featured

آر ایس ایس کو نفرت انگیز مہم اور شر انگیزی کی قیمت تو چکانی ہی پڑے گی!

1:26 AM nehal sagheer 0 Comments



نہال صغیر

آر ایس ایس جسے عرف عام میں سنگھ کہا کرتے ہیں نے اپنے قیام کے دنوں سے ہی ہندو اکثریت پر خوف کی نفسیات مسلط کرکے انہیں یہاں کی اقلیت سے نبر آزما کرنے کو اپنا مقصد وجود بنایا ۔اس کے مقصد میں اب مزید تیزی آگئی ہے ۔سنگھ اور اس سے جڑے ہوئے افراد جن کی اکثریت برہمنوں پر مشتمل ہے نے ملک میں جو افراتفری اور فرضی خوف کا موحول بنایا اس کا پہلا اثر تو یہ ہوا کہ ہندوستان کے دو ٹکڑے ہو گئے ۔اس کے بعد بھی ان کی جارح ہندو قوم پرستی کا بھوت ختم نہیں ہوا ۔اس کا نتیجہ ہوا کہ ملک کے مختلف حصوں میں علیحدگی کی تحریک چلنے لگی جسے فی الحال مسلمانوں کے خلاف مہم چلا کر دبا دیا گیا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اکثریت کو ہندو مسلم کے قضیہ میں الجھا کر ان کی نظروں سے ان تحریکوں کو اوجھل کردیا گیا ہے ۔موجودہ حکومت میں سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیموں کو گویا مانگی مراد مل گئی ۔انہیں ملک میں ہر طرف تشدد کی کھلی چھوٹ ہے ۔جب وہ چاہیں کسی مسلمان یا دلت کو مار ڈالیں ۔دلتوں کی بستیاں اجاڑ ڈالیں اور مسلمانوں کی دکانوں اور املاک کو لوٹ لیں ۔ہر طرف ایک خوف کا ماحول ہے ۔اس خوفناک دہشت انگیز ماحول پر عدلیہ بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کررہی ہے ۔ممبئی ہائی کورٹ کی ایک جج نے تو محسن شیخ کے قاتلوں کو ضمانت دینے کیلئے جس طرح کے خیال کا اظہار کیا اس سے عدلیہ نے اپنی بچی کھچی ساکھ کو بھی دفن کردیا ہے ۔ ادھر ایک اور ہائی کورٹ نے ایک بین المذہبی شادی کے مسئلہ میں یہ کہا کہ ہر بین المذاہب شادی لو جہاد نہیں ہے ۔گویا فاضل منصف کسی لو جہاد کے قائل ہیں ۔جب کوئی منصف اس طرح کی بات کہنے لگے تو تشویش ہونا فطری ہے ۔بہر حال ملک کا ماحول تیزی کے ساتھ بدل گیا ہے ۔اس میں آر ایس ایس نے کانگریس اور دیگر حکومتوں کی مدد سے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے ۔لیکن اب اسی تشدد کا سایہ دراز ہوتے ہوتے خود سنگھ کے دامن تک پہنچ گیا ہے ۔ابھی پچھلے ہفتے 17 ؍اکتوبر 2017 کو پنجاب کے لدھیانہ میں آر ایس ایس کے کارکن رویندر گوسائی کو ان کے گھر کے باہر ہی گولیوں سے بھون دیا گیا اور آج اتر پردیش جہاں آجکل مسٹر یوگی کا رام راجیہ ہے کے غازی پور کے گاؤں ببھنولی کے دو سنگھ کارکن راجیش مشرا اور ان کے بھائی امتیش مشرا کو ان کے دوکان میں ہی بائیکروں نے گولیوں سے بھون دیا ۔کہنے والے کچھ بھی کہیں لیکن یہ آر ایس ایس کے اپنے کرموں کا ہی پھل ہے جو اب اس کے چھوٹے کارکن بھگت رہے ہیں ۔سنگھ نے جس دہشت کی داغ بیل ڈالی ہے اور اس کے سہارے جس طرح ملک کی فضا کو بگاڑا ہے اس میں اس کے سوا کیا ہوگا ۔جب کوئی تشدد کرے گا تو اس کو اس کا ردعمل بھی بھگتنے کیلئے تیار ہی رہنا چاہئے ۔
ملک ترقی ،بقا اور سلامتی یا اپنی تہذیب کی نشاۃ ثانیہ کوئی بری چیز نہیں ہے ۔بھلا کسی کو کیوں اس بات پر اعتراض ہوگا کہ آپ اپنی تہذیب کی بات کرتے ہیں ۔ہاں جب آپ اپنی تہذیب اور کلچر کو دوسروں پر بالجبر تھوپنے کی کوشش کریں گے اس کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر مہم چلائیں گے تو لوگوں کو اعتراض بھی ہوگا اس کا رد عمل بھی آئے گا اور مختلف فرقوں کے درمیان رواداری کی فضا کو بھی نقصان ہوگا۔اگر سنگھ کا صرف اتنا ہی مقصد ہوتا تو سوائے کمیونسٹوں کے کسی اور کو خاص طور سے مسلمانوں کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔لیکن اس نے اس کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف جنگ جیسے حالات پیدا کردیئے۔سنگھ نے اپنی حرکتوں سے سکھوں کو بھی اپنا دشمن بنا لیا ۔آڑ ایس ایس کے سابق اور آنجہانی سر سنچالک سدرشن نے یہ کہہ کر سکھوں کو بر انگیختہ کردیا کہ سکھ مت بھی ہندو دھرم کا ہی حصہ ہے ۔اس کے علاوہ جارح ہندو قوم پرستی نے بھی سکھوں کو سکٹ گیر ہندوؤں یا برہمنوں سے دور کیا اور اس فرقہ میں بھی دشمنی کے جراثیم پھیلادیئے اس میں چوراسی میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پورے ملک میں سکھوں کی نسل کشی اور اس میں کانگریسیوں کے بھیس میں سنگھ اور اس سے جڑی تنظیموں کے کارکنان کی شرکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔سنگھ اور اس ذہنیت کے لوگوں نے کبھی گائے اور قربانی پر سوال ہی نہیں اٹھائے بلکہ اسے جبریہ روکنے کی کوشش ۔کبھی نماز اور اذان پر پابندی کی باتیں تو کبھی قرآن اور اسلام کو دہشت گردوں کا کی کتاب اور دہشت گردوں کا دین کہہ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ماحول کی پرورش کرنا اور اس کی آڑ میں دلتوں کو واپس تین ہزار سالہ غلامی کے دور میں واپس لے جانا تاکہ برہمن حکومت کرنے اور باقی لوگوں سے خدمت لینے کے اپنے پرانے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں ۔لیکن اس کے اس رویہ نے جارح رد عمل کو جنم دیا ۔ ہندی ریاستوں میں اگر سنگھ کے لوگ دائیں بازو کے لوگوں کا قتل کرتے ہیں تو کیرالا اور کرناٹک میں بھی ان کے خلاف ردعمل کے طور پر جوابی تشدد شروع ہو گیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر سنگھ اور اس سے جڑی تنظیموں کے ذریعہ گوری لنکیش اور اس سے قبل کلبرگی وغیرہ کا قتل نہیں ہوتا تو آج سنگھ پر بھی اس طرح کے حملے نہیں ہوتے ۔نفرت اور تشدد سے نفرت اور تشدد کے سوا اور کیا حاصل ہونا ہے ۔ہمارے یہاں کے صحافی اور ہندو شدت پسند پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں پر یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان نے جو کچھ بویا تھا اسی کی فصل وہ کاٹ رہا ہے ۔لیکن ایسا بولتے ہوئے پتہ نہیں کیوں ہم خود کو فراموش کرجاتے ہیں ۔ ہمیں اس جانب ضرور توجہ دینا چاہئے خاص طور سے سنگھ کو کہ تشدد اور نفرت ملک اور اس کے عوام کیلئے ٹھیک نہیں ہے ۔ اپنی نسبی اور نسلی برتری کے ساتھ افسانوی کرداروں پر مبنی تہذیبی برتری کا رعب ڈال کر کوئی فائدہ نہیں ہے ۔وہ کیا ہیں اس سے ہم سے زیادہ وہ خود واقف ہیں یہ اور بات ہے کہ دوسروں کی حقیقی طور پر تہذیبی برتری انہیں نفسیاتی مرض میں مبتلا کررہا ہے اور اسی خوف کا ردعمل ہے جو وہ اپنی تہذیب اور اپنا مذہب جبریہ تھوپنے کی مہم چلا رہے ہیں ۔خوف کے ماحول سے جنتی جلدی ممکن ہو ملک کو نکال لیا جائے تو یقیناًہم اکیسویں صدی میں نئی تاریخ رقم کریں گے ۔ورنہ ہمارے لئے ہنگر انڈیکس جیسی ایکسو انیس کی فہرست میں سواں نمبر بھیانک تاریخ کے روپ درج تو ہوتا ہی رہتا ہے۔

0 comments: