ہم نے دیکھا ہے ان آنکھوں سے فرعون کے لشکر
عبدالمقیت عبدالقدیر
ہم نے دیکھا ہے ان آنکھوں سے فرعون کے لشکر
(ہماری آنکھ مطلب مومن کی آنکھیں جو ہر وقت قرآن کو دیکھتی ہے۔ اس قرآنی
آنکھوں کی متعلق کہہ رہا ہوں)
؎ ہم نے دیکھا ہے ان آنکھوں سے فرعون کے لشکر
ڈرا
کر ظلم سے تم ہمیں للکا ر نہ دو
بہ طور تاریخ کاطالب علم جب ہم جنگ آزادی اور
دور آزادی کے بارے میں پڑھتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ کہ کیسے لوگ تھے
کیسی قربانیاں تھیں ۔
سراج الدولہ اگر انگریزوں سے ہاتھ ملا لیتے تو
حکومت ہاتھ سے نہیں جاتی۔ ٹیپو اگر انگریزوں سے دوستی کرلیتے توآج ان کی اولادیں
رکشا نہیں چلا رہی ہوتی۔ (کہا جاتا ہے کہ ٹیپوں کے خاندان والوں کوانگریز قید کر
کے بنگال لے گیے تھے۔ جہاں آج بھی وہ لوگ رکشا چلاکر محنت مزدوری کر کے زندگی بسر
کرتے ہیں) وہ اسی سالہ بزرگ بہادرشاہ ظفر جو ایک معافی نامہ لکھ دیتے تو چین و
سکون اور عیش و آرام کے ساتھ ہند کے تاجدار بنے رہتے ۔ مگر انہوں نے برما کے کالا
پانی کو قبول کرلیا ۔ وطن سے دوری پر اپنی بدنصیبی کا گلہ کرتے رہے۔ مگر معافی
نہیں مانگی ۔ تیس سالہ اشفاق ، بھگت سنگھ ، سکھ دیو ، راج گرو، رام پرساد بسمل یہ
پچیس تیس سال کے نوجوان یہ سب ہستے ہنستے پھانسی کو چوم لیتے ہیں ۔
جنگ آزادی کے زمانے میں جب خلافت تحریک چلی تھی
بچہ بچہ کہا کرتا تھا کہ بولی اماں محمد علی کی بیٹا جان خلافت پہ دے دو۔۔
سن 1919 میں انگریزوں نے رولٹ ایکٹ پاس کیا تھا ۔ جس میں پولیس کو بے انتہا
اختیارات دیے گئے تھے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے کسی کو بھی گرفتار کر سکتی ہے۔ جسے
چاہے اسے جیل بھیج سکتی ہے ۔ بلا کسی ثبوت کے ایک ایک سال تک جیل میں رکھ سکتے تھے
جس پر چاہے اس پر برطانوی حکومت کے خلاف دیش دروہ کا معاملے درج کر کے اس کی ملکیت
بھی غصب کر سکتے تھے۔ اس قانون کے خلاف عوام نے مظاہرے کیے۔ ستیہ گرہ، ریلی یاترا
سب کچھ نکالی گئی۔ لگ بھگ تین سال تک یہ آندولن جاری رہے تب کہیں جاکر 1922میں
انگریزوں نے یہ قانوں واپس لیا۔
سو سال پہلے بچہ بچہ کرتا تھا بولی اماں محمد
علی کی بیٹا جان خلافت پہ دے دو۔ فی الحال آج کا ماحول دیکھیں آج بھی
حکومت کے کالے قوانین کے خلاف سارا دیش آندولن کر رہا ہے۔ آج بھی شاہین باغ کا
بچہ بچہ کہہ رہا ہے ۔۔ اماں جان شاہین باغ کے نام کردو۔ اللہ ہمیں استقامت دے اور
ہماری اس جدوجہد کو قبول کرے ۔ آمین ۔
ہم نے قرآن میں فرعون، شداد، نمرود جیسے جابروں
کے ظلم کی داستانیں پڑھ رکھی ہیں ۔ ساتھ ہی اہل ایمان کی قربانیوں کو بھی پڑھا ہے۔
ظالم کتنے ہی ظلم کرلے ہم ایک انچ بھی نہیں ہٹیں گے۔ ہم یہ جنگ جیت چکے ہیں اس
یقین کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب اگر تم جیتنا چاہتے ہو تو تم کو ہمیں
راستے سے اْٹھانا نہیں مٹانا پڑے گاجس کی کوشش بھی ظالم حکومت کر رہی ہے ۔
روزانہ مظاہرین پر پولیس کے ذریعے لاٹھی چارج، گولی بار سے لے کر اپنے پالے ہوے
دہشت گرد غنڈوں سے گولیاں چلوانا فسادات کروانا سب کچھ کیا جارہا ہے ۔ظالم شاید
نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں جن ابوجہلوں کے سر جھکتے نہیں وہ ننھے معصوم معاذ
اور معوذ کے ہاتھوں گرا دیے جاتے ہی۔ جو فرعون ظلم کی حدیں توڑ ڈالتا ہے وہ غرق
جاتا ہے ۔ جو قارون ظالموں کو فنڈنگ کر تے ہیں وہ اپنے وسائل سمیت دفن ہوجاتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں ۔ ہاں ہم جانتے ہیں۔ ہم نے تو روز اول سے ہی اپنے جان ، مال کے
بدلے جنت کا سودا کرلیا ہے۔ تم ہمیں ڈرانے کی بے کار کوشش
کر کے دیکھ لو اور ہم
بھی دیکھتے ہیں ۔
ہاں ہم بھی دیکھیں گے
لازہے ہم بھی دیکھیں گے
جب ارض خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی
ہم دیکھیں گے۔
فیض احمد فیضؔ
عبدالمقیت عبدالقدیر بھوکر
Mob. 9867368440
0 comments: