مذمت کی کھجلی

1:15 PM nehal sagheer 0 Comments


ممتاز میر 

لیجئے صاحب۔۴ دن پہلے دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ میں ایک بار پھر فائرنگ کا واقعہ پیش آگیا ہے ۔خیر سے اس پر تشدد واقعے میں ایک ۲۹ سالہ افغان نژاد امریکی عمر متین ملوث ہے ۔تو جناب ہماری قوم کے ایک بڑے حصے کو جسے وقتاً فوقتاًمذمت کی کھجلی کا دورہ پڑتا رہتا ہے ایک مشغلہ ہاتھ آگیا ہے ۔کیا عوام کیا خواص ۔کیا علما ء کیا لیڈر اور کیا دانشور ۔اردو اخبارات ان حضرات کے مذمتی بیانات سے بھرے پڑے ہیں۔حالانکہ مرے لوگ کتنے ہیں۔۔۔۔صرف ۵۰،اور اتنے ہی اسپتالوں میں لیٹے ہیں۔اس اسکور کی صرف اس صدی میں امریکی کارناموں میں مرنے والوں کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے؟کیا امریکہ نے گذشتہ ۷۰ سالوں میں کسی اخلاق و کردار کا مظاہرہ کیا ہے؟کیا امریکی عوام اپنے ان قابل نفرت حکمرانوں سے نفرت کا مظاہرہ کر رہی ہے؟امریکی عوام خود بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد طاقت کے غرور میں مبتلا ہو گئی ہے۔۱۱؍۹ میں متعدد مسلمان ملکوں کو تباہ کرنے کے باوجود ،یہ کہنے کے باوجود کے جو ہمارے ساتھ ہے وہ تو ہمارے ساتھ ہے جو ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ ہمارا دشمن ہے ،امریکی عوام نے بش جونئر کو منتخب کیا تھا ۔ایسی عوام لائق محبت ہے یا لائق نفرت۔امریکی عوام کے پاس ہتھیار کہاں سے آتے ہیں فائرنگ کے پے درپے واقعات پیش آنے کے بعد امریکی حکومت اب سوچ رہی ہے کہ عوامی ہتھیاروں پر پابندی عائد کردی جائے مگر وہ بھی ممکن نہیں ہو پا رہا ہے تو ۔۔کیوں؟
امریکہ ہمیشہ اپنے تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹتا رہتا ہے۔اور ہمارے لال بھجکڑ پر ایمان بھی لاتے ہیں۔اور بہت سارے چاپلوس تو اس کی شان میں قصیدے بھی لکھتے رہتے ہیں ۔وہ صرف ۷ دہائی پرانا یہ واقعہ بھول گئے کہ امریکہ نے جاپان کے دو شہروں کو صرف اسلئے نیست و نابود کر دیا تھا کہ اسے ایٹم بم کا تجربہ کر کے یہ دیکھنا تھا کہ اس کی تباہی کیسی اور کتنی ہوتی ہے ۔چلئے صاحب جو ہوا سو ہوا ۔ابھی ابھی جناب اوبامہ نہ صرف جاپان ہو آئے بلکہ امریکہ کے پہلے صدر بنے ہیں جس نے ایٹم بم کی تباہی کا اسپاٹ پر جا کر (۷۰ سال بعد)مشاہدہ کیا ہے ۔مگر دنیا کی تمام تمناؤں ،توقعات اورامیدوں کے باوجود انھوں نے اپنے اس ’’ کار خیر ‘‘ کے لئے معافی مانگنے سے انکار کر دیا ۔حیرت ہے اس ڈھٹائی کے باوجود امریکی عوام زمیں جنبدنہ جنبد گل محمد بنی رہی۔کہیں زمیں پھٹی نہ آسماں ٹوٹا ۔اور ہمارے اکابرین کی مذمت کی کھجلی صرف ۵۰ کے اسکور پر زمیں بھی پھاڑ رہی ہے اور آسمان بھی توڑ رہی ہے ۔بزدلوں کی شریعت ایسی ہی ہوتی ہے ۔یہ تو افغان غیور ہیں جو ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں۔اس سے پہلے بھی ایک افغان نژاد ڈاکٹر نے امریکی ملٹری بیس کیمپ میں ۱۳ کو لڑھکا دیا تھا ۔
ڈیڑھ دہائی پہلے طاقت کے غرور میں چور امریکا نے جب ٹوئن ٹاورس کے انہدام کا واقعہ افغانستان پر لاد کر افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانی شروع کی تھی تو کم کم ہی سہی مگر اخبارات میں ایسے بھی مضامین آئے تھے جس میں امریکہ کو سمجھانے کی بھی کوشش کی گئی تھی وارننگ بھی دی گئی تھی کہ اس طرح دنیا میں تشدد بڑھے گا دہشت گردی بڑھے گی اور اس کے نتائج نہ صرف دنیا کو بلکہ امریکہ کو بھی بھگتنا پڑیں گے۔تو امریکہ آج جس مرض میں مبتلا ہے وہ تو خود اس کا مول لیا ہوا ہے ۔اور یہ بات تو بڑی مشہور ہے کہ خود کردہ را علاجے نیست ۔سونے پہ سہاگہ امریکی وڈیو گیمس دیکھے جائیں۔بچوں کے ہاتھوں میں جو وڈیو کمپیوٹر اور موبائل گیمس تھمائے گئے ہیں اس میں مسلمان ویلن ہیں اور امریکی ہیرو ان کا مشین گن سے خاتمہ کر رہا ہے ۔یعنی بچوں کی صبح شام فائرنگ کرتے جاگزر رہی ہے۔اس سے بڑا احمق نہیں جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ باتیں بچوں کے لاشعور کا حصہ نہ بنتی ہونگی۔یعنی امریکی خود اپنے بچوں کی نفسیات کو بگاڑ رہے ہیں ۔اور ادھر ہمارے اکابرین۔۔۔غلام ۔۔شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار۔۔ارے کاہے کی مذمت۔مگر کھجلی کا معاملہ ہی یہ ہوتا ہیکہ کھجاتے جاؤ کھجاتے جاؤ بڑا سکون ملتا ہے ،بڑا مزہ آتا ہے۔اور جن کو یہ کھجلی ہوتی ہے اخبارات میں جب تک ان کا ایک آدھ مذمتی بیان نہیں آتا سکون نہیں ملتا۔یہی لوگ کبھی کبھی منہ کا مزہ بدلنے کے لئے امریکی طاقت کے استعمال کے خلاف بھی بیان دے دیتے ہیں۔مگر ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا ۔یہ وقت تھا جب امریکہ کو بتایا جاتا کہ دنیا تم سے یا کم سے کم ہم تم سے کتنے نفرت کرتے ہیں ۔مگر یہ ظاہر کر رہے کہ ہیں تم ہم پر کتنے ہی ستم ڈھاؤ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔یہ بزدل ظالم کو یہ احساس ہی نہیں ہونے دیتے کہ وہ کچھ غلط کر رہا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مذمت کا یہ سیلاب صرف ہندوستانی اخبارات میں ہی بہتا ہے ۔دوسرے ممالک کے اخبارات میں صرف ڈپلومیٹک بیانات ہی نظر آتے ہیں ایسا سیلاب نہیں بہتا۔شاید غلامی کا اثر ہم پر ہی کچھ زیادہ ہوا ہے یا فرقہ پرستوں کے دباؤ نے ہماری نفسیات ہی بگاڑ دی ہے۔
آئیے دیکھیں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں اس قسم کے واقعات شاذ ہیں یا اکثر ہوتے رہتے ہیں۔سب سے پہلے تو تازہ واقعہ [۱]اورلینڈو کے ایک ہم جنس پرست کلب میں ایک افغان نژادامریکی مسلمان نے۵۰ لوگوں کو یا ہم جنسوں کو مار دیا۔[۲]یکم اکتوبر ۲۰۱۵ کو روز برگ میں کرسٹوفر سین ہارپرنے ۹ لوگوں کو مار دیا۔[۳]۱۶جولائی ۲۰۱۵ کو چھٹا نوگا مین دو الگ الگ فوجی سائٹ پر ایک ہی گن مین نے ۵فوجیوں کو ماردیا [۴]۱۸ جون ۲۰۱۵کو چارلسٹن میں ڈیلن اسٹارم روف نے ۹ لوگوں کو ماردیا اور تین کو زخمی کردیا ۔یہ تاریخی بلیک چرچ مین گولی باری کا واقعہ تھا اور قاتل نسل پرست تھا۔[۵]۲۳ مئی ۲۰۱۴ کو اسلا وسٹاکیلی فورنیا میں ۲۲ سالہ ایلیٹ راجر نے یہ پلاننگ کرکے حملہ کیا کہ حملے میں زیادہ سے زیادہ لوگ مارے جائیں ۔اس طرح اسکور ۱۶ ۔اموات اور ۷ زخمی تک پہونچا [۶]۲۔اپریل ۲۰۱۴ میں فورٹ ہڈ ٹیکساس میں ایک گن میں نے تین لوگوں کو مارا اور ۱۶ کو زخمی کر دیا [۷]۱۶ ستمبر ۲۰۱۳ کو آرون الکسس نامی نیوی کانٹریکٹر نے نیوی بیس میں ۱۲ لوگوں کو مار کر ۳ کو زخمی کر دیا [۸]۷جون ۲۰۱۳۔سانتا مونیکا میں ۲۳ سالہ بے روزگار جان زواہری نے ۵لوگوں کی جان لے لی [۹]۱۴ دسمبر ۲۰۱۲ میں ۲۰ سالہ آدم لینزا نے ایک ایلیمنٹری اسکول میں گھس کر ۲۷ طلباء کو مار دیا اور چند افرد زخمی بھی ہوئے[۱۰]۱۲اکتوبر ۲۰۱۲ کو ۴۵ سالہ ریڈ کلف نے بروک فیلڈ مین ازانہ سیلون اور سپا میں داخل ہو کر جہاں اس کی بیوی کام کرتی تھی بیوی سمیت ۳ لوگوں کو قتل کر دیا[۱۱]۲۸ستمبر ۲۰۱۲ کو ۳۶ سالہ اینڈریو سائن کمپنی کے آفس میں گھس کر ۶ لوگوں کو مار اور ۲کو زخمی کر دیتا ہے[۱۲]۵۔اگست ۲۰۱۲۔اوک کریک میں ویڈ مائکل پیج سکھوں کے گردوارے میں گھس کر ۶ کو مار اور ۳ کو زخمی کر دیتا ہے [۱۳] ۲۰ جولائی۲۰۱۲ کو ارورہ میں ۲۴ سالہ جیمس ہومز ایک سنیما کے پارکنگ لاٹ میں ۱۲ کو موت کے حوالے اور ۵۸ کو زخمی کر دیتا ہے [۱۴]۲۔اپریل ۲۰۱۲ کو آک لینڈ میں ۴۳ سالہ ایل گوہ کالجء کے کلاس روم میں گھس کر ۷ کو مار دیتا ہے اور ۳ کو زخمی کر دیتا ہے [۱۵]۵ نومبر ۲۰۰۹ کو افغان نژاد ڈاکٹر میجرندال ملک حسن ۱۳ کو موت کی نیند سلا کر ۳۲ کو زخمی کر دیتاہے[۱۶]یکم جنور ی۲۰۱۱ میں ٹکسن میں ۲۳سالہ جارڈ لی سپر مارکیٹ میں ۶ کو قتل اور ۱۱ کو زخمی کر دیتا ہے[۱۷]۳۔اگست ۲۰۱۰ میں مانچسٹر میں ہوئی فائرنگ میں ۸لوگ مرتے ہیں اور ۲زخمی ہوتے ہیں۔[۱۸] ۱۲ فروری ۲۰۱۰ میں ۴۵ سالہ ایمی بشت ۳کو مار کر ۳کو زخمی کر دیتا ہے ۔۔۔کیا کیا لکھیں کہاں تک لکھیں ۔ذیل میں صرف فائرنگ کی تاریخیں دی جارہی ہیں ۔اسکور اپنے دل میں جو آئے سمجھ لیجئے۔
۳۔اپریل ۲۰۰۹۔۔۲ فروری ۲۰۰۸۔۔۵دسمبر ۲۰۰۷۔۔۱۶۔اپریل ۲۰۰۷ ۔۔۱۲فروری ۲۰۰۷۔۔۲اکتوبر ۲۰۰۶۔۔۳۰جنوری۲۰۰۶(ان دونوں تاریخوں کو تعلق عدم تشدد کے دیوتا ’’باپو ‘ سے ہے۔کیا قاتل کوئی سنگھی تھا)۱۲ مارچ ۲۰۰۵۔۔۸جولائی ۲۰۰۴۔۲۸اکتوبر ۲۰۰۲۔۔۵مارچ ۲۰۰۱۔۔۲۶ دسمبر ۲۰۰۰۔۔۲نومبر ۱۹۹۹۔۔۱۵ ستمبر ۱۹۹۹۔۔۲۹ جولائی۱۹۹۹۔۔۲۶مارچ۱۹۹۹۔۲۶مارچ ۱۹۹۸۔۔۷دسمبر ۱۹۹۳۔۔یکم جولائی ۱۹۹۳۔۔یکم مئی ۱۹۹۲۔۔یکم نومبر ۱۹۹۱۔۔۔۱۶ اکتوبر۱۹۹۱۔۔۱۸جون ۱۹۹۰۔۱جنوری ۱۹۸۹ ۔۔۲۰۔اگست ۱۹۸۶۔۔۱۸ جولائی ۱۹۸۴۔۔یہ ۳۲ سالہ اعداد و شمار ہیں۔
جنین کے لحاظ سے درج بالا خونریزیوں کو بغور دیکھیں تو دو باتوں کا پتہ چلتا ہے ۔ایک تو یہ کہ خوں ریزی امریکیوں کے خمیر میں شامل ہے۔ہمارے یہاں معمولی معمولی باتوں جیسے بیوی سے چھٹکارے کے لئے کوئی قتل عام نہیں کرتاپھرتااور دوسرے یہ کہ ۱۱؍۹ کے بعد امریکی رویے کی بنا پر دانشوروں نے متنبہ کیا تھا کہ یہ روش دنیا کو بھی اور خود امریکہ کو بھی مزید غیر محفوظ بنا دے گی ۔۱۱؍۹ سے پہلے اور بعد کی خونریزیوں کے اعداد و شمارنے اس اندیشے کو صد فی صد درست ثابت کیا ہے ۔اور یہ سب کیوں ہوا؟امریکی لالچ کی وجہ سے کہیں یا امریکی طاقت کے غور کی وجہ سے۔چلئے جو ہوا سو ہوا ۔کیا آج بھی امریکہ سدھر نے کو تیار ہے ۔کیا وہ یہ مان لیں گے کہ ان سے بھی زیادہ طاقتور ہستی ہے کہ جو اس دنیا کا نظام چلا رہی ہے؟۔۔نہیں نا۔۔تو پھر جو مسائل امریکہ خوب جانتے بوجھتے مول لے رہا ہے اس کے لئے مذمت کیسی؟ یعنی بس کھجلی ہے اور مٹانا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137 

0 comments: