featured
نہال صغیر
ریان اسکول کے نو عمر طالبعلم پردیومن کے قتل کے الزام میں سی بی آئی نے اسی اسکول کے گیارہویں کے طالبعلم کو گرفتار کیا ہے ۔ مذکورہ ملزم طالبعلم اس دن چاقو لے کر اسکول آیا تھا یعنی اس نے قتل دانستہ کیا ۔ کسی فوری واقعہ کے ردعمل میں یہ قتل نہیں ہوا ۔ اسے کسی نہ کسی کو قتل کرنا ہی تھا ۔ سی بی آئی کی تفتیش میں اس نے قبول کیا کہ اس نے پردیومن کو قتل کیا ہے ۔ قتل کرنے کی وجہ امتحان کو ملتوی کرانا بتایا جاتا ہے ۔ خبروں میں چونکہ یہ بات آئی ہے کہ ملزم چاقو لے کر قتل کے ارادہ سے ہی آیا تھا ۔ اس کے اس رویہ کو دیکھتے ہوئے امریکی اسکولوں میں آئے دن بچوں کے ذریعہ ہی اپنے ہم جماعت کے قتل کی یاد آجاتی ہے ۔جو ہونا تھا وہ ہو گیا ۔اب پردیومن کبھی اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون نہیں بن پائے گا ۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ آخر ایسا ہوا کیوں اور آئندہ ایسا نہ ہو اس کیلئے کیا لائحہ عمل بنایا جائے ؟ لیکن اس پر کوئی بھی غور نہیں کرتا ۔ ایسی حرکتیں کیوں کر وقوع پذیر ہو تی ہیں اگر اس پر غور نہیں کیا گیا تو اس بات کیلئے تیار رہئے کہ آنے وقت میں ایسے مزید واقعات ہوں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بچوں کی تعلیم کے نام پر پیسہ کمانے والی مشین بنا رہے ہیں ۔ بچوں کو اخلاقیات کا سبق نہیں پڑھا رہے ہیں ۔ انہیں جو کچھ ہم سکھا رہے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ انہیں آگے جا کر یہ اور یہ جاب کرنا ہے اور بہت سارے روپئے کمانے ہیں اور ایک شاندار لگژری لائف کا لطف لینا ہے ۔ اب جب زندگی میں تعلیم کا مقصد ہی صرف یہ مادہ پرستانہ سوچ ہو تو اسکولوں اور کالجوں میں یہی سب کچھ ہونا ہے ۔ اگر ہماری حکومت ،انتظامیہ اور اہل علم حضرات اس واقعہ سے یا اور اس طرح کے دوسرے واقعات سے رنجیدہ ہیں تو انہیں چاہئے کہ احتساب کریں اور تعلیمی نصاب میں اخلاقیات کے اسباق کو بھی شامل کریں ۔اس کے لئے یک طرفہ عقیدہ تھوپنے کے بجائے ۔ جو جس عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے اس کو اسی مذہب سے اخلاقی تعلیم دی جائے ۔ اسکول کالجوں کی انتظامیہ کو بھی اس جانب انفرادی طور پر ہی سہی لیکن قدم اٹھانا پڑے گا ۔ گھروں میں والدین بھی اسمارٹ فون میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں پر بھی دھیان دیں کہ وہ کیا سیکھ رہے ہیں ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ذرا ساس بہو اور سازش جیسی سیریل پر بھی غور کیا جائے کہ اس سے بچے ذہنی طور پر کس حد تک متاثر ہو رہے ہیں ۔ آجکل ٹی وی پر کرائم پیٹرول اور سنسنی جیسی حقیقی واقعات پر مبنی سیریل نے بھی بچوں اور نوخیز لڑکوں کو ذہنی طور پر بگاڑنے میں اہم کردار اپنایا ہے ۔ ان پر جب تک ہم غور نہیں کریں گے اور پھر اس پر قابو پانے کی ترکیب عمل میں نہیں لائیں گے ایسے واقعات کو نہیں روکا جاسکتا ۔
ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اس طرح کے واقعات مسلم ملکوں خصوصا عربوں میں کیوں نہیں ہوتے ؟ یا پاکستان جیسے انتہائی پسماندہ اور بقول میڈیا کے ناکام اور دہشت گرد ملکوں میں بھی اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے تو اس کی وجہ کیا ہے ؟ یقینی طور پر اس کے پیچھے اسلام کا وہ آفاقی پیغام ہے جس نے عرب کے بدؤوں کو ساری دنیا کا حکمراں بنادیا تھا ۔ پاکستان سمیت مسلم ملکوں میں اس طرح کے واقعات اس لئے نہیں ہوتے یا انتہائی کم ہوتے ہیں تو اس کے وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے کانوں میں کہیں نہ کہیں سے اخلاقی تعلیمات کا کوئی نہ کوئی سبق پہنچتا رہتا ہے اور یہ باتیں غیر محسوس طریقہ سے ہی انسانی ذہن میں سرایت کرجاتی ہیں ، خواہ ہم اس پر سنجیدہ ہوں یا نہ ہوں ۔ اگر مسلم معاشرے کا کوئی فرد کسی دینی اجلاس میں نہ بھی شامل ہو تو وہ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد ضرور جاتا ہے اور اسے وہاں منبرو محراب سے دین کی جو باتیں بتائی جاتی ہیں اس کو مسلمانوں کا ذہن غیر محسوس طریقہ سے قبول کرتا جاتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس بری حالت میں بھی جسے دور فتنہ کہا جاتا ہے مسلم معاشرہ دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے اخلاقی طور پر زیادہ بہتر ہے ۔ کچھ ہفتہ قبل ہم نے مبارک کاپڑی سے تعلیم کے عنوان پر کچھ سوالات کئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ آزادی کے بعد سے جو حکومت رہی اس نے اپنے تعلیمی نصاب کی رہنمائی ماسکو سے لی تو موجودہ حکومت پانچ ہزار پرانی دیو مالائی کہانیوں کو اخلاقی تعلیم کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے ۔ میرے خیال میں یہ دونوں ہی طریقہ کار غلط ہے ۔ ہم چونکہ ایک کثیر تہذیبی ملک کے باشندے ہیں تو ہمیں تعلیمی نصاب میں اخلاقی اسباق کی شمولیت کے وقت اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ جو کچھ وضع کریں وہ سب کیلئے قابل قبول ہو یا پھر سب کے عقیدے کی مناسبت سے الگ الگ نصاب طے ہو ۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ نئی نسل کو گمراہی اور مادہ پرستی کے اس طوفان سے نکالنے کیلئے انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ انسان ہیں اور انہیں انسانوں کی بستی میں انسانی قانون کے مطابق ہی زندگی گزارنی ہے ۔
تعلیم کے ساتھ اخلاقیات پر بھی دھیان دیں
نہال صغیر
ریان اسکول کے نو عمر طالبعلم پردیومن کے قتل کے الزام میں سی بی آئی نے اسی اسکول کے گیارہویں کے طالبعلم کو گرفتار کیا ہے ۔ مذکورہ ملزم طالبعلم اس دن چاقو لے کر اسکول آیا تھا یعنی اس نے قتل دانستہ کیا ۔ کسی فوری واقعہ کے ردعمل میں یہ قتل نہیں ہوا ۔ اسے کسی نہ کسی کو قتل کرنا ہی تھا ۔ سی بی آئی کی تفتیش میں اس نے قبول کیا کہ اس نے پردیومن کو قتل کیا ہے ۔ قتل کرنے کی وجہ امتحان کو ملتوی کرانا بتایا جاتا ہے ۔ خبروں میں چونکہ یہ بات آئی ہے کہ ملزم چاقو لے کر قتل کے ارادہ سے ہی آیا تھا ۔ اس کے اس رویہ کو دیکھتے ہوئے امریکی اسکولوں میں آئے دن بچوں کے ذریعہ ہی اپنے ہم جماعت کے قتل کی یاد آجاتی ہے ۔جو ہونا تھا وہ ہو گیا ۔اب پردیومن کبھی اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون نہیں بن پائے گا ۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ آخر ایسا ہوا کیوں اور آئندہ ایسا نہ ہو اس کیلئے کیا لائحہ عمل بنایا جائے ؟ لیکن اس پر کوئی بھی غور نہیں کرتا ۔ ایسی حرکتیں کیوں کر وقوع پذیر ہو تی ہیں اگر اس پر غور نہیں کیا گیا تو اس بات کیلئے تیار رہئے کہ آنے وقت میں ایسے مزید واقعات ہوں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بچوں کی تعلیم کے نام پر پیسہ کمانے والی مشین بنا رہے ہیں ۔ بچوں کو اخلاقیات کا سبق نہیں پڑھا رہے ہیں ۔ انہیں جو کچھ ہم سکھا رہے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ انہیں آگے جا کر یہ اور یہ جاب کرنا ہے اور بہت سارے روپئے کمانے ہیں اور ایک شاندار لگژری لائف کا لطف لینا ہے ۔ اب جب زندگی میں تعلیم کا مقصد ہی صرف یہ مادہ پرستانہ سوچ ہو تو اسکولوں اور کالجوں میں یہی سب کچھ ہونا ہے ۔ اگر ہماری حکومت ،انتظامیہ اور اہل علم حضرات اس واقعہ سے یا اور اس طرح کے دوسرے واقعات سے رنجیدہ ہیں تو انہیں چاہئے کہ احتساب کریں اور تعلیمی نصاب میں اخلاقیات کے اسباق کو بھی شامل کریں ۔اس کے لئے یک طرفہ عقیدہ تھوپنے کے بجائے ۔ جو جس عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے اس کو اسی مذہب سے اخلاقی تعلیم دی جائے ۔ اسکول کالجوں کی انتظامیہ کو بھی اس جانب انفرادی طور پر ہی سہی لیکن قدم اٹھانا پڑے گا ۔ گھروں میں والدین بھی اسمارٹ فون میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں پر بھی دھیان دیں کہ وہ کیا سیکھ رہے ہیں ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ذرا ساس بہو اور سازش جیسی سیریل پر بھی غور کیا جائے کہ اس سے بچے ذہنی طور پر کس حد تک متاثر ہو رہے ہیں ۔ آجکل ٹی وی پر کرائم پیٹرول اور سنسنی جیسی حقیقی واقعات پر مبنی سیریل نے بھی بچوں اور نوخیز لڑکوں کو ذہنی طور پر بگاڑنے میں اہم کردار اپنایا ہے ۔ ان پر جب تک ہم غور نہیں کریں گے اور پھر اس پر قابو پانے کی ترکیب عمل میں نہیں لائیں گے ایسے واقعات کو نہیں روکا جاسکتا ۔
ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اس طرح کے واقعات مسلم ملکوں خصوصا عربوں میں کیوں نہیں ہوتے ؟ یا پاکستان جیسے انتہائی پسماندہ اور بقول میڈیا کے ناکام اور دہشت گرد ملکوں میں بھی اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے تو اس کی وجہ کیا ہے ؟ یقینی طور پر اس کے پیچھے اسلام کا وہ آفاقی پیغام ہے جس نے عرب کے بدؤوں کو ساری دنیا کا حکمراں بنادیا تھا ۔ پاکستان سمیت مسلم ملکوں میں اس طرح کے واقعات اس لئے نہیں ہوتے یا انتہائی کم ہوتے ہیں تو اس کے وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے کانوں میں کہیں نہ کہیں سے اخلاقی تعلیمات کا کوئی نہ کوئی سبق پہنچتا رہتا ہے اور یہ باتیں غیر محسوس طریقہ سے ہی انسانی ذہن میں سرایت کرجاتی ہیں ، خواہ ہم اس پر سنجیدہ ہوں یا نہ ہوں ۔ اگر مسلم معاشرے کا کوئی فرد کسی دینی اجلاس میں نہ بھی شامل ہو تو وہ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد ضرور جاتا ہے اور اسے وہاں منبرو محراب سے دین کی جو باتیں بتائی جاتی ہیں اس کو مسلمانوں کا ذہن غیر محسوس طریقہ سے قبول کرتا جاتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس بری حالت میں بھی جسے دور فتنہ کہا جاتا ہے مسلم معاشرہ دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے اخلاقی طور پر زیادہ بہتر ہے ۔ کچھ ہفتہ قبل ہم نے مبارک کاپڑی سے تعلیم کے عنوان پر کچھ سوالات کئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ آزادی کے بعد سے جو حکومت رہی اس نے اپنے تعلیمی نصاب کی رہنمائی ماسکو سے لی تو موجودہ حکومت پانچ ہزار پرانی دیو مالائی کہانیوں کو اخلاقی تعلیم کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے ۔ میرے خیال میں یہ دونوں ہی طریقہ کار غلط ہے ۔ ہم چونکہ ایک کثیر تہذیبی ملک کے باشندے ہیں تو ہمیں تعلیمی نصاب میں اخلاقی اسباق کی شمولیت کے وقت اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ جو کچھ وضع کریں وہ سب کیلئے قابل قبول ہو یا پھر سب کے عقیدے کی مناسبت سے الگ الگ نصاب طے ہو ۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ نئی نسل کو گمراہی اور مادہ پرستی کے اس طوفان سے نکالنے کیلئے انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ انسان ہیں اور انہیں انسانوں کی بستی میں انسانی قانون کے مطابق ہی زندگی گزارنی ہے ۔
0 comments: