوفزدہ ہونا تو لازم تھا ہی ایران کی رضا شاہ پہلوی حکومت کے بھی کان کھڑے ہو گئے ۔اس دوران حافظ الا سد جو کہ ایرانی حکومت کی خفیہ سازش کی وجہ سے شام کا صدر بن چکا تھا لبنان میں عیسائیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پھوٹ پڑنے والے فساد کا بہانہ بنا کر فلسطینیوں کے گڑھ میں اپنی فوج داخل کر دی اور ۵۲ دنوں کے بے رحم حصار کے بعد عیسائی ملیشیا کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ فلسطینیوں کوکو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کریں ۔دوسری بار ر ۱۹۸۲ ؁ء میں خود اسرائیلی فوج کے سپہ سالار ایریل شیرون شامی فوجوں کی موجودگی میں صابرہ ستیلہ کے کیمپ میں داخل ہو گیا اور درندگی کا وہی طریقہ اختیار کیا جسکی نظیر عیسائی ملیشیا اور حافظ الاسد نے قائم کی تھی ۔ تاریخ میں رابرٹ فشق جیسے مشہور و معروف صحافی جو اس حادثہ کے چشم دید گواہ رہے ہیں ان کی شہادت اور بیان سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اس کے باوجود یہ کہنا ہوگا کہ یہود و نصاریٰ لبنان سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ لبنان میں اس وقت تک کسی حزب اللہ اور شیعہ ملیشیا کا کوئی وجود نہیں تھا ۔ ایرنی حکومت نے پریشان حال فلسطینیوں کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے ایک پیشوا خاندان کے شیعہ عالم موسیٰ الصدر کو لبنان میں شیعوں کو متحد اور مسلح کرنے کا منصوبہ بنالیا ۔موسیٰ الصدر نے اسرائیل کے خلاف نعرہ دے کر فلسطینیوں اور اخوانیوں کو اپنے اعتماد میں لیتے ہوئے ’امل ملیشیا‘ کے نام سے وہاں کے شیعوں کو مضبوط فوجی قوت میں بدل دیا ۔در اصل موسیٰ الصدر کا اصل مقصد ایرانی حکمت عملی کے تحت فلسطینیوں کی تنظیم جو اس وقت لبنان میں ’’رابطہ فلسطینیہ الاسلامیہ ‘‘کے نام سے طاقت ور ملیشیا کے نام سے مشہور تھی اس کا صفایا کرنا تھا تاکہ مستقبل میں ایرانی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے عرب کے اس خطہ میں شیعوں کو کسی طاقت ور ملیشیا سے مزاحمت کا خطرہ نہ رہے۔جب موسیٰ الصدرنے لبنان میں پوری طرح زمین ہموار کرلی تو حافظ الاسد کی فوجی قوت کے سہارے شیعہ’ امل ملیشیا‘ نے تیسری بار عیسایؤں اور یہود یوں کے ہی نقشِ قدم پر فلسطینیوں کے قتل عام کی نئی تاریخ رقم کی بلکہ یوں کہا جائے کہ جو کام یہودی اور عیسائی اپنے بل پر نہیں کر سکے اسے امل ملیشیا نے کلمۂ شہادت کا نام لے کر انجام دیا ۔اٹلی کے ایک مشہور اخبار ریپبلکا (Republica )کے مطابق ایک معذور فلسطینی جو کئی دن سے چل نہیں سکتا تھا شتیلہ کیمپ میں امل ملیشیا کے درندوں کے سامنے ہاتھ اٹھا کر رحم کی بھیک مانگنے لگا ۔جواب میں وہ گولیوں سے بھون دیا گیا۔کویت نیوز ایجنسی کے مطابق صابرہ کیمپ میں پچیس لڑکیوں کی اجتماعی آبرو ریزی کھلے عام پورے کیمپ کے سامنے کی گئی ۔فرانس کا ایک صحافی بیار فردیہ جو قیامت زدہ علاقوں میں اس امید میں چکر لگا رہا تھا کہ اسے کسی طرح صابرہ شتیلہ میں گھسنے کا موقع مل جائے امل ملیشیا کے ایک اسلحہ بردار کے ساتھ اپنی گفتگو کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ فلسطینیوں کو ہزیمت سے دوچار کرنے کے لئے ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے چوبیس گھنٹے کے اندر ہم خود ان کا صفایا کر دیں گے ۔سڑک کے دوسری طرف امل ملیشیا کے ٹینک بلا تمیز گھروں کے بیچ تنگ گلیوں میں مسلسل بمباری کر رہے تھے دو دن تک تو ہم فلسطینیوں کے علاقہ میں جو ہم سے صرف سو میٹر کی دوری پر تھے گھسنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔تیسرے دن جب ہم اس علاقہ میں پہونچے تو پورا بیروت لینڈمائن بن جا چکا تھا۔امل ملیشیا نے جگہ جگہ چیک پوسٹ بنا رکھے تھے زخمیوں کو نہ صرف راستے میں روک لیا جاتا بلکہ جو کسی طرح ہاسپٹل پہنچ گئے انہیں ہاسپٹل میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔اسی دوران ہماری نظر کچھ بوڑھوں ،عورتوں اور بچوں پر پڑی جو اپنی گٹھریاں اٹھائے بھاگ رہے تھے ان میں سے روتی ہانپتی ایک عورت نے کہا کہ گھروں کے ملبہ میں لاشوں کو دبا رہے ہیں اور کچھ لاشیں جلا بھی رہے ہیں ۔پناہ گزیں کیمپ میں غزہ ہاسپٹل کی ایک نرس کا بیا ن تھا کہ ایمرجنسی ہال میں ایک شخص اپنی چودہ سالہ بہن کے ساتھ پڑا تھا امل ملیشیا کے ایک اسلحہ بردار نے بچی سے کہا کہ اسے اٹھا کر لے جاؤ بچی نے کہا کہ وہ کیسے اٹھا سکتی ہے دوسرے لمحے اسلحہ بردار نے دونوں بھائی ،بہن کو اپنی گولیوں سے سرد کر دیا۔ایک دوسری عورت جو ہاسپٹل کے پڑوس کے گھر میں رہتی تھی اپنی دیوار کی شگاف میں سے دیکھا کہ فلسطینی نوجوان ایک کے پیچھے ایک بجلی کے تار سے باندھے ہوئے ہنکائے جا رہے ہیں ۔ دفعتاً اس نے گولیوں کی آواز سنی اور دیکھا کہ سارے نوجوان قتل کئے جا چکے ہیں ۔
تحریک آزادی فلسطین کی تنظیم فتح کے ایک ممبر رائد صلاح نے ۵ اگست ۱۹۵۸ ؁ ء کے اخبار الیوم السابع کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہی موسیٰ الصدر ہے جو لبنان میں شیعوں کی محرومی اور لا چاری کا رونا روتا تھاہم نے اس کا ساتھ دیا ہم نے اس کی امل تحریک کو تربیت دی اور مسلح کیا تاکہ اسرائیل کے خلاف یہ ہمارا ساتھ دیں گے مگر انہوں نے ہمیں جو زخم پہنچایا اسی بات کو رابطہ فلسطینیہ اسلامیہ کے ایک لیڈر نے یوں بیان کیا ہے کہ شیعوں کے ہاتھوں فلسطینیوں قتل کا نہ رکنے والا سلسلہ ثابت کرتا ہے کہ شیعہ ملیشیا امل امت اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کے صف میں کھڑی ہے اور اس گمشدہ کڑی کو پورا کردیا جسے پورا کرنے سے یہود و نصاریٰ عاجز تھے۔جی ہاں یہ وہی شیعہ امل ملیشیا ہے جو آیت اللہ خمینی کے نام نہاد اسلامی انقلاب کے بعد نام نہاد اسلامی نام اختیار کرتے ہوئے حزب اللہ میں تبدیل ہوگئی ۔اس طرح بیروت جو فلسطینی جانبازوں کا فوجی ہیڈ کوارٹر بن چکا تھا ان کی لاشوں کے ڈھیر پر امل ملیشیا کے ذریعہ حزب اللہ کا ہیڈ کوارٹر بنادیا گیا ۔اس نئے اسلامی انقلاب سے اگر ایک بار پھر اخوان ،حماس اور جماعت اسلامی کے لوگ دھوکہ کھا گئے تو اس میں افسوس کی کیا بات ہے ماضی میں منافقت کی اسی دو دھاری تلوار سے امیر المومنین حضرت عمرؓ،عثمان غنیؓ ،حضرت علیؓ اور حسین ابن علی کے ساتھ سینکڑوں اللہ کے بندے شہید کردئیے گئے ہیں ۔مگر اس درمیان دھوکہ نہ کھانے والے صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہدین بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔عراق و شام اور لبنان میں اب جو بچے موسیٰ الصدر ،حافظ الاسد ،بشارالاسداور نوری المالکی کے ظلم و تشدد کے بعد زندہ بچ گئے ہیں اب وہ اپنے دشمنوں کے عماموں کی لمبائی کو پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں کررہے ہیں۔آئیے ہم سب ایک بار پھر متحد ہو کر اس نئی فوج اور نئے انقلاب کی مذمت کریں کیوں کہ ہم نے منافقوں کے ایجنڈوں پر متحد ہونے کی قسم جو کھا رکھی ہے اور پھر ہمیں بار بار دھوکہ کھانے کی روایت کو زندہ بھی رکھنا ہے ! 
عمر فراہی ،جوگیشوری،ممبئی۔موبائل:9699353811

0 comments:

کسانوں کے برے دن تو بی جے پی حکومت کے۔۔۔۔۔۔

کسانوں کے برے دن تو بی جے پی حکومت کے۔۔۔۔۔۔

    وال اسٹریٹ جرنل کے بلاگ نے اپنے ایک مضمون ہندوستان میں خود کشی کرنے والے کسانوں کے مسائل کا حل میں ۲۰۰۰ سے ۲۰۱۳ یعنی تیرہ سال میں کسانوں کی خود کشی کی تعداد ۲۲۵۰۰۰ بتائی ہے ۔جبکہ وزارت ذرعی امور حکومت مہاراشٹر کی جانب سےدئے گئے اعداد شمار کے مطابق ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۴ تک کے تین برسوں میں مہاراشٹر میں فصلوں کی بربادی اور قرض میں ڈوب جانے کی وجہ سے ۳۳۱۳ کسانوں نے موت کو گلے لگالیا ۔ایک ٹی وی نیوز چینل پر اس بات کو بار بار دوہرایا جا رہا تھا کہ ۱۹۹۵ سے اب تک تین لاکھ کسان خود کشی کر چکے ہیں۔بہت ساری موتیں تو میں سمجھتا ہوں کہ رجسٹر ڈ ہی نہیں ہوتی ہوں گی ۔ان کسانوں نے آخر زندگی جیسی عزیز شئے کو ختم کرنے اور اپنے اہل خانہ کو بے یارو مدد گار چھوڑ دینے کے لئے اپنے آپ کو اتنا مجبور کیوں پایا ؟آخر ملک کا وہ طبقہ جس نے سبز انقلاب کے ذریعہ ملک کو غذائی اجناس کے معاملے میں خود کفیل بنایا تھا،اتنا مجبور کیوں ہو گیا ؟حد تو یہ کہ بہادری جفا کشی اور بلند حوصلگی میں اپنی مثال آپ رکھنے والا پنجاب کا کسان بھی اب خود کشی کی جانب گامزن ہو رہا ہے ۔ایک بہت بڑا سوال یہ ہے کہ اگر کسانوں کی خود کشی کا یہی حال رہا تو ملک کی معیشت کا کیا ہو گا کیوں کہ ملک کی معیشت آج بھی فصل پر منحصر ہے آج بھی یہاں کا سب بڑ اذریعہ آمدنی کھیتی ہے ۔ لیکن کسانوں کو ہونے والے اس طرح کے نقصانات اور اسے کے سبب قرض کے بوجھ کے خوف سے جب کسان اسی طرح خود کشی کرتا رہے گا تو دیگر لوگوں کا حوصلہ بھی ٹوٹے گا تو غذائی اجناس میں جو ہم خوف کفیل ہوئے ہیںاور یہ جس کی محنت اور جفا کشی کی بد ولت یہ ہوا ہے ،ہم آج سینہ بھلا کر دنیا کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جب کسان کھیتی کرنا چھوڑ دینگے اس سے گائوں سے شہروں کی جانب ہجرت بڑھ جائے گی گائوں ویران اور شہر آباد ہوں گے تب کئی مسائل اور منھ پھاڑے کھڑے ہوں گے جس سے نپٹنا ہمارے بس کا نہیں رہے گا ۔موجودہ مسئلہ ہی جب ہم حل نہیں کر پاتے ہیں تو مزید مسائل کا سامنا ہم کیسے کر پائیں گے ؟
    اچھے دنوں کے وعدوں پر آنے والی مودی حکومت میں کسانوں کی خود کشی کا سیلاب آگیا ہے اور یہ بیماری مہاراشٹر کی سرحد سے نکل کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کسانوں کی خود کشی کی خبر نہیں آتی ہو ۔اس پرمزید یہ کہ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش سمیت کئی بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں گائے اور اس کی نسل کے ذبیحہ پر عائد کی جانے والی پابندی نے ان سے آخری سہارا بھی چھین لیا ہے ۔دہلی میں عام آدمی پارٹی کی جنتر منتر پر ریلی کے دوران راجستھان دوسہ کے باشندہ گجیندر سنگھ کی خود کشی کے بعد محسوس یہ ہو رہاتھا کہ ملک عزیز کے سیاستدانوں کا ضمیر جاگنے لگا ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ یہ میری خوش فہمی ہو کیوں کہ ابھی بھی گیارہ ماہ پرانی حکومت کے وزیر اعظم مودی پارلیمنٹ میں صرف یہ بیان دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معاملہ کافی سنجیدہ ہے اس لئے اس پر آپ لوگ اپنی تجاویز دیں اس پر غور کیا جائیگا۔مطلب صاف ہے کہ سنجیدگی کااحساس محض سراب ہے یا ہم جیسے صحافیوں کی سادہ لوحی ہے کہ ہم لوگ محض پارلیمنٹ میں شور غل دیکھ اور سن کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سیاستداں مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ ہیں ۔ لیکن ہمارے ارکان پارلیمان اور حکومتی کارندوں کی سنجیدگی اور ان کی نظر میں انسانی جان کی کیا قیمت ہو سکتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب گجیندر کی خود کشی پر راج ناتھ سنگھ پارلیمنٹ میں کچھ بیان دے رہے تھے اسی وقت ان کے پشت میں بیٹھے ان کی ہی پارٹی کے رکن ہنس رہے ہیں۔یہ اس پارٹی کے رکن کی اخلاقی حالت ہے جو اپنے آپ کو اخلاقیات کا پابند بتاتی ہے۔جبکہ حال یہ ہے کہ ہر تیس منٹ میں ایک کسان خود کشی کر لیتا ہے ۔اس سے قبل اخبارات میں نتن گڈکری کا بیان کہ کسان بھگوان اور سرکار پر بھروسہ نہ کریں ۔اس کے علاوہ ان کے ایک اور وزیر کہتے ہیں کسان مرتا ہے تو مرنے دو اسی طرح کی اور بھی غیر ذمہ دارانہ بیان ان کی کسانوں کے تئیں حساسیت کو ظاہر کرتا ہے ۔
    کسانوں کی خود کشی کا مسئلہ لاینحل نہیں ہے لیکن اس کو حل کرنے کے لئے ضرورت ہے سیاسی عزم اور حوصلے کی جو کسی بھی سیاسی پارٹیوں میں نہیں ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ کسانوں کی خود کشی کا معاملہ جو کہ مہاراشٹر تک محدود تھا اب ملک کے طول و ارض میں پھیل گیا ہے ۔اب یہ خبریں اتر پردیش سے بھی آرہی ہیں مدھیہ پردیش اور آندھرا پردیش سے بھی کسانوں کی خود کشی کی مسلسل آرہی خبریں ہمارے ۵۶ انچ کے سینہ کا راز دنیا والوں کے سامنےکھول رہی ہیں ۔افسوسناک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں انسانی ضمیر اور اخلاق کا جنازہ اٹھ چکا ہے ۔کسی کی موت فساد یا بم دھماکوں میں صرف سیاست کی جاتی ہے اس کے تدارک کی طرف کوئی نہیں جاتا۔اگر کوئی جاتا ہے تو اس کو مسلسل بد نام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ موجودہ گلے سڑے سیاسی نظام میں ایک نیا تجربہ عام آدمی کی صورت میں ہوا ۔عوام نے بھی اس کا والہانہ استقبال کیا ۔ دہلی میں عام آدمی کی حکومت تشکیل پا چکی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ایسا برتائو کیا جارہا ہے جس کے بارے میں کہا جائے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے ۔ملک دو سیاسی پارٹیاں جو اس ملک کو امریکہ اور انگلینڈ کی طرح دو سیاسی پارٹی نظام میں ہی لانا چاہتی ہیںکی کوشش یہ ہے کہ وہ کسی نئی سیاسی پارٹی کو ابھرنے نہ دیں ۔شاید دونوں ہی ایسے معاملے میں اکٹھی ہو جاتی ہیں ۔دہلی میں گجیندر کی خو د کشی میں بھی ایسا ہی ہوا ۔ مرنے والا مر گیا لیکن یہ دو نوںسیاسی پارٹیاں اس کی چتا پر اپنی سیاسی دوکان چمکانا چاہتی ہیں ۔جبکہ دو نوں نے ہی کسانوں کے لئے کچھ نہیں کیا ۔اخبارات اور نیوز چینل میں آنے والے ویڈیو اور تصاویر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی ریلی کے مقام پر بھاری پولس فورس ہوتے ہوئے بھی گجیندر کو اتارنے کی کوشش میں پولس کا ایک بھی سپاہی کہیں نظر نہیں آتا ہے ۔عام آدمی کے کنوینر اروند کیجریوال نے تو بلا تاخیر اپنی تقریر جاری رکھنے کے لئے معافی بھی مانگ لی ہے کچھ بھی ہو نئی سیاسی پارٹی اور ان لوگوں میں اتنی اخلاقی جرات تو ہے کہ وہ معافی مانگنے میں دیر نہیں کرتے۔
    منموہن سنگھ نے مہاراشٹر میں ہو رہے کسانوں کی خود کشی کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے کئی ہزار کروڑ کا پیکیج دیا لیکن اس کے بعد بھی کسانوں کی خود کشی رکی نہیں اس کا مطلب صاف ہے کہ پیکیج کی وہ رقم سیاست داں اور کرپٹ بیورو کریسی کی نظر ہو گئی ۔راجیو گاندھی شاید وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے یہ قبول کیا تھا کہ مرکز سے عوام کی فلاح کے لئے جو رقم جاتی ہے اس کا صرف پندرہ فیصد ہی ان تک پہنچ پاتا ہے باقی سب درمیان میں غائب ہو جاتا ہے ۔اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ پندرہ فیصد بھی عوام تک نہیں پہنچ پارہا ہے اسی لئے کاغذات پر تو کسانوں کی مدد نظر آتی ہے لیکن اس کی زمینی حقیقت ان کی خود کشی سے سمجھی جاسکتی ہے ۔ موت بڑی کڑوی حقیقت ہے اور اس سے ہر آدمی بچنا چاہتا ہے ۔زندگی انسان ہی نہیں ہر ذی روح کو پیاری ہوتی ہے ۔لیکن اتنی کڑوی چیز کو گلے لگانے کا مطلب کہ اس کی آغوش میں سو جانے والا پو ری طرح ناامید اور مایوس ہو چکا ہے ۔ مودی حکومت نے تو کسانوں کو ناامیدی اور مایوسی کے گہرے غار میں دفن کردینے کا ہی منصوبہ بنا رکھا ہے ۔تحویل اراضی بل اس کی پہلی کڑی ہے ۔یہی سبب ہے کہ عوام اس کو سمجھ کر اس کی زور دار مخالفت کررہے ہیں ۔میں نے کئی نیوز چینل پر مباحثہ دیکھا اس میں مجھے بی جے پی کی جانب سے ان کے ترجمان کے پاس اول تو سوال کرنے والوں کا کو ئی جواب ہی نہیں ہوا کرتا ہے اور اگر ٹوٹے پھوٹے اور بودے جواب دیتے بھی ہیں تو اس ظاہر سی بات ہے کہ عوام کی تسلی ہونے والی نہیں ہے ۔یہی سبب ہے کہ کانگریس کے یو راج راہل گاندھی لمبی چھٹی کے بعد جب پارلیمنٹ میں گرجے تو بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔اصل میں مودی جی سمجھ رہے ہیں کہ صرف لچھے دار بھاشنوں اور اوبامہ کے تھینک یو اور کیم چھو کہ دینے سے یا ان کی تعریف میں پورا ایک مضمون ٹائم میگزین میں لکھ دینے سے ہی وہ دنیا کے قابل ترین اور مشہور ترین لیڈر ہو جائیں گے یہ ان کی یہ سوچ غلط ہی لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ وہ مشہور ترین لیڈر بن جائیں لیکن مقبول ترین لیڈر نہیں بن سکتے عام انسان یا کوئی رہنما صرف اپنے کام سے جانا جاتا ہے باتوں سے نہیں ۔باتیں تو آج نہ تو کل بھلادی جائیں گی لیکن کام ہمیشہ یاد رہتا ہے ۔پر مشکل یہ ہے کہ انہوں نے الیکشن جس طرح جیتا ہے اس کے بعد یہ عوام کے لئے کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں انہوں نے جس کی دولت کے سہارے الیکشن جیتا ہے فائدہ تو بہر حال اسی کا کریں گے یہی سبب ہے کہ ٹاٹا بولتے ہیں کہ یہ ایک بہتر لیڈر ثابت ہوسکتے ہیں انہیں موقع دی اجان اچاہئے ظاہر سی بات ہے کہ کون بول رہا ہے اور کس کے لئے بول رہا ہے یہ اہمیت رکھتا ہے ۔ایک صحافی دوست کا خیال ہے خواہ کیچھ بھی ہو جائے مودی حکومت اس کسان مخالف بل کو واپس نہیں لے گی ۔مجھے بھی مودی کے آمرانہ طرز سے یہی اندازہ ہو تا ہے ۔حالانکہ اس بل کو انہیں واپس لینے میں ہی عافیت ہے بصورت دیگر بدترین سیاسی موت ان کی منتظر ہے ۔لیکن کہتے ہیں کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی جانب بھاگتا ہے اور بی جے پی کی سیاسی موت آئی ہے تو وہ کسانوں کے لئے موت کا پیغام لے کر آئی ہے جو دراصل ان کی سیاسی موت ثابت ہو گی کیوں اب کے گئے پھر کبھی نہیں آپائیں گے یہ حالات بتا رہے ہیں۔

نہال صغیر،کاندیولی،ممبئی۔موبائل:9987309013

0 comments:

پروپیگنڈے کا شکار مت بنو....پروپیگڈہ دشمن کا مضبوط ترین ہتهیار ہے.

پروپیگنڈے کا شکار مت بنو....پروپیگڈہ دشمن کا مضبوط ترین ہتهیار ہے. 

پروپیگنڈہ اس قدر کرو کہ بس پھر دشمن ایسا بدنام ہو کہ اس کے بارے میں کوئی اچھا گمان تک نہ کر پائے ۔ اسے اتنا گندہ بنا کر پیش کرو کہ ضرب المثال بن جائے۔ قوم کے اہل عقل تو اہل عقل پاگل اور بے وقوف بھی، مرد عورت تو کیا بچے بھی اُسے گالیاں دیں برا جانیں۔ اُسکی تصویر اتنی بری بناو کہ پھر اُس کے ساتھ جو بھی ہو جائے، اُس پر جتنا بھی ظلم ہو جائے، وہ اپنی قوم کو جس طریقے سے بھی یہ احساس دلانے کی کوشش کرے کی وہ قوم کا ہمدرد ہے قوم اُس کی ایک نا سنے اور اسے برا ہی جانے۔ جی ہاں یہ ہوتا ہے پروپیگنڈا اور اس کا مقصد ۔
آج یہی کچھ اہل حق کے ساتھ ہورہا ہے، اتنا برا بنا کے پیش کیا جارہا ہے کہ توبہ ! بے دین تو بے دین ، سیکولر تو سیکولر مولوی بھی اُس کی کھال ادھیڑنے میں لگے ہیں ۔ عقل مند تو عقل مند پاگل اور بے وقوف بھائی گالیاں دینے لگے ہیں۔ ایک ایک عیب کو خوردبین سے تلاش کیا جارہا ہے اور پھر ڈھول پیٹ پیٹ کر دنیا کے سامنے اُسے بیان کیا جارہا ہے، ان کی اچھائیاں بھی برائیاں بنا کر پیش کی جا رہی ہیں، ان کی نیکیاں بدی بنائی جا رہی ہیں، یہاں تک کہ اب حالت یہ ہے کہ ان کا نام آتے ہی ایک عام مسلمان کے دل میں ایک خونی، قاتل، دشمن کا تصور ابھرتا ہے ۔
جبکہ وہ اس امت کے ہمدرد ہیں، اس امت کے لیئے اپنے گھر بار اور جانیں لٹانے والے ہیں، اس امت کو پھر سے خلافت (ہمارا کهوئی ہوئی عزت و اتحاد کا سرچشمہ) کی صورت عزت و بلندی پر فائز کرنا چاہتے ہیں، اس امت کو شرک و کفر، ظلم و استبداد سے بچانا چاہتے ہیں۔
میری یہ باتیں اکثریت کو زہر لگ رہی ہوں گی۔ ناک منہ چڑھا کر کہیں گے ہوں انتہا پسندوں کی تعریف کرتا ہے، کوئی کہے خارجیوں کی تعریفیں کرتا۔ تو جناب ایک مرتبہ سوچیے گا کہ کہیں آپ پروپیگنڈے کا شکار تو نہیں !
سوچیے گا کہ جن کے خلاف امریکہ اور ایران، عربی اور عجمی، سیکولر اور مفاد پرست سارے ہی برسرپیکار ہوں کیا اُن کے خلاف میڈیا جھوٹ نہیں بولے گا؟ کیا ان پر جھوٹے الزام نہیں لگیں گے؟ کیا انہیں بدنام نہیں کیا جائے !!
ہماری کهوئی ہوئی عزت کے قیام سے جس جس کے مفادات پر زد پڑتی ہے وہ سب کے سب اس عزت کے خلاف آج یک زبان ہیں۔ ایسے میں اے میرے مسلمان بھائی لوگوں کی باتوں میں مت آ۔ ان کے تو مفادات کا مسئلہ ہے، ان کی دکانیں بند ہورہی ہیں، ان کی عیاشیاں ختم ہو رہی ہیں اسی لیئے یہ چیخ رہے ہیں !!
فضيل ابن عياض رحمه الله فرماتے ہیں: عليك بطريق الهدى وإن قل السالكون، واجتنب طريق الردى وإن كثر الهالكون

تم راہ ہدایت پر گامزن رہو چاہے اُس پر چلنے والے کتنے ہی تھوڑے کیوں نا ہوں، اور برائی کے راستے سے بچو چاہے اس پر چل کر ہلاک ہونے والے کتنے ہی زیادہ کیوں نا ہوں !

اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ علماء کی قلیل تعداد ہی حق کے ساتھ کھڑیٰ ہوتی رہی ہے، خاص کر کے جہاں معاملہ کلمہ حق کی خاطر جان دینے کا ہوتا تھا۔ چنانچہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے زمانے میں اکثریت یا خاموش تھی یا پھر بادشاہ کے ساتھ ۔
معاصر فی سبیل اللہ بھی اس کی واضح دلیل ہے. ان جیسے طبقے کو کبھی بھی علماء کی اکثریت نے درست نہیں کہا، انہیں ہمیشہ خوارج کہا گیا، تکفیری اور فسادی کہا گیا۔ مگر اس کے باوجود اہل حق کا قافلہ اپنی منزل کی جانب گامزن ہے.

0 comments:

امامِ کعبہ کا فکر انگیز خطاب

امامِ کعبہ کا فکر انگیز خطاب

پیر 9 رجب 1436هـ - 27 اپریل 2015م

انور غازی
’’اسلام میں تعصب اور منافرت کی کوئی گنجائش نہیں۔ بعض لوگ تشدد کے ذریعے دینِ اسلام کے تشخص کو مسخ کررہے ہیں۔ اسلام دُشمن قوتیں دینِ اسلام کو متشدد مذہب کے طور پر پیش کرتی ہیں، حالانکہ اسلام رحمت اور درگزر کا دین ہے جو کسی کو زبردستی دینِ اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کرتا۔ معیشت سمیت تمام معاملات میں قرآن و سنت سے راہنمائی لی جائے۔ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں۔ تفرقے میں نہ پڑیں۔ ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھیں۔‘‘ یہ الفاظ امام کعبہ جناب شیخ خالد الغامدی کے ہیں جو انہوں نے لاہور میں خطبۂ جمعہ میں کہے۔مغرب کی طرف سے اسلام پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو تشدد پر اکساتا ہے۔ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور جہادی نظریہ اس کی واضح علامت ہے۔
جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے، یہ تاریخ مسخ کرنے والے اعتراضات ہیں۔ اگر آپ اسلام کی تاریخ پر سرسری سی نظر بھی ڈالیں تو احساس ہوگا کہ آغاز ہی سے اسلام کی روشنی دنیا کے کونے کونے میں پھیلنا شروع ہوئی۔ پھر موجودہ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر یورپ، افریقہ اور سینٹرل ایشیا تک مسلمان سلطنتیں قائم ہوئیں۔ اگر ہر طرف اسلام کا ڈنکا بجنے لگا تو اس عروج میں بنیادی عنصر مسلمان کا اپنا کردار تھا۔ مسلمان جہاں جہاں گئے وہاں اپنے ساتھ سچائی، احترام انسانیت، ایمان داری، انصاف، مساوات،حیا،محبت،فراخدلی اور خداترسی کا پیغام لے کر گئے۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں گئے چند صدیوں میں اکثریت بن گئے۔ انہوں نے اپنے مثالی قول وعمل اور کردار سے دوسروں کو بھی متاثر کیا۔ آپﷺ نے سو سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں، لیکن ان 100 سے زائد جنگوں میں مسلمانوں اور کفار کے صرف ایک ہزار 18 افراد قتل ہوئے۔
1492ء میں اسپین میں اسلامی حکومت ختم ہوئی۔ ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو مذہبی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان میں تقریباً 30 ہزار کو سزائے موت ملی اور 12000 کو زندہ جلادیا گیا۔ جنگِ عظیم اول میں دو کروڑ اور جنگِ عظیم دوم میں 5 کروڑ سے زائد انسان تہ تیغ ہوئے۔ 1945ء میں جاپان کے دو شہروں ’’ہیروشیما اور ناگاساکی‘‘ پر امریکہ نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایٹم بم گرائے۔ اس بربریت سے چشم زدن میں دو لاکھ افراد پانی کے بلبلے کی طرح پگھل کر رہ گئے۔ کوئی چرند پرند نہیں بچا تھا۔ جو لوگ بچ گئے تھے وہ زندہ درگور تھے۔ 2001ء کے بعد افغانستان میں 6 لاکھ اور 2003ء کے بعد سے عراق میں 12 لاکھ عراقیوں کو بے دردی سے مارا جاچکا ہے، جبکہ اسلامی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے جب بھی علاقے فتح کئے، وہاں کے لوگوں خصوصاً خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا اسلام درگزر کا درس دیتا ہے چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا تھا: آج سب کو معاف کردیا گیا ہے۔
اپنی جان کے پیاسوں تک کو معاف کردیا۔ ہندہ، جس نے آپﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا، آپ نے اس کو بھی معاف کردیا۔ وحشی جس نے حضرت امیر حمزہ کو بے دردی سے قتل کیا تھا، آپ نے اس کو بھی معاف کرنے کے بعد صرف اتنا کہا: ’’میرے سامنے نہ آنا کیونکہ مجھے میرے چچا یاد آجاتے ہیں۔‘‘ یہ اسلام ہی تو ہے جس نے غیروں کی بھی حفاظت کا نہ صرف حکم دیا بلکہ عمل کرکے بھی دکھایا۔ فارس جب فتح ہوا تو بادشاہ نوشیروان کی بیٹی بھی مالِ غنیمت کے ساتھ گرفتار کرکے لائی گئی۔ اسے جب دربارِ نبوی میں پیش کیا گیا تو ان کے سر پر ڈوپٹہ نہیں تھا۔ آپ نے حکم دیا: ان کے سر پر ڈوپٹہ رکھا جائے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! یہ تو مسلمان نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے خواہ کسی کی بھی ہو۔‘‘ انسان تو انسان حیوانوں کے ساتھ بھی اسلام نے اعلیٰ برتائو کیا۔ وہ واقعہ تو سب کو یاد ہوگا ایک اونٹ نے آپﷺ کے قدموں میں سر رکھ کر اپنے مالک کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کا مالک اس سے کام زیادہ لیتا ہے اور اسے گھاس کم دیتا ہے۔ اسکے بعد آپ نے جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے۔ مغرب میں جمہوریت کے بڑے دعوے کئےجاتے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت اور شورائیت بھی تو اسلام کی عطا کردہ ہے۔
اس کے ذریعے تو مسلمانوں کے خلیفہ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ یہی تو قرآن کا حکم ہے اسلام ہی نے ’’مجلسِ شوریٰ‘‘ (پارلیمنٹ) کا حکم دیا۔ جس کو اندازِ حکمرانی اسلام اور مسلمانوں نے سکھائی آج وہ ہی اسلام اور مسلمانوں کو غیر مہذب، شدت پسند، دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔امریکہ اور یورپ نے تو کل ترقی کی ہے۔ اسکی ترقی کے جو اسباب ہیں، وہ ہیںجو اسلام نے عطا کئے۔ تعلیم، انصاف، شورائیت، مساوات، جدید ٹیکنالوجی کا حصول، محنت ومشقت، غریب پروری، عدل۔ یہ سب وہ احکام ہیں جن پر عمل کرکے مغرب نے ترقی کی ہے۔ جدید علوم جن کی وجہ سے مغرب اوجِ ثریا پر پہنچا ہے۔ ان میں سے اکثر کی بنیادوں میں مسلمان ہی ہیں۔ بوعلی سینا، ابوریحان البیرونی، موسیٰ الخوارزمی، الفارابی، یعقوب الکندی، ابن الہیثم، ابن خلدون، ضیاء الدین ابن بیطار اور حکم عمر خیام جیسے بیسیوں مسلمان ہیں جنہوں نے جدید علوم روشناس کرائے۔
طب وصحت ہو یا سائنس، ریاضی ہو یا فلکیات ہر جگہ مسلمان ہی نظرآتے ہیں۔ مغرب کو اندازِ جہاں بانی، صحرانشیں اور سادہ منش مسلمانوں ہی نے تو سکھائے ہیں۔ مسلمانوں کا حکمراں رعایا کی خبر گیری کیلئے راتوں گلیوں میں چکر لگایا کرتا تھا۔ اپنی کمر پر سامان لادکر غریبوں کے گھر پہنچاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا تھا:’’اگر دریائے فرات کے کنارے بھوکا پیاسا بکری کا بچہ بھی مرجاتا ہے تو اس کا ذمہ دار میں ہوں۔‘‘ رسول اکرمﷺ نے اُمت کو ایک جسم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے جسم کے کسی بھی حصے میں تکلیف ہو اس کا درد پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ اُمت کے اس تصور کو مسلمانوں نے جس طرح جذب کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اُمت کے اس تصور سے مزاج میں ایک آفاقیت اور ایک بین الاقوامیت پیدا ہوتی ہے۔ مذہبی رواداری کا فروغ اور تمام مذاہب کا احترام ہونا چاہئے اور یہ بات بھی مدِّ نظر رہنی چاہئے کہ اسلام برحق مذہب ہے اور تاقیامت یہی رہیگا۔ اسلام کا مبینہ دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ ہی اسلام صرف تلوار اور طاقت کے زور پر پھیلا ہے۔
ہاں! اس بات پر اسلام اور مغرب سب متفق ہیں جو اعلیٰ انسانی اقدار اور روایات معاشرے کیلئے مفید ہوں اور اسے فلاح ونجات کی طرف لے جاتی ہوں اس کیلئے طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے اوراسکے جواز پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں، البتہ اعلیٰ انسانی اقدار کے تعین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہی دیگر مذاہب میں سے ایک ایسا مذہب ہے جو تمام فطری، معاشرتی اور سماجی تقاضوں کو کماحقہٗ پورا کرتا ہے۔ اسی کے طرف امام کعبہ نے اپنے اس خطبے میں اشارہ کیا ہے۔امام کعبہ نے اپنے اس خطبے میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ وہ تفرقے میں نہ پڑیں۔ کاش! مسلم دنیا امام کعبہ کی آواز سنے اور اس پر لبیک کہے، کیونکہ آج جو مسلمان پستی اور ذلت کا شکار ہیں اس کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کا آپس کے اختلافات ہی ہیں۔ عالم اسلام کے 58ممالک اور اس کے حکمرانوں میں اتحاد نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی بھی ملک کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ حزبِ اقتدار اور اختلاف میں ذاتی دشمنیاں اور عناد ہیں۔ دینی اور مذہبی جماعتوں، اداروں اور رہنمائوں میں اتنا اختلاف ہے کہ ایک دوسرے کو منافق، ملحد اور ایجنٹ ہونے کے القاب سے نوازتے ہیں۔
صوبائیت، لسانیت، قومیت اور وطنیت کے جھگڑے ہیں۔ مسلمان مسلمان کا ہی گلا کاٹ رہا ہے۔ مسلمان ملکوں میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر حملے ہورہے ہیں۔ ایک اللہ، ایک نبی اور ایک قرآن کے ماننے والے ایک دوسرے کے جانی اور ازلی دشمن معلوم ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق واتحاد پر دیا گیا ہے۔ آپس میں محبت، اخوت، بھائی چارہ، ایمان، اتحاد اور یقین مسلمانوں کا موٹو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں حکم فرمایا تھا: ’’دیکھو! باہمی اختلافات میں نہ پڑنا۔‘‘ قرآن میں ہے ’’اختلاف ہرگز ہرگز نہ کرو۔‘‘ تاریخ اُٹھاکر دیکھیں اختلاف ہی کی وجہ سے بڑے نقصانات اُٹھانا پڑے ہیں۔ اختلافات ہی کی وجہ سے مسلمان ممالک تنزلی کا شکار ہیں۔

0 comments:

یہ سحر بھی ڈھلتے ڈھلتے۔۔۔۔

یہ سحر بھی ڈھلتے ڈھلتے۔۔۔۔ 
ممتاز میر
امت مسلمہ صدیوں سے مایوسیوں اور محرومیوں کا شکار ہے۔مگر پچھلی صدی میں علامہ اقبالؒ نے کہا تھا ’’مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ‘‘اسلئے ہر ابھرتے ہوئے سورج کو بڑے شوق بڑ ی امید سے دیکھتی ہے اور غروب ہو جانے کے بعد بھی شفق کو دیکھ کر خوش فہمی میں مبتلا رہتی ہے اور کوئی اسے اس حالت سے باہر نکالنے کے لئے اگر یہ کہہ دے کے صاحب یہ سورج بھی غروب ہو گیا تو جھگڑتی ہے ۔اور امت کا یہ رویہ پچھلی صدی سے ہے ۔کبھی مصطفیٰ کمال پاشا کو نجات دہندہ سمجھا جا تا ہے تو کبھی صدام حسین جیسے امریکی ایجنٹ کو مجاہد بنا دیا جاتا ہے۔اور یہ حالت عوام تک محدود رہتی تو غنیمت تھا مسئلہ اس وقت بڑا ہو جاتا ہے جب خواص بھی اس قسم کی خوش فہمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
یہ ملت اسلامیہ کی بڑی بد قسمتی ہے کہ کبھی اس کے سورج خود اپنی حماقتوں سے غروب ہوتے ہیں اور کبھی غیروں کی سازشوں سے ۔پچھلی صدی میں سب سے پہلی امید کی کرن افغانستان سے طلوع ہوئی تھی مگر ۵ سال کی بہترین انداز حکمرانی دے کر غیروں کی جارحیت اور اپنوں کی بزدلی سے غروب کر دی گئی اور ملت ٹک تک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی رہی۔آج مشرق وسطیٰ میں جو تباہی و بربادی مچی ہے،سعودی عرب کے شاہوں کے زیرجامے گیلے و پیلے ہو رہے ہیں اس کی تمہید طالبان کی تباہی ہی تھی ۔
کبھی بہت سارے کمزور ملکر طاقتور بن جاتے ہیں اور کبھی ہر کمزور کی تباہی پر قطار میں لگے دوسرے کمزور کو یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ اس کا نمبر نہیں آئے گا مگر ایسی خواہشات پوری نہیں ہوتی۔طالبان کے بعد صدام کا نمبر آیا تب شام سے لے کرسعودی عرب تک سب تماشہ بھی دیکھ رہے تھے اور تبصرے بھی کر رہے تھے۔اب صاحب سعودی عرب کا بھی نمبر آ چکا ہے اسمیں حیرت انگیز بات کیا ہے ۔ انھیں خادم الحرمین شریفین ہونے کا زعم ہے اور کچھ برخود غلط حضرات انھیں خادم الحرمین سمجھتے بھی ہیں مگراللہ کے نزدیک ان کا statusیقیناً ایک عام آدمی سے بھی کم ہوگا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جو جدید ترین اور طاقتور ترین امریکی فوج ڈھائی تین دہائیوں سے سعودی عرب کی حفاظت کے نام پر وہاں قیام پذیر ہے اس کے رہتے پاکستان سے کیوں مدد مانگی جا رہی ہے اور اگر وہ ایسے وقت میں کام نہیں آسکتی تو پھر اسے پالنے کی ضرورت کیا ہے۔اس سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ غلام ابن غلام اماراتی وزیر پاکستان کو تو دھمکا رہا ہے مگر اس کی ہمت نہیں ۲۵ سالوں سے سعودی عرب میں پلنے والی امریکی فوج کے خلاف لب کشائی کر سکے۔بہرحال کس کس کا رونا روئیں ۔خدا جانے امت کو کیا ہو گیا ہے۔صدیاں بیت گئیں کوئی مخلص بے لوث دیانتدارقائد میسر نہیں آتا۔شاید آتا بھی ہو اور ہم خود اسے بگاڑ دیتے ہوں۔پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی کے آخر میں ایران میں ’’اسلامی انقلاب ‘‘ آیا تھا۔سبھی بڑے خوش ہوئے تھے ۔ حالانکہ کچھ علماء کرام نے اس پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا مگر عموماً اس کا استقبال کیا گیا تھا۔یہاں تک کہ انھوں نے اپنے انقلاب کو برآمد کرنے کے لئے خانہء کعبہ کو یرغمال بنا لیا تھاپھر بھی عوام ان سے ناراض نہ تھی۔دراصل انھوں نے اپنے انقلاب کی حفاظت کے لئے غیر معمولی قربانیاں دی تھیں۔ایران میں جگہ جگہ بم دھماکے کروائے گئے تھے۔پوری پارلیمنٹ کو بم سے اڑا دیا گیا تھا۔اور یہ سب چونکہ امریکہ کر رہا تھا اسلئے اسے دہشت گردی کا نام بھی نہیں دیا گیا۔اپنے خلاف ہونے والے ہر ظلم پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایرانی قوم نے اپنے انقلاب کو آگے ہی بڑھایااور دنیا کا ہر مسلمان سنی ہونے کے باوجود ان کے ساتھ رہایہاں تک کہ احمدی نژاد مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے۔وہ حزب اللہ کے حسن نصر اللہ،حماس کے اسمعیٰل ہانیہ اور ترکی کے رجب طیب اردگا ن کسی وقت عالم اسلام کے گنے چنے لیڈر تھے۔مگر اپنے دور صدارت کے آخری وقت میں جناب احمدی نژاد نے شام کے ظالم ڈکٹیٹر بشار الاسد کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔وہ ایران جو کبھی اپنے ’’اسلامی انقلاب‘‘ کو برآمد کرنے لئے اتاؤلا ہوا کرتا تھا اس کے انقلاب نے شام تک آتے آتے دم توڑ دیا۔کیا اسلئے کہ شام کا حکمراں طبقہ علوی شیعہ ہے؟ہمیں اس میں شک ہے۔کیونکہ خود ایرن کے جید علماء کرام انھیں کافر کہتے ہیں۔
ہمارے کچھ احباب کہتے ہیں کہ یہ ایران کی سیاسی یاstrategic مصلحتیں ہیں۔ہم ایسی ہر مصلحت کو ناقابل اعتناء سمجھتے ہیں جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہویا پھر آپ یہ اعلان کردیں کہ ہم مذہبی لوگ نہیں۔اور اب ایران اور حزب اللہ مشرق وسطیٰ میں جو کچھ کر رہے ہیں اس سے ہمیں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ اب تک جو کچھ یہ لوگ کر رہے تھے وہ’’تقیہّ ‘‘ تھا۔عالم اسلام کو بے وقوف بنانے کا ایک طریقہ تھا۔اب ہم یہ بھی سمجھتے ہیں ایران ایٹم بم بھی بنا رہا ہے (اسے اس کا صد فی صد حق ہے مگر جھوٹ بولنے کا نہیں)اس طرح ۳۶ سال پہلے جو سورج طلوع ہوا تھا کم سے کم ہمارے لئے تو غروب ہو چکا ہے۔ اس درمیان سوڈان سے بھی کچھ توقعات اس وقت وابستہ ہوئی تھیں جب جنرل عمر البشیر اور حسن ترابی ایک دوسرے کے ساتھ آگئے تھے ۔مگر پھر دسمبر ۹۹ میں دونوں کے درمیان اختلافات شروع ہوئے اور حسن ترابی کو جو کہ سوڈان کی تحریک اسلامی کے سربراہ ہیں حکومت اور پارٹی کے تمام عہدوں سے ہٹا دیا گیا ۔اختلافات اتنے شدید ہوئے کہ ۲۰۰۱ میں انھیں حوالہء زنداں کر دیا گیا۔۲۰۰۵ میں وہ جیل سے رہا ہوئے اب پھر کچھ دنوں سے یہ خبریں آرہی کہ جنرل عمر البشیر اور حسن ترابی ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ہم جیسے صرف دعا ہی کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں کہ سچ مچ ایسا ہو۔
۱۳ سال پہلے مشرق اور مغرب کی سرحدوں پر واقع اسلامی ملک ترکی میں بھی ایک سورج طلوع ہوا تھا ۔رجب طیب اردگان کی سربراہی میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے ترکی کے عام انتخابات میں تقریباً ۲ تہائی اکثیریت سے فتح حاصل کی تھی ۔جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اسلام پسندی کا چہرہ رکھتی ہے۔اور ترکی کی اسٹبلشمنٹ سیکولرہونے کی دعویدار ہی نہیں اپنے کو اس کا محافظ بھی کہلاتی تھی۔مگر ان کا سیکولرزم بڑا ہی عجیب و غریب تھا۔انھیں ہر دھرم اور ازم گوارہ تھا سوائے اسلام کے۔انھیں ہر ملک پیارا تھا سوائے مسلم ممالک کے،بلکہ اسرائیل سے تو ان کے خصوصی تعلقات تھے۔سوچئے یہ کتنی بڑی چھلانگ تھی جس کے مین کھلاڑی رجب طیب اردگان تھے۔غالباً یہ فتح بھی اس وقت حاصل ہوئی تھی جب اردگان جیل میں تھے۔اسلئے جب حکومت بنانے کی نوبت آئی تو پہلے چند ماہ عبداللہ گل وزیر اعظم رہے تھے۔اس کے بعد سے آج تک اردگان ۳ عام انتخابات میں اور ۲ بار ریفرنڈم میں فتح حاصل کر چکے ہیں۔جس میں سے ایک تبدیلیء دستور کے متعلق تھا۔رجب طیب اردگان ترکی فوج کوجو کہ مصطفیٰ کمال پاشا کی ذریت تھی بیرکوں میں نہ صرف واپس بھیج چکے ہیں بلکہ سول حکومت کے خلاف ان کی ہر سازش کو ناکام بنا کرانھیں سلاخوں کے پیچھے بھی پہونچا چکے ہیں۔اب ظاہر ہے کہ وہاں جہاں وزیر اعظم کو جیل میں ڈالا گیا ہو کسی کو پھانسی دی گئی ہو اگر کوئی سیاستداں اتنی کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو اس کا دماغ ساتویں آسمان پر پہونچ جانا ’’واجب‘‘ ہے۔ہم بھلے ہی اس خوش فہمی میں مبتلا رہیں کہ اسلام پسندوں کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا۔فی زمانہ دین پسندوں کی بھی یہ ذہنیت بن چکی ہے کہ دین بیزاروں کی طرح ہم فکروں کے سو خون معاف کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
اب ۲۰۱۴ میں رجب طیب اردگان وزیر اعظم کی دو ٹرم پوری کرکے ترکی کے صدر بن چکے ہیں ۔انھوں نے پہلے ہی ہلّے میں۵۲ فی صدی ووٹ حاصل کیا ہے ۔اسلئے صدر بنتے ہی انھوں نے ترکی میں صدارتی نظام کی وکالت شروع کر دی ہے گو کہ اب بھی ترکی کی وزارت عظمیٰ پر ان کا اپنا ہی آدمی براجمان ہے۔اب ان کے ہر بیان اور ہر قدم سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ڈکٹیٹرشپ یا totaliterianism کی طرف جا رہے ہیں۔ہم نہ صرف اپنا بلکہ ہر دین پسند ادیب صحافی و دانشور کا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ رجب طیب اردگان کو روکے بصورت دیگر یہ عالم اسلام کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔ذیل میں ہم کچھ اور نکات پیش کر رہے ہیں جس سے ہمارے موقف کو تقویت ملتی ہے[۱]فی الوقت وہ جس محل میں قیام پذیر ہیں وہ دنیا کا سب سے بڑا صدارتی محل ہے جسے انھوں نے خود اپنے دور وزارت عظمیٰ میں بنایا ہے وہ بھی ناجائز زمین پر۔مذکورہ صدارتی محل محفوظ جنگلاتی زمینprotected forest land پر بنایا گیا ہے۔اگر وہ سچے اسلام پسند ہیں تو انھیں ایسے اور اتنے بڑے صدارتی محل میں نہیں رہنا چاہئے۔[۲]دسمبر ۲۰۱۳ میں ان کے اور ان کے وزراء کے خلاف ایک بڑا کرپشن اسکینڈل اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔اب جنھوں نے وہ الزامات لگائے تھے اور گرفتاریاں کی تھیں انھیں جیل بھیجا جا رہا ہے۔ہم آج بھی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ سچائی کیا تھی ۔ہم نے اس سے پہلے بھی لکھا تھااب پھر لکھ رہے ہیں کہ فتح اللہ گولن کو ترکی آکرمذاکرات کی میز پر اپنے اختلافات طے کرنا چاہئے۔بصورت دیگر یہ ترکی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انھیں امریکیوں کے قبضہ سے رہا کروائے۔ہمیں نہیں لگتا کہ ان جیسا دانشور جسکی اسلام پر غیر معمولی کتابیں ہوں مسائل کے حل کے لئے غیر اسلامی راستہ اختیار کرے گا۔[۳]کرپشن اسکنڈل کے بعد سے اردگان پر میڈیا کو دبانے کے الزامات لگ رہے ہیں انھوں نے You tube & Twitter پر پابندی عائد کر دی تھی۔اور بہت احتیاط کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ الزامات میں سچائی ہے [۴]Gezi park میں کسی زمانے میں قدیم عثمانی فوجیوں کی بیرکس تھیں جسے ۱۹۴۰ میں منہدم کرکے عوامی تفریحی مقام بنا دیا گیا تھا شہر میں یہ واحد تفریحی اور ہری بھری جگہ تھی ۔جناب اردگان یہ چاہتے تھے کہ اس تفریحی مقام کو مٹا کر دوبارہ عثمانی فوجیوں کی بیرکس بطور یادگارتعمیر کی جائے۔مگر عوام نے ان کی مخالفت کی اور ۲۸ مئی ۲۰۱۳سے احتجاج شروع کیا جسے Gezi park protest کا نام دیا گیا جناب اردگان نے اس سے ڈکٹیٹرانہ انداز سے نپٹا۔اس میں ۱۱ افراد ہلاک اور ۸۰۰زخمی ہو گئے مگر انھوں نے اردگان کو اپنے مقصد میں ناکام کر دیا ۔فی الوقت عدالت میں یہ کیس جاری ہے ۔متاثرین کی جانب سے یہ کیس ایک وکیل محمد سلیم کراز لڑ رہا تھا۔اس وکیل کو چند ہفتے پہلے دو لوگوں نے اغواء کر لیا ۔پولس کی کمانڈو کاروائی میں اغوا کرنے والو ں کے ساتھ ساتھ مغوی سلیم کراز بھی ہلاک ہو گیا۔اب زبان خلق کہتی ہے کہ یہ اس وکیل سلیم کراز کو ہلاک کرنے کا ڈرامہ تھا۔کیونکہ محترم جناب رجب طیب اردگان نے اس پوری کاروائی کے بعد کہا’’آپریشن کامیاب رہا ‘‘[۵]استنبول یونیورسٹی کے ریکٹر کے انتخاب میں محمود اے کے نامی اردگان کے خاص آدمی پہلے نہیں دوسرے نمبر پر رہے اس کے باوجودریکٹر شپ سے انھیں ہی نوازا گیا۔[۶]ترکی کی سب سے زیادہ طاقتور جاسوسی ایجنسی MIT کے سربراہ حکن فدان نے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کے مشورے سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جو جناب اردگان کوبجا طور پر ناگوار گذرا۔ترکی میں ۷ جون کو عام انتخابات ہیں اور فی الوقت وہاں بیوروکریٹس کے استعفوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے سب حکمراں پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں مگر اردگان فدان کو بطور جاسوسی سربراہ ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔اسلئے حکن فدان کو استعفیٰ واپس لے کر اپنے عہدے پر واپس جانا پڑا۔اب اگر اپوزیشن اسے خلاف قانون قرار دے کر شور مچا رہی ہے تو وہ بھی غلط نہیں ہے۔
یہ بہت معمولی معمولی باتیں ہیں مگر یہ ترکی کے مستقبل کے اشارے ہیں۔ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہم صرف دعا کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں کہ ہمارے بدترین خدشات غلط ثابت ہوں ورنہ اس لنگڑی لولی زمانے کی ستائی ہوئی امت مسلمہ کو ایک اور چرکہ نصیب ہوگا۔ابھی وقت ہے اگر ذرائع ابلاغ ان کے پیچھے پڑ گئے تو انھیں روکا جا سکتا ہے۔۷ جون کے انتخابات کے نتائج بھی ان کے مزاج کی سمت طے کرنے میں اہم رول ادا کریں گے ۔ہم دعاگو ہیں کہ اللہ ایک غیر معمولی شخص کو فرعونیت سے بچائے۔آمین 
ممتاز میر

07697376137 

0 comments: