featured
نہال صغیر
موجودہ دور کو ہندوستان کی تاریخ میں بدترین کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ حکومت کے فیصلے اور اس کی پالیسیاں عجیب و غریب ہیں جہاں ملک و بیرون ملک بلیٹ ٹرین کے چلنے کی خبر سے ہندوستانیوں کے سینے پھولے نہیں سما رہے ہوں گے وہیں ان کے لئے یہ خبر بھی کم تکلیف دہ ثابت نہیں ہوگی جس میں جھاڑ کھنڈ کی قبائلی خاتون نے کہا کہ اس کی بچی بھوک سے صرف اس لئے مر گئی کیوں کہ جب وہ راشن لینے گئی تو اس سے کہا گیا کہ آدھار کارڈ نہیں ہونے کے سبب اسے راشن نہیں دیا جاسکتا ۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق جھاڑکھنڈ میں بھوک سے مرنے والوں کی کئی کہانیاں منظر عام پر آئیں ۔ اس خبر سے ایک ہفتہ قبل ایک اور دستاویزی اور شرمناک خبر نے بھی حساس ہندوستانیوں کو تکلیف کی شدت سے یقیناً گزارا ہوگاجس کے مطابق ہندوستان دنیا کے ایک سو انیس بھوکوں کی فہرست میں سو نمبر پر ہے ۔ حیرت انگیز یہ ہے کہ بنگلہ دیش ، نیپال اور میانمار جیسے پسماندہ ملک کی حالت بھی ہم سے اچھی ہے ۔ بھوکوں کی فہرست جسے ہنگر انڈیکس کہتے ہیں میں دو ہزار چودہ تک صورتحال بہتری کی جانب گامزن تھی لیکن دوہزار چودہ کے بعد حالت بگڑتے بگڑتے ہم یہاں تک پہنچے ہیں ۔ سروے رپورٹ اور اقوام متحدہ کی فہرستوں میں اور بھی کئی ایسے حیرت انگیز انکشافات ہیں جس سے ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ ہم شہریوں کو صاف پانی مہیا کرانے میں بھی کئی پسماندہ ممالک سے پیچھے ہیں ۔ سنیٹیشن میں ہم افغانستان جیسے انتہائی پسماندہ اور جنگ زدہ ملک سے بہت پیچھے ہیں ۔ جب ہم اس پر برادران وطن سے گفتگو کرتے ہیں تو وہ اسے شرمناک قرار دینے کے بجائے یہ توضیح بیان کرتے ہیں کہ یہاں کی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے سارے مسائل ہیں ۔ لیکن جب ہمیں یہ خبر ملتی ہے کہ امیت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی املاک میں اچانک سولہ ہزار گنا اضافہ ہوگیا ہے تو بات سمجھنے میں وقت نہیں لگتا کہ مسائل کا اصل سبب کیا ہے ، بڑھتی آبادی یا سیاست دانوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ۔ پتہ نہیں ہم کس منھ سے دنیا کی سربراہی کا خواب لے کر ملکوں ملکوں پھر رہے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ایک بچی محض اس لئے بھوکوں مر گئی کہ اس کی ماں کو راشن دینے سے منع کردیا کہ آدھار نہیں تھا ۔ یہ وہی بی جے پی ہے جو منموہن حکومت میں آدھار کی مخالفت میں چیخ و پکار کیا کرتی تھی اور اب سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر غورہے اور کسی بھی سرکاری کام کیلئے ابھی تک سپریم کورٹ نے آدھار کو لازمی قرار دینے کے معاملے میں فیصلہ نہیں دیا ہے ۔ آخر ہمارا دیش یونہی مہان تو نہیں ہوا نہ اس میں کچھ تو ہے اچھی بات نہ سہی تو شرمناک ہی سہی ۔ آخر ہم سوا ارب آبادی والے ملک ہیں ۔ ہماری پہچان الگ کیوں نہ ہو ؟
مذکورہ بالا دو واقعات ہمیں آئینہ دکھاتا ہے کہ اس میں ہم اپنی شکل دیکھ لیں ۔ لیکن ہم جب آئینہ دیکھتے ہیں تو غصہ اور شدت غضب سے آئینہ کو ہی پھوڑنے کے درپہ ہو جاتے ہیں کہ یہ ہماری شکل کو کریہہ بنا کر دکھا رہا ہے ۔ جبکہ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا ۔ بہتر ہوتا کہ ہم آئینہ کو الزام دینے کی بجائے اپنے چہرے کے گرد و غبار کو صاف کرلیتے ۔ یہ گرد و غبار ہماری غریبی اور پسماندگی ہے ۔ جس کے تذکرہ سے ہمیں تکلیف تو ہوتی ہے لیکن اسے ہم دور کرنے کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کرتے ۔ اس کے برعکس ہماری موجودہ حکومت کو یہ سنک سوار ہے کہ نوے لاکھ کروڑ قرض لے کر بلیٹ ٹرین چلائیں گے ۔ جاپان نے دہائیوں قبل ترقی کی جانب قدم آگے بڑھا ئے تھے پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ اس نے یہ مقام اس کے باوجود حاصل کیا کہ امریکہ نے اسے تباہ و برباد کردیا تھا ۔ اس کی ترقی اس بات کی گواہ ہے کہ جب قومیں ترقی کی جانب قدم آگے بڑھا دیتی ہیں تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا ۔ جاپانی قوم میں ملک و قوم کے تئیں ترقی کی حقیقی اسپرٹ پائی جاتی ہے ۔ جبکہ ہمارے یہاں ملک سے محبت محض ایک نعرہ بنا کر دوسرے فرقوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کا بہانہ ہے ۔ ایسی پوزیشن میں ملک کہاں ترقی کی راہوں پر چلے گا ۔ جاپان نے اپنے یہاں بھوکمری پر قابو پایا ہے ۔ اپنے شہریوں کو ساری سہولتیں مہیا کرائی ہیں ۔ وہاں کسی عوامی سہولیات کیلئے کسی تحریک کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ جاپانی قوم اور وہاں کی حکومت کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ ایک سال قبل آئی اس خبر سے بھی ہوتا ہے جس میں دوردراز کے ایک گاؤں کی صرف ایک بچی کیلئے ایک ٹرین جاتی ہے پھر وہی ٹرین اس بچی کو شام کو اسکول کا وقت ختم ہونے پر اس گاؤں میں چھوڑ کر آتی ہے ۔ کیاہندوستانی حکومت اپنے یہاں کے کسی اسکولی بچہ یا بچی کو اس قدر سہولت دینے کا حوصلہ رکھتی ہے ۔ الٹے یہاں ایک بچی اس لئے بھوکوں مر جاتی ہے کہ آدھار کارڈ نہیں ہونے کے سبب اس کی ماں کو راشن نہیں دی گئی ۔ پھر بھی ہم بلیٹ ٹرین چلائیں گے تو دنیا ہم پر ہنسنے کے سوا اور کیا کر سکتی ہے اور ہمارے وزیر اعظم زبردستی سربراہان مملکت کے گلے پڑ کر اندرون ملک یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہیں گے کہ دیکھو ہم نے دنیا میں بھارت کا مقام کتنا بلند کردیاہے کہ سربراہان مملکت گلے ملنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن تصویر کو غور سے دیکھنے والے جان جاتے ہیں کہ کہانی کیا ہے ؟ کاش ہمارے پردھان سیوک ملک کی خدمت اور عوام کو سہولیات مہیا کرانے کیلئے سنجیدہ ہوتے !
حوصلہ قرض لے کر بلیٹ ٹرین چلانے کا ۔۔۔!
نہال صغیر
موجودہ دور کو ہندوستان کی تاریخ میں بدترین کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ حکومت کے فیصلے اور اس کی پالیسیاں عجیب و غریب ہیں جہاں ملک و بیرون ملک بلیٹ ٹرین کے چلنے کی خبر سے ہندوستانیوں کے سینے پھولے نہیں سما رہے ہوں گے وہیں ان کے لئے یہ خبر بھی کم تکلیف دہ ثابت نہیں ہوگی جس میں جھاڑ کھنڈ کی قبائلی خاتون نے کہا کہ اس کی بچی بھوک سے صرف اس لئے مر گئی کیوں کہ جب وہ راشن لینے گئی تو اس سے کہا گیا کہ آدھار کارڈ نہیں ہونے کے سبب اسے راشن نہیں دیا جاسکتا ۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق جھاڑکھنڈ میں بھوک سے مرنے والوں کی کئی کہانیاں منظر عام پر آئیں ۔ اس خبر سے ایک ہفتہ قبل ایک اور دستاویزی اور شرمناک خبر نے بھی حساس ہندوستانیوں کو تکلیف کی شدت سے یقیناً گزارا ہوگاجس کے مطابق ہندوستان دنیا کے ایک سو انیس بھوکوں کی فہرست میں سو نمبر پر ہے ۔ حیرت انگیز یہ ہے کہ بنگلہ دیش ، نیپال اور میانمار جیسے پسماندہ ملک کی حالت بھی ہم سے اچھی ہے ۔ بھوکوں کی فہرست جسے ہنگر انڈیکس کہتے ہیں میں دو ہزار چودہ تک صورتحال بہتری کی جانب گامزن تھی لیکن دوہزار چودہ کے بعد حالت بگڑتے بگڑتے ہم یہاں تک پہنچے ہیں ۔ سروے رپورٹ اور اقوام متحدہ کی فہرستوں میں اور بھی کئی ایسے حیرت انگیز انکشافات ہیں جس سے ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ ہم شہریوں کو صاف پانی مہیا کرانے میں بھی کئی پسماندہ ممالک سے پیچھے ہیں ۔ سنیٹیشن میں ہم افغانستان جیسے انتہائی پسماندہ اور جنگ زدہ ملک سے بہت پیچھے ہیں ۔ جب ہم اس پر برادران وطن سے گفتگو کرتے ہیں تو وہ اسے شرمناک قرار دینے کے بجائے یہ توضیح بیان کرتے ہیں کہ یہاں کی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے سارے مسائل ہیں ۔ لیکن جب ہمیں یہ خبر ملتی ہے کہ امیت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی املاک میں اچانک سولہ ہزار گنا اضافہ ہوگیا ہے تو بات سمجھنے میں وقت نہیں لگتا کہ مسائل کا اصل سبب کیا ہے ، بڑھتی آبادی یا سیاست دانوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ۔ پتہ نہیں ہم کس منھ سے دنیا کی سربراہی کا خواب لے کر ملکوں ملکوں پھر رہے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ایک بچی محض اس لئے بھوکوں مر گئی کہ اس کی ماں کو راشن دینے سے منع کردیا کہ آدھار نہیں تھا ۔ یہ وہی بی جے پی ہے جو منموہن حکومت میں آدھار کی مخالفت میں چیخ و پکار کیا کرتی تھی اور اب سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر غورہے اور کسی بھی سرکاری کام کیلئے ابھی تک سپریم کورٹ نے آدھار کو لازمی قرار دینے کے معاملے میں فیصلہ نہیں دیا ہے ۔ آخر ہمارا دیش یونہی مہان تو نہیں ہوا نہ اس میں کچھ تو ہے اچھی بات نہ سہی تو شرمناک ہی سہی ۔ آخر ہم سوا ارب آبادی والے ملک ہیں ۔ ہماری پہچان الگ کیوں نہ ہو ؟
مذکورہ بالا دو واقعات ہمیں آئینہ دکھاتا ہے کہ اس میں ہم اپنی شکل دیکھ لیں ۔ لیکن ہم جب آئینہ دیکھتے ہیں تو غصہ اور شدت غضب سے آئینہ کو ہی پھوڑنے کے درپہ ہو جاتے ہیں کہ یہ ہماری شکل کو کریہہ بنا کر دکھا رہا ہے ۔ جبکہ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا ۔ بہتر ہوتا کہ ہم آئینہ کو الزام دینے کی بجائے اپنے چہرے کے گرد و غبار کو صاف کرلیتے ۔ یہ گرد و غبار ہماری غریبی اور پسماندگی ہے ۔ جس کے تذکرہ سے ہمیں تکلیف تو ہوتی ہے لیکن اسے ہم دور کرنے کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کرتے ۔ اس کے برعکس ہماری موجودہ حکومت کو یہ سنک سوار ہے کہ نوے لاکھ کروڑ قرض لے کر بلیٹ ٹرین چلائیں گے ۔ جاپان نے دہائیوں قبل ترقی کی جانب قدم آگے بڑھا ئے تھے پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ اس نے یہ مقام اس کے باوجود حاصل کیا کہ امریکہ نے اسے تباہ و برباد کردیا تھا ۔ اس کی ترقی اس بات کی گواہ ہے کہ جب قومیں ترقی کی جانب قدم آگے بڑھا دیتی ہیں تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا ۔ جاپانی قوم میں ملک و قوم کے تئیں ترقی کی حقیقی اسپرٹ پائی جاتی ہے ۔ جبکہ ہمارے یہاں ملک سے محبت محض ایک نعرہ بنا کر دوسرے فرقوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کا بہانہ ہے ۔ ایسی پوزیشن میں ملک کہاں ترقی کی راہوں پر چلے گا ۔ جاپان نے اپنے یہاں بھوکمری پر قابو پایا ہے ۔ اپنے شہریوں کو ساری سہولتیں مہیا کرائی ہیں ۔ وہاں کسی عوامی سہولیات کیلئے کسی تحریک کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ جاپانی قوم اور وہاں کی حکومت کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ ایک سال قبل آئی اس خبر سے بھی ہوتا ہے جس میں دوردراز کے ایک گاؤں کی صرف ایک بچی کیلئے ایک ٹرین جاتی ہے پھر وہی ٹرین اس بچی کو شام کو اسکول کا وقت ختم ہونے پر اس گاؤں میں چھوڑ کر آتی ہے ۔ کیاہندوستانی حکومت اپنے یہاں کے کسی اسکولی بچہ یا بچی کو اس قدر سہولت دینے کا حوصلہ رکھتی ہے ۔ الٹے یہاں ایک بچی اس لئے بھوکوں مر جاتی ہے کہ آدھار کارڈ نہیں ہونے کے سبب اس کی ماں کو راشن نہیں دی گئی ۔ پھر بھی ہم بلیٹ ٹرین چلائیں گے تو دنیا ہم پر ہنسنے کے سوا اور کیا کر سکتی ہے اور ہمارے وزیر اعظم زبردستی سربراہان مملکت کے گلے پڑ کر اندرون ملک یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہیں گے کہ دیکھو ہم نے دنیا میں بھارت کا مقام کتنا بلند کردیاہے کہ سربراہان مملکت گلے ملنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن تصویر کو غور سے دیکھنے والے جان جاتے ہیں کہ کہانی کیا ہے ؟ کاش ہمارے پردھان سیوک ملک کی خدمت اور عوام کو سہولیات مہیا کرانے کیلئے سنجیدہ ہوتے !
0 comments: