کارٹون شائع کرنے والی براڈ مائنڈیڈ ایڈیٹر کو بڑھاوا دینے کی کوشش

1:03 PM nehal sagheer 0 Comments

ابو عدنان ۔ ممبئی

اتر پردیش کے ایک ملٹی ایڈیشن اخبار اودھ نامہ کے ممبئی ایڈیشن کی نام نہاد ایڈیٹر جس نے نبی ﷺ کا وہ گستاخانہ کارٹون شائع کیا تھا جسے فرانس کے دریدہ دہن میگزین چارلی ہیبڈو نے شائع کیا تھا اور اس پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج تھے ۔دوسرے دن حالات کو بگڑ تا دیکھ اس نے اخبار کے اول صفحہ پر معذرت نامہ شائع کیا تھا ۔اس طرح کے معذرت نامے صرف دنیا وی قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے ہوتے ہیں ۔اس کی شرعی حیثیت کچھ نہیں ہے ۔شریعت میں شاتم رسول کی کی سزا صرف موت ہے الا یہ کہ وہ اس فعل قبیح سے توبہ کرلے اور اس پر دل سے شرمندہ ہو تو اللہ بڑا توبہ کرنے والا ہے ۔لیکن یہ باتیں اس کے چال ڈھال اس کے بات برتاؤ سے ظاہر ہونی چاہئے ۔جبکہ اس کے چال ڈھال سے یہ ساری باتیں ظاہر نہیں ہوتیں ۔تسلیمہ نسرین کی ’لجا ‘ میں اسے کوئی کمی نظر نہیں آتی ۔نہال صغیر کہتے ہیں کہ جس وقت اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اس ناول میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے اس کی اسلام دشمنی ظاہر ہو میں نے اس سے اس وقت کہا تھا اگر آپ لجا پڑھ چکی ہیں اور اس میں کوئی کمی آپ کو نظر نہیں آئی تو ایک بار اور پڑھ لیں ۔لیکن ظاہر سی بات ہے کہ وہ خود اسی ملعونہ ذہنیت کی تھی اور ہے اس لئے اسے اس کتاب میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی اصل میں وہ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتی ہے تو اسے اپنے قبیلہ والوں میں کوئی کمی کیوں نظر آئے گی۔
مذکورہ معاملہ میں امت کی طرف سے سوائے ایف آئی آر درج کرانے کے اور کوئی احتجاج یا کورٹ میں انٹروین پٹیشن وغیرہ داخل نہیں ہوا جس کے نتیجہ میں اس کی گرفتاری تک نہیں ہوئی ۔ صرف ایک دن جبکہ ممبرا میں تھانہ کے سامنے کچھ تنظیموں نے احتجاجی دھرنا اور بھوک ہڑتال کیا تھا تب پولس نے دباؤ کے تحت چند گھنٹوں کے لئے اسے حراست میں لیا گیا ۔اگر اسی طرح کا دباؤ مسلسل ڈالا جاتا تو وہ آزادانہ طور پر نہیں گھوم رہی ہوتی ۔اگر امت کی جانب سے اس کے مقدمہ میں کورٹ میں انٹروین پٹیشن داخل ہوتا اور مسلمانوں کا وکیل ہوتا تو شاید اس نام نہاد براڈ مائنڈیڈ ایڈیٹر گستا خ رسول ﷺ کچھ سزا ملتی ۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور اب تو ہائی کورٹ میں جج نے اسکے مقدمہ کی طویل تاریخیں دینی شروع کردی ہیں اب اس کے مقدمہ کی تاریخ ۱۵ ؍جون ہے ۔کچھ تاریخوں کے بعد اسے ختم کردیا جائے گا اور وہ ایڈیٹر مسلم معاشرے میں گھل مل کر تسلیمہ نسرین کی راہوں کی مسافر بنی رہے گی اور نئی تسلیمہ اور شیریں کو جنم دیتی رہے گی ۔یہ باتیں یونہی ہوا میں نہیں کہی جارہی ہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک ٹھوس حقیقت ہے ۔اس گستاخ ایڈیٹر کی اس معاملے میں سب سے زیادہ مدد ایک اردو کے سب سے پرانے اخبار کے مالک و ایڈیٹر نے کی میڈیا میں اسے جو شہرت ملی اور اسے مظلوم بنا کر پیش کیا گیا وہ سب اسی اخبار کے مالک کا کارنامہ تھا ۔اب اس اخبار کے مالک نے اس پر ایک احسان اور کیا ہے کہ اخبار کے ہفتہ واری ادبی کالم کی مرتبہ اسے بنایا ہے اور اندنوں کے نام سے اس کے کالم کو بھی جگہ دی جارہی ہے ۔لیکن امت میں کہیں کوئی ہل چل نہیں ۔وہ قوم کے ٹھیکیداروں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور قوم کے ٹھیک دار اس کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں ۔قوم کے ٹھیکیدار سے ایک بات یاد آئی ،جس دن یہ کارٹون شائع ہوا تھا اس دن ایک رپورٹر نے ایک ایسے ہی ٹھیکیدار کو شام کے چار بجے فون کیا تو انہوں نے اس معاملہ سے لا علمی ظاہر کی ۔یہ ہیں قوم کے ٹھیکیدار جن کا ایک زمانہ مداح ہے ان کی بے خبری کا یہ عالم ہے ۔اسی رپورٹر نے شام کے چھ بجے دوبارہ فون کیا تو ان کا فون بند تھا ۔ایک دوسرے بڑے اخبار کے رپورٹر نے رات گئے غالباً گیارہ بارہ بجے تک فون کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ارے بھائی میں نے بہت سنھبالا ورنہ آگ لگ جاتی ‘‘۔لیکن آگ اگر بجھادی گئی تو کم سے کم آگ لگانے اور مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی میں کیا قباحت تھی ۔جبکہ وہی مذکورہ ٹھیکیدار اور ان کے حالی موالیوں نے ایک اخبار والے پر صرف اس لئے کئی ہتک عزت کا مقدمہ کردیا جس نے ان کے خلاف کوئی خبر شائع کردی تھی ۔یعنی نبی ﷺ کی عزت و تکریم صرف زبانی اور اپنی عزت کے لئے نامی گرامی اور مہنگے وکیل کے ذریعہ فوری مقدمہ اور گرفتاری کے لئے دباؤ یہ ہے کتھنی اور کرنی کا فرق ان قوم کے ٹھیکیداروں میں۔
ایک خاتون قلم کار جو کہ خواتین کے مسائل پر لکھا کرتی ہیں اور مذہبی رجحان رکھتی ہیں نے اپنے وہاٹس ایپ گروپ پر کسی کے پوسٹ کے جواب میں اسے ملعون لکھ دیا تو کچھ لوگ ان سے ناراض ہو گئے کہ اسے ملعون مت کہئے کیا پتہ کہ کل وہ توبہ کرلے ۔یہاں میرا کہنا اس سلسلے میں یہ ہے کہ آج وہ ملعون ہے تو ملعون ہے کل اگر وہ توبہ کرلیتی ہے اور اس کے رہن سہن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واقعی اس نے توبہ کرلیا ہے تو ہمیں بھی اس کو ملعون کہنے سے توبہ کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔لیکن ابھی کے حالات تو یہ ہیں کہ اس کے رہن ساہن چال ڈھال سے یہ بالکل بھی نہیں لگتا کہ اس نے توبہ کرلیا ہے ۔بلکہ اس نے کچھ ہفتہ قبل تک تو میڈیا کو انٹر ویو دینا اس میں اپنی مظلومیت کا رونا رونا اور اپنے کارٹون کی اشاعت کے لئے جواز پیش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔ایک بات اور ذہن نشین رہے کہ آر ایس ایس کے ترجمان پانچ جنیہ نے اس کا کئی صفحات پر مشتمل اسٹوری شائع کیا ہے ۔ اس میں بھی اسے مظلوم بنا کر پیش کیا گیا ہے ۔اب لوگ خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں جس کی حمایت آر ایس ایس کرے وہ کیسا ہوگا اس کی خصلت اور ذہنیت کیسی ہو گی ؟اب بھی وقت ہے کہ امت ہائی کورٹ میں ۱۵؍جون کو اس کے مقدمہ میں انٹر وین کرے اور اگر یہ نہ کرسکیں تو اتنا تو ضرور ہو سکتا ہے کہ اس کو تاوقتیکہ وہ توبہ نہ کرے مسلم کمیونٹی کا حصہ بننے سے روکیں ۔لوگوں میں اس کے فعل قبیح کو مشتہر کریں کہ اس نے کتنا گھناؤنا جرم کیا ہے اور کیسی کیسی کالی بھیڑیں امت میں ایسی ہیں جو اس کے ساتھ ہیں کچھ کھل کر اور کچھ خفیہ طور پر ۔اللہ ہم لوگوں کو اپنے اور اپنے رسولﷺ کے دشمنوں کا مقاطع کرنے کی ایمانی قوت عطا کرے۔آمین

0 comments: