روزہ ا فطاری میں سیاست دانوں فلم والوں کا کیا کام




سمیع احمد قریشی
9323986725
رمضان کا مہینہ انتہائی برکتوں فضیلتوں کا مہینہ ہے-عبادتوں،نیکیوں کا اجر ماہ رمضان میں اور مہینوں سے زیادہ ہے - یقینا اللہ کے نیک بندے ماہ رمضان میں عبادتوں اور نیکیوں میں زیادہ گذارتے ہیں -اس مہینے میں شیطان قید کردیا جاتا ہے-چونکہ شیطان کہیں نفس میں کسی کے اندر گھسا بیٹھا ہوتا ہے-وہ شیطانیت سے باز نہیں آتا-
اس ماہ مبارک میں فطری طور پر مسلمانوں میں نیکیاں اور عبادت کرنے کا رجحان زیادہ نظر آتا ہے-
مساجد نمازیوں سے اور مہینوں کے مقابلے زیادہ آباد ہوتی ہیں-مسلم بستیوں میں گویا نور ہی نور نظر آتا ہے-
افسوس ناک پہلو ہے کہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو سراسر نفس پرستی،دنیا پرستی میں ڈوبے کھلم کھلا نظر آتے ہیں-
روزہ افطار بھی ایک عبادت ہے-اس میں کس قدر خشوع و خضوع ،پاکیزگی سادگی ہونا چاہئیے ہم سب جانتے ہیں -- روزہ افطار پارٹیوں میں فلم والوں سیاست دانوں کو خصوصی طور پر مدعو کرکے کون سا اسلامی انسانی فریضہ ادا کیا جاتا ہے-سوائے اپنے شیطانی نفس کو خوش کرنے کے کچھ نہیں-ہمارے یہاں ممبئی میں اکثر سیاستداں یہ تماشہ کرتے نظر آتے ہیں ان میں کچھ خاص لوگ ایسے بھی ہیں جو اب اپنی  افطار پارٹیوں میں ،فلم ایکٹر ہی نہیں نیم عریاں ایکٹریس کو خصوصی طور پر مدعو کرنے میں کئی سالوں سے لگتا ہے پورے ملک میں آگے ہیں -ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اک ریکارڈ بنا رہے ہیں -شاید گنیز بک آف دا ورلڈ ریکارڈ میں ان کا نام درج ہو-
سیاست داں دستور، آئین پر ایمانداری سے چلنے کی قسمیں کھانے کے بعد بھی ،ملک میں آزادی کے بعد سے آج تک کس قدر بد عنوانیاں اور خرافات کرتے آئے ہیں وہ جگ ظاہر ہے-اسی طرح فلموں نے انسانی اقدار کو گرانے میں کیا کردار سالہا سال سے کیا وہ بھی عوامی سطح پر عیاں ہے-فحاشیت عریانیت جرائم  کے بڑھانے میں، فلموں کے کردار کو بتلانےکی ضرورت نہیں-بچہ بچہ جانتا ہے-
دنیا متقی،نیک اور اچھے سماجی اوصاف رکھنے والوں سے خالی نہیں-جن سے پروگراموں کی حقیقی زینت بڑھائی جاسکتی - جن کی باتوں کو عام کیا جائے-
روزہ افطار کا اعلی وارفع مقام ہے -اس کا تقدس ہے-اس کی روحانیت اور اس کے تقدس کو باقی رکھنا انتہائی ضروری ہے- ہمیں میر کارواں بننا تھا ،ہم گرد کارواں بن رہے ہیں-ہمارا وجود مذاق بن کر رہ گیا ہے-مذہب اسلام،انسانوں کی ہدایت و بھلائی کے لئے آیا-ہم اسلام کے نام لیوا کیا کر رہے ہیں -مبارک ماہ رمضان میں جن کے ہاتھوں انسانیت شرمشار،سالوں سال سے ہے، ان کو روزہ ا فطاری جیسے معتبر مقدس پروگرام میں خصوصی طور پر مدعو کرنا کیا معنی و مطلب رکھتا ہے-
آپ اپنے طور پر جس سے چاہیں دوستی یاری رکھیں ہمیں اعتراض نہیں -خدارا روزہ اور افطار کے نام پر یوں اللہ کے پسندیدہ دین کی جگ ہنسائی نہ کریں
ہم اپنی روش بدل کر ہوں رواں دواں
خدائی نصرت بھی شامل ہوگی مٹے گا یہ دور جابرانہ

0 comments:

انصاف کا مندر ہے یہ۔۔۔


ممتاز میر ۔ برہانپور


بڑی منتوں مرادوں کے بعدگلبرگ سوسائٹی احمد آباد کافیصلہ آگیا ۔بھلے ہی کسی نے بھی اس پر اطمینان کا اظہار نہ کیا ہو مگر آ تو گیا اب بھی نہ آتا تو کیا کرلیتے۔سب یہ کہہ رہے ہیں کہ انصاف حاصل کرنے کے لئے اونچی عدالت میں یعنی ہائی کورٹ میں جائیں گے ۔اونچی عدالت میں جانے کی باتیں وہ بھی کر رہے ہیں جو مظلوم ہیں اور وہ بھی جو ظالم ہیں۔بڑی عجیب بات ہے کہ ہماری نچلی عدالتیں مظلومین کو تو جانے دیجئے ظالموں کو بھی مطمئن نہیں کرتیں اس چکر میں بدنامی الگ مول لیتی ہیں۔وہ ایسا کیوں کرتی ہیں؟شاید وہ سمجھتی ہیں کہ اونچی عدالتوں کو کوئی کام نہیں ہے ۔وہاں کے جج مکھیاں مارتے رہتے ہیں اس لئے انھیں اس فراغت سے بچا کر کوئی آبرومندانہ کام فراہم کرنا چاہئے۔ گلبرگ سوسائٹی کیس یہ تھا کہ جب ۲۰۰۲ میں گجرات میں مودی جی کی چھتر چھایا میں مسلمانوں کے صفائے کی مہم شروع ہوئی تواحمدآباد کی پوش مسلم کالونی گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی پر ہندو جنونیوں نے حملہ کر دیا تھا جسمیں ۶۹ مسلمان مارے گئے تھے ۔اس سلسلے میں اسی پولس نے جو اس حادثے کی ’’چشم دید ‘‘ گواہ تھی صرف ۶۰ لوگوں پر اس طرح کیس بنایا اور چلایا کہ ہمارے قابل صد احترام ججوں کو ۳۶ کو تو صاف بری کرنا پڑا اور بقیہ ۲۴ لوگوں کو بھی بادل نخواستہ کچھ معمولی سزائیں دے کر نہ اپنے نہ اجتماعی بلکہ ہمیں بھی بادل نخواستہ کہنا پڑے گا ،انصاف کے ضمیر کو مطمئن کرنا پڑا۔اس طرح اس فیصلے نے وطن عزیز کو دنیا کا وہ پہلاملک بنا دیا جہاں صرف ۲۴ لوگ دنگا کرکے ۶۹ لوگوں کو مار دیتے ہیں اور بطور سزا قاتلوں کو پھانسی نہیں ہوتی ۔نہیں ۔۔نہیں ۔غلط مت سمجھئے ابھی تک بھارت میں پھانسی کی سزا ختم نہیں کی گئی ہے بلکہ مسلمانوں کو بڑے دھوم سے پھانسی دی جارہی ہے ۔اور لوگ اس کو آسانی سے بھول نہ پائیں اس لئے ہر پھانسی پر مہینوں اخبارات میں بحث چلتی ہے ۔تو صاحب بچپن سے جو یہ سنتے آرہے تھے کہ قانون اندھا ہوتا ہے خوش قسمت ہیں کہ مرنے سے پہلے دیکھ بھی لیا ۔مزید یہ احساس بھی ہوا کہ قانون صرف اندھا ہی نہیں ہوتا بلکہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے ۔قانون کے ڈر سے ۔۔۔نہیں اپنے ججوں کے احترام میں ہم مزید وضاحت نہیں کر سکتے ۔
آئیے اب ایک اخبار کی ایک دن کی کچھ سرخیاں آپ سے شیئر کرتے ہیں جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ اس فیصلے پر کس کا کیا رد عمل رہا (۱) خصوصی تفتیشی ٹیم ایس آئی ٹی کے وکیل آر سی کوڈیکر نے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں جانے کی بات کہی وہ مجرمین کے لئے تا حیات عمر قید کے تمنائی تھے۔(۲)ایک شخص اشیش تریویدی نے طنزیہ ٹویٹ کیا کہ کمال ہے میں نے عصمت دری کی آگ لگائی قتل کر سکتا ہوں پھر بھی مجھے صرف سات سال کی سزا!(۳) راکیش ٹیکڑی اپنے ٹویٹ میں لکھتے ہیں’’کیا اس ملک میں موت کی سزا صرف مسلمانوں کے لئے ہے‘‘(۴)کرم ویر سنگھ برار لکھتے ہیں کسی کو بھی موت کی سزا نہیں۔بڑے شرم کی بات ہے۔وہ انتہا پسند ہیں انھیں ویسی ہی سزا ملنی چاہئے۔
وطن عزیز میں ایسا لگتا ہے ٹیسٹا ستلواد ،ذکیہ جعفری شبنم ہاشمی اور اروندھتی رائے وغیرہ عورتیں ہی مرد باقی بچی ہیں باقی مرد نہ جانے کہاں چلے گئے۔ٹیسٹا وہ مرد ہیں جو گجرات ہولوکاسٹ کے پہلے دن سے مودی کے پیچھے ہیں اور وزیر اعظم بن جانے کے باوجود وہ انھیں جوتی پہ مارتی ہیں مجبور ہو کر مودی جی نے انھیں ستانے کے اوچھے ہتھکنڈے اپنا لئے ہیں ٹیسٹا اس پر اپنا رد عمل اس طرح ظاہر کرتی ہیں۔’’یہ ادھورا انصاف ہے ۔سوال یہ کہ ملک میں عدلیہ ہے یا نہیں‘‘۔۔۔محترمہ جو آپ آج کہہ رہی ہیں وہ ہم برسوں سے کہہ رہے ہیں۔جس عدلیہ کی آنکھوں کے سامنے اس کی ضمانت کے باوجود بابری مسجد شہید کردی گئی ہو اور ربع صدی میں بھی مجرمین کے خلاف وہ کچھ نہ کر پائی ہو کیا یہ اس کے عدم وجود کا ثبوت نہیں۔ 
پچھلے دنوں ایک ہندو دوست سے گفتگو چل رہی تھی ۔ہم نے کہا کہ جو کچھ آج سنگھ پریوار کر رہا ہے اس سے سمجھنا کہ اس طرح مسلمانوں کو کوئی بڑا نقصان پہونچایا جا سکے گا یا اسپین کی طرح یہاں بھی مسلمانوں کو دیس نکالا دیا جا سکے گا محض خام خیالی ہے ۔۵۰۰ سال پہلے دنیااور تھی آج کچھ اور ہے۔آج تو پھر سے مسلمانوں کو اسپین میں سہولتیں دی جا رہی ہیں۔غالبا اسپین کے ارباب اقتدار کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ جب تک مسلمان اسپین میں تھے اسپین سپر پاور تھا امت مسلمہ اس طرح کے حالات سے بارہا گزری بھی ہے ابھری بھی ہے۔ہاں ہندوؤں کو یہ سوچنا چاہئے کہ سنگھ پریوار اپنی حرکتوں سے بھارت کو اور خاص طور سے ہندو ازم کو کیا نقصان پہونچا رہا ہے ؟با خبر حضرات یہ بات جانتے ہونگے کہ ہر دوسرے تیسرے مہینے میں بین الاقوامی سطح پر ایک آدھ رپورٹ ایسی آ ہی جاتی ہے جس میں سنگھ پریوار اور اس کی تنظیموں کی حرکتوں پر تشویش ظاہر کی جاتی ہے ۔ابھی ابھی مودی جی کو اپنے سرپرستوں کی حرکتوں پردورہ امریکہ میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔میڈیا کو خریدا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ اندرون ملک ایسی خبروں کا بلیک آؤٹ کرے اور سب چنگا ہے کی رپورٹ دے۔چلئے اس حد تک تو دھوکے کی گنجائش ہے ۔مگر ہندو ازم کا کیا۔اس طرح ہندؤں کی کیا تصویر بن رہی ہے ۔تاریخ اور مورخ دونوں ہندتو کے ٹھیکیداروں کی ہڑبونگ کو شور کو مستی کو نوٹ کر رہے ہونگے۔وہ لوگ جو حق کی تلاش میں مذاہب عالم کا مطالعہ کرتے ہیں وہ ہندو مت کو کیا سمجھیں گے؟
باقاعدہ ایک مذہب یا ایسی بد مستیوں کا ایک مجموعہ ۔مستقبل کا طالب علم کیا فیصلہ کرے گا؟کیا مستقبل میں بھی سنگھ پریوار کے ترشولوں یا ٹریننگ کیمپوں سے ڈر کر فیصلہ کیا جائے گا؟کسی مذہب کسی دین کسی ازم کا جب مطالعہ کیا جا تا ہے توزندگی گزارنے کے تمام ہی اصولوں کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں کے ساتھ اس کے ادارہ عدل کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ خاص نظر اس پر ہی ہوتی ہے کیونکہ بغیر عدل تاریخ میں کوئی فکر کوئی ازم جم نہیں پایا ہے ۔کیا ہمارے منصفین کو اس بات کا شعور ہے؟فیصلے دیتے وقت کیا ان کے دماغ میں یہ بات رہتی ہے کہ ان کے فیصلوں کا مستقبل میں پوسٹ مارٹم کیا جائے گا اور ان کے فیصلوں کی بنیاد پر ان کے دیش کے ان کے مذہب کی ان کے عہد کی اچھائی یا برائی طے کی جائے گی؟کیا ایسا ہوتا نہیں آرہا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137

0 comments:

روبیضہ بولیں گے ....!


عمرفراہی
ہمارے دوست, اور سینیر قلم کار جو کئی اردو اخبارات اور رسائل کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں اب صحافت کی ان تمام الجھنوں سے آذاد ہو کر یا تو اپنے روایتی کالم نگاری تک محدود ہو چکے ہیں یا اپنے شاگردوں کی تحریروں پر ان کی نظر رہتی ہے- اکثر میل وغیرہ کے ذریعے وہ ہماری رہنمائی بھی کرتے رہتے ہیں -ابھی حال ہی میں انہوں نے ہمیں شام کے اندر سیدہ زینب کی مزار پر ہونے والے دھماکوں کی تصویر بھیجی ہے- ظاہر سی بات ہے یہ تخریبی کارروائی بشارالاسد کے مخالفین نے ہی انجام دی ہوگی - یہ تصویر ہمیں کیوں بھیجی گئی اور وہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پچھلے کچھ مضامین میں ہم مشرق وسطیٰ کے حالات پر اپنا تجزیہ اور تبصرہ پیش کرتے رہے ہیں اور یہ لکھنے کی جرات کی تھی کہ جزیرۃالعرب کی موجودہ صورتحال کا اصل ذمہ دار ایران ہے جس نے بشارالاسد کی مدد کرکے اس پورے خطے کو جہنم بنا ڈالا ہے- شاید  ہمارے سینیر قلم کار ایران اور شام کی دہشت گردی کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں - مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ایران, شام اور عالمی طاقتیں  نہتے مسلمانوں پر بم برسا رہی ہیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ نہیں ہے بلکہ ہولوکاسٹ ہے کیونکہ جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس ان عالمی طاقتوں کے مد مقابل جن کے اوپر بمباری کی جارہی ہے اگر وہ مزاحمت کر بھی رہے ہیں تو ان کے ہتھیار استعماری طاقتوں کے ہتھیاروں کے مقابلے میں دو فیصد کے برابر بھی نہیں ہیں - تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے باوجود شام کے عوام پچھلے پانچ سالوں سے تقریباً دس ملکوں کی باقاعدہ فوج اور فضائی حملوں کا مقابلہ کر رہے ہیں -اگر یہ معجزہ ہے تو پھر اس معجزے کا خالق اور رہبر کون ہے - ہم جیسے کم پڑھے لکھے لوگ بالآخر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ جنگ انسانوں اور انسانوں کے درمیان ہوتی تو اتنا طول نہیں پکڑ سکتی تھی - یہ جنگ حقیقی معنوں میں انسانیت کو رسوا کرنے والے بھیڑیوں اور انسانیت کے محافظ خالق حقیقی کے درمیان ہے - تاریخ گواہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا - ابراہیم کے پاس اگر کوئی سلطنت فوجی طاقت یا اسلحہ کا ذخیرہ ہوتا تو نمرود حضرت ابراہیم سے مقابلہ کرتا نہ کہ ابراہیم کے خدا سے جنگ کرنے کیلئے آسمان دنیا کا سفر کرنے کی احمقانہ جرات کرتا - آج کے نمرود بھی خدا سے جنگ کرنے نکلے ہیں اس کا انجام کیا ہوگا - اس کا انجام یقیناً وہی ہونا ہے جو فرعون و نمرود کا ہوا - یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ یہ جنگ ایک بار پھر اسی تاریخی سرزمین پر سمٹ کر آگئی ہے اور شام کا جو میدان کبھی یہود و نصاریٰ کیلئے مقدس ہوا کرتا تھا مسلمانوں کے دو دھڑوں کیلئے بھی مقدس جنگ کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور حالات اسی طرف بڑھ رہے ہیں جس کی پیشن گوئی پندرہ سو سال پہلے مسلمانوں کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی - یعنی مہدی کا ظہور, حضرت عیسیٰ کا نزول اور دجال کے خروج کا وقت قریب تر ہے - اس پیشن گوئی پر یقین کرنے والی قومیں  اپنے اپنے مقامات مقدسہ کو لازم پکڑنا چاہتی ہیں - صورتحال یہ ہے کہ ہر فریق اپنے پروپگنڈے کے ذریعے دوسرے  فریق کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے اور کوشس میں ہے کہ دوسرے پر اس کا نظریاتی غلبہ بھی برقرار رہے- اس کے لئے جدید میڈیا بھی کسی طاقتور ہتھیار سے کم نہیں ہے - بظاہر انسانوں پر طیاروں اور میزائلوں سے بم برسایا جانا اور اس کے ردعمل میں خودکش دھماکوں کے ذریعے انسانی جانوں کی تباہی اور تخریب میں کوئی واضح فرق تو دکھائی نہیں دیتا لیکن اس فرق کو بھی جدید میڈیا کے ذریعے  Justify کرنے کی کوشس کی جارہی ہے- بدقسمتی سے یہ سماج کا وہ طبقہ ہے جس کے بارے میں ایک زمانے سے لوگوں کے ذہن میں پختہ یقین ہوتا تھا کہ یہ قوم جھوٹ نہیں بولتی - لیکن اب اس میں شامل صحافیوں دانشوروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے کچھ سوشل شخصیات بھی اپنے اپنے فریق کی نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں - ویسے فریق ہونا بھی کوئی بری بات نہیں ہے-اکثر ان میں بھی حق شناس لوگوں نے قومیت پر حق کو ترجیح دی ہے مگر اب جدید دور کا انسان فریق بھی نہیں رہاجبکہ ماضی میں اس فرق میں بھی انسانیت زندہ تھی-آج کا اصل فتنہ مادیت کا ہے - یعنی انسان ایک فرد ایک تحریک ایک قوم اور ملک کی حیثیت سے زیادہ سے زیادہ وسائل پر قبضہ کرکے  طاقتور ہو جانا چاہتا ہے تاکہ اس کا دشمن یا مخالف اسے زیر نہ کرسکے- اب اکیسویں صدی میں یہ سوچ نہ صرف ملکوں کا آئین اور دستور بن چکی ہے اور دنیا کا  ہر ملک اپنی محنت اور وسائل کا تیس فیصد حصہ اپنے دفاع پر خرچ کر رہا ہے - ایسے میں اگر دنیا کی کوئی آزاد اور صالح تنظیم یا تحریک بھی اپنے عقیدے اور مذہب کے دفاع کیلئے آمادہ خروج ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے - ایران خود بھی اسرائیل کی طرح مشرق وسطیٰ میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے ایک زمانے سے سرگرم ہے- حالانکہ وہ مغرب کی طرح اس کا اہل تو نہیں ہے لیکن ماضی کے عظیم فارس ,کسریٰ اور کسرویت کے جنون میں اس کے حکمراں تاریخ کو دہرانہ چاہتے ہیں اور بشارالاسد کے ساتھ مل کر اس کی فوجیں جو قتل عام کر رہی ہیں اس کی اس حرکت نے انسانیت کو بھی شرمسار کر دیا ہے- ہمیں نہ حیرت ہے اور نہ تعجب کہ ایران نواز صحافی اور ان کے زرخرید ایجنٹ اکثر ایران اور شام کا سفر کیوں کرتے ہیں- اتوار 12؍ جون کو اردو روزنامہ ممبئی اردو نیوز میں فرحان حنیف نے فیروز میٹھی بور والا کا ایک انٹرویو شائع کیا ہے جس میں میٹھی بور والا نے یک طرفہ طور پر ایران اور شام کی حمایت میں میٹھی میٹھی باتیں کی ہیں - سب کو اپنی بات رکھنے کا حق ہے لیکن اکثر عام قاری جھوٹوں اور جھوٹوں کے پروپیگنڈے کا بھی شکار ہو جاتا ہے - میٹھی بور والا جو پانچ بار شام کا دورہ کرچکے ہیں اس وجہ سے لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی پیدا کرنے کی کوشس کرتے ہیں کہ شام کے بارے میں انہیں  زیادہ معلومات ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ یہ صاحب بھی صرف یک طرفہ محبت کے شکار ہیں اور ان کا ہر دورہ شامی حکومت یا حکومت کے نمائندوں کی ملاقات تک ہی محدود ہے اور یہ اسی حکومت کے ترجمان کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر بشارالاسد کے خلاف عوامی تحریک کے نمائندوں تک نہ ان کی رسائی ہے اور نہ ہی یہ اس مرتبے کے اہل ہیں- ہو سکتا ہے یہ صاحب اپنی تحریک میں مخلص بھی ہوں اور بغیر معاوضے کے قوم و ملت پر احسان کر رہے ہوں لیکن ایک شخص کے خلوص پر یقین کرنے کیلئے اس کے دین اور عقیدے کا منکشف ہونا بھی لازمی ہے - ان کی اپنی قومیت, اپنا دین اور عقیدہ کیا ہے ہمیں تو نہیں معلوم لیکن ہماری معلومات کے مطابق اسلام اور اسلامی شعار سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے - جہاں تک شام اور فلسطین کا مسئلہ ہے یہ خالص اسلام اور اسلامی تاریخ سے مربوط ہے اور یہ مسئلہ صرف اور صرف علماء اسلام اور تحریکات اسلامی کی توجہ کا محتاج ہے -ویسے مسلمان اسلام اسلامی ریاست اور مسلمانوں کے تعلق سے کسی بھی معلومات کیلئے بہت محتاط ہے-
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آخری دور میں روبیضہ بولیں گے حدیث کی تشریح کی گئی ہے کہ لوگوں کے قائد رہنما یا آج کے دور میں لوگوں تک خبروں کی ترسیل کرنے والے جھوٹے اور مکار ہونگے- اوریا مقبول جان نے موجودہ حالات کے تناظر میں اپنے کسی مضمون میں اس حدیث کا حوالہ دیا تو ہمیں حیرت نہیں ہوئی کیونکہ اب پنچانوے فیصد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی باگ ڈور باطل ابلیسی اور دجالی طاقتوں کے ہی ہاتھ میں ہے لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ہمارے علما اور کچھ مسلم دانشور بھی ان اخبارات کی خبروں پر بغیر کسی تحقیق اور تبصرے کے یقین کرتے ہوئے حق اور ناحق کی تصدیق کر دیتے ہیں - جبکہ قرآن نے بھی ہمیں آگاہ کیا ہے کہ فاسق کی خبروں کی تحقیق کر لی جائے -

0 comments:

مذمت کی کھجلی


ممتاز میر 

لیجئے صاحب۔۴ دن پہلے دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ میں ایک بار پھر فائرنگ کا واقعہ پیش آگیا ہے ۔خیر سے اس پر تشدد واقعے میں ایک ۲۹ سالہ افغان نژاد امریکی عمر متین ملوث ہے ۔تو جناب ہماری قوم کے ایک بڑے حصے کو جسے وقتاً فوقتاًمذمت کی کھجلی کا دورہ پڑتا رہتا ہے ایک مشغلہ ہاتھ آگیا ہے ۔کیا عوام کیا خواص ۔کیا علما ء کیا لیڈر اور کیا دانشور ۔اردو اخبارات ان حضرات کے مذمتی بیانات سے بھرے پڑے ہیں۔حالانکہ مرے لوگ کتنے ہیں۔۔۔۔صرف ۵۰،اور اتنے ہی اسپتالوں میں لیٹے ہیں۔اس اسکور کی صرف اس صدی میں امریکی کارناموں میں مرنے والوں کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے؟کیا امریکہ نے گذشتہ ۷۰ سالوں میں کسی اخلاق و کردار کا مظاہرہ کیا ہے؟کیا امریکی عوام اپنے ان قابل نفرت حکمرانوں سے نفرت کا مظاہرہ کر رہی ہے؟امریکی عوام خود بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد طاقت کے غرور میں مبتلا ہو گئی ہے۔۱۱؍۹ میں متعدد مسلمان ملکوں کو تباہ کرنے کے باوجود ،یہ کہنے کے باوجود کے جو ہمارے ساتھ ہے وہ تو ہمارے ساتھ ہے جو ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ ہمارا دشمن ہے ،امریکی عوام نے بش جونئر کو منتخب کیا تھا ۔ایسی عوام لائق محبت ہے یا لائق نفرت۔امریکی عوام کے پاس ہتھیار کہاں سے آتے ہیں فائرنگ کے پے درپے واقعات پیش آنے کے بعد امریکی حکومت اب سوچ رہی ہے کہ عوامی ہتھیاروں پر پابندی عائد کردی جائے مگر وہ بھی ممکن نہیں ہو پا رہا ہے تو ۔۔کیوں؟
امریکہ ہمیشہ اپنے تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹتا رہتا ہے۔اور ہمارے لال بھجکڑ پر ایمان بھی لاتے ہیں۔اور بہت سارے چاپلوس تو اس کی شان میں قصیدے بھی لکھتے رہتے ہیں ۔وہ صرف ۷ دہائی پرانا یہ واقعہ بھول گئے کہ امریکہ نے جاپان کے دو شہروں کو صرف اسلئے نیست و نابود کر دیا تھا کہ اسے ایٹم بم کا تجربہ کر کے یہ دیکھنا تھا کہ اس کی تباہی کیسی اور کتنی ہوتی ہے ۔چلئے صاحب جو ہوا سو ہوا ۔ابھی ابھی جناب اوبامہ نہ صرف جاپان ہو آئے بلکہ امریکہ کے پہلے صدر بنے ہیں جس نے ایٹم بم کی تباہی کا اسپاٹ پر جا کر (۷۰ سال بعد)مشاہدہ کیا ہے ۔مگر دنیا کی تمام تمناؤں ،توقعات اورامیدوں کے باوجود انھوں نے اپنے اس ’’ کار خیر ‘‘ کے لئے معافی مانگنے سے انکار کر دیا ۔حیرت ہے اس ڈھٹائی کے باوجود امریکی عوام زمیں جنبدنہ جنبد گل محمد بنی رہی۔کہیں زمیں پھٹی نہ آسماں ٹوٹا ۔اور ہمارے اکابرین کی مذمت کی کھجلی صرف ۵۰ کے اسکور پر زمیں بھی پھاڑ رہی ہے اور آسمان بھی توڑ رہی ہے ۔بزدلوں کی شریعت ایسی ہی ہوتی ہے ۔یہ تو افغان غیور ہیں جو ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں۔اس سے پہلے بھی ایک افغان نژاد ڈاکٹر نے امریکی ملٹری بیس کیمپ میں ۱۳ کو لڑھکا دیا تھا ۔
ڈیڑھ دہائی پہلے طاقت کے غرور میں چور امریکا نے جب ٹوئن ٹاورس کے انہدام کا واقعہ افغانستان پر لاد کر افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانی شروع کی تھی تو کم کم ہی سہی مگر اخبارات میں ایسے بھی مضامین آئے تھے جس میں امریکہ کو سمجھانے کی بھی کوشش کی گئی تھی وارننگ بھی دی گئی تھی کہ اس طرح دنیا میں تشدد بڑھے گا دہشت گردی بڑھے گی اور اس کے نتائج نہ صرف دنیا کو بلکہ امریکہ کو بھی بھگتنا پڑیں گے۔تو امریکہ آج جس مرض میں مبتلا ہے وہ تو خود اس کا مول لیا ہوا ہے ۔اور یہ بات تو بڑی مشہور ہے کہ خود کردہ را علاجے نیست ۔سونے پہ سہاگہ امریکی وڈیو گیمس دیکھے جائیں۔بچوں کے ہاتھوں میں جو وڈیو کمپیوٹر اور موبائل گیمس تھمائے گئے ہیں اس میں مسلمان ویلن ہیں اور امریکی ہیرو ان کا مشین گن سے خاتمہ کر رہا ہے ۔یعنی بچوں کی صبح شام فائرنگ کرتے جاگزر رہی ہے۔اس سے بڑا احمق نہیں جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ باتیں بچوں کے لاشعور کا حصہ نہ بنتی ہونگی۔یعنی امریکی خود اپنے بچوں کی نفسیات کو بگاڑ رہے ہیں ۔اور ادھر ہمارے اکابرین۔۔۔غلام ۔۔شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار۔۔ارے کاہے کی مذمت۔مگر کھجلی کا معاملہ ہی یہ ہوتا ہیکہ کھجاتے جاؤ کھجاتے جاؤ بڑا سکون ملتا ہے ،بڑا مزہ آتا ہے۔اور جن کو یہ کھجلی ہوتی ہے اخبارات میں جب تک ان کا ایک آدھ مذمتی بیان نہیں آتا سکون نہیں ملتا۔یہی لوگ کبھی کبھی منہ کا مزہ بدلنے کے لئے امریکی طاقت کے استعمال کے خلاف بھی بیان دے دیتے ہیں۔مگر ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا ۔یہ وقت تھا جب امریکہ کو بتایا جاتا کہ دنیا تم سے یا کم سے کم ہم تم سے کتنے نفرت کرتے ہیں ۔مگر یہ ظاہر کر رہے کہ ہیں تم ہم پر کتنے ہی ستم ڈھاؤ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔یہ بزدل ظالم کو یہ احساس ہی نہیں ہونے دیتے کہ وہ کچھ غلط کر رہا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مذمت کا یہ سیلاب صرف ہندوستانی اخبارات میں ہی بہتا ہے ۔دوسرے ممالک کے اخبارات میں صرف ڈپلومیٹک بیانات ہی نظر آتے ہیں ایسا سیلاب نہیں بہتا۔شاید غلامی کا اثر ہم پر ہی کچھ زیادہ ہوا ہے یا فرقہ پرستوں کے دباؤ نے ہماری نفسیات ہی بگاڑ دی ہے۔
آئیے دیکھیں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں اس قسم کے واقعات شاذ ہیں یا اکثر ہوتے رہتے ہیں۔سب سے پہلے تو تازہ واقعہ [۱]اورلینڈو کے ایک ہم جنس پرست کلب میں ایک افغان نژادامریکی مسلمان نے۵۰ لوگوں کو یا ہم جنسوں کو مار دیا۔[۲]یکم اکتوبر ۲۰۱۵ کو روز برگ میں کرسٹوفر سین ہارپرنے ۹ لوگوں کو مار دیا۔[۳]۱۶جولائی ۲۰۱۵ کو چھٹا نوگا مین دو الگ الگ فوجی سائٹ پر ایک ہی گن مین نے ۵فوجیوں کو ماردیا [۴]۱۸ جون ۲۰۱۵کو چارلسٹن میں ڈیلن اسٹارم روف نے ۹ لوگوں کو ماردیا اور تین کو زخمی کردیا ۔یہ تاریخی بلیک چرچ مین گولی باری کا واقعہ تھا اور قاتل نسل پرست تھا۔[۵]۲۳ مئی ۲۰۱۴ کو اسلا وسٹاکیلی فورنیا میں ۲۲ سالہ ایلیٹ راجر نے یہ پلاننگ کرکے حملہ کیا کہ حملے میں زیادہ سے زیادہ لوگ مارے جائیں ۔اس طرح اسکور ۱۶ ۔اموات اور ۷ زخمی تک پہونچا [۶]۲۔اپریل ۲۰۱۴ میں فورٹ ہڈ ٹیکساس میں ایک گن میں نے تین لوگوں کو مارا اور ۱۶ کو زخمی کر دیا [۷]۱۶ ستمبر ۲۰۱۳ کو آرون الکسس نامی نیوی کانٹریکٹر نے نیوی بیس میں ۱۲ لوگوں کو مار کر ۳ کو زخمی کر دیا [۸]۷جون ۲۰۱۳۔سانتا مونیکا میں ۲۳ سالہ بے روزگار جان زواہری نے ۵لوگوں کی جان لے لی [۹]۱۴ دسمبر ۲۰۱۲ میں ۲۰ سالہ آدم لینزا نے ایک ایلیمنٹری اسکول میں گھس کر ۲۷ طلباء کو مار دیا اور چند افرد زخمی بھی ہوئے[۱۰]۱۲اکتوبر ۲۰۱۲ کو ۴۵ سالہ ریڈ کلف نے بروک فیلڈ مین ازانہ سیلون اور سپا میں داخل ہو کر جہاں اس کی بیوی کام کرتی تھی بیوی سمیت ۳ لوگوں کو قتل کر دیا[۱۱]۲۸ستمبر ۲۰۱۲ کو ۳۶ سالہ اینڈریو سائن کمپنی کے آفس میں گھس کر ۶ لوگوں کو مار اور ۲کو زخمی کر دیتا ہے[۱۲]۵۔اگست ۲۰۱۲۔اوک کریک میں ویڈ مائکل پیج سکھوں کے گردوارے میں گھس کر ۶ کو مار اور ۳ کو زخمی کر دیتا ہے [۱۳] ۲۰ جولائی۲۰۱۲ کو ارورہ میں ۲۴ سالہ جیمس ہومز ایک سنیما کے پارکنگ لاٹ میں ۱۲ کو موت کے حوالے اور ۵۸ کو زخمی کر دیتا ہے [۱۴]۲۔اپریل ۲۰۱۲ کو آک لینڈ میں ۴۳ سالہ ایل گوہ کالجء کے کلاس روم میں گھس کر ۷ کو مار دیتا ہے اور ۳ کو زخمی کر دیتا ہے [۱۵]۵ نومبر ۲۰۰۹ کو افغان نژاد ڈاکٹر میجرندال ملک حسن ۱۳ کو موت کی نیند سلا کر ۳۲ کو زخمی کر دیتاہے[۱۶]یکم جنور ی۲۰۱۱ میں ٹکسن میں ۲۳سالہ جارڈ لی سپر مارکیٹ میں ۶ کو قتل اور ۱۱ کو زخمی کر دیتا ہے[۱۷]۳۔اگست ۲۰۱۰ میں مانچسٹر میں ہوئی فائرنگ میں ۸لوگ مرتے ہیں اور ۲زخمی ہوتے ہیں۔[۱۸] ۱۲ فروری ۲۰۱۰ میں ۴۵ سالہ ایمی بشت ۳کو مار کر ۳کو زخمی کر دیتا ہے ۔۔۔کیا کیا لکھیں کہاں تک لکھیں ۔ذیل میں صرف فائرنگ کی تاریخیں دی جارہی ہیں ۔اسکور اپنے دل میں جو آئے سمجھ لیجئے۔
۳۔اپریل ۲۰۰۹۔۔۲ فروری ۲۰۰۸۔۔۵دسمبر ۲۰۰۷۔۔۱۶۔اپریل ۲۰۰۷ ۔۔۱۲فروری ۲۰۰۷۔۔۲اکتوبر ۲۰۰۶۔۔۳۰جنوری۲۰۰۶(ان دونوں تاریخوں کو تعلق عدم تشدد کے دیوتا ’’باپو ‘ سے ہے۔کیا قاتل کوئی سنگھی تھا)۱۲ مارچ ۲۰۰۵۔۔۸جولائی ۲۰۰۴۔۲۸اکتوبر ۲۰۰۲۔۔۵مارچ ۲۰۰۱۔۔۲۶ دسمبر ۲۰۰۰۔۔۲نومبر ۱۹۹۹۔۔۱۵ ستمبر ۱۹۹۹۔۔۲۹ جولائی۱۹۹۹۔۔۲۶مارچ۱۹۹۹۔۲۶مارچ ۱۹۹۸۔۔۷دسمبر ۱۹۹۳۔۔یکم جولائی ۱۹۹۳۔۔یکم مئی ۱۹۹۲۔۔یکم نومبر ۱۹۹۱۔۔۔۱۶ اکتوبر۱۹۹۱۔۔۱۸جون ۱۹۹۰۔۱جنوری ۱۹۸۹ ۔۔۲۰۔اگست ۱۹۸۶۔۔۱۸ جولائی ۱۹۸۴۔۔یہ ۳۲ سالہ اعداد و شمار ہیں۔
جنین کے لحاظ سے درج بالا خونریزیوں کو بغور دیکھیں تو دو باتوں کا پتہ چلتا ہے ۔ایک تو یہ کہ خوں ریزی امریکیوں کے خمیر میں شامل ہے۔ہمارے یہاں معمولی معمولی باتوں جیسے بیوی سے چھٹکارے کے لئے کوئی قتل عام نہیں کرتاپھرتااور دوسرے یہ کہ ۱۱؍۹ کے بعد امریکی رویے کی بنا پر دانشوروں نے متنبہ کیا تھا کہ یہ روش دنیا کو بھی اور خود امریکہ کو بھی مزید غیر محفوظ بنا دے گی ۔۱۱؍۹ سے پہلے اور بعد کی خونریزیوں کے اعداد و شمارنے اس اندیشے کو صد فی صد درست ثابت کیا ہے ۔اور یہ سب کیوں ہوا؟امریکی لالچ کی وجہ سے کہیں یا امریکی طاقت کے غور کی وجہ سے۔چلئے جو ہوا سو ہوا ۔کیا آج بھی امریکہ سدھر نے کو تیار ہے ۔کیا وہ یہ مان لیں گے کہ ان سے بھی زیادہ طاقتور ہستی ہے کہ جو اس دنیا کا نظام چلا رہی ہے؟۔۔نہیں نا۔۔تو پھر جو مسائل امریکہ خوب جانتے بوجھتے مول لے رہا ہے اس کے لئے مذمت کیسی؟ یعنی بس کھجلی ہے اور مٹانا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137 

0 comments:

شام اور ایران کے بارے میں زمینی حقائق پر پردہ کیوں؟

ابو ارسلان 
ممبئی 

اکیسویں صدی میں شام کا مسئلہ بدترین انسانی المیہ ثابت ہو چکا ہے ۔لیکن اس میں ایران اور ایران نواز حلقہ یک طرفہ گفتگو کرکے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں کو بدنام کرنے ان لوگوں کو ہی شام کے مسئلہ کی جڑ بتانے کا پروپگنڈہ کرکے یہ ثابت کرنے کوشش کی ہے کہ در اصل بشارالاسد ایک انصاف پسند حکمراں ہے ۔جبکہ تاریخ انسانی کا اس سے زیادہ خونخوار حکمراں اور کوئی نہیں ہوگا۔یہ لوگ شام کے معاملہ کی حساسیت کو اپنی یکطرفہ باتوں سے کم کرنا چاہتے ہیں ۔یہ نہیں چاہتے کہ ایران و شام کے بارے میں زمینی حقائق کے بارے میں کچھ گفتگو ہو ۔یہ زمینی سچائی سے منھ موڑ کر اس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شام کے مسئلہ پر زمینی حقیقت کے مد نظر اس پر گفتگو کی جاتی لیکن اس کو ایران نے بڑی چالاکی سے مسلکی معاملہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران کی پروپگنڈہ مشنری کافی فعال ہے ۔پچھلے چار سالوں سے شام میں خون مسلم کی جتنی ارزانی ہوئی ہے اتنی تو اسرائیل میں بھی ساٹھ ستر سالوں میں نہیں ہوئی ۔عالم عرب میں انقلاب کی شروعات ہوئی تو اس سے شام بھی اچھوتا نہیں رہ پایا ۔وہاں بشارالاسد کا خاندان شامی عوام پر تیس پینتیس سالوں سے مسلط ہے ۔اس کے باپ اور خود بشار الاسد نے بھی صحیح العقیدہ مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا ہے ۔یہی سبب ہے کہ بہار عرب شام کے عوام کے دل و دماغ میں بھی بسا اور بشارالاسد کے خلاف تحریک شروع ہوئی ۔صرف چھ ماہ کی تحریک اور کچھ انسانی جانوں کی قربانی سے شامی عوام کی گردنوں پر مسلط اسد خاندان کا سورج غروب ہی ہونے والا تھااس نے اپنے سونے اور جواہرات ٹرکوں میں بھر کر اپنے دوست ممالک کو بھیج دیے تھے کہ شاید ایک دو روز میں اس کی حکومت کا سورج یقینی طور پر غروب ہوجائے کہ ایران نے اسے مسلکی بنیاد کا جھگڑا قرار دے کر وہاں مداخلت شروع کی اور یوں بشار الاسد کا خونی پنجہ پھر سے جم کر رہ گیا ۔اس کے بعد اب سے چند ماہ قبل ایک بار پھر بشارالاسد کا جانا طے ہو چکا تھا جب ایران ناکام ہوتا نظر آیا تو اس کی مدد کو کھلے عام روس نے مداخلت کی اور پھر شامی عوام کی زندگی کا وہ سیاہ باب سامنے آیا جس نے ایک اندازے کے مطابق چار لاکھ سے زیادہ افراد کو نگل لیا ۔اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکت کے بعد آپ سوچ سکتے ہیں کہ زخمیوں کی تعداد کتنی ہوگی ۔اتنی بڑی تباہی کی وجہ سے شام معلوم انسانی تاریخ کا بدترین المیہ کا مرکز بن گیا ہے ۔لیکن شام اور ایران کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والے کو بھی اسی طرح اس پر کوئی افسوس نہیں ہے جس طرح ایران اور بشار الاسد کو اتنی بھیانک تباہی اور انسانی المیہ کا کوئی اثر نہیں۔ہندوستان میں ایسے ہی ایک ایرانی اور بشاری ایجنٹ کا نام ہے فیروز میٹھی بور والا ۔ممبئی اردو نیوز کے سنڈے میگزین 12 ؍جون 2016 میں فیروز میٹھی بور والا کا انٹر ویو شائع ہوا ہے ۔انٹرویو فرحان حنیف نے کیا ہے ۔بہتر ہے کہ اس انٹر ویو پر اظہار خیال کرنے سے پہلے ان مہاشے کے بارے میں کچھ عرض حال کردیا جائے ۔
فیروز میٹھی بور والا ایک خود ساختہ تنظیم بھارت بچاؤ آندولن کے روح رواں ہیں ۔انہوں نے جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کے کاندھوں پر سوار ہو کر مسلم عوام میں مسیحا جیسی امیج بنانے کی کوشش کی ۔ٹھیک اسی طرح جس طرح اور دوسرے نام ہیں جو مسلمانوں کی لڑائی لڑنے کے نام پراپنی قوت بناتے ہیں اور پھر مسلمانوں کے ایمان پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔مسلم عوام میں گھس پیٹھ بنانے کے بعد انہوں نے اپنی اصلیت دکھانا شروع کی ۔حالانکہ بہت پہلے جب جماعت اسلامی مہاراشٹر سے ان کا میل جول چل ہی رہا اور فلسطین کے تعلق سے ایک پروگرام میں اسلم غازی کے بار بار اسلام کا نام لینے پر یہ صاحب چڑ گئے اور اپنی تقریر کی شروعات میں ہی انہوں نے صاف صاف اسلام کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔یہ بھی بتادیں کہ وشو ہندو پریشد اور سنگھ کو قرآن پر جس طرح کے اعتراضات ہیں اسی طرح انہیں بھی ہے۔ ان کی اصل شکل اس وقت سامنے آئی جب شام میں بشار الاسد کا چل چلاؤ تھا اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا تھا۔جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر غلیظ الزامات کے تحت بنگلہ دیش حکومت ایک فرضی جنگی جرائم ٹریبونل کے ذریعہ پھانسی کی سزا سنانے کا سلسلہ شروع کررہی تھی ۔اس پر ممبئی میں مسلم تنظیموں نے سخت اعتراض جتایا تھا اور ایک پریس کانفرنس میں اپنی بات رکھی تھی ۔اس کے دوسرے دن فیروز میٹھی بور والا ،گجراتی صحافی جتن دیسائی اور ایڈووکیٹ نیلوفربھاگوت نے ایک پریس کانفرنس میں مسلم دانشوروں کی اسلام پسندوں کی حمایت پر اپنے ناک بھوں چڑھائے ۔اسی پریس کانفرنس میں فیروز میٹھی بور والا نے قبولا تھا کہ بشارالاسد نے شامی عوام پر طاقت کا بیجااستعمال کیا ہے۔میرا پہلا مڈبھیڑ فیروز میٹھی بور والا سے وہیں ہوا ۔بنگلہ دیش کے تعلق سے جب میں نے کہا کہ یہ ایک فرضی ٹریبونل کی مدد سے فرضی الزامات لگائے جارہے ہیں اس کے ثبوت کے لئے میں نے کئی حقوق انسانی کی تنظیموں کا حوالہ دیا جنہوں نے بنگلہ دیش حکومت پر سخت تنقید کی تھی ۔لیکن فیروز میٹھی بور والا کے نزدیک یہ حقوق انسانی کی تنظیمیں نا قابل اعتماد تھیں جبکہ بنگلہ دیش حکومت کی ویب سائٹ پر دی گئی جانکاری ان کے نزدیک کارل مارکس کے قول کی طرح تھا۔یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب جماعت اسلامی مہاراشٹر کے اسلم غازی نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی ۔لیکن میرے خیال میں اب تک سانپ کو دودھ پلا کر مضبوط و توانا کیا جاچکا تھا۔ہمیں کسی کا ساتھ لینے یا کسی کے ساتھ آنے سے پہلے اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ اس کا منشا کیا ہے ۔ہم کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ کوئی ہماری سلامتی کی فکر مندی کا اظہار کرے اور بعد میں ہمارے دین و ایمان پر حملہ آور ہو۔ابھی حال ہی میں حاجی علی درگاہ کا معاملہ کافی میڈیا میں رہا اور اس میں بھی یہی صاحب شامل رہے ۔اس شخص کو مسلم عوام اور اسلامی قوانین میں اب خامیاب ہی خامیاں نظر آتی ہیں ۔اس کا اگلا نشانہ مساجد ہیں اس میں ان کے خیال کے مطابق مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی ساتھ ساتھ نماز پڑھنے اور امامت کی اجازت ہونی چاہئے ۔
اوپر یہ مختصر سا تعارف اس شخص کا ہونا ضروری تھا تاکہ مسلمان یہ جان لیں کہ جو ایران یا بشار کا حامی ہے اس کا کردار و عمل کیا ہے ۔بہر حال ان کے پورے انٹر ویو میں جو بات کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ اس کا سچ اور زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس جھوٹ بے جا طرف داری اور ایران و بشار کے ایجنٹ کی حیثیت سے ساری باتیں کہی گئی ہیں ۔ہم اس کے کچھ نکات پر آپکو توجہ دلاتے ہیں ۔انٹر ویو کے شروع میں انہوں نے کہا ہے کہ بھارت کے سیکولر اور مسلم انٹلیکچول کو آپس میں ملاکر تبادلہ خیال کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے ۔عرض ہے کہ یہ کام ہو رہا ہے لیکن اس میں کمی تھی تو صرف یہ کہ ایرانی اور شامی بشاری ایجنٹ کی سو وہ اس کی ضرورت پوری کردیں گے ۔آگے کہتے ہیں کہ شام مسلم ممالک کے لئے ایک سیکولر اور لبرل مثال بن چکا ہے ۔ہمارا کہنا ان سے یہ ہے کہ اسلام سے زیادہ روادار اور لبرل دنیا میں کوئی مذہب نہیں ہے اور مسلمانوں سے زیادہ روادار اور انصاف پسند بھی کوئی نہیں ہے ۔اس کی مثال اس سے لے لیجئے کہ مسلم دنیا میں مسلمان محفوظ ہو یا نہ ہو لیکن دوسری مذہبی اقلیتیں پوری طورح محفوظ ہیں۔اور اگر چار لاکھ سے زیادہ عوام کا قتل عام سیکولر لبرل ہونے کی واضح مثال ہے تو پھر ایسا لبرل نظام ایران شام اور فیروز میٹھی بور والا کو ہی مبارک ہو ۔ ایسا لبرل نظام جس میں چار لاکھ سے زائد انسانوں کو بارود کے ڈھیر کے نیچے دبا دیا جائے ۔ایسا لبرل نظام انسانوں کے کس کام کا ۔بشار الاسد کے باپ حافظ الاسد نے 1982 میں بغاوت کو فروع کرنے کے نام پر حماۃ شہر کو تباہ کردیا جس میں اسی ہزار سے زیادہ لوگ شہید کردئے گئے مساجد ڈھادی گئیں ۔شہر کھنڈر بنادئے گئے ۔اسی دور میں ایک خاتون یونیورسٹی طالبہ کو صرف پانچ منٹ کے لئے خفیہ محکمہ والے لے گئے تھے اور نو سال بعد وہ رہا ہوئیں ۔انہوں نے اس شہر کے کھنڈر بننے اور اپنی روداد قفس ’’صرف پانچ منٹ ‘‘کے نام سے لکھی ہے ۔
ایران حزب اللہ اور شام کو ہمیشہ اسرائیل مخالف اور فلسطینیوں کا حمایتی بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔لیکن یہ محض پروپگنڈہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔اسی ایران نے بشار الاسد کی تنقید کرنے پر فلسطینی امدادی رقم روک دی اور بشارالاسد نے فلسطینی دفتر بند کروادیا ۔یہ کیسی فلسطین نوازی ہے ۔کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ فلسطین نوازی محض مسلمانوں میں بھرم قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ۔اگر شام اور ایران فلسطین کے تعلق سے مخلص اور اسرائیل کے خلاف اتنے ہی سخت ہیں تو پھر آج تک اسرائیل سے ان کی جھڑپ کیوں نہیں ہوئی ۔بڑی جنگیں تو جانے دیجئے ۔اس کے برعکس اسرائیلی پارلیمنٹ میں ایک بحث زیر غور تھی کے بشار الاسد کو ان کے حمایتیوں اور خاندان والوں سمیت گولان کی پہاڑیوں پر بسا دیا جائے تاکہ بوقت ضرورت وہ اسرائیل کی بھرپور مدد کرسکے۔اسرائیل کا ظلم اور فلسطینیوں کی مظلومیت بعض مسلم ملکوں کے لئے بچاؤ اور پردہ داری کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔خواہ کچھ بھی کرو لیکن بس فلسطینیوں سے زبانی ہمدردی اور اسرائیل کی زبانی مذمت کردو سارے گناہ معاف ۔گویا اسرائیل اور فلسطین وطن عزیز کی گنگا ندی کے مماثل ہے کہ اس میں ڈبکی لگاتے ہی سارے پاپ دھل جاتے ہیں ۔چار سال میں شام میں ایران کی مدد سے بشارالاسد نے اتنے لوگوں کا خون بہایا ہے جس کے لئے اسرائیل بھی کبھی جرات نہیں کرسکتا ۔لیکن پھر بھی ہم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہم ایران اور بشار الاسد کی جانب سے آنکھیں بند کرلیں ۔کیونکہ اگر اتنے لوگوں کو نہیں مارا جاتا تو امریکی مداخلت کا راستہ صاف ہو جاتا ۔گویا امریکہ کو روکنے کے لئے انسانوں کا بے دریغ قتل جائز ہے ۔یہ تو وہی بات ہوئی نا جس طرح اسرائیلی لابی کے اشارے پر امریکہ دنیا میں جمہوریت نافذ کرنے نکلتا ہے اور لاکھوں افراد کو کیڑے مکوڑوں کی طرح ختم کردیتا ہے ۔پھر مجھے بتایا جائے کہ امریکہ پر تو لعنت کیا جائے اور ایران کے قصیدے گائے جائیں آخر کیوں ؟آخر کیوں نہیں ہم ایران پر شام کے چار لاکھ سے زائد افراد کے قتل کے لئے الزام دھریں؟
فیروز میٹھی بور والا کا جھوٹ اتنا زیادہ ہے کہ پورے مضمون کو پڑھ کر کئی جگہ بے ساختہ ہنسنے کو دل چاہا لیکن شام کے مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں نے ان ہنسی کو روکنے پر مجبور کیا۔وہ کہتے ہیں کہ 2014 کے الیکشن میں وہ وہاں تھے ستر سے اسی فیصد عوام بشارالاسد کے ساتھ تھے اور اب 2016 میں اسی سے نوے فیصد عوام بشارالاسد کے ساتھ ہیں ۔دنیا کا بڑے سے بڑا جھوٹا اور مکار شخص بھی اتنا بڑا جھوٹ نہیں بول سکتا ۔ہم سنگھ پریوار اسرائیل اور گوئبلز کے جھوٹ کی باتیں کرتے ہیں لیکن شاید اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹا شخص میٹھی بور والا کے علاوہ اور کون ہو گا؟پورے ملک کو جس حکومت کی فوجیوں نے کھنڈر بنادیا ہو ۔ چار لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک کئے جاچکے ہوں اور ایک کروڑ کے آس پاس افراد رفیوجی کیمپوں میں پڑے ہوں وہاں کے ظالم صدر کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسی سے نوے فیصد عوام اس کے حمایتی ہیں۔آخر یہ میٹھی بور والا کی کون سی ریاضی ہے جس کے تحت انہوں نے یہ ہندسے پیش کئے ہیں۔لکھنے اور کہنے کے لئے اس انٹرویو میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اگر سبھی باتوں کا جواب دیا جائے تو یہ سلسلہ کئی قسطوں میں جاکر ختم ہو گا ۔لیکن سعودی اور قطر جیسے ملکوں کے بارے میں اور ایران کی شمولیت کے بارے میں کچھ باتیں لکھ کر بات ختم کروں گا ۔کہا یہ جاتا ہے کہ شام میں سعودی اور قطر جیسے ممالک شامل ہیں ۔لیکن ان کی شمولیت کے کوئی ثبوت تو نہیں آئے البتہ ایران کی مداخلت کے شروع سے ہی ثبوت ملتے رہے ہیں ۔ایران کے کئی اعلیٰ فوجی کمانڈر ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ایسا سمجھ لیں کہ یہ جنگ جو شام میں بشار الاسد اور شامی عوام کے درمیان ہے وہ ایران کے وقار کی جنگ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔یہی سبب ہے کہ اس نے اپنے سارے اعلیٰ فوجی قیادت کو شام میں جھونک رکھا ہے ۔اس جنگ کا سلسلہ اگر مزید طویل ہو گیا تو ایران اپنے آزمودہ کار جنرلوں سے خالی ہو جائے گا جس کا خمیازہ اسے مستقبل میں بھگتنا پڑے گا۔شام کے محاذ سے آنے والی خبروں میں کوئی بھی ایسی خبر نہیں آئی کہ سعودی یا قطر کا کوئی معمولی فوجی بھی ہلاک ہواہو ۔سعودی یا قطر جیسے ملک نے اخلاق طور پر سپورٹ ضرور کیا ہے ۔لیکن خود کو اس جنگ کا حصہ نہیں بنایا ہے ۔دنیا کا ہر حریت پسند شام کے حریت پسندوں کی صرف حمایت ہی نہیں ان کی ہر طرح سے مدد کرنے میں کوئی آڑ محسوس نہیں کرے گا ۔آخر میں فیروز میٹھی بور والااور ان جیسے نام نہاد جمہوریت اور سیکولرزم کے مجاہد سے صرف ایک سوال ہے کہ داعش والے صرف چند سو مجرموں کو مار نے کے جرم میں جب دہشت گرد قرار دئے جاسکتے ہیں تو پھر بشارالاسد جیسے غنڈے چار لاکھ سے زیادہ قتل عام کے بعد بھی ایک مہذب اور عوام دوست حکمراں کیوں ؟


0 comments:

ہیں کواکب کچھ۔


ممتاز میر ۔ برہانپور 


با خبر حضرات یہ بات جانتے ہونگے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ ان کی خفیہ دستاویزات وقتاً فوقتاً عوام الناس کے علم کے لئے عام کی جاتی ہیں جسے وہ Declassify کرنا کہتے ہیں ۔روزنامہ امت کراچی کی ۵ جون کی ایک خبر کے مطابق منظر عام پر آنے والی نئی امریکی خفیہ دستاویزات نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اسلامی انقلاب کے نام پر ایران پر روح اللہ خمینی اور ان کے ساتھیوں کا قبضہ امریکی مدد سے ہوا تھا۔امریکہ کو شیطان بزرگ قرار دینے والے ایرانی رہنما امریکی مدد سے جلا وطنی ختم کرکے وطن پہونچے تھے۔اسرائیل سمیت ہر اس ملک کو تیل کی فراہمی کا عندیہ دیا گیا جواچھی قیمت ادا کریگا۔ہمیں یہاں ایران عراق جنگ کے دوران ایران کو اسرئیلی اسلحے کی فراہمی بھی یاد آتی ہے موجودہ رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے بی بی سی کے اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا ہمارے ساتھ رویہ ہمیشہ معاندانہ رہا ہے اور امریکہ نے دستاویز میں تبدیلی کی ہے۔خطے میں امریکہ اور ایران کے عزائم بالکل مختلف ہیں(یہاں وہ تقیہ کر رہے ہیں۔م م)
منظر عام پر آنے والی دستاویزات ،سفارتی پیغامات ،پالیسی میموز و میٹنگ ریکارڈس پر مشتمل ہے جن سے امریکہ کے خمینی سے خفیہ رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکہ کو شیطان بزرگ کہنے والوں نے امریکی صدر کارٹر سے اپیل کی تھی کہ اگر کارٹر افواج ایران پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اقتدار پران کے قبضے کی راہ ہموار کردیں تو وہ امریکی مفادات کا خیال رکھیں گے۔ان دستاویزات کے مطابق یہ امریکی صدر کارٹر ہی تھے جنھوں نے ایرانی بادشاہ کو چھٹیاں منانے کے نام پر ملک سے فرار کروایا۔مفرور بادشاہ اپنے پیچھے ملک میں غیر مقبول وزیر اعظم اور ۴لاکھ بکھری ہوئی فوج چھوڑ گیا تھا ۔جس کا تمام تر انحصار امریکی اسلحہ و مشاورت پر تھا۔ ہڑتالوں اور عوامی بے چینی کی وجہ سے مغرب کو تیل کی ترسیل بند تھی جس سے مغرب کا مفاد جڑا ہوا تھا ۔ان حالات میں خمینی نے امریکہ کو آفر دی کہ ہم بھی آپ کے دوست رہیں گے۔امریکی مفادات اور شہریوں کو تحفظ ملے گا۔اسلامی جمہوریہ امریکہ کے خلاف کوئی خاص عناد نہیں رکھے گی۔ایران کی فوجی جنتا تو تمھاری بات سنے گی لیکن ایرانی عوام صرف میرا حکم مانیں گے۔
اتنا سب پڑھ کر ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کے ذہنوں میں ایران میں ان دنوں ہونے والے بم دھماکوں اور دہشت گردانہ واقعات تازہ ہوجائیں۔تو صاحب اس کے لئے امریکہ کی مشہور سابق وزیر خارجہ میڈیلین البرائیٹ سے استفادہ کرنا چاہئے ۔انھوں نے اس طرح کے نقصانات کے لئے ایک اصطلاح گڑھی تھی Collateral Damage عراق میں مرنے والے بچے اگر صدام سے چھٹکارہ پانے کے لئے collateral damageتھے تو ظاہر ہے یہ بھی وہی سب کچھ تھا۔اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔ دشمن پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے ۔دشمن کا تو کام ہی دوستوں کو آپسمیں لڑانا ہوتا ہے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایران اور اس کے اسلامی انقلاب کے تعلق سے یہی کہا ہے اور بہت پہلے کہا ہے جو آج بی بی سی کی رپورٹ امریکہ کی خفیہ دستاویزکے تعلق سے کہہ رہی ہے۔بزرگ ایرانی اخوانی قائد شیخ محمد احمدالراشدجنوری ۲۰۱۴ میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’آزادی سے فرار‘مصری فوجی انقلاب کے تعلق سے ایک باب قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں‘’’یہ ایران ہی ہے جس نے عرب کے تمام شیعوں کو مرسی کے خلاف متحد اور قتل غارت گری پر آمادہ کر لیا‘‘ اور یہ اس کے باوجود ہوا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار مرسی نے ایران کے بحری بیڑے کو نہر سوئز سے گزرنے کی اجازت دی تھی۔مزید ایک جگہ وہ ایران کے تعلق سے لکھتے ہیں’’انھوں نے حزب اللہ کو لبنان میں اگایا شام میں نصیریوں کی حکومت قائم کردی یمن میں رافضی انقلابات کو جنم دیا اور مصر پر قبضہ کرنے کے لئے اس کے قدم آپڑے۔اس کے علاوہ انھوں نے عراق کی شیعی جماعتوں کو ہر طرح کا تعاون دیا اور عراق میں شیعی حکومت قائم کردی‘‘۔پھر ایک جگہ لکھتے ہیں ۔’’مرسی نے کچھ مصری ہتھیار شامی مجاہدین کو دینے کی کوشش کی تو اس پر ایران بہت زیادہ بھڑک گیا ۔آخر میں شیخ ۳۵ سال پرانے امریکی ایرانی گٹھ جوڑ کے بارے میں لکھتے ہیں ’’امریکہ نے شاہ کو نصیحت کی جس نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ بادشاہوں کو بادشاہ سائرس ثانی ہے اور نئی کسرویت کو ابھارنے والا ہے ۔اس نے امریکی نصیحت کو ماننے سے انکار کر دیا اور خلیج پر (تیل کے لئے)قبضہ کرنے کا پختہ ارادہ ظاہر کیا توامریکہ نے فوراًشاہ کے مخالف خمینی کا کھڑا کر دیا ۔امریکہ نے خمینی کو مال رپورٹ اور میڈیائی سہارا فراہم کیا ۔امریکہ نے خمینی انقلاب کی منصوبہ بندی کی اور امریکہ نے جب فرانس کو اس کی مدد و معاونت سپرد کی تو انقلاب رو نما ہو گیا ۔اور جب شاہی فوج کی مشین گنیں خمینی کے حامی ہزاروں مظاہرین کو پھاڑنے لگیں تو اطلسی معاہدے کا قائد فوراً ایران پہونچ گیا اور شاہ کو قطعی طور پر قوت کے استعمال سے روک دیا ‘‘ شیخ نے اور بھی بہت کچھ لکھا ہے ہم بس اسی پر اکتفا کریں گے۔
آئیے کچھ حج کی ایرانی سیاست پر بھی روشنی ڈالیں۔سب سے پہلے ایران نے جولائی ۱۹۸۷ کے حج میں سیاست گھسیڑی تھی ۔اور غالباً حج کی جدید تاریخ میں اسی سال دوران حج خون خرابہ ہوا تھا ۔جبکہ تاریخ یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں بھی مشرکین ایام حج کا احترام کرتے تھے پچھلے سال بھی منیٰ میں جو حادثہ ہوا تھا اس کے تعلق سے بھی بہت سارے اخبارات اور خود عازمین حج کی رپورٹیں تھیں کہ یہ حادثہ ایرانی حجاج کے بے تکے احتجاج کی بدولت رونما ہوا تھا اور اس میں مرنے والے بھی زیادہ تر ایرانی حجاج ہی تھے۔اور اس بار بھی اب تک ایران و سعودی عرب میں اگر معاہدہ نہ ہوپایا ہے تو اس میں بھی ایران کی گندی سیاست ہی وجہ ہے ۔سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا ہے کہ ایران نے معمول سے ہٹ کر کچھ مظاہرہ کرنے اور کچھ ایسی مراعات کا مطالبہ کیا تھا جس سے حج کے دوران افرا تفری مچ سکتی ہے ۔ایران ایسی شرائط پر اصرار کر رہا ہے جو حج کے معروف مناسک کے ذیل میں نہیں آتی۔
ہم نے زندگی میں جب پہلی بار یہ پڑھا تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان کا تنازعہ پہلے حضورﷺ پھر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس گیا دونوں جگہ فیصلہ مسلمان کے خلاف آیاآخر میں مسلمان نے یہودی کو حضرت عمرؓ کے پاس لے گیاساری سرگذشت سننے کے بعد حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ کیا کہ گھر کے اندر سے تلوار لا کر مسلمان کا سر تن سے جدا کردیا ۔آج بھی ایسے ہی شدید فیصلوں کی ضرورت کل سے زیادہ ہے وہ لوگ جو دین کی مٹی پلید کر رہے ہوں،قوم میں انتشار پیدا کر رہے ہوں انھیں کافر نہ سہی منافق کا درجہ کب دیا جائے گا؟
07697376137 

0 comments:

کیا مسلم اکثریتی ملک میں اقلیتیں محفوظ نہیں ؟

نہال صغیر

ممبئی اردو نیوز ملت کی ترجمانی کے دعوے کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے ۔اس کی وجہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ وہی ٹیم ہے جس نے تقریبا ستاون سالوں تک ملت کی ترجمانی کے فرائض انجام دیے۔لیکن ہماری صفوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بظاہر اتحاد امت کا دم بھرتے ہیں لیکن درپردہ وہ ایرانی ایجنڈے کو نافذ کرنے میں ہی سرگرم رہتے ہیں ۔ممبئی اردو نیوز کے 9 ؍جون کے شمارے کا اداریہ پڑھئے پورا اداریہ شاندار ہے لیکن اس کے اختتام پر تین لائن ایسی ہے جس کو پڑھ کر یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا کہ یہ اخبار ملت کا ترجمان ہے۔اسے پڑھئے اور دیکھئے کہ جن الفاظ کی پورے اداریہ میں کوئی ضرورت نہیں تھی اسے بڑی آسانی کے ساتھ اداریہ کا حصہ بنادیا گیا اور مسلمانوں کو اور مسلم ملکوں کو مجرم بنا کر پیش کردیا گیا ۔اداریہ کے اختتام پر تحریر ہے’’مسلمان جہاں اقلیت میں ہیں اور شریک اقتدار نہیں ہیں وہاں وہ اپنی اکثریت کے مظالم کا شکار اسی لئے ہیں کہ جہاں وہ خوداکثریت میں ہیں وہاں وہ اپنی اقلیتوں کا جینا مشکل کئے ہوئے ہیں ‘‘ ۔اسے پڑھ کر آپ خود فیصلہ کیجئے کہ اس طرح کے الفاظ ہمارا قومی میڈیا بھی کہنے کی جرات نہیں کرتا۔ وہ چند گروہوں پر الزام تو رکھتا ہے۔ لیکن پوری اسلامی دنیا کو اس طرح کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتا ۔جس طرح اس اداریہ کے اختتام پر کہا گیا ہے ۔اور اگر صاحب اداریہ کی نظر میں یہ بات بالکل درست ہے جو انہوں نے لکھا ہے تو پھر انہیں مسلم ملکوں میں اقلیتوں پر ہو رہے ظلم و زیادتی کا ثبوت بھی پیش کرنا چاہئے ۔
ممبئی اردو نیوز کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس کی پالیسی کے خلاف ایسی کوئی تحریر شائع نہ ہو جو اس کی ملت کی ترجمانی کے دعوے کو مشکوک بنادے ۔اس سے قبل بھی پچھلے اخبار میں ایسے کئی اداریے شائع ہوئے ہیں جس میں بیچ بیچ میں مسلم ملکوں یا اسلامی تحریکات کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ۔مثال کے طور پر ایک بار لکھا گیا کہ ’مسلم ملکوں کے لئے ایرانی برانڈ حکومت ہی ٹھیک ہے ۔اس کے لئے انہوں نے دلیل کے طور پر یہ پیش کیا کہ اسلامی انقلاب کے بعد ایران اپنی جگہ پر اٹل ہے جبکہ دوسری اسلامی تحریکات کی حکومت کئی ممالک میں دیر پا نہیں ثابت ہوئیں ۔یہ الفاظ انہوں نے محمد مرسی کی معزولی پر لکھے تھے ۔ میری معلومات کے مطابق جو صاحب اداریہ لکھتے ہیں وہ موجودہ دور کی کئی اسلامی انقلابی شخصیات کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں ۔مثال کے طور پر علامہ یوسف القرضاوی اور ضیا ء الحق وغیرہ ۔اسی طرح اور بھی سنی علماء کی شخصیت کو درپردہ مضامین میں یہ حضرت نشانہ بناتے رہے ہیں ۔میری ممبئی اردو نیوز کے ذمہ داران سے اپیل ہے کہ وہ اس جانب توجہ دیں ۔اس سے قبل بھی جب جب میری نظر ایسی متنازعہ باتوں پر پڑی میں  ذمہ داران کو ایس ایم ایس اور فون کے ذریعہ مطلع کرتا رہا ہوں ۔ یہاں موقع نہیں ہے کہ میں مسلم ملکوں میں اقلیتیں ظلم کا شکار ہیں یا سب سے زیادہ محفوظ ہیں پر بالتفصیل لکھوں ۔بعد میں انشاء اللہ اس پر لکھوں گا ۔ابھی صرف اتنا کہتا ہوں کہ مسلم ملکوں میں مسلمان محفوظ ہوں یا نہ ہوں لیکن وہاں کی اقلیتیں پوری طرح محفوظ ہیں ۔ایک چھوٹی سی مثال افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک کی ہے کہ وہاں کے ہندو اور سکھ اور ان کی عبادت گاہیں بہت زیادہ محفوظ ہیں ۔اور ابھی کل پرسوں کی ہی خبر ہے کہ پاکستان میں کسی سرپھرے پولس کانسٹبل نے کسی ضعیف ہندو شخص کو اس لئے مارا پیٹا تھا کہ اس نے افطار سے پہلے کچھ کھانے کی چیز خریدی تھی یا کھایا تھا ۔ اس پر اسے فورا ًبرخواست کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ وطن عزیز میں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن گرفتاری یا کارروائی میں ٹا ل مٹول کیا جاتا ہے ۔اس ہندو ضعیف شخص کے سانحہ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک ہندی نیوز پورٹل نے لکھا ’’ہندو بزرگ کی حمایت میں ایک ہوا پاکستان ‘‘۔صاحب اداریہ کو مسلم ملکوں میں اقلیتوں پر مظالم کا ثبوت پیش کرنا چاہئے یا پھر انہیں مسلم ملکوں کو نشانہ بنانے سے پرہیز کرنا چاہئے اور ممبئی اردو نیوز کو ایسے اداریہ پر غور کرنا چاہئے۔


0 comments:

اسلام کا نظریۂ تعلیم (۸)


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

(گزشتہ سے پیوستہ)
اسلام کا نظریۂ تعلیم کیا ہے اور اسلام کے نام پر ہمارے محلوں اور علاقوں میں مساجد کے علاوہ چھوٹے چھوٹے مدرسے قائم ہیں جن کا مقصد تعلیم سے زیادہ تجارت ہے اور جن سے نہ صرف ملت کے نونہالوں کا مستقبل تاریک تر ہوتا جارہا ہے بلکہ ملت کے ہمدرد اور اہل خیر حضرات کی کثیر رقوم بھی انہیں تاجروں کی نذر ہوتی جارہی ہیں۔ یہ کتنی حیرت اور فکر انگیز بات ہے کہ یہ لوگ ملت کے بچوں کو تو دینی تعلیم دلانے کے نام پر جمع کرتے ہیں اور تعلیم دلانے کے بجائے ان کی گھر گھر چندہ وصولنے کی تربیت کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم دلاتے ہیں۔ ایسے ڈھونگیوں سے ہر ممکن طور پر بچنے کی کوشش کریں اور محلے و علاقوں میں ایسے اسکولوں کا قیام عمل میں لائیں جہاں نونہالان ملت دینی و عصری تعلیمات سے فیضیاب ہوسکیں اور یہی وقت اور دین و ملت کا تقاضا بھی ہے۔ 
اسلام میں تعلیم کی اہمیت مسلّم ہے۔ تاریخ انسانیت میں یہ منفرد مقام اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ سراپا علم بن کر آیا اور تعلیمی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیغامبر ثابت ہوا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے انسانیت نے اپنے سفر کا آغاز تاریکی و جہالت سے نہیں کیا بلکہ علم کی روشنی سے کیا۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے تمام انسانوں پر تعلیم کو فرض قرار دیا ہے اور اس فرض کی ادائیگی کو معاشرے کی ایک ذمہ داری قرار دی ہے۔ خود حضور ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ علم کے مقام اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے۔ سورۃ علق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ انسان کو خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب کریم ہے، وہ جس نے قلم سے تعلیم دی، انسان کو، ان چیزوں کی تعلیم دی، جن کو وہ نہ جانتا تھا۔‘‘ 
تعلیم کیا ہے؟ 
واضح رہے کہ تعلیم صرف تدریس عام کا ہی نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتا ہے اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتا ہے۔ تعلیم ایک ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت ہے اور اس کا مقصد اونچے درجے کے ایسے تہذیب یافتہ مرد و عورتیں پیدا کرنا ہے جو اچھے انسان کی حیثیت سے اور کسی ریاست کے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کسی ایک قوم کی زندگی کا انحصار ہی اس کی تعلیم پر ہے اور تعلیم ہی وہ عمل ہے جس سے افراد کی تعمیر ممکن ہے۔ ایک دوست نے راقم کو تعلیم کے تعلق سے ایک چینی کہاوت سنائی جسے آپ بھی سنیے اور درس و تدریس سے جڑے لوگوں کو بھی سنائیے۔ ’’تمہارا منصوبہ اگر سال بھر کے لیے ہے تو فصل کاشت کرو، دس سال کے لیے ہے تو درخت اگاؤ، دائمی ہے تو مناسب افراد پیدا کرو۔‘‘ 
تصوّر علم
اسلام نے علم کا جو تصور دیا ہے اس میں سب سے بنیادی چیز یہ ہے کہ علم کا سرچشمہ ذات باری تعالیٰ ہے نیز یہ کہ علم کا تعلق محض لوازمات حیات سے ہی نہیں بلکہ مقصد حیات سے بھی ہے اور اول الذکر کو ثانی الذکر کے تابع ہونا چاہیے۔ یہی وہ تصور ہے جس سے ہمارے نظام تعلیم کا پورا مزاج بنتا ہے۔ اسلام کے تصور علم میں علم اور تربیت دونوں کو یکساں اہمیت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم اور تربیت سازی ایک ہی حقیقت کے دو پہلو رہے ہیں اور اس کا اظہار علم و فضل کی اصطلاح سے بھی ہوتا ہے جو علم ونیکی اور اخلاقِ حسنہ میں بڑھے ہوئے ہونے کا مفہوم ادا کرتی ہے۔ 
مقصد تعلیم
تعلیم بجائے خود ایک منزل نہیں بلکہ منزل کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حقیقی منزل ان لوگوں کے لیے نظریہ حیات اور تمدن و ثقافت ہے جن کی انہیں خدمت کرنی چاہیے۔ پس تعلیم کا اولین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طلبا میں ان کے مذہب اور نظریہ حیات کی سمجھ بوجھ پیدا کرے اور انہیں بتائے کہ وہ کس طرح اعلیٰ مقاصد کے لیے دنیا کی تمام قوتوں اور ذرائع کا استعمال کریں۔ تعلیم کوایسے افراد پیدا کرنے چاہئیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نظریہ حیات کو سمجھتے اور اس پر بھرپور یقین رکھتے ہوں۔ 
پس اسلامی تہذیب و ثقافت کے پس منظر میں تعلیم کا بنیادی مقصد پیغمبرانہ فرائض کی بجا آوری ہے اور انسانوں کو اس مشن اور مقصد کی تعلیم دینا، ان میں مذہب کی سچی روح پیدا کرنا اور انہیں ایک مکمل اور صحت مند زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ یہ مقصد تعلیم کے ہر گوشے میں اسلامی نظریۂ حیات کی روح جاری و ساری رکھنے سے ہی حاصل ہوگا۔ اپنے مدرسوں او راسکولوں میں اس مقصد کے لیے نئی کتابیں اور نصاب بھی تیار کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے محلوں، علاقوں میں چل رہے اسکولوں اور مدرسوں کا سروے بھی کیا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ کتنے اور کس حد تک اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہ کام بڑی حد تک محلے کی مساجد کے ائمہ حضرات انجام دے سکتے ہیں لیکن افسوس کہ ان میں بھی اکثر اپنے مناصب کی اہمیت سے یا توناواقف ہیں یا پھر جان بوجھ کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے کتراتے ہیں، ان میں بہتیرے ایسے ہیں جن کی زندگیاں عوام کے لیے آئیڈیل نہیں ہوتیں جن کی وجہ سے جڑ کر یا عوام میں گھل مل کر یہ رہنا پسند نہیں کرتے اور حجرہ نشین کو ہی بہتر مان لیتے ہیں، جس کی وجہ سے دینی، ملی اور سماجی بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں ایسے تعلیمی ادارو ں کا قیام اور مسجدو ں کے اماموں کا انتخاب کریں جن سے اور جہاں سے اسلامی تعلیمات کی سچی روح پیدا ہو تو ہمارے مسائل بہ آسانی حل ہوسکتے ہیں۔ 
ہماری کئی جماعتیں اور ادارے ایسے ہیں جو سال دو سال یا دوچار سالوں میں تعلیمی کارواں نکال کر اپنا فریضہ ادا کرتے رہتے ہیں یہ سلسلہ بھی ٹھیک ہی ہے مگر اس سے بہتر یہی ہے کہ محلے کی مسجدوں کے اماموں کے ذریعہ اس مشن کو آگے بڑھائیں۔ اس سلسلے میں اعظم گڑھ کے مولانا ابرار ا صلاحی صاحب جو کہ مکہ میں قیام پذیر ہیں اور رابطہ عالم اسلامی سے جڑے ہوئے ہیں، مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے اور تعلیم کی اہمیت و ضرو رت پر زور دینے میں پیش پیش ہیں اور جب بھی وہ اپنے گھر و وطن میں ہوتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں سے ملیں جو ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں معاون بن سکیں۔ اللہ کے فضل سے مولانا موصوف کے اس تعلیمی مشن میں خاصے لوگ شریک عمل ہو رہے ہیں۔ مولانا کا ذکر درمیان میں اس لیے آگیا کہ اگر یقیں محکم عمل پیہم ہو تو کٹ ہی جاتی ہیں زنجیریں کے مصداق مولانا کا یقیں محکم اور عمل پیہم بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اللہ انہیں دین و ملت کی خدمت کا زیادہ سے زیادہ موقع عنایت فرمائے۔ 
تعمیر کردار
یہ بات بھی واضح رہے کہ تعلیم میں سب سے زیادہ اہمیت طالب علم کے کردار کی تشکیل کو حاصل ہونی چاہیے۔ تعلیم جب تک اچھے کردار تعمیر نہ کرے گی اپنا حقیقی مقصد کبھی حاصل نہ کرپائے گی۔ اسلام میں نیک اعمال اولین اہمیت کے حامل ہیں۔ قرآن پاک میں ایمان اور عمل صالح کی بیک وقت تلقین آئی ہے۔ یہ ایک نظریاتی حقیقت ہے کہ کردار کے بنیادی رجحانات کی اساس زندگی کے ابتدائی دور میں ہی پڑ جاتی ہے اور اسکول و کالج ایک انسان کے کردار کی تعمیر میں اہم ادا کرسکتے ہیں۔ تعلیم کے تمام مراحل پر طلبا کو رسول اکرمؐ اور ان کے صحابہ کی مثالی زندگی پڑھانی چاہیے۔ اساتذہ کو خود اپنی زندگی اور کردار و عمل سے طالب علم میں ایک نیک زندگی اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے اور پھر درس گاہوں کا ماحول بھی ایسا ہونا چاہیے کہ اس سلسلے میں ممد و معاون بن سکے۔ 
تکمیل حیات
معاف کیجیے، اسلام زندگی او راس کی مسرتوں کو ترک کردینے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ان کی تکمیل کا داعی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری تعلیم کو ہمارے نوجوانوں کی زندگی اور اس کے مطالبات کی تکمیل کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ انہیں زندگی گزارنے کے طریقوں کی تربیت دینی چاہیے اور معاشرے کی گوناگوں ضرورتوں کو پورا کرنے کے لائق بنانا چاہیے۔ اسلام رہبانیت کا مخالف ہے اور چاہتا ہے کہ انسان زندگی کی کشاکش کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ اپنی زندگی گزاردے۔ قرآن حکیم نے ان لوگوں کو سختی سے خبردار کیا ہے جو اس کی عنایات سے لطف اندوز ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ سورۃ بقرہ اور سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ان سے کہو کہ کس کے حکم سے تم نے ان نعمتوں سے منہ پھیرا ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے تخلیق کی ہیں، کھانے پینے اور استعمال کی ان چیزوں سے جو اس نے ان کے لیے بنائی ہیں۔‘‘ 
قرآن ہمیں دنیا و آخرت کے بہترین حصول کی تعلیم دیتا ہے، اسلام کی نظر میں انسانی محنت و مشقت نہایت ہی قابل قدر ہے۔ اسلام ہر فرد کو اپنی روزی کو خود کمانے کے قابل بناتا ہے۔ پس تعلیم کو دیانت دارانہ، منصفانہ اور معقول معاش کے حصول میں ممد و معاون ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں تعلیم کو معاشرے کی اقتصادی، سماجی، سائنسی اور فنی ضروریات بھی پوری کرنی چاہئیں اور تعلیم میں اتنا عملی عنصر ضرور ہونا چاہیے کہ ہر فرد معاشی استحکام حاصل کرسکے۔ 
سوچئے ذرا، کیا ہمارے موجودہ مدارس اپنا اصل کردار پیش کرپارہے ہیں! اگر نہیں تو ہمیں انہیں اسلام کے اصل نظریے کے مطابق ڈھالنا ہوگا تبھی ہم ہمہ قسم کے مسائل سے نجات حاصل کرپائیں گے۔ اللہ ہمیں اسلام کے نظریۂ تعلیم کو فروغ دینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں کامیابیوں سے سرفراز ہوسکیں۔ (ختم شد)

0 comments:

تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۷)


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

(گزشتہ سے پیوستہ)
پچھلی باتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قوموں کی ترقی کا راز نظام تعلیم میں پنہاں ہے اور تعلیم دراصل شعور و آگہی کا نام ہے جو قومو ں کی ترقی میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ آج تقریباً ستّر سال گزرنے کے بعد بھی ہم نظام تعلیم کی تجربہ گاہ میں زیر عتاب ہیں۔ ہمارے مدارس جو کبھی زمانے میں معیار کی ضمانت سمجھے جاتے تھے آج آکسیجن ٹینٹوں میں یا جھگی جھونپڑیوں میں آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کی بھرمار سے تعلیم ایک منافع بخش کاروبار بن گئی ہے ۔ اس طرح اسلامی تعلیمی نظام کی روح مسخ ہوتی جارہی ہے۔ خصوصاً وہ مدارس جو مسلمانوں کے محلوں میں پائے جاتے ہیں جہاں چند مقامی اور چند غیر مقامی تعلیم کی غرض سے جمع ہوتے ہیں اور ان مدارس کے نام جامعات ہیں وہاں عموماً تعلیم سے کہیں زیادہ چندہ وصولی کا کام ہوتا ہے۔ بچوں کا ذہن تعلیم سے کہیں زیادہ چندے کے پھندے میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور وہ پھر اپنا مستقبل اسی راہ میں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ دہلی کے جمناپار میں مسلمانوں کی ایک بیلٹ ترلوک پوری سے کلیان پوری، ونود نگر، جوشی کالونی، منڈاولی فضل پور، غازی پور، کھچڑی پور، شکرپور، لکشمی نگر، خریجی، آزاد نگر، کانتی نگر اور سیلم پور تک پھیلی ہوئی ہے۔ اتنی بڑی آبادی میں کوئی بھی مسلمانوں کا مرکزی تعلیمی ادارہ نہیں ہے جبکہ یہاں اشد ضرورت ہے عام مسلمانوں میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت کو عام کرنے کی۔ اگر چند لوگ یا پھر ملی جماعتیں جو کبھی کبھار تعلیمی کارواں نکال کر یہ فریضہ انجام دیتی رہتی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنا حقیقی رول ادا کریں۔ ایسے کئی علاقوں میں راقم نے گھوم پھر کر دیکھا ہے جہاں مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہیں جس کے نتیجے میں کاروباری لوگ ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ 
ہماری ملی جماعتیں اور ان کے ذمہ داران اگر اپنے گھروندوں سے باہر نکل کر مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کی زحمت گوارہ کریں تو انہیں ایسی صورتِ حال کا بھی سامنا ہوگا جہاں تعلیم سے کہیں زیادہ گداگری سکھائی جاتی ہے اور اس کا روبار میں وہ لوگ شا مل ملیں گے جو اپنے ملک و سماج میں بوجوہ نہ صرف یہ کہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں بلکہ جنہوں نے کئی عنوان سے اُمت یتیمؐ کی دست گیری کا ٹھیکہ بھی سنبھال رکھا ہے۔ یہ بات ذرا تلخ ہے اور بہت سے لوگوں کو ناگوار بھی گزرے گی لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ لوگ جو ایسے مدرسوں کے نام پر جن کا کوئی وجود ہی نہیں، مسجدوں کے نام پر اور مختلف دیگر ایسے ناموں پر ملت سے رقوم حاصل کر رہے ہیں اور من مانی خرچ کر رہے ہیں۔ آج سے تیس چالیس سال قبل تک تو مدارس کے ذمہ داران ایک ایک پیسہ کا حساب گوشوارہ آمد و خرچ کے ذریعہ پیش کرتے تھے لیکن یہ سلسلہ یکایک علی الحساب ہوگیا اور اب یہ لوگ کسی بھی حساب و کتاب سے آزاد ہیں۔ 
کاش کہ یہ لوگ یہ محسوس کرتے کہ مسلمانوں کے گھر گھر سے حاصل کی ہوئی رقوم سے اپنی پرشکوہ عمارات اور آرام دہ سواریوں سے سفر کرنے اور اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے قیمتی سامان اکٹھا کرنے سے کہیں زیادہ بہتر بات یہ ہوسکتی تھی کہ وہ صدق دل سے اپنی محنت اور لوگوں کی مدد سے دین و ملت کی خدمت اور دینی علوم کی ترو یج و اشاعت کا کام کرتے اور ان بوریا نشینوں کی سنت پر عمل کرتے جو ہمیشہ ہی اس ملت کا سب سے گراں قدر اثاثہ رہے ہیں اور جن کی فہم و فراست، جن کے ایثار، جن کی حکمت و خوش تدبیری اور جن کی بے پناہ قرانیوں کے نتیجے میں ہی ملک کی ملت اسلامیہ کسی حد تک سربلند او رایک ممتاز مقام کی حامل ہے۔ 
گزشتہ دنوں ایک نوجوان چندہ لینے کے لیے میرے پاس پہنچا، میں نے پوچھا کہ کس ا سکول کے لیے چندہ کر رہے ہو؟ لڑکے نے کہا جامعہ اسلامیہ کے لیے۔ حیرت سے میں نے کہا، کیا کہا جامعہ ملیہ اوکھلا سے؟ کہا نہیں، یہ جامعہ یہیں ہے۔ میں نے اسے چندہ دینے سے انکار کردیا تو وہ جانے لگا اور پھر مجھے مڑ کر دیکھا، اس کے چہرے پر مایوسی دیکھ کر مجھے رحم آگیا، بلایا اور اسے کچھ روپے دے دیے۔ اس دوران اس سے سوال کیا کہ جامعہ کے معنی جانتے ہو؟ لڑکے نے کہا یہی ہمارا مدرسہ! ایک روز اسی مدرسہ میں راقم بھی پہنچ گیا۔ وہاں کا منظر دیکھ کر تعجب ہوا کہ بچوں کے لیے تو ٹین شیڈ پڑا ہوا ہے اور مہتمم صاحب کے لیے لینٹر کی چھت اور ضروری سامانِ تعیش! راقم نے بچوں کی حالت اور ٹین شیڈ کے بارے میں جب کسی سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اس صورت حال سے متاثر ہوکر ہی تو اہل خیر حضرات بلڈنگ کی تعمیر میں حصہ لیں گے اور ضروری تعاون بھی دیں گے اور جب بلڈنگ کی تعمیر ہوجائے گی تو کسی اور جگہ دوسرا مدرسہ کھول کر اس سلسلے کو آگے بڑھادیا جائے گا۔ غور کیجیے، ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ 
سورہ توبہ 24کا حوالہ ہم پہلے بھی دے چکے ہیں کہ ’’اے ایمان والو! اکثر احبار (علماء) اور رہبان (درویش) لوگوں کا مال غلط طریقے سے کھاتے ہیں او ران کواللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔‘‘ 
کاش کہ ہمارے علماء اور نام نہاد قائدین مذکورہ بالا آیت کو پیش نظر رکھتے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ سارے علماء اور درویش یکساں نہیں ہوتے۔ بہت سے علماء اور درویش نہ صرف عام لوگوں کا مال غلط طریقوں سے کھاتے ہیں بلکہ انہیں گمراہ بھی کرتے ہیں جیسے کہ آج دیکھے اور پائے جاتے ہیں او رایسے لوگوں سے تو پوری تاریخ بھری پڑی ہے جن کے کالے کرتوتوں اور کارناموں سے دین و ملت کا شدید نقصان ہوتا رہا ہے۔ 
یہ بات بھی عام طور سے سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کے دینی اداروں اور جماعتوں میں شخصیت پرستی کی بیماری عام ہوتی جارہی ہے۔ حاشیہ برداری، خوشامد پسندی کو مستقل ایک مقام حاصل ہے۔ یہ صحیح ہے کہ علماء و امراء کی اطاعت ضروری ہے لیکن معروف یعنی اچھے کاموں میں۔ منکرات یعنی خلاف شرع کاموں میں کسی بھی مسلمان کی اطاعت جائز نہیں۔ ایسے میں یہ بتایا بھی جائے کہ مسلمانوں کے درمیان جو باہمی رشتہ ہے وہ اخوت دینی کا ہے۔ اسلام میں کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہے اس کی نظر میں سب مسلمان برابر ہیں۔ عالم اور غیر عالم عزت و حقوق میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ فرائض کے اعتبار سے فرق ہے۔ عالم کا کام عام لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانا ہے جب تک وہ نیکی و خیر کا حکم دے عام مسلمانوں پر اس کی پیروی واجب ہے، لیکن تعظیم اور محبت کے اصل مستحق صرف اللہ اور اس کے رسول ہیں۔ 
ایک بات یہ بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ مسلم علماء میں بھی پاپائیت جیسی بیماری پیدا ہوچلی ہے، وہ جن باتوں پر عمل کرنے کا مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں وہ خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ جبکہ ان کی زندگیاں آئیڈیل ہونی چا ہیے تھیں۔ اس کے باوجود وہ مسلمانوں کی عقیدت و محبت کا مرجع بن جاتے ہیں یا بننے کی کوشش کرتے ہیں جو سراسر غیر اسلامی طریقہ ہے۔ یہ برہمنیت اور پاپائیت نہیں تو اور کیا ہے؟ 
معاف کیجیے، آج سردار الانبیاءؐ کے علمی وارثین علماء کرام کا طرز زندگی اس کے بالکل خلاف ہے۔ وہ خادم کے بجائے مخدوم بنے ہوئے ہیں، اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کے بجائے دوسروں سے کراتے ہیں، خواہ وہ غیر معذور ہوں۔ ہمارے اساتذہ، علماء و قائدین ملت کو اس خلاف سنت عمل کو اب چھوڑ دینا چاہیے۔ ا للہ ہم سب کو ہدایت دے اور نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری مسجدیں اور ہمارے مدرسے دین کے قلعے ہیں، اے اللہ ان کی حفاظت فرما اور دین و ملت کے نام پر جو لوگ تجارت کرتے ہیں انہیں اپنے حقیقی فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین! (مضمون کا آخری حصہ بعنوان ’اسلام کا نظریۂ تعلیم‘ اگلے ہفتے ملاحظہ فرمائیں) 

0 comments:

تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۶)


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

(گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ کالم میں جوشی کا لونی کے مختصر حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو ملت کی زبوں حالی اور زوال پذیری کی ایک ایسی داستان ہے جسے پڑھ کر، سن کر کوئی بھی ملت کا درد مند فرد رو پڑے گا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے ’شرمناک کارنامے‘ وہ لوگ کر رہے ہیں جن پر دین داری کا لیبل لگا ہوا ہے اور وہ دین و ملت کے وسیع تر مفادات کے لیے کہیں تک جانے کا عزم بالجزم بھی رکھتے ہیں۔ ان کی پیشانیاں ان کی نیک عملی اور ان کا حلیہ ان کی درویشی کی گواہ ہیں کہ یہ اللہ کے محبوب بندے ہیں۔ ان کا جینا و مرنا سبھی اللہ کی خوشنودی اور رضامندی کے لیے ہے۔ 
اب آپ ایک واقعہ جعفرآباد (دہلی) کے معروف مدرسہ کے مہتمم کا سنیے۔ راقم کسی ضرورت سے مدرسہ کے مہتمم صاحب سے ملنے گیا۔ شعبہ اہتمام میں کئی حضرات موجود تھے جو آپس میں دوسرے فریق کو ناکام بنانے کی باتیں کر رہے تھے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ایک گروپ ہے جو مدرسہ کے مہتمم صاحب کو نکالنا چاہتا ہے اور ایک گروپ جو مولانا کے سحر میں گرفتار ہے اور جو سیاسی اور سماجی طو رپر بااثر بھی ہے، مولانا کے حق میں ہے اور وہ کسی بھی حال میں مولانا کو مدرسہ بدر نہیں ہونے دے گا۔ راقم سطور جب مدرسہ کی پہلی منزل سے گراؤنڈ فلور پر آیا تو وہاں مہتمم صاحب کے صاحبزادے موجود تھے، سلام کلام کے بعد فرمانے لگے۔ ’’اسلم صاحب! یہ لوگ ہمیں یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم اتنی آسانی سے چلے جائیں گے! اسی مدرسے کے ذریعے ہم نے 40 بیگھہ زمین خریدی ہے اور اسی کے ذریعے ایک نجی مدرسہ بھی چلا رہے ہیں اور دیگر ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں، آپ ہی بتائیں بھلا کیسے اسے چھوڑ دیں؟‘‘ یہ بات 1986 کی ہے، جب مدرسہ اپنے عروج کی منزلیں طے کررہا تھا۔ اس طرح کے واقعات نہ معلوم کتنے ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر ملت کے ان قلعوں میں دراڑیں کیوں پڑنے لگی ہیں؟ اور وہ کون لوگ ہیں جو انہیں منہدم کرنے پر مصر ہیں؟ انہیں ہمیں پہچاننا ہوگا اور ان سے چھٹکارے کے راستے بھی ڈھونڈنے ہوں گے۔ 
کچھ اسی طرح کے حالات علماء یہود کے بھی تھے جن کے بارے میں قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو نیکی و تقویٰ کی تعلیم دیتے ہیں اور خود ان پر عمل نہیں کرتے۔ (سورہ بقرہ) علماء یہود کے اسی منافقانہ طرز عمل سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے ان کے علماء کو ان لفظوں میں تنبیہ کی گئی ہے۔ ’’اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہ کرتے ہو۔‘‘ یقین کیجیے اگر دلوں میں خوف خدا ہو اور روز آخرت محاسبہ اعمال کا یقین ہو تو علماء اور قائدین ملت کی زبانیں گنگ ہوجائیں۔ ان پر ہمیشہ کے لیے مہرسکوت لگ جائے اور وعظ و تعلیم کی مجلسیں ویران ہوجائیں۔ کس عالم اور کس قائد میں یہ ہمت ہے کہ وہ مسلمانوں کو برّ و تقویٰ کا درس دے۔ ایک بھی عالم اور قائد ایسا نہیں ہے جو نفاق کے مرض سے محفوظ ہو، جس کی زندگی اس کے اقوال زریں کے خلاف نہ ہو۔ جو مال و زر اور تعیشات دنیوی کے دام سے آزاد ہو۔ جو غیر خدا سے کسی نفع کی توقع اور ضرر کا اندیشہ نہ رکھتا ہو کہ یہی چیز تو کل کی روح اور توحید کی اساس ہے۔ 
علماء کی دنیا پرستی کا نتیجہ دجل و فساد کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایک عالم دوسرے عالم سے لڑ تا جھگڑتا ہے اور ایک دوسرے کو گمراہ و بے دین بتانے لگتا ہے تو اس طرح ملت متعدد متحارب فرقوں اور جماعتوں میں بٹ جاتی ہے اور ان فرقوں او رجماعتوں کے دنیا پرست قائدین ملت اختلاف و فرقہ کو اپنے دنیوی مفادات کے تحفظ کا بہترین ذریعہ سمجھ کر اس کو باقی رکھنے میں ہر ممکن کوشش کرتے ہیں او راسے مزید مستحکم بنانے کے لیے اپنی زبان و قلم کی ساری قوتیں صرف کرتے رہتے ہیں۔ 
بہرحال موضوع ہمارا تعلیم ہے اور تعلیم کا اصل مقصد نئی نسل کی ذہنی و فکری تربیت کرنا ہے۔ ماہرین تعلیم کا کہنا تو یہ ہے کہ ’’جس طرح کا معاشرہ بنانا مقصود ہو اسی کے حسب حال نظام تعلیم کو ڈھال دو۔ نئی نسل کا ذہنی و فکری رجحان خود بخود بدل جائے گا۔ یہاں تک کہ مذہب کے معاملے میں بھی نقطہ نظر بدل جائے گا اور یہ نئی نسل نئے اقدار و روایات کے ساتھ ابھرے گی۔ اور غالب تہذیب کے سانچوں میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرے گی اور جب اس طرح کی صورت حال کسی نسل کی بن جاتی ہے تو وہ اپنے ماضی سے کٹ جاتی ہے یا کاٹ دیا جائے تو وہ نسل یا قوم خود بخود ہی مرجاتی ہے۔‘‘ کسی شاعر نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ: 
پگھلنا علم کی خاطر مثال شمع زیبا ہے
بغیر اس کے نہیں پہچان سکتے ہم خدا کیا ہے
راقم نے اپنے اس طویل مضمون میں دینی جماعتوں اور مدرسوں کے ذمہ داروں پر جو تنقید کی ہے اس کی غرض و غایت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنی فکری اور عملی کوتاہیوں سے باخبر ہوکر جلد سے جلد اصلاحِ احوال کی طرف مائل ہوں کہ مہلت انتظار بہت کم ہے۔ راقم کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس مضمون کو پڑ ھ کر بہت سے دوست و احباب ناراض بھی ہوں گے جن کا تعلق ان اداروں اور جماعتوں سے ہے اور خود ان اداروں کے لوگ بالخصوص اہل علم صاحب مضمون کو تحقیر و تعریض کا نشانہ بھی بنائیں گے۔ لیکن حق اور سچ کی خاطر اس عذاب جاں سوز سے گزرنے کے لیے راقم تیار ہے۔ خیر خواہی اور دینی تقاضے سے مجبور ہوکر یہ ناخوش گوار فریضہ انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس مضمون میں کہیں کہیں انداز بیان میں شاید تھوڑی بہت شدت بھی آگئی ہے لیکن حاشا کلّا اس سے کسی شخص یا ادارے کی تحقیر و تخفیف مقصود نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جو ضعف و کمزوری پیدا ہوگئی ہے جس سے خستہ حالی اور پامالی جیسی صورت حال بنتی جارہی ہے اس سے اور اس طرح کے مسلسل واقعات کے مشاہدے نے راقم کو سراپا سوز بنادیا ہے۔ 
میری یہ تنقید اس سرجن کی طرح ہے جو کسی مہلک پھوڑے پر پوری بے دردی کے ساتھ نشتر چلا دیتا ہے اور اس بات کی مطلق پروا نہیں کرتا کہ مریض پر وقتی طو رسے کیا گزرے گی۔ اس کی زندگی کی حفاظت کے لیے یہ انتہائی قدم ناگزیر ہوتا ہے۔ اس میں نرمی یا توقف کا مطلب اس کو موت کے منہ میں ڈھکیلنا ہوگا۔ اس مضمون میں مختلف ادارو ں کا جو ناقدانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے اسے اسی زاویہ نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے ورنہ مضمون اور صاحب مضمون دونوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ 
یاد رکھیں! اس ملت میں نہ مال و زر کی کمی ہے اور نہ علم کی۔ اگر کسی چیز کی فی الواقع قلت ہے تو وہ ہے حسنِ کردار کی، اس جوہر گراں مایہ کی سب قوموں سے زیادہ کمی مسلمانوں میں ہے۔ مستقبل ایک صاحب کردار کا منتظر ہے۔ اگر ہمارے رہنما خواب گراں سے اب بھی نہ جاگے تو قرعۂ فال کسی اور قوم کے حق میں ہی نکلے گا اور اس وقت کف افسوس ملنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔ ہماری مسجدیں، ہمارے مدارس روشنیوں کے ٹاور ہیں، تو محلے محلے کے مکاتب قمقمے ہیں، جنہیں روشن رکھنے کے لیے اخلاص دل کی ضرورت ہے۔ ( باقی آئندہ) 

0 comments: