News

گاندھی جینتی کے موقع پر سدبھاونا منچ کا احتجاج بعنوان گاندھی سے گوری تک سدبھاونا منچ کا خراج عقیدت: گاندھی کے ساتھ گوری کی یاد

3:00 PM nehal sagheer 0 Comments






گاندھی جینتی کے موقع سدبھاونا منچ کی جانب شام ۴ بجے مراٹھی پترکار بھون میں ایک احتجاجی پروگرام کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت اے پی سی آر کے سکریٹری جنرل اسلم غازی نے ۔ اس پروگرام  اردو ، مراٹھی اور انگریزی زبان کے اخبارات و ٹیلیویژن سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے اظہار خیال کیا۔ تلاوت کلام پاک اور ترجمہ کے بعد ڈاکٹر سلیم خان  شرکاء کا استقبال کیا اس اہتمام کے اغراض و مقاصد پیش کیے۔افتتاحی خطاب  گاندھی جی  کو عدم تشدد کے بجائے کچرا صفائی کی علامت بنا کررکھ دینے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ساتھ  ہی صحافتی آزادی  کی رینکنگ ملک کے ۱۳۳ ویں مقام کا ذکر ہوا۔   اس ایک  ماہ میں  تین صحافی قتل ہوئے اور ؁۱۹۹۲ کے بعد قتل ہونے ۳۹ صحافیوں میں سے صرف ۴ فیصد کی جزوی سزا کو اس کے لیے ذمہ دار قراردیا گیا۔ مہاراشٹر ون چینل کے صحافی  اور مراٹھی پترکار سنگھ کے نائب صدر سدھاکر کشیپ نے کہا ہماری جمہوریت لنگڑی ہوچکی ہے اس لیے اس کے ایک پیر ذرائع ابلاغ کو سرمایہ داروں نے خرید لیا ہے۔ آپ نے فرمایا ایسے میں ہمارے پاس سوشیل میڈیا اور منظم جدوجہد کا متبادک موجود ہے۔ ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا  نہ صرف صحافی کی حیثیت سے  عام شہری کے ناطے بھی  ہماری ذمہ داری ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے جواں سال صحافی وجیہ الدین  وہ  نظریاتی جنگ تھی جس میں  گاندھی جی کا قتل ہوا۔ حکومت بابائے قوم کے نظریات کی ترویج و اشاعت میں بخالت برت رہی ہے۔ رویش کمار کے خط کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویا آج کے دور میں  اختلاف کرنا  جرم ہوگیا ہے۔  اس قتل و گارتگری کامقصد الگ سوچ کےا ظہار پر قدغن لگانا ہے۔حکومت علی گڑھ یونیورسٹی کے معاملے میں  اقلیت دشمنی کا مطاہرہ کررہی ہے ۔ نہرو جی نے صحیح کہا تھااکثریت کی دہشت گردی اقلیتی فرقہ پرستی کے مقابلے زیادہ  خطرناک ہے لیج کل پنڈت نہرو اور ان کے قائم کردہ اداروں کو پامال کیا جارہا ہے۔ ایسا کرنے سے ملک کی سلمیت خطرے میں پڑ جائیگی۔ ای ٹی وی کے محی الدین عبدالطیف   نے فرقہ وارانہ ماحول ملک کے لیے خطرہ  بتاتے ہوئے کہا کہ نئی حکومت سے اقلیتوں کے لیے مشکلات متوقع تھیں لیکن اب تو اکثریتی طبقات بھی نشانے پر ہیں ۔ آپ نے  احمد فراز کی نظم  محاصرہ کے ذریعہ گوری لنکیش کو کو خراج عقیدت کیا۔

معروف سماجی کارکن اور اردو جرنلسٹ ایسو سی ایشن کے جنرل سکریٹری سرفراز آرزو نے کہا یہ   ہمہ پہلو موضوع ہے اور مختصر تقریر میں اس  احاطہ  ممکن نہیں ہے۔ جھوٹ ہمارے سماج میں زبردست پیمانے پردر آیا ہے۔ لنکیش کو سچ بولنے کی سزا دی گئی۔ قاتلوں کے پکڑنے سے کام نہیں چلے گابلکہ فسطائی  نظریات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ داعش سے رابطہ کرنے  کے الزام لوگ پکڑے جاتے  ہیں لیکن تمہارا حشر  بھی گوری جیسا ہوگا کہنے والے آزاد گھومتے ہیں ۔ اس لیے کہ ہمارے حکمراں اور نظام دہشت گردوں کا پشت پناہ ہے۔  سرکار سزا دینے میں جانبداری کرتی ہے کسی پکڑتی ہے کسی کو رہا کر دیتی ہے۔اختلاف رائے کوجرم سمجھتی ہے۔ گوری خود کو ہندو نہیں  لنگایت کہتی تھی مراٹھا بھی اپنی الگ شناخت بنارہے ہیں اس لیے کرناٹک اور مہاراشٹر میں تشدد کا کھیل رچا جارہا ہے۔ جب لوگ نظریہ کی جنگ ہارتے ہیں تو ہتھیار اٹھاکرڈراتے ہیں لیکن ہم خوفزدہ نہیں ہوں گے ۔ ’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘ ۔  

مشہور سماجی کارکن اور کمیونلزم کمباٹ جریدے  کی بانی تیستا ستلواد نےممبئی کمزور احتجاج پر افسوس کا اظہار کیا اوربنگلورو میں تمام سماج کے۲۵ ہزار لوگ تھے ۔  انہوں نے سوال کیا کہ  ہم اختلاف کو تشدد کے ذریعہ سے حل کریں گے یا بات چیت سے طے کریں گےاور الزام لگایاسنگھ پریوار نے ہی  کالبرگی اور پانسرے اورلنکیش کو مارا ہے ۔ہمارے ملک میں اسلحہ پر پابندی ہے مگر سناتن سنستھا اور بجرنگ دل جیسے لوگ اسلحہ کی تربیت دیتے ہیں۔دہشت گرد بزدل ہیں لیکن وزیر اعظم کی انہیں حمایت حاصل ہے۔ہمارے صحافی سوال نہیں پوچھے جاتے ۔ انتطامیہ کا استعمال اقلیت کے خلاف ہوتاہے۔ جماعت اسلامی ہند کےعبدالحفیظ فاروقی نے کہا انصاف پسند دانشوروں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ جمہوری اقدار کا خاتمہ ہورہا ہے۔ یہ حملے ہندوتوا کے اندر خوف کی علامت ہے۔ رویش کمار جیسے لوگوں کو شکایت پیدا ہونا ہندوتوا کی کمزوری کی علامت ہے۔ ہٹلر اور مسولینی بھی اسی طرح چھا گئے تھے لیکن وہ بھی ختم ہوگئے اور یہ بھی ختم ہوجائیں گے ۔
اندھ شردھا نرمولن سنستھا کے صدر اویناش پاٹل  نے فرمایاگاندھی سے گوری تک ایک سیاسی سازش چل رہی ہے۔ اقتدار کے خلاف اپنے حقوق اور عزت نفس اور ضمیر کی آزادی کے حفاظت  جنگ جاری ہے۔سنگھ پریوار کے مطابق ناتھو رام گوڈ سے گاندھی کا قتل نہیں ودھ کیا۔ دیو راکشش کا ودھ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک گاندھی راکشش ہے۔یہ ہمارے سامنے چیلنج  یہ ہے کہ اس ظلم کے خلاف ہم اپنے آپ کو کیسے منظم کریں؟ ہم جذباتی ہیں ردعمل کرتے ہیں۔ ہم خوف کو دوہراتے ہیں بے خوفی کے ساتھ دستوری حقوق اور انسانی اقدار کی بنیاد پر عوام کو ساتھ لے کر اس کا متبادل کھڑانہیں کرتے۔ ہٹ لسٹ تیار ہے اس پر گفتگو کرکے دہشت پھیلاتے ہیں ۔ دھمکی کا افسوس کا نہیں  آنا فخر کی بات ہے لیکن ہم اس سے خوف دور کرنے کے بجائے بڑھا رہے ہیں۔ تبادلہ خیال کرکےدور اندیشی کے ساتھ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
مجرمین کو سزا دینے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا تجربات ۔ ایک کروڈ لوگوں سے رابطے لیکن سرغ نہیں ملا۔ روح کو بلا کر بات کرکے اپنی جگ ہنسائی کرائی۔ ایس آئی ٹی اور سی بی آئی۔ عدالت کے زیر نگرانی تفتیش و تحقیق ہورہی ہے۔ سناتن سنستھا پانسرے اور دابھولکر کے قاتل ایک ضمانت پر رہا دوسراحراست میں ہے۔ یہ انفرادی قتل ہے نظریاتی قاتل ہے لیکن سناتن پر پابندی نہیں لگتی۔  انہوں نے تفصیل کے ساتھ اندھ شردھا نرمولن سمیتی کی سرگرمیوں اورکامیابیوں کا ذکر کیا ۔ 

اسلم غازی نے اپنے خطبۂ صدارت میں فرمایا  یہ کیسا وقت آیا ہے کہ لوگ بابائے قوم  کے یوم ولادت پر  خوشی کے بجائےسوگ منانے پر مجبور کردیئے گئے ہیں  ۳۰ جنوری کو گاندھی ۱۹۴۸ کا قتل کیا گیا تھا اور بڑی بے رحمی سے پچھلے ماہ ان گوری لنکیش  کو قتل کردیا گیا۔ اس دوران گاندھی اور گوری کے علاوہ بے شمار لوگوں کو قتل کیا گیا۔ صحافیوں کے علاوہ ہزاروں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ گئورکشاکے نام ۱۰۰ سے زیادہ قتل ہوئے۔ ایم ایف حسین کو ملک بدر ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ مختلف لوگوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ یہ ملک نراج کا شکار ہوگیا ہے ۔ سیاسی  نظام نہیں کے چارستون امن و امان  قائم رکھنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ پہلے فساد ہوتا تھا اب قتل عام ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فسادیوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ اکثریتی طبقے کے لوگوں کو سزا نہیں ہوتی۔ پہلو خان کے قاتل چھوٹ جاتے ہیں ۔ ممبئی فسادات کے مجرم پکڑے نہیں جاتے۔ لوگوں کو لوٹ مار اور قتل و غارتگری کی اجازت دی جاتی ہے۔ وزیراعظم وکاس کا فریب دے کر وناش کرتے ہیں۔ ترقی  کے لیےامن و امان ضروری ہے ۔معاشی  شرح نمو بھی خاطر خواہ نہیں ہے بدحالی بڑھ رہی ہے۔۔بدامنی پر قابو پانا حکومت اور اکثریت کی ذمہ داری ہے ۔ کیا اس طرح یہ لوگ اپنے مخالفین کو ختم کرسکتے ہیں؟ نہیں بلکہ  وہ اس کے ذریعہ خوف و ہراس  کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں تا کہ آواز اٹھانے والے والوں کو خاموش کیا جائے۔ اس کا حل یہ ہے  ہم موت سے بے خوف ہوکر ایک ساتھ آواز اٹھائیں۔ ہمارا ایمان ہےموت وقت سے پہلے نہیں آئیگی۔ متحدہ اقدام ضروری ہے۔ الگ الگ کوششیں اس آگ نہیں بجھا سکتیں ۔ اپنے دستوری حقوق کی خاطر جدوجہد لازم ہے۔
سدبھاونا منچ کے سکریٹر ی ہمایوں شیخ کے اظہار تشکر اجلاس  کا خاتمہ ہوا۔


0 comments: