Muslim Issues
کیا ہندوستانی مسلمانوں کی نجات صرف کانگریس کے ساتھ غیر مشروط وابستگی میں ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کہ پچھلی ایک صدی سے آزاد ذہن تعلیم یافتہ مسلمانوں کے دماغ میں ابھرتا رہا ہے ۔ آزادی سے قبل بھی اور اب پون صدی کے قریب آزادی کے بعد بھی اسی طرح یہ سوال معلق ہے ۔ ایمان بالکانگریس والے مسلمان جس میں دینی مدارس کے فارغین سمیت جدید تعلیم یافتہ دونوں میں ایک بڑی تعداد کانگریس کی حمایت اور سیاسی وابستگی کو ہندوستانی مسلمانوں کی نجات کیلئے ضروری سمجھتا ہے ۔ میں نے ایمان بالکانگریس والے مسلمان کا لفظ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے ۔ کچھ لوگوں کا ببانگ دہل کہنا ہے کہ وہ تو پیدائشی کانگریسی ہیں اور یہ کہ وہ بحیثیت کانگریسی ہی مرنا پسند کرتے ہیں ۔ یہی حالت آزادی سے قبل کے پر جوش اور بے بصیرت کانگریسی مسلمانوں کی تھی ان ہی کی باقیات کے نمونے آپ کو اب بھی مل جائیں گے ۔ میری والدہ اکثر بچپن میں جب بہت ناراض ہو جایا کرتیں تو کہا کرتی تھیں کہ ایک آنکھ کا اندھا ہوتا ہے اور دوسرا عقل کا اندھا ۔ میرے ایک صحافی دوست کا کہنا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مسلمان تعلیم اور دولت کے حساب سے غریب ہیں ، یہ غلط ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دور میں مسلمانوں پر اللہ کا جو عذاب ہے وہ یہ ہے کہ ان سے اللہ نے عقل سلب کرلی ہے ۔ اس قوم میں نہ دولت کی کمی ہے نا ہی صاحب ثروت افراد اور مروجہ تعلیم میں بے مثال افراد کی کمی ہے ۔ اس قوم میں جس کی کمی ہے وہ بصیرت والے افراد کی ۔ اس دوست کی بات مجھے جب بھی غور کرتا ہوں تو صد فیصد درست لگتی ہے ۔ اگر اس قوم کی بد بختی کی بات کی جائے تو آزادی سے قبل اور بعد کے ستر برسوں میں اس نے خوب اندازہ لگا لیا اور دیکھ بھال لیا کہ کون اس کا اصل دشمن ہے ۔ لیکن جس طرح ہندوستان کو متحد رکھنے کیلئے آر ایس ایس اور بی جے پی یا ان جیسی ذہنیت والوں کو ایک مشترکہ دشمن کی تلاش تھی جس پر کافی غور و خوض اورمنصوبہ بندی کے بعد پاکستان وجود میں لایا گیا اور اس طرح پاکستان اور مسلمانوں کے خوف سے ڈرا ڈرا کر یہاں کی مختلف النسل اور مختلف لسانی و تہذیبی گروہ کو کسی حد تک ابتک متحد رکھا گیا ہے ۔ اسی طرح کانگریس کو بھی مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرنے کیلئے ایک عدد ان کے دشمن کی ضرورت تھی جس کو آر ایس ایس ، بی جے پی اور ہندو راشٹر کی شکل میں تلاش کرلیا گیا اور ستر برسوں سے اسی خوف کے سہارے کانگریس نے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کئے اور حکومت کرتی رہی ۔ اب بھی ناندیڑ میں یہی کچھ ہوا ۔ جب مسلمانوں کی اپنی قیادت اپنی سیاست کا نعرہ لگانے والی مجلس اتحاد المسلمین کو صفر پر آؤٹ کردیا گیا اور کانگریس کے صد فیصد مسلم امید وار کامیاب ہو گئے ۔ کانگریس نے اکیاسی سیٹ کے کارپوریشن میں تہتر سیٹیں حاصل کرلیں ۔ اس سے کانگریس کا جشن میں ڈوبنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مسلمانوں کی خوشی ناقابل فہم ہے ۔ مسلمانوں کی اس خوشی کے اظہار پر کسی مسلم نوجوان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پربالکل صحیح کمینٹ کیا ہے، اس نے لکھا ہے کہ’’ مجلس کی ہار پر مسلمانوں کا حد سے زیادہ خوشی منانے کو دیکھ کر جسٹس سچر کو سلام ، انہوں نے یونہی نہیں کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بد تر ہے‘‘۔ اس میں کسی کو کوئی شک ہے کہ دلتوں نے اپنی سیاسی حیثیت منوالی ہے اور انہوں نے اپنے لیڈر کے طور پر مایا وتی کو کئی بار اتر پردیش کی وزارت اعلیٰ کی کرسی سونپ دی ۔ یہ ان کی سیاسی بیداری نہیں تو اور کیا ہے ۔
سابق ایم پی الیاس اعظمی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈروں پر اعتماد نہیں کرتے اور جو لوگ آجکل قیادت کی دعویداری کیلئے اٹھے ہیں وہ اس کے لائق نہیں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ غیروں اور ہماری قیادت میں اخلاق و کردار کا فرق تو واضح ہونا چاہئے یعنی ہماری قیادت صاف ستھرے کردار کی شخصیت کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے ۔ کانگریس اور مسلمانوں کی سیاسی بصیرت پر سینکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں اور امید ہے کہ اس پر آئندہ بھی سمع خراشی ہو تی رہے گی ۔ ان مضامین میں اکثریت کی رائے یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کیلئے ہندوستان میں کانگریس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے ۔ اس قسم کی باتیں دراصل ذہنی غلامی کا ثبوت ہیں ۔ بچپن میں ایک محاورہ سنا اور پڑھا کرتا تھا جہاں چاہ وہاں راہ یعنی اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنا کر اس کی تکمیل کی جاسکتی ہے ۔ ایک کسی ہندی فلم میں عشق کی ماری ایک ہیروئن جو اپنے عاشق کے فراق میں زندگی کے باوجود مردہ جیسی تھی کہ بارے میں اس کا ڈاکٹر کہتا ہے کہ جو زندہ ہی نہیں رہنا چاہتا ہو ہم اس کا کوئی علاج نہیں کرسکتے ۔ یہی صورتحال ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی موت کا ہے ۔ مسلمانوں کو مولانا آزاد نے کہا تھاسیاسی طور پر اپنی الگ شناخت کبھی نہیں بنانا ، ایساکرنا تمہارے لئے خطرناک ہوگا ۔ ہم ابتک اسی نصیحت پر عمل کئے جارہے ہیں اور نتیجہ کے طور پر سیاسی موت سے ہمکنار ہو چکے ہیں ۔ کوئی ہمیں کتنا ہی جگانے کی کوشش کرے لیکن ہم زندگی کی رمق کھو چکے ہیں سیاسی طور پرزندہ رہنے کی کوئی خواہش نہیں رہی اس لئے ہمارا کوئی بہی خواہ ڈاکٹر اس بیماری کا علاج نہیں کرپارہا ہے اور نا ہی مستقبل قریب میں کرپائے گا ۔ مولانا آزاد کی دی گئی نصیحت کو مسلمانوں نے اتنی مضبوطی سے تھاما ہے کہ وہ فیوی کول سے بھی زیادہ مضبوط جوڑ ہے چاہے جتنا زور لگالو ٹوٹے گا نہیں ۔ اس پر ہندی فلموں میں دکھائے جانے والے اکثر مناظر یاد جاتے ہیں جب کوئی مرتے وقت اپنے کسی عزیز کا ہاتھ کسی کو سونپتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد اس کا خیال رکھنا اور وہ بہر صورت اسے نبھاتا ہے ۔ مسلمانوں نے بھی کانگریس کو اتنی مضبوطی سے تھاما ہے کہ گنتی کے چند موقعوں پر جہاں شاید غلطی سے ہاتھ چھوٹ گیا اس کے علاوہ ہمیشہ اس کا ساتھ نبھایا اور ماضی قریب کے اپنے اکابر کی نصیحت پر عمل پیرا رہے ۔ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ہماری قوم میں دو طرح کے لوگ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ایک اکابر پرست ہیں تو دوسرے مقابر پرست ۔ جتنی مضبوطی سے مسلمانوں نے اپنے ان کابرین کی نصیحت کو گرہ سے باندھ کر رکھا ہے اگراتنی مضبوطی سے انہوں نے اللہ کی رسی کو تھاما ہوتا تو آج ان کی حالت کچھ اور ہی ہوتی ۔
اب ہماری بات یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے ۔ صرف کانگریس ہی واحد نجات دہندہ ہے یا یوں کہہ لیں کہ کانگریس ہی وہ سیاسی جماعت ہے جو آپ کو آر ایس ایس ، بی جے پی اور ہندوراشٹر کے عتاب سے بچائے گی تو پھر فسادات میں اپنی جانی و مالی تباہی پر ، فرضی بم دھماکوں کے الزام میں فرضی گرفتاریوں پر ، جعلی تصادم کے نام پر مسلم نوجوانوں کے قانونی قتل عام پر ، آزادی کے بعد سرکاری نوکریوں میں تیس پینتیس فیصد سے راست دو تین فیصد پر آجانے پر ، معاشی طور پر مفلس اور قلاش ہوجانے پر اور نت نئے قانون کے ذریعہ ہراسانی پر بے فیض احتجاج اور ہنگامہ آرائی کس لئے ۔ آپ نے تو جانتے بوجھتے ہی اس کا انتخاب کیا ہے ۔ اس کے سارے جرائم کی فہرست آپ کے سامنے ہیں یعنی جب معلوم ہے کہ اسی نے یہ سارے جرائم کئے اسی نے ہمیں اس انجام تک پہنچایا اور پھر اسی کے آستانے پر سر جھکانے کیلئے سب کچھ بھول کر حاضری لگانے اور اسے ایوان اقتدار تک پہنچانے میں شراکت دار بنتے ہیں تو یہ احتجاج اور دھرنوں میں اپنا وقت اور وسائل کیوں ضائع کرتے ہیں ۔ بھیڑیا کو بکریوں کے گلہ نگہبانی سونپیں گے اور وہ قسطوں میں آپ کی بکری کو چٹ کرتا جائے تو شکایت کیسی ہے ۔ جانتے بوجھتے کانگریس پر اعتماد متزلزل نہیں ہونے پر میر کی ایک غزل کا آخری شعر ہے میر کیا سادے ہیں ،بیمار ہوئے جس کے سبب / اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی بصیرت اور کانگریس
نہال صغیر
کیا ہندوستانی مسلمانوں کی نجات صرف کانگریس کے ساتھ غیر مشروط وابستگی میں ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کہ پچھلی ایک صدی سے آزاد ذہن تعلیم یافتہ مسلمانوں کے دماغ میں ابھرتا رہا ہے ۔ آزادی سے قبل بھی اور اب پون صدی کے قریب آزادی کے بعد بھی اسی طرح یہ سوال معلق ہے ۔ ایمان بالکانگریس والے مسلمان جس میں دینی مدارس کے فارغین سمیت جدید تعلیم یافتہ دونوں میں ایک بڑی تعداد کانگریس کی حمایت اور سیاسی وابستگی کو ہندوستانی مسلمانوں کی نجات کیلئے ضروری سمجھتا ہے ۔ میں نے ایمان بالکانگریس والے مسلمان کا لفظ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے ۔ کچھ لوگوں کا ببانگ دہل کہنا ہے کہ وہ تو پیدائشی کانگریسی ہیں اور یہ کہ وہ بحیثیت کانگریسی ہی مرنا پسند کرتے ہیں ۔ یہی حالت آزادی سے قبل کے پر جوش اور بے بصیرت کانگریسی مسلمانوں کی تھی ان ہی کی باقیات کے نمونے آپ کو اب بھی مل جائیں گے ۔ میری والدہ اکثر بچپن میں جب بہت ناراض ہو جایا کرتیں تو کہا کرتی تھیں کہ ایک آنکھ کا اندھا ہوتا ہے اور دوسرا عقل کا اندھا ۔ میرے ایک صحافی دوست کا کہنا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مسلمان تعلیم اور دولت کے حساب سے غریب ہیں ، یہ غلط ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دور میں مسلمانوں پر اللہ کا جو عذاب ہے وہ یہ ہے کہ ان سے اللہ نے عقل سلب کرلی ہے ۔ اس قوم میں نہ دولت کی کمی ہے نا ہی صاحب ثروت افراد اور مروجہ تعلیم میں بے مثال افراد کی کمی ہے ۔ اس قوم میں جس کی کمی ہے وہ بصیرت والے افراد کی ۔ اس دوست کی بات مجھے جب بھی غور کرتا ہوں تو صد فیصد درست لگتی ہے ۔ اگر اس قوم کی بد بختی کی بات کی جائے تو آزادی سے قبل اور بعد کے ستر برسوں میں اس نے خوب اندازہ لگا لیا اور دیکھ بھال لیا کہ کون اس کا اصل دشمن ہے ۔ لیکن جس طرح ہندوستان کو متحد رکھنے کیلئے آر ایس ایس اور بی جے پی یا ان جیسی ذہنیت والوں کو ایک مشترکہ دشمن کی تلاش تھی جس پر کافی غور و خوض اورمنصوبہ بندی کے بعد پاکستان وجود میں لایا گیا اور اس طرح پاکستان اور مسلمانوں کے خوف سے ڈرا ڈرا کر یہاں کی مختلف النسل اور مختلف لسانی و تہذیبی گروہ کو کسی حد تک ابتک متحد رکھا گیا ہے ۔ اسی طرح کانگریس کو بھی مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرنے کیلئے ایک عدد ان کے دشمن کی ضرورت تھی جس کو آر ایس ایس ، بی جے پی اور ہندو راشٹر کی شکل میں تلاش کرلیا گیا اور ستر برسوں سے اسی خوف کے سہارے کانگریس نے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کئے اور حکومت کرتی رہی ۔ اب بھی ناندیڑ میں یہی کچھ ہوا ۔ جب مسلمانوں کی اپنی قیادت اپنی سیاست کا نعرہ لگانے والی مجلس اتحاد المسلمین کو صفر پر آؤٹ کردیا گیا اور کانگریس کے صد فیصد مسلم امید وار کامیاب ہو گئے ۔ کانگریس نے اکیاسی سیٹ کے کارپوریشن میں تہتر سیٹیں حاصل کرلیں ۔ اس سے کانگریس کا جشن میں ڈوبنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مسلمانوں کی خوشی ناقابل فہم ہے ۔ مسلمانوں کی اس خوشی کے اظہار پر کسی مسلم نوجوان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پربالکل صحیح کمینٹ کیا ہے، اس نے لکھا ہے کہ’’ مجلس کی ہار پر مسلمانوں کا حد سے زیادہ خوشی منانے کو دیکھ کر جسٹس سچر کو سلام ، انہوں نے یونہی نہیں کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بد تر ہے‘‘۔ اس میں کسی کو کوئی شک ہے کہ دلتوں نے اپنی سیاسی حیثیت منوالی ہے اور انہوں نے اپنے لیڈر کے طور پر مایا وتی کو کئی بار اتر پردیش کی وزارت اعلیٰ کی کرسی سونپ دی ۔ یہ ان کی سیاسی بیداری نہیں تو اور کیا ہے ۔
سابق ایم پی الیاس اعظمی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈروں پر اعتماد نہیں کرتے اور جو لوگ آجکل قیادت کی دعویداری کیلئے اٹھے ہیں وہ اس کے لائق نہیں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ غیروں اور ہماری قیادت میں اخلاق و کردار کا فرق تو واضح ہونا چاہئے یعنی ہماری قیادت صاف ستھرے کردار کی شخصیت کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے ۔ کانگریس اور مسلمانوں کی سیاسی بصیرت پر سینکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں اور امید ہے کہ اس پر آئندہ بھی سمع خراشی ہو تی رہے گی ۔ ان مضامین میں اکثریت کی رائے یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کیلئے ہندوستان میں کانگریس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے ۔ اس قسم کی باتیں دراصل ذہنی غلامی کا ثبوت ہیں ۔ بچپن میں ایک محاورہ سنا اور پڑھا کرتا تھا جہاں چاہ وہاں راہ یعنی اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنا کر اس کی تکمیل کی جاسکتی ہے ۔ ایک کسی ہندی فلم میں عشق کی ماری ایک ہیروئن جو اپنے عاشق کے فراق میں زندگی کے باوجود مردہ جیسی تھی کہ بارے میں اس کا ڈاکٹر کہتا ہے کہ جو زندہ ہی نہیں رہنا چاہتا ہو ہم اس کا کوئی علاج نہیں کرسکتے ۔ یہی صورتحال ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی موت کا ہے ۔ مسلمانوں کو مولانا آزاد نے کہا تھاسیاسی طور پر اپنی الگ شناخت کبھی نہیں بنانا ، ایساکرنا تمہارے لئے خطرناک ہوگا ۔ ہم ابتک اسی نصیحت پر عمل کئے جارہے ہیں اور نتیجہ کے طور پر سیاسی موت سے ہمکنار ہو چکے ہیں ۔ کوئی ہمیں کتنا ہی جگانے کی کوشش کرے لیکن ہم زندگی کی رمق کھو چکے ہیں سیاسی طور پرزندہ رہنے کی کوئی خواہش نہیں رہی اس لئے ہمارا کوئی بہی خواہ ڈاکٹر اس بیماری کا علاج نہیں کرپارہا ہے اور نا ہی مستقبل قریب میں کرپائے گا ۔ مولانا آزاد کی دی گئی نصیحت کو مسلمانوں نے اتنی مضبوطی سے تھاما ہے کہ وہ فیوی کول سے بھی زیادہ مضبوط جوڑ ہے چاہے جتنا زور لگالو ٹوٹے گا نہیں ۔ اس پر ہندی فلموں میں دکھائے جانے والے اکثر مناظر یاد جاتے ہیں جب کوئی مرتے وقت اپنے کسی عزیز کا ہاتھ کسی کو سونپتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد اس کا خیال رکھنا اور وہ بہر صورت اسے نبھاتا ہے ۔ مسلمانوں نے بھی کانگریس کو اتنی مضبوطی سے تھاما ہے کہ گنتی کے چند موقعوں پر جہاں شاید غلطی سے ہاتھ چھوٹ گیا اس کے علاوہ ہمیشہ اس کا ساتھ نبھایا اور ماضی قریب کے اپنے اکابر کی نصیحت پر عمل پیرا رہے ۔ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ہماری قوم میں دو طرح کے لوگ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ایک اکابر پرست ہیں تو دوسرے مقابر پرست ۔ جتنی مضبوطی سے مسلمانوں نے اپنے ان کابرین کی نصیحت کو گرہ سے باندھ کر رکھا ہے اگراتنی مضبوطی سے انہوں نے اللہ کی رسی کو تھاما ہوتا تو آج ان کی حالت کچھ اور ہی ہوتی ۔
اب ہماری بات یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے ۔ صرف کانگریس ہی واحد نجات دہندہ ہے یا یوں کہہ لیں کہ کانگریس ہی وہ سیاسی جماعت ہے جو آپ کو آر ایس ایس ، بی جے پی اور ہندوراشٹر کے عتاب سے بچائے گی تو پھر فسادات میں اپنی جانی و مالی تباہی پر ، فرضی بم دھماکوں کے الزام میں فرضی گرفتاریوں پر ، جعلی تصادم کے نام پر مسلم نوجوانوں کے قانونی قتل عام پر ، آزادی کے بعد سرکاری نوکریوں میں تیس پینتیس فیصد سے راست دو تین فیصد پر آجانے پر ، معاشی طور پر مفلس اور قلاش ہوجانے پر اور نت نئے قانون کے ذریعہ ہراسانی پر بے فیض احتجاج اور ہنگامہ آرائی کس لئے ۔ آپ نے تو جانتے بوجھتے ہی اس کا انتخاب کیا ہے ۔ اس کے سارے جرائم کی فہرست آپ کے سامنے ہیں یعنی جب معلوم ہے کہ اسی نے یہ سارے جرائم کئے اسی نے ہمیں اس انجام تک پہنچایا اور پھر اسی کے آستانے پر سر جھکانے کیلئے سب کچھ بھول کر حاضری لگانے اور اسے ایوان اقتدار تک پہنچانے میں شراکت دار بنتے ہیں تو یہ احتجاج اور دھرنوں میں اپنا وقت اور وسائل کیوں ضائع کرتے ہیں ۔ بھیڑیا کو بکریوں کے گلہ نگہبانی سونپیں گے اور وہ قسطوں میں آپ کی بکری کو چٹ کرتا جائے تو شکایت کیسی ہے ۔ جانتے بوجھتے کانگریس پر اعتماد متزلزل نہیں ہونے پر میر کی ایک غزل کا آخری شعر ہے میر کیا سادے ہیں ،بیمار ہوئے جس کے سبب / اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
0 comments: