Muslim Issues
قاسم سید
اس بات میں شک کی کوئی گنجائش ہے کہ ہندوستان ذات پات کی آہنی زنجیروں کے نظام میں جکڑا ہوا ہےاور یہ معاملہ صرف ملک کی اکثریت کے ساتھ ہی نہیں اسلام کے نام لیوا بھی اس کے بداثرات سے محفوظ نہیں ۔نسلی برتری کا تفاخراور خاندانی نسبتوں کا امتیاز بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس کے مظاہر سے انکار ناممکن ہے ہم بھلےہی مساوات کے کارپٹ میں اسے چھپانے کی کوشش کریں بس فرق یہ ہے کہ ہندوئوں میں ذات پات کا سسٹم مذہبی بنیاد وتائید رکھتا ہے‘ہندواپنے مذہب کو ختم کئے بغیر ذات پات کی سڑاند کو ختم نہیں کرسکتے جبکہ دیگر مذاہب کو اپنے یہاں مذہب کو خیر باد کہنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ایسی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کرے گا یعنی اسلام میں ذات پات اساسی طور پر مذہبی نظام کا حصہ نہیں اور نہ ہی سماجی نظام اس کی حمایت کرتاہے لیکن عملا اس کے اثرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس لعنت کے اثرات صرف برصغیر ہند تک ہی محدود ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے ذات پات اور پھر مسلکی تنازعات نے مسلم اتحاد کے تصور کو پاش پاش کردیا ہے۔ تقسیم درتقسیم نے اس کی سیسہ پلائی دیوار میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ سیاسی اشتراک میں بھی یہی مانع ہیں ہم اس حقیت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہندوستان میں ذات پات کے ناقابل تسخیر نظام نے سیاسی ومعاشی جدوجہد کو بھی متاثر کیا۔ ہندوئوں کے طبقہ اشرافیہ نے اس پر اپنا تسلط کبھی کمزور نہیں ہونےد یا۔ آزادی کےبعد بھی نچلی ذاتوں کو احساس کمتری میں مبتلا رکھنے کے لئے انہیں شیڈول کاسٹ کے نام سے بریکٹ کردیا۔ اعلی ذات اورنچلی ذات کی اصطلاح ہی اپنے آپ میں گھنائونے نظام کی ترجمانی ہے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اعلی ذاتوں یعنی برہمن ‘ٹھاکر اور ویشیہ کل آبادی کا 15فیصد ہیں مگر سیاست میں 60فیصد‘نوکریوں میں 87فیصد اور تجارت میں 94فیصد ہیں۔ 92فیصد زمینوں کے مالک وہی ہیں، حال ہی کے ایک سروے میں انکشاف ہوا تھا کہ ملک کی صرف ایک فیصد آبادی ملک کی 99فیصد دولت پر قابض ہے۔ مثلاً برہمن کی کل آبادی 3.5فیصد ہے ۔مگر سرکاری نظام میں حصہ داری 62فیصد ہے چونکہ ملک کی آبادی مندروں اور مٹھوں سے جڑی ہے اور مذہب کے مطابق ان کی باگ ڈور صرف برہمن سنبھال سکتا ہے تو اکثریت اس کی مٹھی میں ہے۔ وسائل پر اس کا قبضہ رہا ہے۔ وزارت ترقی انسانی وسائل کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی سطح پر بچوں کا اوسط ڈراپ آئوٹ ایس سی کا 4.46فیصد اور مسلم کمیونٹی کا6.54فیصد ہے۔ پرائمری تعلیم میں ایس سی کا ڈراپ آئوٹ 5.51فیصد اورمسلم کمیونٹی کی شرح 9.49فیصدہے جبکہ ثانوی سطح پر ایس سی کی 19.36فیصد اور مسلمانوں کا ڈراپ آئوٹ 24.12فیصد ہے۔ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ پسماندگی کی وجوہات کیا ہیں۔ یہ اعدادو شمار واقعی تشویشناک ہیں مگر ہنگامہ پسند لوگوں کو اس پر غور کرنے کی فرصت کہاں ہے۔
بہرحال اس صورت حال کا ایک خوشگوار پہلو یہ ہے کہ جیسے جیسے محروم طبقات خصوصاً دلتوں میں ریزرویشن کی وجہ سے سیاسی بیداری آئی انہوں نے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی اس کے لئے خونی ٹکرائو بھی ہوا خوش قسمتی سے انہیں ڈاکٹر امبیڈکر سے لے کر کانشی رام تک مخلص لیڈروں کی رہنمائی ملتی رہی۔ ایمرجنسی کے بعد جنتاپارٹی نے جن سنگھ کو سیاسی قوت بخشی اور وی پی سنگھ کے جنتادل سے بی جے پی کاجنم ہواتو ہندوتو وادی طاقتوں کو سیاسی شناخت کے ساتھ اقتدار میں بھرپور حصہ داری کا موقع ملا وہیں وی پی سنگھ کے منڈل کمیشن نے او بی سی طبقات اور درج فہرست ذاتوں کے لئے بھرپور مواقع کے دروازے کھول دئیے۔ منڈل کمیشن کا واحد مقصد نوکریوں میں ریزرویشن تھا۔ مگر بات نوکری سے آگے بڑھ کر اقتدار میں حصہ داری تک پہنچ گئی یعنی دلتوں اور پسماندوں کو اقتدار میں کتنی حصہ داری ملی یہی وجہ ہے کہ بغیر روزگار دئیے لالو 15سال تک بہار پر قابض رہے۔ پسماندہ ذاتوں کے اتحاد نے برہمنوں کو دور پھینک دیایہی حال یوپی میں ہوا جہاں ملائم سنگھ کانشی رام اتحاد نے اعلی ذاتوں کا بوریہ بستر سمیٹ دیادونوں کے الگ ہونے کے بعد بھی کبھی ملائم تو کبھی مایاوتی اس اتحاد میں اقلیتوں کی شمولیت سے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے حتی کہ بابری مسجد انہدام کے فوری بعد ہونے والے ریاستی الیکشن میں بھی یوپی کے اندر دلتوں‘پسماندہ ذاتوںاور اقلیتوں کا اتحاد پولرائزڈ ہندوتو کو ہرانے میں کامیاب رہا۔یعنی منڈل کمیشن کی سفارشات کا نفاذ ہندستانی سیاست میں دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کے سیاسی وسماجی غلبہ کا آغاز تھا۔ جس کا سب سے زیادہ فائدہ پسماندہ ذاتوں اور پھردلتوںکو ہوا۔ ان کے لیڈروں کی انانیت اور تسلط پسندی کے مزاج نے اس اتحاد کو دھیرے دھیرے کمزور کردیا مگر اس کے اثرات باقی رہے۔ ان کی پہلی ترجیح اپنی فیملی کے مفادات کا تحفظ تھا جس کی مثال لالو اور ملائم میں ویژن کی کمی‘ بھائی بھتیجہ واد کی لڑائی اور مسلمانوں کے سیاسی استعمال کے سبب محروم طبقات میں بے چینی ہونے لگی۔ کیونکہ اقتدار کے ثمرات وفواکہات مخصوص ذاتوں تک سمٹ گئے خاص طور سے یاد وپسماندہ ذاتوں کے نئے برہمن بن گئے تو منڈل کمیشن کی سفارشات کے بعد ہوئی سوشل انجینئرنگ کی گانٹھیں کمزور ہونے لگیں اس کسمساہٹ کو بی جے پی نے محسوس کرلیا۔ اس نے کئی سوشل انجینئرنگ کی چھوٹی چھوٹی ذاتوں سے گٹھ بندھن کیا۔ مودی نئے پسماندہ رہنما کے طور پر متعارف کرائے گئے جس کے پاس ویژن اور گجرات ماڈول تھا چنانچہ اس کے سحر میں پورا شمالی ہندوستان آگیا ۔ پسماندہ ذاتوں نے بڑھ چڑھ کر ووٹ دیا۔2014 اور پھر 2017 میں یوپی اس سے متاثر رہا لیکن لالو نے نئی سوشل انجینئرنگ سے بہار کو اس تسلط سے بچالیا مگر جلد ہی سحر کا دریا اترنے لگا۔ نعرے کھوکھلے ثابت ہونے لگے۔ بی جے پی چونکہ برہمن ذہنیت سےکنٹرول ہوتی ہے جس کی کمانڈ آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے جو منو سمرتی کی بنیاد پر آئین کی تشکیل کی حامی رہی ہے چنانچہ جلد ہی پسماندہ ذاتیں ٹھگاہوا محسوس کرنے لگیں‘ہندوتو کا جال ٹوٹنے لگا میڈیا کی بھرپور حمایت‘ راشٹر واد کا بخار اتارنے سے بچا نہ سکی جس کا اظہار گورکھپور اور پھول پور میں ہوا۔
ہندوتوواد‘ سیکولرازم صرف ڈھکوسلہ اور ڈھونگ ہے دراصل ذاتوں کے درمیان اقتدار کی جہد کو کہیں ہندوتو کہیں سیکولرازم کے نام پر لڑاجاتا ہے۔ مسلمان کو دونوں فورسزپنچنگ بیگ کی طرح استعمال کرتی ہیں۔ اس کے حصہ میں صرف زخم اور چوٹیں آتی ہیں۔ اسے دلت بھی مارتے ہیں اور پسماندہ ذاتیں بھی مظفرنگر کا فساد اس کی مثال ہے۔ دلتوں کو پیٹا جاتا ہے تو پوراملک کھڑاہوجاتا ہے مگر سونیا کویہ فکر لاحق ہے کہ کانگریس کو مسلم پارٹی بناکر پیش کیاجارہا ہے۔ راہل کا جنیو باہر آجاتا ہے۔2019کی لڑائی میں بھی مسلمان لگتا ہے پنچنگ بیگ ہی بنارہے گا اس کا سیاسی مراعات یافتہ طبقہ اشرافیہ حسب دستور کانگریس ودیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر نعرہ حق لگائے گا۔ اس کی جھولی مطلوبہ مراعات سے بھرجائے گی۔ لیکن مسلم کمیونٹی انہیں مسائل کے گرداب میں پھنسی رہے گی۔ یوز اینڈ تھرو کی سیاست کا شکاررہے گی۔ 2019کا الیکشن ذاتوں کے درمیان اقتدار کی جنگ کا سب سے بھیانک منظر پیش کرے گا اور مسلمان صرف جان ومال کی گارنٹی تک محدود کردیاجائے گا۔ اقتدار میں حصہ داری فی الحال خواب رہے گا کیونکہ ہمار ی قیادت اقتدار میں حصہ داری کی لڑائی کے لئے تیار نہیں ہے۔ ابھی اس کو کانفرنسوں اور مظاہروں سے فرصت کہاں کیونکہ طاقت کے یہی مظاہرے مراعات کا حصہ طے کرتے ہیں۔ قانون ساز اداروں میں لگاتار گھٹتی نمائندگی اسی ذہنی دیوالیہ پن کا نتیجہ ہے۔ شکوہ کس سے کریں اور کیوں کوئی دوسرا ہمارے منہ میں نوالہ نہیں ڈالے گا۔ دامادوں کے سے نخرے کیوں سہے گا۔ اب کچھ کر بھی لیا جائے۔
اس جنگ میں ہم کہاں ہیں
قاسم سید
اس بات میں شک کی کوئی گنجائش ہے کہ ہندوستان ذات پات کی آہنی زنجیروں کے نظام میں جکڑا ہوا ہےاور یہ معاملہ صرف ملک کی اکثریت کے ساتھ ہی نہیں اسلام کے نام لیوا بھی اس کے بداثرات سے محفوظ نہیں ۔نسلی برتری کا تفاخراور خاندانی نسبتوں کا امتیاز بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس کے مظاہر سے انکار ناممکن ہے ہم بھلےہی مساوات کے کارپٹ میں اسے چھپانے کی کوشش کریں بس فرق یہ ہے کہ ہندوئوں میں ذات پات کا سسٹم مذہبی بنیاد وتائید رکھتا ہے‘ہندواپنے مذہب کو ختم کئے بغیر ذات پات کی سڑاند کو ختم نہیں کرسکتے جبکہ دیگر مذاہب کو اپنے یہاں مذہب کو خیر باد کہنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ایسی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کرے گا یعنی اسلام میں ذات پات اساسی طور پر مذہبی نظام کا حصہ نہیں اور نہ ہی سماجی نظام اس کی حمایت کرتاہے لیکن عملا اس کے اثرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس لعنت کے اثرات صرف برصغیر ہند تک ہی محدود ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے ذات پات اور پھر مسلکی تنازعات نے مسلم اتحاد کے تصور کو پاش پاش کردیا ہے۔ تقسیم درتقسیم نے اس کی سیسہ پلائی دیوار میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ سیاسی اشتراک میں بھی یہی مانع ہیں ہم اس حقیت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہندوستان میں ذات پات کے ناقابل تسخیر نظام نے سیاسی ومعاشی جدوجہد کو بھی متاثر کیا۔ ہندوئوں کے طبقہ اشرافیہ نے اس پر اپنا تسلط کبھی کمزور نہیں ہونےد یا۔ آزادی کےبعد بھی نچلی ذاتوں کو احساس کمتری میں مبتلا رکھنے کے لئے انہیں شیڈول کاسٹ کے نام سے بریکٹ کردیا۔ اعلی ذات اورنچلی ذات کی اصطلاح ہی اپنے آپ میں گھنائونے نظام کی ترجمانی ہے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اعلی ذاتوں یعنی برہمن ‘ٹھاکر اور ویشیہ کل آبادی کا 15فیصد ہیں مگر سیاست میں 60فیصد‘نوکریوں میں 87فیصد اور تجارت میں 94فیصد ہیں۔ 92فیصد زمینوں کے مالک وہی ہیں، حال ہی کے ایک سروے میں انکشاف ہوا تھا کہ ملک کی صرف ایک فیصد آبادی ملک کی 99فیصد دولت پر قابض ہے۔ مثلاً برہمن کی کل آبادی 3.5فیصد ہے ۔مگر سرکاری نظام میں حصہ داری 62فیصد ہے چونکہ ملک کی آبادی مندروں اور مٹھوں سے جڑی ہے اور مذہب کے مطابق ان کی باگ ڈور صرف برہمن سنبھال سکتا ہے تو اکثریت اس کی مٹھی میں ہے۔ وسائل پر اس کا قبضہ رہا ہے۔ وزارت ترقی انسانی وسائل کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی سطح پر بچوں کا اوسط ڈراپ آئوٹ ایس سی کا 4.46فیصد اور مسلم کمیونٹی کا6.54فیصد ہے۔ پرائمری تعلیم میں ایس سی کا ڈراپ آئوٹ 5.51فیصد اورمسلم کمیونٹی کی شرح 9.49فیصدہے جبکہ ثانوی سطح پر ایس سی کی 19.36فیصد اور مسلمانوں کا ڈراپ آئوٹ 24.12فیصد ہے۔ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ پسماندگی کی وجوہات کیا ہیں۔ یہ اعدادو شمار واقعی تشویشناک ہیں مگر ہنگامہ پسند لوگوں کو اس پر غور کرنے کی فرصت کہاں ہے۔
بہرحال اس صورت حال کا ایک خوشگوار پہلو یہ ہے کہ جیسے جیسے محروم طبقات خصوصاً دلتوں میں ریزرویشن کی وجہ سے سیاسی بیداری آئی انہوں نے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی اس کے لئے خونی ٹکرائو بھی ہوا خوش قسمتی سے انہیں ڈاکٹر امبیڈکر سے لے کر کانشی رام تک مخلص لیڈروں کی رہنمائی ملتی رہی۔ ایمرجنسی کے بعد جنتاپارٹی نے جن سنگھ کو سیاسی قوت بخشی اور وی پی سنگھ کے جنتادل سے بی جے پی کاجنم ہواتو ہندوتو وادی طاقتوں کو سیاسی شناخت کے ساتھ اقتدار میں بھرپور حصہ داری کا موقع ملا وہیں وی پی سنگھ کے منڈل کمیشن نے او بی سی طبقات اور درج فہرست ذاتوں کے لئے بھرپور مواقع کے دروازے کھول دئیے۔ منڈل کمیشن کا واحد مقصد نوکریوں میں ریزرویشن تھا۔ مگر بات نوکری سے آگے بڑھ کر اقتدار میں حصہ داری تک پہنچ گئی یعنی دلتوں اور پسماندوں کو اقتدار میں کتنی حصہ داری ملی یہی وجہ ہے کہ بغیر روزگار دئیے لالو 15سال تک بہار پر قابض رہے۔ پسماندہ ذاتوں کے اتحاد نے برہمنوں کو دور پھینک دیایہی حال یوپی میں ہوا جہاں ملائم سنگھ کانشی رام اتحاد نے اعلی ذاتوں کا بوریہ بستر سمیٹ دیادونوں کے الگ ہونے کے بعد بھی کبھی ملائم تو کبھی مایاوتی اس اتحاد میں اقلیتوں کی شمولیت سے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے حتی کہ بابری مسجد انہدام کے فوری بعد ہونے والے ریاستی الیکشن میں بھی یوپی کے اندر دلتوں‘پسماندہ ذاتوںاور اقلیتوں کا اتحاد پولرائزڈ ہندوتو کو ہرانے میں کامیاب رہا۔یعنی منڈل کمیشن کی سفارشات کا نفاذ ہندستانی سیاست میں دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کے سیاسی وسماجی غلبہ کا آغاز تھا۔ جس کا سب سے زیادہ فائدہ پسماندہ ذاتوں اور پھردلتوںکو ہوا۔ ان کے لیڈروں کی انانیت اور تسلط پسندی کے مزاج نے اس اتحاد کو دھیرے دھیرے کمزور کردیا مگر اس کے اثرات باقی رہے۔ ان کی پہلی ترجیح اپنی فیملی کے مفادات کا تحفظ تھا جس کی مثال لالو اور ملائم میں ویژن کی کمی‘ بھائی بھتیجہ واد کی لڑائی اور مسلمانوں کے سیاسی استعمال کے سبب محروم طبقات میں بے چینی ہونے لگی۔ کیونکہ اقتدار کے ثمرات وفواکہات مخصوص ذاتوں تک سمٹ گئے خاص طور سے یاد وپسماندہ ذاتوں کے نئے برہمن بن گئے تو منڈل کمیشن کی سفارشات کے بعد ہوئی سوشل انجینئرنگ کی گانٹھیں کمزور ہونے لگیں اس کسمساہٹ کو بی جے پی نے محسوس کرلیا۔ اس نے کئی سوشل انجینئرنگ کی چھوٹی چھوٹی ذاتوں سے گٹھ بندھن کیا۔ مودی نئے پسماندہ رہنما کے طور پر متعارف کرائے گئے جس کے پاس ویژن اور گجرات ماڈول تھا چنانچہ اس کے سحر میں پورا شمالی ہندوستان آگیا ۔ پسماندہ ذاتوں نے بڑھ چڑھ کر ووٹ دیا۔2014 اور پھر 2017 میں یوپی اس سے متاثر رہا لیکن لالو نے نئی سوشل انجینئرنگ سے بہار کو اس تسلط سے بچالیا مگر جلد ہی سحر کا دریا اترنے لگا۔ نعرے کھوکھلے ثابت ہونے لگے۔ بی جے پی چونکہ برہمن ذہنیت سےکنٹرول ہوتی ہے جس کی کمانڈ آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے جو منو سمرتی کی بنیاد پر آئین کی تشکیل کی حامی رہی ہے چنانچہ جلد ہی پسماندہ ذاتیں ٹھگاہوا محسوس کرنے لگیں‘ہندوتو کا جال ٹوٹنے لگا میڈیا کی بھرپور حمایت‘ راشٹر واد کا بخار اتارنے سے بچا نہ سکی جس کا اظہار گورکھپور اور پھول پور میں ہوا۔
ہندوتوواد‘ سیکولرازم صرف ڈھکوسلہ اور ڈھونگ ہے دراصل ذاتوں کے درمیان اقتدار کی جہد کو کہیں ہندوتو کہیں سیکولرازم کے نام پر لڑاجاتا ہے۔ مسلمان کو دونوں فورسزپنچنگ بیگ کی طرح استعمال کرتی ہیں۔ اس کے حصہ میں صرف زخم اور چوٹیں آتی ہیں۔ اسے دلت بھی مارتے ہیں اور پسماندہ ذاتیں بھی مظفرنگر کا فساد اس کی مثال ہے۔ دلتوں کو پیٹا جاتا ہے تو پوراملک کھڑاہوجاتا ہے مگر سونیا کویہ فکر لاحق ہے کہ کانگریس کو مسلم پارٹی بناکر پیش کیاجارہا ہے۔ راہل کا جنیو باہر آجاتا ہے۔2019کی لڑائی میں بھی مسلمان لگتا ہے پنچنگ بیگ ہی بنارہے گا اس کا سیاسی مراعات یافتہ طبقہ اشرافیہ حسب دستور کانگریس ودیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر نعرہ حق لگائے گا۔ اس کی جھولی مطلوبہ مراعات سے بھرجائے گی۔ لیکن مسلم کمیونٹی انہیں مسائل کے گرداب میں پھنسی رہے گی۔ یوز اینڈ تھرو کی سیاست کا شکاررہے گی۔ 2019کا الیکشن ذاتوں کے درمیان اقتدار کی جنگ کا سب سے بھیانک منظر پیش کرے گا اور مسلمان صرف جان ومال کی گارنٹی تک محدود کردیاجائے گا۔ اقتدار میں حصہ داری فی الحال خواب رہے گا کیونکہ ہمار ی قیادت اقتدار میں حصہ داری کی لڑائی کے لئے تیار نہیں ہے۔ ابھی اس کو کانفرنسوں اور مظاہروں سے فرصت کہاں کیونکہ طاقت کے یہی مظاہرے مراعات کا حصہ طے کرتے ہیں۔ قانون ساز اداروں میں لگاتار گھٹتی نمائندگی اسی ذہنی دیوالیہ پن کا نتیجہ ہے۔ شکوہ کس سے کریں اور کیوں کوئی دوسرا ہمارے منہ میں نوالہ نہیں ڈالے گا۔ دامادوں کے سے نخرے کیوں سہے گا۔ اب کچھ کر بھی لیا جائے۔
qasimsyed2008@gmail.com
0 comments: