اسلام کا نظریۂ تعلیم (۸)

3:17 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

(گزشتہ سے پیوستہ)
اسلام کا نظریۂ تعلیم کیا ہے اور اسلام کے نام پر ہمارے محلوں اور علاقوں میں مساجد کے علاوہ چھوٹے چھوٹے مدرسے قائم ہیں جن کا مقصد تعلیم سے زیادہ تجارت ہے اور جن سے نہ صرف ملت کے نونہالوں کا مستقبل تاریک تر ہوتا جارہا ہے بلکہ ملت کے ہمدرد اور اہل خیر حضرات کی کثیر رقوم بھی انہیں تاجروں کی نذر ہوتی جارہی ہیں۔ یہ کتنی حیرت اور فکر انگیز بات ہے کہ یہ لوگ ملت کے بچوں کو تو دینی تعلیم دلانے کے نام پر جمع کرتے ہیں اور تعلیم دلانے کے بجائے ان کی گھر گھر چندہ وصولنے کی تربیت کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم دلاتے ہیں۔ ایسے ڈھونگیوں سے ہر ممکن طور پر بچنے کی کوشش کریں اور محلے و علاقوں میں ایسے اسکولوں کا قیام عمل میں لائیں جہاں نونہالان ملت دینی و عصری تعلیمات سے فیضیاب ہوسکیں اور یہی وقت اور دین و ملت کا تقاضا بھی ہے۔ 
اسلام میں تعلیم کی اہمیت مسلّم ہے۔ تاریخ انسانیت میں یہ منفرد مقام اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ سراپا علم بن کر آیا اور تعلیمی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیغامبر ثابت ہوا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے انسانیت نے اپنے سفر کا آغاز تاریکی و جہالت سے نہیں کیا بلکہ علم کی روشنی سے کیا۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے تمام انسانوں پر تعلیم کو فرض قرار دیا ہے اور اس فرض کی ادائیگی کو معاشرے کی ایک ذمہ داری قرار دی ہے۔ خود حضور ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ علم کے مقام اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے۔ سورۃ علق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ انسان کو خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب کریم ہے، وہ جس نے قلم سے تعلیم دی، انسان کو، ان چیزوں کی تعلیم دی، جن کو وہ نہ جانتا تھا۔‘‘ 
تعلیم کیا ہے؟ 
واضح رہے کہ تعلیم صرف تدریس عام کا ہی نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتا ہے اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتا ہے۔ تعلیم ایک ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت ہے اور اس کا مقصد اونچے درجے کے ایسے تہذیب یافتہ مرد و عورتیں پیدا کرنا ہے جو اچھے انسان کی حیثیت سے اور کسی ریاست کے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کسی ایک قوم کی زندگی کا انحصار ہی اس کی تعلیم پر ہے اور تعلیم ہی وہ عمل ہے جس سے افراد کی تعمیر ممکن ہے۔ ایک دوست نے راقم کو تعلیم کے تعلق سے ایک چینی کہاوت سنائی جسے آپ بھی سنیے اور درس و تدریس سے جڑے لوگوں کو بھی سنائیے۔ ’’تمہارا منصوبہ اگر سال بھر کے لیے ہے تو فصل کاشت کرو، دس سال کے لیے ہے تو درخت اگاؤ، دائمی ہے تو مناسب افراد پیدا کرو۔‘‘ 
تصوّر علم
اسلام نے علم کا جو تصور دیا ہے اس میں سب سے بنیادی چیز یہ ہے کہ علم کا سرچشمہ ذات باری تعالیٰ ہے نیز یہ کہ علم کا تعلق محض لوازمات حیات سے ہی نہیں بلکہ مقصد حیات سے بھی ہے اور اول الذکر کو ثانی الذکر کے تابع ہونا چاہیے۔ یہی وہ تصور ہے جس سے ہمارے نظام تعلیم کا پورا مزاج بنتا ہے۔ اسلام کے تصور علم میں علم اور تربیت دونوں کو یکساں اہمیت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم اور تربیت سازی ایک ہی حقیقت کے دو پہلو رہے ہیں اور اس کا اظہار علم و فضل کی اصطلاح سے بھی ہوتا ہے جو علم ونیکی اور اخلاقِ حسنہ میں بڑھے ہوئے ہونے کا مفہوم ادا کرتی ہے۔ 
مقصد تعلیم
تعلیم بجائے خود ایک منزل نہیں بلکہ منزل کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حقیقی منزل ان لوگوں کے لیے نظریہ حیات اور تمدن و ثقافت ہے جن کی انہیں خدمت کرنی چاہیے۔ پس تعلیم کا اولین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طلبا میں ان کے مذہب اور نظریہ حیات کی سمجھ بوجھ پیدا کرے اور انہیں بتائے کہ وہ کس طرح اعلیٰ مقاصد کے لیے دنیا کی تمام قوتوں اور ذرائع کا استعمال کریں۔ تعلیم کوایسے افراد پیدا کرنے چاہئیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نظریہ حیات کو سمجھتے اور اس پر بھرپور یقین رکھتے ہوں۔ 
پس اسلامی تہذیب و ثقافت کے پس منظر میں تعلیم کا بنیادی مقصد پیغمبرانہ فرائض کی بجا آوری ہے اور انسانوں کو اس مشن اور مقصد کی تعلیم دینا، ان میں مذہب کی سچی روح پیدا کرنا اور انہیں ایک مکمل اور صحت مند زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ یہ مقصد تعلیم کے ہر گوشے میں اسلامی نظریۂ حیات کی روح جاری و ساری رکھنے سے ہی حاصل ہوگا۔ اپنے مدرسوں او راسکولوں میں اس مقصد کے لیے نئی کتابیں اور نصاب بھی تیار کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے محلوں، علاقوں میں چل رہے اسکولوں اور مدرسوں کا سروے بھی کیا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ کتنے اور کس حد تک اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہ کام بڑی حد تک محلے کی مساجد کے ائمہ حضرات انجام دے سکتے ہیں لیکن افسوس کہ ان میں بھی اکثر اپنے مناصب کی اہمیت سے یا توناواقف ہیں یا پھر جان بوجھ کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے کتراتے ہیں، ان میں بہتیرے ایسے ہیں جن کی زندگیاں عوام کے لیے آئیڈیل نہیں ہوتیں جن کی وجہ سے جڑ کر یا عوام میں گھل مل کر یہ رہنا پسند نہیں کرتے اور حجرہ نشین کو ہی بہتر مان لیتے ہیں، جس کی وجہ سے دینی، ملی اور سماجی بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں ایسے تعلیمی ادارو ں کا قیام اور مسجدو ں کے اماموں کا انتخاب کریں جن سے اور جہاں سے اسلامی تعلیمات کی سچی روح پیدا ہو تو ہمارے مسائل بہ آسانی حل ہوسکتے ہیں۔ 
ہماری کئی جماعتیں اور ادارے ایسے ہیں جو سال دو سال یا دوچار سالوں میں تعلیمی کارواں نکال کر اپنا فریضہ ادا کرتے رہتے ہیں یہ سلسلہ بھی ٹھیک ہی ہے مگر اس سے بہتر یہی ہے کہ محلے کی مسجدوں کے اماموں کے ذریعہ اس مشن کو آگے بڑھائیں۔ اس سلسلے میں اعظم گڑھ کے مولانا ابرار ا صلاحی صاحب جو کہ مکہ میں قیام پذیر ہیں اور رابطہ عالم اسلامی سے جڑے ہوئے ہیں، مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے اور تعلیم کی اہمیت و ضرو رت پر زور دینے میں پیش پیش ہیں اور جب بھی وہ اپنے گھر و وطن میں ہوتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں سے ملیں جو ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں معاون بن سکیں۔ اللہ کے فضل سے مولانا موصوف کے اس تعلیمی مشن میں خاصے لوگ شریک عمل ہو رہے ہیں۔ مولانا کا ذکر درمیان میں اس لیے آگیا کہ اگر یقیں محکم عمل پیہم ہو تو کٹ ہی جاتی ہیں زنجیریں کے مصداق مولانا کا یقیں محکم اور عمل پیہم بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اللہ انہیں دین و ملت کی خدمت کا زیادہ سے زیادہ موقع عنایت فرمائے۔ 
تعمیر کردار
یہ بات بھی واضح رہے کہ تعلیم میں سب سے زیادہ اہمیت طالب علم کے کردار کی تشکیل کو حاصل ہونی چاہیے۔ تعلیم جب تک اچھے کردار تعمیر نہ کرے گی اپنا حقیقی مقصد کبھی حاصل نہ کرپائے گی۔ اسلام میں نیک اعمال اولین اہمیت کے حامل ہیں۔ قرآن پاک میں ایمان اور عمل صالح کی بیک وقت تلقین آئی ہے۔ یہ ایک نظریاتی حقیقت ہے کہ کردار کے بنیادی رجحانات کی اساس زندگی کے ابتدائی دور میں ہی پڑ جاتی ہے اور اسکول و کالج ایک انسان کے کردار کی تعمیر میں اہم ادا کرسکتے ہیں۔ تعلیم کے تمام مراحل پر طلبا کو رسول اکرمؐ اور ان کے صحابہ کی مثالی زندگی پڑھانی چاہیے۔ اساتذہ کو خود اپنی زندگی اور کردار و عمل سے طالب علم میں ایک نیک زندگی اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے اور پھر درس گاہوں کا ماحول بھی ایسا ہونا چاہیے کہ اس سلسلے میں ممد و معاون بن سکے۔ 
تکمیل حیات
معاف کیجیے، اسلام زندگی او راس کی مسرتوں کو ترک کردینے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ان کی تکمیل کا داعی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری تعلیم کو ہمارے نوجوانوں کی زندگی اور اس کے مطالبات کی تکمیل کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ انہیں زندگی گزارنے کے طریقوں کی تربیت دینی چاہیے اور معاشرے کی گوناگوں ضرورتوں کو پورا کرنے کے لائق بنانا چاہیے۔ اسلام رہبانیت کا مخالف ہے اور چاہتا ہے کہ انسان زندگی کی کشاکش کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ اپنی زندگی گزاردے۔ قرآن حکیم نے ان لوگوں کو سختی سے خبردار کیا ہے جو اس کی عنایات سے لطف اندوز ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ سورۃ بقرہ اور سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ان سے کہو کہ کس کے حکم سے تم نے ان نعمتوں سے منہ پھیرا ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے تخلیق کی ہیں، کھانے پینے اور استعمال کی ان چیزوں سے جو اس نے ان کے لیے بنائی ہیں۔‘‘ 
قرآن ہمیں دنیا و آخرت کے بہترین حصول کی تعلیم دیتا ہے، اسلام کی نظر میں انسانی محنت و مشقت نہایت ہی قابل قدر ہے۔ اسلام ہر فرد کو اپنی روزی کو خود کمانے کے قابل بناتا ہے۔ پس تعلیم کو دیانت دارانہ، منصفانہ اور معقول معاش کے حصول میں ممد و معاون ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں تعلیم کو معاشرے کی اقتصادی، سماجی، سائنسی اور فنی ضروریات بھی پوری کرنی چاہئیں اور تعلیم میں اتنا عملی عنصر ضرور ہونا چاہیے کہ ہر فرد معاشی استحکام حاصل کرسکے۔ 
سوچئے ذرا، کیا ہمارے موجودہ مدارس اپنا اصل کردار پیش کرپارہے ہیں! اگر نہیں تو ہمیں انہیں اسلام کے اصل نظریے کے مطابق ڈھالنا ہوگا تبھی ہم ہمہ قسم کے مسائل سے نجات حاصل کرپائیں گے۔ اللہ ہمیں اسلام کے نظریۂ تعلیم کو فروغ دینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں کامیابیوں سے سرفراز ہوسکیں۔ (ختم شد)

0 comments: