قید وبند کی صعوبتیں اٹھانے والے بچوں کے تاثرات

1:08 PM nehal sagheer 0 Comments

 قید وبند کی صعوبتیں اٹھانے والے بچوں کے تاثرات
صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینی نونہالوں پر انسانیت سوز مظالم
رام اللہ ۔۔۔ مرکزاطلاعات فلسطین

اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف منظم ریاستی دہشت گردی کسی سےڈھکی چھپی نہیں۔ جنگی جرائم کے مرتکب صہیونی فوجی، پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے اہلکار نہ صرف بڑی عمر کے فلسطینیوں پر ہولناک مظالم ڈھاتے ہیں بلکہ نام نہاد الزامات کے تحت حراست میں لیے گئے کم عمرفلسطینیوں کو بھی انسانیت سوز مظالم کا سامنا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق گرفتاری سے قبل کم سن بچوں  پرشکار کی طرح کتے چھوڑے جاتے ہیں جو انہیں بھنبھوڑتے، نوچتے، ان کے کپڑے پھاڑتے اور انہیں بری طرح زخمی کرکے صہیونی فوجیوں کے لیے’سکون کا سامان‘ مہیا کرتے ہیں۔ اگر کتے نہ چھوڑے جائیں تو درندہ صفت فوجی خود کتوں سے بدتر بن جاتے ہیں جو کم عمربچوں کے سر عام کپڑے اتار کرانہیں ہولناک تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ پھر انہیں زنجیروں میں جکڑنے کے بعد گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ ایسا وحشیانہ سلوک کسی سنگین اور نہایت خطرناک دہشت گرد کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا جیسا ان معصوم فلسطینیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جنہیں مائوں کا دودھ چھوڑے ابھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں گذرا ہوتا ہے۔
جیلوں میں ڈالے جانے کے بعد ان پر جسمانی، نفسیاتی، ذینی اور جنسی تشدد کے نہایت مکروہ ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کم عمرفلسطینیوں کے ساتھ بھی خطرناک جنگی مجرموں کے طورپر سلوک کیا جاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ صہیونی عقوبت خانوں میں انسانیت سوز مظالم کا یہ سلسلہ کسی سے ڈھکا چھپا بھی نہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور عالمی برادری بھی ان سارے مظالم سے اچھی طرح آگاہ ہے، لیکن اس کے باوجود مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صہیونی جنگی مجرموں کے جرائم پر دانسہ خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔
حال ہی میں فلسطینی محکمہ اسیران کے دفتر سے جاری ایک رپورٹ میں صہیونی فوج کے ہاتھوں کم عمر فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال جولائی اور اگست کے دوران غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے بعد صہیونی فوج کا کم عمر فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں پردوران تفتیش تشدد کے دوسرے اور تیسرے درجے کے نہایت دردناک حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ کم عمربچوں کو ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا سامنا ہے۔ احتجاجی مظاہروں کے دوران زخمی حالت میں گرفتار کیے گئے بچوں کو جیلوں میں تڑپتا دیکھ کر صہیونی جنگی مجرموں کو کیوں کر تسلی نہیں ہوگی، کیونکہ جیلوں میں قید ہزاروں مریض فلسطینیوں کے ساتھ بھی تو یہی کچھ ہو رہا ہے۔ قیدیوں کے لیے کون سا علاج اور کون سی طبی سہولیات؟۔ اگر اس طرح کا کوئی دعویٰ اسرائیل کی جانب سے کیا جاتا ہے تو یہ صرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
سرعام بدسلوکی
رپورٹ میں کم عمرفلسطینی بچوں کے ساتھ صہیونی فوج، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی سرعام ہونے والی بدسلوکی کی کئی مثالیں بہ طورشواہد پیش کی گئی ہیں۔ اگرچہ بیان کردہ واقعات اصل اعدادو شمار کے اعتبار سے آٹے میں نمک کےبرابر ہیں تاہم ان سے صہیونی فوجیوں کی سفاکیت بے نقاب کرنے میں ضرور مدد ملتی ہے۔
سولہ سالہ حمزہ ابو ھاشم نے بتایا کہ وہ الخلیل شہر کے شمال میں بیت امر کے مقام پر یہودی کالونی’’کرمی ٹزور‘‘ کے قریب کھیل رہا تھا۔ اس دوران اچانک اسرائیلی فوجیوں کا وہاں سے گذر ہوا۔ انہوں نےبغیر کسی وجہ کہ اپنے تفتیشی کتے مجھ پر چھوڑ دیے۔ انہوں نے مجھے خوب بھنبھوڑا۔ یہاں تک کہ میرا جسم لہو لہان ہوگیا۔ کتوں نے میرا جسم بری طرح نوچ ڈالا تھا۔ میرے ہاتھ، پائوں، گردن، چہرہ، کمر غرض جسم کے بیشتر حصوں میں کتوں کے کاٹنے سے گہرے زخمی آئے تھے۔
اس پرمستزاد یہ کہ کتوں سے چھڑانے کے بعد درندہ صفت صہیونی فوجیوں نے بھی اپنے ہاتھوں کی ہوا مجھ پر نکالی۔ انہوں نے مجھے اتنا مارا کہ میں بے ہوش ہو گر پڑا۔ انہوں نے مجھے بے ہوشی کی حالت میں گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالا اور ایک اسپتال میں لے گئے۔ مجھے ہوش آیا تو میں ایک اسپتال میں تھا جہاں میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں زنجیریں تھیں جنہیں بیڈ کے ساتھ باندھا گیا تھا۔ میں نے حرکت کرنے کی کوشش کی لیکن زخموں سے چور جسم اور سخت تکلیف کی وجہ سے ہوش میں آنے کے بعد بھی بے ساکت پڑا رہا۔ تین دین تک مجھے اسپتال میں رکھا گیا۔ میرے پاس دو باوردی مسلح پولیس اہلکار ہمہ وقت موجود رہتے۔ جہاں تک میرے زخموں کی مرہم پٹی کا معاملہ ہے تو وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ تیسرے دن جب مجھے اسپتال سے عتصیون نامی ایک سیکیورٹی سینٹر منتقل کیا گیا تو اس وقت بھی میرے زخموں سے خون جاری تھا۔
مجھ سے چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ جب زنجیروں میں جکڑ کر تفتیشی مرکز منتقل کیا گیا تو کچھ ہی دیر کے بعد یہودی تفتیش کار میرے پاس آئے۔ انہوں نے نہایت سخت لہجے میں مجھے کہا کہ ’’ہم جو بھی کہیں تم وہ کچھ مان لو اور اعتراف جرم کرلو‘‘۔ میں خاموش رہا کیونکہ میں کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ مجھے کہا گیا کہ تم نے یہودی فوجیوں پر سنگ باری کی ہے۔ تم یہ جرم مان لو۔ میں نے انکار کردیا کیونکہ میں نے تو کبھی کسی کو ایک پتھر بھی نہیں مارا تھا۔ صہیونی تفتیش کار بار بار میرے پاس آتے اور مجھے دھمکیاں دیتے اور ساتھ فوجیوں پر سنگ باری کا اعتراف کرنے کا کہتے۔ سخت تکلیف میں ہونے کے باوجود میں نے ایک ناکردہ جرم کا اعتراف کرنے سے کھل کر انکا کردیا۔ اس کے بعد وہ مجھے’عوفر‘ جیل لے گئے۔ وہاں میں تین ماہ تک نہایت سخت حالات میں پابند سلاسل رہا۔ وہاں بھی تفتیش کا سلسلہ جاری رہا اور یہودی تفتیش کار مجھے ڈیڑھ سال تک قید بامشقت کی سزا کے ساتھ ساتھ وحشیانہ تشدد کی بھی دھمکیاں دیتے۔ چونکہ مجھے پہلے بھی تین بار گرفتار کیا جا چکا تھا۔ اس لیے میں ان کے نزدیک ایک عادی مجرم تھا حالانکہ سنگ باری کا الزام پہلے بھی ثابت نہیں ہو سکا تھا۔
ایک دوسرے 16 سالہ سابق اسیر علی عبداللہ صالح سویدان نے بتایا کہ اس کا تعلق مغربی کنارے کے شہر قلقیلیہ کے عزون قصبے سے ہے۔ یہ 12 ستمبر 2013 ء کا واقعہ ہے کہ میں عزون قصبے کے داخلی راستے پر تھا کہ اچانک ایک یہودی آباد کار نے مجھے لاٹھیوں سے اندھا دھند پیٹنا شروع کردیا۔
اس اچانک حملے کی وجہ مجھے معلوم نہیں تھی اور میں مسلسل مسلح یہودی آباد کار سے پوچھنے کی کوشش کررہا تھا کہ میرا قصور کیا ہے اور تم مجھے کیوں مارے جا رہے ہو؟۔ اسی اثناء میں یہودی فوجی بھی وہیں آن پہنچے۔ انہوں نے آئو دیکھا اور نہ تائو، یہودی آباد کار کے ساتھ مل کرمجھے مارنا شروع کردیا۔ اب مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ مل کرمجھے جان سے مارنا چاہتے ہیں۔ میں بے ہوش کر گر پڑا۔ انہوں نے مجھے زنجیرں میں جکڑ کر ایک فوجی جیپ میں ڈالا۔ اور ایک فوجی کیمپ میں لے آئے۔ مجھے ہوش آیا تو میرے جسم پر لباس نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ یہودی فوجیوں نے میرے کپڑے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیے تھے۔ ہوش میں آنے کے بعد انہوں نے مجھے ایک بینچ پر بیٹھنے کو کہا۔ میں نے ان سے اپنے کپڑے مانگے۔ انہوں نے پھٹے ہوئے اور خود آلود کپڑے مجھے دے دیے۔ میں وہ پہن لیے۔ کچھ دیر بعد یہودی آباد کاروں نے میرے قمیض پھر اتار پھینکی۔
اس کے بعد یہودی تفتیش کار باری باری مجھے مارنے لگے۔ تشدد کا یہ سلسلہ وقفے وقفے سے کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران مجھے کوڑے مارنے کے ساتھ ساتھ بجلی کے کرنٹ بھی لگائے گئے۔ ایک یہودی دہشت گرد فوجی نے اپنا جلتا ہوا سگریٹ میری پشت پر رکھا یہاں تک کہ وہ بجھ گیا۔
اس وحشیانہ تشدد کے بعد مجھے ’’ارئیل‘‘ کالونی میں منتقل کیا گیا۔ وہاں پربھی مجھے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مجھے بار بار اقبال جرم کرنے کا کہا جاتا۔ میں مسلسل انکار کرتا رہا۔ بالآخرایک تفیش کار نے اپنی بندوق مجھ پر تان لی دوسرے نے عبرانی میں لکھی ایک تحریر میرے سامنے رکھی اور کہا کہ میں اس پراپنا انگوٹھا لگائوں اور دستخط کروں۔ اس طرح وہ جان سے مارنے کی دھمکی کے ذریعے مجھ سے جعلی اعتراف جرم کرانے کے بعد واپس چلے گئے۔ جعلی اقرار نامے کو ایک فوجی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سے مجھے سلوہ ماہ قید کی سزا دلوائی گئی۔
مذکورہ دو واقعات ان ہزاروں واقعات کا حصہ ہیں جو ہرچھوٹے ، بڑے، مرد عورت فلسطینی اسیر کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ہرفلسطینی پر اسی طرح کی مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ ہرایک کو جعلی اقرار ناموں پرطویل طویل سزائیں دی جاتی ہیں۔
بچوں کو سنگین صورت حال کا سامنا
فلسطینی اسیران کے حقوق کے لیے سرگرم قانون دان ایڈووکیٹ اشرف ابو سنینہ کا کہنا ہے کہ زیرحراست کم سن بچوں پراسرائیلی جیلوں میں ڈھائے جانے والے مظالم ناقابل بیان ہیں۔ بعض اوقات بچوں کو اسرائیلی فوج کے جعلی عرب فوجی گرفتار کرتے ہیں جبکہ بعض اوقات اسپیشل فورس کے کمانڈوز کےہاتھوں کم عمر فلسطینیوں کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ دوران حراست ان پر جسمانی اور نفسیاتی تشدد اس حد تک کیا جاتا ہے کہ کئی بچے رہائی کے بعد جسمانی یا نفسیاتی طورپر معذور ہوچکے ہوتے ہیں۔ نفسیاتی دبائو کا شکار ہونے والے بچوں کے علاج کے لیے کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نفسیاتی تشدد میں بچوں کو ان کے والدین سے ملاقات کی اجازت نہ دینا، کئی کئی روز تک نیند سے محروم رکھنا، مریض بچوں کو علاج کی سہولت نہ دینا، پورے خاندان کو گرفتار کرنے کی دھمکیاں دینا۔ بچوں کی مائوں، بہنوں اور دیگر خواتین کی آبر ریزی کی دھمکیاں دینا۔ گالیاں دینا اور قبیل کے کئی دوسرے مکروہ حربے شامل ہیں۔
اشرف ابو سنینہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی تفتیش کاروں سے رحم کی توقع رکھنا عبث ہے کیونکہ انسانی ہمدردی نام کی کوئی چیز ان کے اندر سرے سے ہے ہی نہیں۔ سنگ باری کے جعلی الزامات کے تحت جب کم عمربچوں کو اس طرح کے سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑتا تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو فلسطینی صہیونی ریاست کے خلاف بندوق اٹھاتے اور دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔ انہیں کس طرح کے وحشیانہ مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔
انسانی حقوق کی تنظیم’’ضمیر‘‘ سے وابستہ ماہر قانون مراد جاد اللہ کا کہنا ہے کہ گرفتار کیے گئے فلسطینی اور اسرائیلی بچوں کے درمیان اسرائیلی جیلوں میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیلیوں کے جن جرائم پیشہ کم عمر لڑکوں کو حراست میں لیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ان کے ساتھ نہایت ہمدردانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ جیلوں میں ان کی اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے اور انہیں طرح طرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہودیوں کے بچوں کو ایک نہیں کئی کئی وکیل رکھنے کی اجازت ہے جبکہ فلسطینی بچوں کے مقدمات زیادہ تر فوجی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔ انہیں وکیل کا حق نہیں دیا جاتا۔ عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔

0 comments: