Muslim Issues,

مسلمانوں کا مسئلہ اورامر بالمعروف کےفریضہ کی ادائیگی

4:31 PM nehal sagheer 0 Comments



ممتاز میر 
  
 دنیا کے کسی ملک میںاگر کوئی شخص فوج میں بھرتی ہونے کی تمنا کرے ،منتخب بھی ہوجائے،ڈرل نشانے کی مشق اور دیگر مشقیں بھی مکمل کرلے مگر جب جنگ کا موقع آئے تو انکار کردے تو کیا اسے فوجی کہا جائے گا؟کیا یہ سال دو سال کی مشقیں اسے ،بغیر جنگ لڑے فوجی بنے رہنے میں کام آسکیں گی؟کیا فوجی ڈسپلن کا ادارہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دے گا؟یقیناٍ ایسا نہیں ہوگا ،بلکہ اسے جزا نہیں سزا ملے گی۔مگر، مسلمانوں کا معاملہ دنیا سے الگ ہے ۔انھوں نے بھی اسلام کی چند ابتدائی چیزوں کو پکڑ کر مسلم حنیف ہونے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ان کے علماء ان کی کھوپڑیوں میں صدیوں سے یہ بات اتار رہے ہیںکہ نماز روزہ حج زکوٰۃ ہی بس دین ہے۔اور اس پر زیادہ سے زیادہ عمل جنت کی ضمانت ہے۔ باقی جو کچھ بھی ہے یہ دنیا داری کی باتیں ہیں۔جس کا ان جیسے ’’با عمل ‘‘مسلمانوں کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔اگر ہم مسلمان ہونے کے بعد ابتدائی مشقوں کو ہی دین تصور کرلیںتب بھی جنت نشین ہونے کی کوئی ضمانت کم از کم ہمیں ملتی نظر نہیں آتی۔کیونکہ نمازیں تو خوب ہو رہی ہیں مگر حال یہ کہ ’’رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی‘‘۔ جب موبائل نہیں تھا تب بھی مسلمانوں کی نمازوں میں خشوع و خضوع نظر نہ آتا تھا ۔آج یہ حال ہے کہ موبائل آن رکھ کر نمازیں پڑھی جا رہی ہیںتاکہ حالت نماز میں ہی پتہ چل جائے کہ کسی کا فون آیا تھا۔اوقات نماز میں اگر فون آجائے تو دیگر نمازیوں کا خیال اب کسی کو نہیں رہتا۔عام لوگوں کی بات کیابڑے بڑے مفتی اور علماء کو یہ حدیث یاد نہیںجس میں حضور ﷺ نے کہا تھا ہماری مسجد میں کوئی پیاز اور لہسن کھا کر نہ آئے۔جب کم و بیش سارے نمازی نو سو چوہے کھا کر مسجد کا در پکڑ رہے ہوں تو اتنی چھوٹی سی حدیث کون یاد رکھے گا۔کچھ لوگ فرض ہی نہیں نفل روزے بھی رکھتے ہیں۔بلکہ کچھ لوگ تو باقاعدہ ہر ماہ ایام بیض کے روزے رکھتے ہیںمگر اللہ نے انسانوں پر روزے کیوں فرض کئے یہ شعور ان کی زندگی میں کبھی کہیں ظاہر نہیں ہوتا۔زکوٰۃ کے تعلق سے کہا نہیں جا سکتا کہ کون دیتا ہے کون نہیں دیتا۔مگر یہ تو ہے کہ پہلے کے مقابلے اب زیادہ نکالی جا رہی ہے مگر اس میںبھی قربانی کی طرح نمائش کا پہلو غالب ہو گیا ہے۔اب یہ بھی دماغ میں چڑھ گیا ہے کہ ہم زکوٰۃ لینے والے پر احسان کر رہے ہیں۔دو دہائی پہلے تک حج کے لئے بھی خال خال لوگ ہی جاتے تھے ۔مگر حج تو چھوڑئیے عمرہ بھی اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے تو دوسری پکنک۔اب تو لوگ حج کا احرام باندھتے ہی واٹس ایپ پر سیلفیاں پوسٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اور واپس آکر جاہل ہوا تو حاجی اور تعلیم یافتہ ہوا تو خود کو الحاج کہلوانا شروع کر دیتا ہے ۔
  مذکورہ بالا تمام مشقوں کی وجہ سے مسلمانوںکے دل و دماغ سے یہ بات ہی نکل گئی ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں بھیجے گئے ہیں۔ان کا دنیا میں مقصد بعثت کیا ہے؟ہمارے نزدیک ان کا مقصد بعثت ابلیس سے مقابلہ کرنا اور اسے شکست دینا ہے ۔اور وہ صرف نماز روزہ حج زکوٰۃکی ابتدائی ٹریننگ سے ممکن نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو قرآن اتنا ضخیم نہ ہوتا۔صبر کا ذکر نہ ہوتا۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلقین نہ ہوتی ۔جہادکی تیاری کا حکم نہ ہوتا ۔عورتوں کو پردے میں چھپانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ضرورت پڑ نے پر اصحاب کہف کی روش اختیار کرنے کو نہ کہا جاتا ۔قرآن میں ان باتوں کے علاوہ بھی بہت سارے احکامات ہیںمگر صرف قرآن میں ہی ہمارے لئے ہدایات نہیں ہیںبلکہ احادیث اورسنت رسول اللہ بھی ہمارے لئے سر چشمہء ہدایات ہیں۔وراثت کا حکم ہے ،مسلمانوں کے لئے وصیت کی گنجائش ہے تو مگر محدود ہے۔مگر ہمارے یہاں وراثت کے جھگڑے عام ہیںجبکہ وراثت کے احکامات کے ہوتے ہوئے وراثت کے جھگڑے ہونا ہی نہیں چاہئے۔خاص طور پر بہنوں کو وراثت میں حصہ دینے کا تصور تو ختم ہی ہو چکا ہے۔اور وہی احساس جرم ہمیں دھڑا دھڑ حج و عمرے کی ترغیب دیتا ہے ۔اسلام کہتا ہے وہ مومن نہیں جس کے ہاتھوں دوسرا مسلمان اور پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔سوچئے کا ہمارا رویہ ان ہدایات سے میل کھاتا ہے۔ہمارا حال یہ کہ ہم ایک دوسرے سے اس لئے رنجش رکھتے ہیںہمارا دوست یا پڑوسی ہم سے زیادہ بڑی قربانی کر رہا ہے یا اس کاگھر ہم سے زیادہ شاندار ہے۔ ایک حدیث کہتی ہے کہ مومن زانی ہو سکتا ہے ،قاتل ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا ہے اس حدیث پر عمل تو دور اسکی اہمیت کا اندازہ اس پر عمل کے فوائدہماری عوام تو کجا ہمارے بڑے بڑے علماء کو بھی نہیں ہے ۔ اور ہم یہ بات یونہی ہوامیں نہیں کہہ رہے ہیں ۔ہمیں اس کا ذاتی تجربہ ہے۔اور دور کیوں جائیے ۔ابھی ابھی ایک بڑے مولانا نے پہلے شاہین باغ کے خلاف بولا پھر تھو تھو ہونے پر اپنے بیان سے مکر گئے جبکہ دنیا انھیں ویڈیو پر شاہین باغ کے خلاف بیان دیتے دیکھ اور سن رہی ہے۔اور یہ ان کا حال ہے جو قبروں میں پیر لٹکائے بیٹھے ہیںکیا موت کا نہیں صرف نقصان کا خوف ،خوف خدا سے بڑھ نہیں گیا ہے ۔اس اقرار میں حرج کیا تھاکہ پولس میری چھاتی پر کھڑی تھی اس لئے ڈر کر میں نے شاہین باغ کے خلاف بیان دیا ۔اس اخلاقی جرأت سے عوام بھی سمجھ جاتی خدا کی سزا سے بھی بچ جاتے۔اسی لئے ہمارے علمائےکرام نے دین کو نماز روزے حج و زکوٰۃ میں قید کر کے رکھ دیا ہے ۔ایسا کیوں کیا گیا؟اسلئے کیا گیا کہ اگر لوگ نماز روزے اور حج و زکوٰۃ سے آگے بڑھ کر عمل کرنے لگے تو پھر وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر بھی لازماً عمل کریں گے اور ہمارے رہنمایان کو عوام کے سامنے جوابدہAccountable ہونا پڑے گا ۔
  ہم بڑے شوق سے خوشی سے فخر سے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ ہمارے خلفائے راشدین نے خلیفہ بننے کے بعد جو پہلا خطبہ دیا تو کہا کہ لوگو ! میری اطاعت تم پر اس وقت تک فرض ہے جب تک  میں تمھیں معروف کا حکم دوں اور جب میں راہ راست سے بھٹک جاؤں تو،لوگوں نے یا صحابہ نے تلوار پر ہاتھ رک کر کہا ہم تمھیں اس سے سیدھا کر دیں گے ۔ ہم یہ کیوں نہیں کرتے ؟ ہم یہ بات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اس دنیا میں حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر دورحکمرانی آج تک کسی کا نہیں ہوا ہے۔اور یہ مسلمان ہی نہیں صاحب مطالعہ غیر مسلم بھی مانتے ہیں ۔یہ وہ دور حکومت تھا جس میں ایک عورت بھی بر سر منبر خلیفہء وقت کی غلطی کی نشاندہی کر دیتی تھی اور خلیفہء وقت بر سر منبر بآواز بلند اپنی غلطی تسلیم بھی کر لیتا تھا ۔ عام آدمی بھی سر راہ خلیفہ کو روک کر اسے باتیں سنا سکتاتھااور اسے کوئی روکنے کی کوشش کرتا تھا تو خلیفہ کہتا تھا ۔ایسے ایک شخص کا وجود ہمارے تمام مفتوحہ علاقوں سے زیادہ مفید ہے۔اس لئے ہم دہائیوںسے لکھ رہےہیں کہ نماز روزہ حج زکوٰۃ سے بڑا فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔کوئی اس سے منہ موڑ کر نماز روزے حج و زکوٰۃ میں اگر پناہ ڈھونڈتا ہے تو کم سے کم ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسے روزہ نماز حج زکوٰۃ اس کے منہ پر مار دئے جائیں گے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں متعدد جگہ اس فریضے کے تعلق سے آگاہ فرماتے ہوئے کہتا ہے ۔سورہء آل عمران ۱۱۰ کا ترجمہ ہے ۔تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے برپا کی گئی ہے۔کیوں کہ تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو ۔برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو ۔کم وبیش اسی مفہوم کے احکامات ہمیں قرآن میں سورہء توبہ۷۱،۱۱۲۔سورہء اعراف ۱۵۷،سورہء الحج۴۱اور سورہء لقمان ۱۷ میں بھی ملے۔ممکن ہے اور مقامات پر بھی ہوں اور ہم تلاش نہ کر پائیں ہوں۔سورہء اعراف میں تو اسے نبی کی دعوت کا حصہ بتایا گیا ہے۔تمام مقامات کے احکامات پڑھنے کے بعد جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم امر بالمعروف کا فریضہ انجام دیں تو ہمارا معاشرہ بھی قریب قریب اسی طرح مثالی بن جائے گا جیسے کہ صحابہء کرام کا تھا ۔جبکہ آج ہمارا معاشرہ مثالی نہیں گالی ہے۔
  نماز کس لئے ضروری ہے۔نماز ایک مکمل ورزش ہے جسمانی بھی دماغی بھی اور روحانی بھی ۔مگر آج ۹۹ فی صد لوگ جو نماز پڑھتے ہیں وہ ریاکاری کے سوا کچھ نہیں۔اس لئے جو فوائد حاصل ہونے چاہئیں وہ نہیں ہوتے ۔اسی طرح روزہ بھی ہے۔آپ کے جسم کے تمام فاسد مادوں کو ختم کر دیتا ہے ۔جسم کو صحتمند رکھتا ہے ، آپ کو بتاتا ہے کہ بھوک کیا چیز ہے ۔پھر کچھ اوقات ایسے بھی ہوتے ہیں جس میں آپ کو بھوک برداشت کرنے کی عادت ہونی چاہئے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔زکوٰۃ آپ کو مالی قربانی پر مائل کرتی ہے۔لالچ کو ختم کرتی ہے۔آپ کے اقربا و احباب میں محبت پیدا کرتی ہے۔حج اپنے مالک کے غلام بن کر مکمل سپردگی اختیار کرنے کا نام ہے۔اس کے لئے ہر قسم کی قربانی بخوشی دینے کا نام ہے ۔یہ چند فوائد جو ہم نے یہاں گنائے ہیں ان چاروں عبادتوں سے حاصل ہونے والے فوائد کا عشر عشیر بھی نہیں ہے ۔ان عبادتوں کو ان کی روح کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ہی ہم اس دنیا میں ابلیس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔اب اس کسوٹی پر عوام ہی نہیں علما کو بھی اپنے آپ کو پرکھنا چاہئے کہ کیا ہم واقعی ان عبادتوں کو ان کے صحیح تناظر میں ادا کرنے کی یا برتنے کی خواہش رکھتے ہیں؟کیا ہم ان عبادتوں کے ذریعے انسانوں کے دشمن سے اللہ کے مغضوب سے لڑ سکیں گے؟ 
  ہم برسوں سے لکھ رہے ہیں کہ اب مشرق میں ایک دوہی چھوٹے ٹاپو بچے ہیں جہاںامت مسلمہ باقی بچی ہے۔ہمارے نزدیک اب امت مسلمہ مغرب میں تیار ہو رہی ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد چند ماہ اسلام کا مطالعہ کرکے ابلیس سے مقابلہ اور اللہ کی نصرت تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں۔
   7697376137       


0 comments: