کیا مسلم اکثریتی ملک میں اقلیتیں محفوظ نہیں ؟

1:09 PM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر

ممبئی اردو نیوز ملت کی ترجمانی کے دعوے کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے ۔اس کی وجہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ وہی ٹیم ہے جس نے تقریبا ستاون سالوں تک ملت کی ترجمانی کے فرائض انجام دیے۔لیکن ہماری صفوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بظاہر اتحاد امت کا دم بھرتے ہیں لیکن درپردہ وہ ایرانی ایجنڈے کو نافذ کرنے میں ہی سرگرم رہتے ہیں ۔ممبئی اردو نیوز کے 9 ؍جون کے شمارے کا اداریہ پڑھئے پورا اداریہ شاندار ہے لیکن اس کے اختتام پر تین لائن ایسی ہے جس کو پڑھ کر یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا کہ یہ اخبار ملت کا ترجمان ہے۔اسے پڑھئے اور دیکھئے کہ جن الفاظ کی پورے اداریہ میں کوئی ضرورت نہیں تھی اسے بڑی آسانی کے ساتھ اداریہ کا حصہ بنادیا گیا اور مسلمانوں کو اور مسلم ملکوں کو مجرم بنا کر پیش کردیا گیا ۔اداریہ کے اختتام پر تحریر ہے’’مسلمان جہاں اقلیت میں ہیں اور شریک اقتدار نہیں ہیں وہاں وہ اپنی اکثریت کے مظالم کا شکار اسی لئے ہیں کہ جہاں وہ خوداکثریت میں ہیں وہاں وہ اپنی اقلیتوں کا جینا مشکل کئے ہوئے ہیں ‘‘ ۔اسے پڑھ کر آپ خود فیصلہ کیجئے کہ اس طرح کے الفاظ ہمارا قومی میڈیا بھی کہنے کی جرات نہیں کرتا۔ وہ چند گروہوں پر الزام تو رکھتا ہے۔ لیکن پوری اسلامی دنیا کو اس طرح کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتا ۔جس طرح اس اداریہ کے اختتام پر کہا گیا ہے ۔اور اگر صاحب اداریہ کی نظر میں یہ بات بالکل درست ہے جو انہوں نے لکھا ہے تو پھر انہیں مسلم ملکوں میں اقلیتوں پر ہو رہے ظلم و زیادتی کا ثبوت بھی پیش کرنا چاہئے ۔
ممبئی اردو نیوز کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس کی پالیسی کے خلاف ایسی کوئی تحریر شائع نہ ہو جو اس کی ملت کی ترجمانی کے دعوے کو مشکوک بنادے ۔اس سے قبل بھی پچھلے اخبار میں ایسے کئی اداریے شائع ہوئے ہیں جس میں بیچ بیچ میں مسلم ملکوں یا اسلامی تحریکات کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ۔مثال کے طور پر ایک بار لکھا گیا کہ ’مسلم ملکوں کے لئے ایرانی برانڈ حکومت ہی ٹھیک ہے ۔اس کے لئے انہوں نے دلیل کے طور پر یہ پیش کیا کہ اسلامی انقلاب کے بعد ایران اپنی جگہ پر اٹل ہے جبکہ دوسری اسلامی تحریکات کی حکومت کئی ممالک میں دیر پا نہیں ثابت ہوئیں ۔یہ الفاظ انہوں نے محمد مرسی کی معزولی پر لکھے تھے ۔ میری معلومات کے مطابق جو صاحب اداریہ لکھتے ہیں وہ موجودہ دور کی کئی اسلامی انقلابی شخصیات کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں ۔مثال کے طور پر علامہ یوسف القرضاوی اور ضیا ء الحق وغیرہ ۔اسی طرح اور بھی سنی علماء کی شخصیت کو درپردہ مضامین میں یہ حضرت نشانہ بناتے رہے ہیں ۔میری ممبئی اردو نیوز کے ذمہ داران سے اپیل ہے کہ وہ اس جانب توجہ دیں ۔اس سے قبل بھی جب جب میری نظر ایسی متنازعہ باتوں پر پڑی میں  ذمہ داران کو ایس ایم ایس اور فون کے ذریعہ مطلع کرتا رہا ہوں ۔ یہاں موقع نہیں ہے کہ میں مسلم ملکوں میں اقلیتیں ظلم کا شکار ہیں یا سب سے زیادہ محفوظ ہیں پر بالتفصیل لکھوں ۔بعد میں انشاء اللہ اس پر لکھوں گا ۔ابھی صرف اتنا کہتا ہوں کہ مسلم ملکوں میں مسلمان محفوظ ہوں یا نہ ہوں لیکن وہاں کی اقلیتیں پوری طرح محفوظ ہیں ۔ایک چھوٹی سی مثال افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک کی ہے کہ وہاں کے ہندو اور سکھ اور ان کی عبادت گاہیں بہت زیادہ محفوظ ہیں ۔اور ابھی کل پرسوں کی ہی خبر ہے کہ پاکستان میں کسی سرپھرے پولس کانسٹبل نے کسی ضعیف ہندو شخص کو اس لئے مارا پیٹا تھا کہ اس نے افطار سے پہلے کچھ کھانے کی چیز خریدی تھی یا کھایا تھا ۔ اس پر اسے فورا ًبرخواست کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ وطن عزیز میں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن گرفتاری یا کارروائی میں ٹا ل مٹول کیا جاتا ہے ۔اس ہندو ضعیف شخص کے سانحہ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک ہندی نیوز پورٹل نے لکھا ’’ہندو بزرگ کی حمایت میں ایک ہوا پاکستان ‘‘۔صاحب اداریہ کو مسلم ملکوں میں اقلیتوں پر مظالم کا ثبوت پیش کرنا چاہئے یا پھر انہیں مسلم ملکوں کو نشانہ بنانے سے پرہیز کرنا چاہئے اور ممبئی اردو نیوز کو ایسے اداریہ پر غور کرنا چاہئے۔


0 comments: