انصاف کا مندر ہے یہ۔۔۔

11:18 AM nehal sagheer 0 Comments


ممتاز میر ۔ برہانپور


بڑی منتوں مرادوں کے بعدگلبرگ سوسائٹی احمد آباد کافیصلہ آگیا ۔بھلے ہی کسی نے بھی اس پر اطمینان کا اظہار نہ کیا ہو مگر آ تو گیا اب بھی نہ آتا تو کیا کرلیتے۔سب یہ کہہ رہے ہیں کہ انصاف حاصل کرنے کے لئے اونچی عدالت میں یعنی ہائی کورٹ میں جائیں گے ۔اونچی عدالت میں جانے کی باتیں وہ بھی کر رہے ہیں جو مظلوم ہیں اور وہ بھی جو ظالم ہیں۔بڑی عجیب بات ہے کہ ہماری نچلی عدالتیں مظلومین کو تو جانے دیجئے ظالموں کو بھی مطمئن نہیں کرتیں اس چکر میں بدنامی الگ مول لیتی ہیں۔وہ ایسا کیوں کرتی ہیں؟شاید وہ سمجھتی ہیں کہ اونچی عدالتوں کو کوئی کام نہیں ہے ۔وہاں کے جج مکھیاں مارتے رہتے ہیں اس لئے انھیں اس فراغت سے بچا کر کوئی آبرومندانہ کام فراہم کرنا چاہئے۔ گلبرگ سوسائٹی کیس یہ تھا کہ جب ۲۰۰۲ میں گجرات میں مودی جی کی چھتر چھایا میں مسلمانوں کے صفائے کی مہم شروع ہوئی تواحمدآباد کی پوش مسلم کالونی گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی پر ہندو جنونیوں نے حملہ کر دیا تھا جسمیں ۶۹ مسلمان مارے گئے تھے ۔اس سلسلے میں اسی پولس نے جو اس حادثے کی ’’چشم دید ‘‘ گواہ تھی صرف ۶۰ لوگوں پر اس طرح کیس بنایا اور چلایا کہ ہمارے قابل صد احترام ججوں کو ۳۶ کو تو صاف بری کرنا پڑا اور بقیہ ۲۴ لوگوں کو بھی بادل نخواستہ کچھ معمولی سزائیں دے کر نہ اپنے نہ اجتماعی بلکہ ہمیں بھی بادل نخواستہ کہنا پڑے گا ،انصاف کے ضمیر کو مطمئن کرنا پڑا۔اس طرح اس فیصلے نے وطن عزیز کو دنیا کا وہ پہلاملک بنا دیا جہاں صرف ۲۴ لوگ دنگا کرکے ۶۹ لوگوں کو مار دیتے ہیں اور بطور سزا قاتلوں کو پھانسی نہیں ہوتی ۔نہیں ۔۔نہیں ۔غلط مت سمجھئے ابھی تک بھارت میں پھانسی کی سزا ختم نہیں کی گئی ہے بلکہ مسلمانوں کو بڑے دھوم سے پھانسی دی جارہی ہے ۔اور لوگ اس کو آسانی سے بھول نہ پائیں اس لئے ہر پھانسی پر مہینوں اخبارات میں بحث چلتی ہے ۔تو صاحب بچپن سے جو یہ سنتے آرہے تھے کہ قانون اندھا ہوتا ہے خوش قسمت ہیں کہ مرنے سے پہلے دیکھ بھی لیا ۔مزید یہ احساس بھی ہوا کہ قانون صرف اندھا ہی نہیں ہوتا بلکہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے ۔قانون کے ڈر سے ۔۔۔نہیں اپنے ججوں کے احترام میں ہم مزید وضاحت نہیں کر سکتے ۔
آئیے اب ایک اخبار کی ایک دن کی کچھ سرخیاں آپ سے شیئر کرتے ہیں جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ اس فیصلے پر کس کا کیا رد عمل رہا (۱) خصوصی تفتیشی ٹیم ایس آئی ٹی کے وکیل آر سی کوڈیکر نے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں جانے کی بات کہی وہ مجرمین کے لئے تا حیات عمر قید کے تمنائی تھے۔(۲)ایک شخص اشیش تریویدی نے طنزیہ ٹویٹ کیا کہ کمال ہے میں نے عصمت دری کی آگ لگائی قتل کر سکتا ہوں پھر بھی مجھے صرف سات سال کی سزا!(۳) راکیش ٹیکڑی اپنے ٹویٹ میں لکھتے ہیں’’کیا اس ملک میں موت کی سزا صرف مسلمانوں کے لئے ہے‘‘(۴)کرم ویر سنگھ برار لکھتے ہیں کسی کو بھی موت کی سزا نہیں۔بڑے شرم کی بات ہے۔وہ انتہا پسند ہیں انھیں ویسی ہی سزا ملنی چاہئے۔
وطن عزیز میں ایسا لگتا ہے ٹیسٹا ستلواد ،ذکیہ جعفری شبنم ہاشمی اور اروندھتی رائے وغیرہ عورتیں ہی مرد باقی بچی ہیں باقی مرد نہ جانے کہاں چلے گئے۔ٹیسٹا وہ مرد ہیں جو گجرات ہولوکاسٹ کے پہلے دن سے مودی کے پیچھے ہیں اور وزیر اعظم بن جانے کے باوجود وہ انھیں جوتی پہ مارتی ہیں مجبور ہو کر مودی جی نے انھیں ستانے کے اوچھے ہتھکنڈے اپنا لئے ہیں ٹیسٹا اس پر اپنا رد عمل اس طرح ظاہر کرتی ہیں۔’’یہ ادھورا انصاف ہے ۔سوال یہ کہ ملک میں عدلیہ ہے یا نہیں‘‘۔۔۔محترمہ جو آپ آج کہہ رہی ہیں وہ ہم برسوں سے کہہ رہے ہیں۔جس عدلیہ کی آنکھوں کے سامنے اس کی ضمانت کے باوجود بابری مسجد شہید کردی گئی ہو اور ربع صدی میں بھی مجرمین کے خلاف وہ کچھ نہ کر پائی ہو کیا یہ اس کے عدم وجود کا ثبوت نہیں۔ 
پچھلے دنوں ایک ہندو دوست سے گفتگو چل رہی تھی ۔ہم نے کہا کہ جو کچھ آج سنگھ پریوار کر رہا ہے اس سے سمجھنا کہ اس طرح مسلمانوں کو کوئی بڑا نقصان پہونچایا جا سکے گا یا اسپین کی طرح یہاں بھی مسلمانوں کو دیس نکالا دیا جا سکے گا محض خام خیالی ہے ۔۵۰۰ سال پہلے دنیااور تھی آج کچھ اور ہے۔آج تو پھر سے مسلمانوں کو اسپین میں سہولتیں دی جا رہی ہیں۔غالبا اسپین کے ارباب اقتدار کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ جب تک مسلمان اسپین میں تھے اسپین سپر پاور تھا امت مسلمہ اس طرح کے حالات سے بارہا گزری بھی ہے ابھری بھی ہے۔ہاں ہندوؤں کو یہ سوچنا چاہئے کہ سنگھ پریوار اپنی حرکتوں سے بھارت کو اور خاص طور سے ہندو ازم کو کیا نقصان پہونچا رہا ہے ؟با خبر حضرات یہ بات جانتے ہونگے کہ ہر دوسرے تیسرے مہینے میں بین الاقوامی سطح پر ایک آدھ رپورٹ ایسی آ ہی جاتی ہے جس میں سنگھ پریوار اور اس کی تنظیموں کی حرکتوں پر تشویش ظاہر کی جاتی ہے ۔ابھی ابھی مودی جی کو اپنے سرپرستوں کی حرکتوں پردورہ امریکہ میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔میڈیا کو خریدا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ اندرون ملک ایسی خبروں کا بلیک آؤٹ کرے اور سب چنگا ہے کی رپورٹ دے۔چلئے اس حد تک تو دھوکے کی گنجائش ہے ۔مگر ہندو ازم کا کیا۔اس طرح ہندؤں کی کیا تصویر بن رہی ہے ۔تاریخ اور مورخ دونوں ہندتو کے ٹھیکیداروں کی ہڑبونگ کو شور کو مستی کو نوٹ کر رہے ہونگے۔وہ لوگ جو حق کی تلاش میں مذاہب عالم کا مطالعہ کرتے ہیں وہ ہندو مت کو کیا سمجھیں گے؟
باقاعدہ ایک مذہب یا ایسی بد مستیوں کا ایک مجموعہ ۔مستقبل کا طالب علم کیا فیصلہ کرے گا؟کیا مستقبل میں بھی سنگھ پریوار کے ترشولوں یا ٹریننگ کیمپوں سے ڈر کر فیصلہ کیا جائے گا؟کسی مذہب کسی دین کسی ازم کا جب مطالعہ کیا جا تا ہے توزندگی گزارنے کے تمام ہی اصولوں کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں کے ساتھ اس کے ادارہ عدل کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ خاص نظر اس پر ہی ہوتی ہے کیونکہ بغیر عدل تاریخ میں کوئی فکر کوئی ازم جم نہیں پایا ہے ۔کیا ہمارے منصفین کو اس بات کا شعور ہے؟فیصلے دیتے وقت کیا ان کے دماغ میں یہ بات رہتی ہے کہ ان کے فیصلوں کا مستقبل میں پوسٹ مارٹم کیا جائے گا اور ان کے فیصلوں کی بنیاد پر ان کے دیش کے ان کے مذہب کی ان کے عہد کی اچھائی یا برائی طے کی جائے گی؟کیا ایسا ہوتا نہیں آرہا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137

0 comments: