featured
فرقہ بندی اور منافقت
بہترین انسان کیلئے یہ ایک عمدہ مثال بن سکتی ہے کہ وہ کسی کے احسانوں کا
بدلہ احسان سے چکائے ۔ لیکن جو ذلیل اور ڈھونگی انسان ہوتا ہے وہ احسان کا
بدلہ احسان فراموشی ، عصبیت اور منافقت سے دیتا ہے ۔ مسلمانوں کا ایک گروہ
اپنی جہالت ، کذب بیانی ، عصبیت اور افترا پردازی میں دنیا کی بد ترین قوم
یہودیوں سے بھی دو قدم آگے ہے ۔اس کی نظر میں صرف وہی مسلمان ہیں باقی سب
کے سب کافر ، مرتد اور بد مذہب ہیں ۔ ان کے فتویٰ کے مطابق اس گروہ کے علاوہ
مسلمانوں کے کسی دوسرے گروہ کو سلام کرنا ، اس سے معانقہ کرنا اس کی خبر گری
کرنا ،اس کے جنازے میں شامل ہونا اور اس کے نکاح میں شامل ہونا سب حرام
اور ناجائز ہیں ۔ ان کا یہ فتویٰ ایک لمبے عرصہ تک مسلمانوں کو باہم دست و
گریباں کرتا رہا ۔لیکن جب سے تعلیم عام ہوئی اور مسلم نوجوانوں میں دین کے
تئیں بیداری آئی اور انہوں نے کسی مولوی کے فتویٰ کی بجائے خود بھی تحقیق
کرنے کی طرف قدم بڑھایا تو ایسے فتویٰ بازوں کی دوکان بند ہونا شروع ہو گئی
۔ ان کے ان فضول فتووں کی دوکانیں بند ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ عوام
کا باشعور طبقہ خصوصی طور سے نوجوانوں نے ان کے دوہرے اور دوغلے معیار پر
غور کرنا شروع کیا تو انہیں محسوس ہوا کہ یہ لوگ عوام کو گمراہ کرتے ہوئے
ہمیں آپس میں لڑاتے ہیں لیکن اپنے مفاد کی خاطر یہ لوگ ان لوگوں سے نہ صرف
سلام و کلام کرتے ہیں بلکہ بغلگیر تک ہوتے اور طعام و قیام بھی کرتے ہیں
۔ ان کے اس دوہرے معیار نے خود انہی کے فتوے ان پر پلٹ دیئے اور نوجوانوں نے
خود سے دین کی راہوں کا تعین کیا ۔
یہ چند لائنیں لکھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ابھی گذشتہ ماہ رضا اکیڈمی کے روح رواں الحاج سعید نوری کی دختر کی شادی کی تقریب مجگاؤں کے ایلی کدوری ہال میں تھی ۔ یہ ہال یہودیوں کی ہے ۔واضح ہو کہ دنیا میں مسلم امہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے اور ان کی آزاری کے درپہ رہنے والی قوم یہود ہی ہے ۔سعید نوری کی دختر کے عقد مسنونہ کی تقریب کے دعوت نامے مہنگے دعوتی کارڈ کے طور پر شہر کی معزز ہستیوں کو دیئے گئے تھے۔ یہاں بھی انہوں نے اس کارڈ پر دو رنگا اور دوہرا معیار اپناتے ہوئے کچھ کارڈس پر دائیں جانب کونے میں ایک اسٹیکر چپکایا ہوا تھا جس کی تحریر کچھ اس طرح تھی’’ان شاء اللہ تعالیٰ یہ تقریب سعید بد مذہبوں کی شرکت سے پاک و محفوظ ہوگی اسی لئے کسی وہابی ،دیوبندی،رافضی ،اہل حدیث ،قادیانی وغیرہ فرقہائے باطلہ کو دعوت نہیں دی گئی ہے ‘‘۔ یہ چند الفاظ جہاں شر انگیز اور منافقانہ ہیں وہیں یہ احمقانہ بھی ہیں ۔ احمقانہ ان باتوں میں کہ ان میں جن فرقوں کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ ان بد مذہبوں کو دعوت نہیں دی گئی ہے اس میں سوائے میری معلومات میں ابھی تک اہل حدیث کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے کہ ان میں سے کسی نے شرکت کی ہے کہ نہیں لیکن رافضی اور دیوبندیوں میں سے تو بہت سے لوگوں نے شرکت کی ہے ۔میرا سعید نوری سے سوال ہے کہ امین پٹیل اور خلیل زاہد کیا سنی بریلوی ہیں جو انہیں نہ صرف دعوت دی گئی بلکہ والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا گیا ۔خلیل زاہد کے دعوت نامہ پر تو وہ احمقانہ اور قابل اعتراض اسٹیکر نہیں لگا تھا ۔ لیکن اردو ٹائمز کے صحافی فاروق انصاری کے دعوت نامہ پر مذکورہ اسٹیکر چسپاں ہے ۔کیا فاروق انصاری بھی بریلوی سنی ہیں ؟
اب ہم آتے ہیں آزادمیدان کے چھ سال پہلے ہوئے اس سانحہ کی طرف جہاں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور جس میں دو مسلم نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا تھا ۔ اس احتجاجی ریلی کے ذمہ داروں میں جو سب سے اوپر نام ہے وہ رضا اکیڈمی اور اس کے سربراہ سعید نوری ہی ہیں ۔بقیہ لوگ تو ضمنی حیثیت رکھنے والے ہیں ۔ اس فساد اور اور اس کے بعد کے پولس ایکشن پر آنجناب کدھر تھے پتہ ہی نہیں چلا ۔ میں خود ایک جماعت کے وفد کے ساتھ پولس اسٹیشن اور اسپتالوں کے چکر لگارہا تھا ۔زخمیوں کی عیادت جس میں اپنے نوجوانوں کے ساتھ پولس والے بھی شامل تھے ۔ وہاں میں نے کچھ لاپتہ نوجوانوں کے سرپرستوں کو در در بھٹکتے ہوئے دیکھا لیکن رضا اکیڈمی کے کسی کارندے کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں تھا ۔ دوسرے یا تیسرے دن انہی فرقہ ہائے باطلہ جس کا ذکر سعید نوری کے دعوت نامہ میں حقارت آمیز طریقہ سے لیا گیا ہے کی جماعت کے وکیلوں نے گرفتار مسلم نوجوانوں کی جانب سے عدالت میں خود کو پیش کیا ۔ وہ جماعت تھی جمعیتہ العلما جس کے وکلاء نے عدالت میں شروع دن مسلم نوجوانوں کی پیروی کی ۔ دوسرے دن اسپتالوں اور پولس اسٹیشنوں میں جس جماعت کے لوگ خبر گری میں مصروف تھے وہ جماعت تھی جماعت اسلامی ہند کی مہاراشٹر شاخ کے اراکین و کارکنان جن کے ساتھ راقم بھی تھا اور اس کے بعد دہلی وغیر سے وکلاء کو بلا کر اور سیاسی دباؤ ڈال کر جس نے گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی کو آسان بنایا وہ بھی ایک دیوبندی صحافی خلیل زاہد ہیں ۔میں خود سنی بریلوی خاندان کا فرد ہوں لیکن مجھے کسی کے احسان کو سمجھنا اور اس کی قدر کرنا آتا ہے نیز موجودہ دور میں ہندوستان کے سیاسی حالات جو کسی حد تک مسلمانوں کے خلاف ہیں اس میں ایسے فسادیوں اور شرارت پسندوں کو جو امت میں فساد کے بیج بوئے کو مسلمانوں کا دشمن تصور کرتا ہوں اور ایسے ڈھونگیوں سے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں کہ یہی وقت کا تقاضہ ہے ۔لیکن یہ ان ملت فروشوں کو سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ۔ ان کی دوکان فساد اور تخریب سے ہی چلتی ہے ۔یہ اپنی دوکانیں چلاتے رہیں لیکن میں ملت کے جوانوں کو آواز دیتا ہوں کہ وہ غیر جانب دار ہو کر تجزیہ کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ کون ملت کا ہمدرد ہے ۔جماعتوں کے کام کو کھلی آنکھوں سے دیکھیں اور ملت میں تخریب کے بیج بونے والوں اور ملت کے لئے حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والوں کو پہچانیں۔میں نہیں کہتا کہ مسلک کو چھوڑ دیں آپ اپنی تحقیق کے مطابق جس مسلک کو چاہیں اپنائیں لیکن خدارا آنکھیں کھولیں اور جو طوفان چلا آرہا ہے اس میں امت کی تباہی سے قبل ہوشیار ہو جائیں ۔ مسلک کو اپنے گھروں میں رکھیں اور باہر نکلیں تو صرف مسلمان بن کر نکلیں ۔ یہی نجات کی واحد راہ ہے ۔
یہ چند لائنیں لکھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ابھی گذشتہ ماہ رضا اکیڈمی کے روح رواں الحاج سعید نوری کی دختر کی شادی کی تقریب مجگاؤں کے ایلی کدوری ہال میں تھی ۔ یہ ہال یہودیوں کی ہے ۔واضح ہو کہ دنیا میں مسلم امہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے اور ان کی آزاری کے درپہ رہنے والی قوم یہود ہی ہے ۔سعید نوری کی دختر کے عقد مسنونہ کی تقریب کے دعوت نامے مہنگے دعوتی کارڈ کے طور پر شہر کی معزز ہستیوں کو دیئے گئے تھے۔ یہاں بھی انہوں نے اس کارڈ پر دو رنگا اور دوہرا معیار اپناتے ہوئے کچھ کارڈس پر دائیں جانب کونے میں ایک اسٹیکر چپکایا ہوا تھا جس کی تحریر کچھ اس طرح تھی’’ان شاء اللہ تعالیٰ یہ تقریب سعید بد مذہبوں کی شرکت سے پاک و محفوظ ہوگی اسی لئے کسی وہابی ،دیوبندی،رافضی ،اہل حدیث ،قادیانی وغیرہ فرقہائے باطلہ کو دعوت نہیں دی گئی ہے ‘‘۔ یہ چند الفاظ جہاں شر انگیز اور منافقانہ ہیں وہیں یہ احمقانہ بھی ہیں ۔ احمقانہ ان باتوں میں کہ ان میں جن فرقوں کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ ان بد مذہبوں کو دعوت نہیں دی گئی ہے اس میں سوائے میری معلومات میں ابھی تک اہل حدیث کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے کہ ان میں سے کسی نے شرکت کی ہے کہ نہیں لیکن رافضی اور دیوبندیوں میں سے تو بہت سے لوگوں نے شرکت کی ہے ۔میرا سعید نوری سے سوال ہے کہ امین پٹیل اور خلیل زاہد کیا سنی بریلوی ہیں جو انہیں نہ صرف دعوت دی گئی بلکہ والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا گیا ۔خلیل زاہد کے دعوت نامہ پر تو وہ احمقانہ اور قابل اعتراض اسٹیکر نہیں لگا تھا ۔ لیکن اردو ٹائمز کے صحافی فاروق انصاری کے دعوت نامہ پر مذکورہ اسٹیکر چسپاں ہے ۔کیا فاروق انصاری بھی بریلوی سنی ہیں ؟
اب ہم آتے ہیں آزادمیدان کے چھ سال پہلے ہوئے اس سانحہ کی طرف جہاں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور جس میں دو مسلم نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا تھا ۔ اس احتجاجی ریلی کے ذمہ داروں میں جو سب سے اوپر نام ہے وہ رضا اکیڈمی اور اس کے سربراہ سعید نوری ہی ہیں ۔بقیہ لوگ تو ضمنی حیثیت رکھنے والے ہیں ۔ اس فساد اور اور اس کے بعد کے پولس ایکشن پر آنجناب کدھر تھے پتہ ہی نہیں چلا ۔ میں خود ایک جماعت کے وفد کے ساتھ پولس اسٹیشن اور اسپتالوں کے چکر لگارہا تھا ۔زخمیوں کی عیادت جس میں اپنے نوجوانوں کے ساتھ پولس والے بھی شامل تھے ۔ وہاں میں نے کچھ لاپتہ نوجوانوں کے سرپرستوں کو در در بھٹکتے ہوئے دیکھا لیکن رضا اکیڈمی کے کسی کارندے کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں تھا ۔ دوسرے یا تیسرے دن انہی فرقہ ہائے باطلہ جس کا ذکر سعید نوری کے دعوت نامہ میں حقارت آمیز طریقہ سے لیا گیا ہے کی جماعت کے وکیلوں نے گرفتار مسلم نوجوانوں کی جانب سے عدالت میں خود کو پیش کیا ۔ وہ جماعت تھی جمعیتہ العلما جس کے وکلاء نے عدالت میں شروع دن مسلم نوجوانوں کی پیروی کی ۔ دوسرے دن اسپتالوں اور پولس اسٹیشنوں میں جس جماعت کے لوگ خبر گری میں مصروف تھے وہ جماعت تھی جماعت اسلامی ہند کی مہاراشٹر شاخ کے اراکین و کارکنان جن کے ساتھ راقم بھی تھا اور اس کے بعد دہلی وغیر سے وکلاء کو بلا کر اور سیاسی دباؤ ڈال کر جس نے گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی کو آسان بنایا وہ بھی ایک دیوبندی صحافی خلیل زاہد ہیں ۔میں خود سنی بریلوی خاندان کا فرد ہوں لیکن مجھے کسی کے احسان کو سمجھنا اور اس کی قدر کرنا آتا ہے نیز موجودہ دور میں ہندوستان کے سیاسی حالات جو کسی حد تک مسلمانوں کے خلاف ہیں اس میں ایسے فسادیوں اور شرارت پسندوں کو جو امت میں فساد کے بیج بوئے کو مسلمانوں کا دشمن تصور کرتا ہوں اور ایسے ڈھونگیوں سے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں کہ یہی وقت کا تقاضہ ہے ۔لیکن یہ ان ملت فروشوں کو سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ۔ ان کی دوکان فساد اور تخریب سے ہی چلتی ہے ۔یہ اپنی دوکانیں چلاتے رہیں لیکن میں ملت کے جوانوں کو آواز دیتا ہوں کہ وہ غیر جانب دار ہو کر تجزیہ کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ کون ملت کا ہمدرد ہے ۔جماعتوں کے کام کو کھلی آنکھوں سے دیکھیں اور ملت میں تخریب کے بیج بونے والوں اور ملت کے لئے حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والوں کو پہچانیں۔میں نہیں کہتا کہ مسلک کو چھوڑ دیں آپ اپنی تحقیق کے مطابق جس مسلک کو چاہیں اپنائیں لیکن خدارا آنکھیں کھولیں اور جو طوفان چلا آرہا ہے اس میں امت کی تباہی سے قبل ہوشیار ہو جائیں ۔ مسلک کو اپنے گھروں میں رکھیں اور باہر نکلیں تو صرف مسلمان بن کر نکلیں ۔ یہی نجات کی واحد راہ ہے ۔
سید بشارت حلیم رضوی
0 comments: