International

لاس ویگا س اور مین ہٹن کا فرق

9:55 AM nehal sagheer 0 Comments


قاسم سید
  
یہ کھلا راز ہے کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی منافع بخش انڈسٹری میں تبدیل ہوگئی ۔ امریکی آرڈی نینس فیکٹریاں سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد زنگ کھاررہی تھیں تالہ بندی کی نوبت آگئی تھی ان کے پہئے چلنے شروع ہو گئے ۔ اربوں ڈالر اسلحہ خریداری کے معاہدے نے انہیں نئی زندگی بخش دی عراق اور افغانستان جیسے چھوٹے ملکوں میں نئے ہتھیارو ںکو تجربہ کے طور پر استعمال کیا گیا ان دونوں ممالک پر چڑھائی کے لئے بھی دہشت گردی کی معاونت کے الزام اور کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری کے جرم کی آڑ لی گئی ۔ بعد میں پتہ چلا کی کہانی کچھ اور تھی اب تو معمولی عقل رکھنے والا بھی بخوبی سمجھنے لگا ہے کہ آخرتیل کی دولت سے مالا مال صرف مشرق وسطی ہی جہنم کیوں بنایا گیا ہے اگر ان علاقوں میں واقعی دہشت گردی کے عفریت نے قدم جما لئے ہیں تو دہشت گردوں کی سب سے بڑی تعداد بھی ان علاقوں سے ہی آتی مگر حقیقت کچھ اور ہے القاعدہ کا جنم کیوں ہوا ، اس کا جنم داتا کون ہے ان کی پرورش کس’ ہاؤس‘ میں ہوئی اور پھر اسے برآمد کردیاگیا جس طرح خطرناک وائرس خاص فضا میں چھوڑے جاتے ہیں جب القاعدہ کی افادیت اور ضرورت ختم ہوگئی تو آئی ایس کا بھوت سامنے آیا اس کا خالق کون ہے ۔ کیوں ہے اور کہاں اس سے کام لیا جا رہاہے ۔کون لوگ مارے جا رہے ہیں اگر یہ مان لیا جائے کہ مسلمان ہی دہشت گردہیں تو پھر یہ اپنے دینی ساتھیوں کو ہی کیوں مار رہے ہیں ۔ دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار کون ہے ۔حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ نے القاعدہ کا ذمہ دار کس کو قرار دیا تھا سب جانتے ہیں کون سے ’دہشت گرد‘ وائٹ ہاؤس میں مہمان خصوصی بنتے تھے ۔ ان کو مجاہدین کا لقب کس نے دیا پھر وہ اچانک دہشت گرد کیوں کہلائے جانے لگے یہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں جتنی شدت آئی اسی شدت سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے ،کارپیٹ بمباری میں دہشت گردوں کے اڈے تباہ کردیے جاتے ہیں پھرکچھ نئے اڈے برآمد ہوتے ہیں ،ناٹوعام شہریوں کو القاعدہ یا آئی ایس کے لڑاکے سمجھ کر بمباری کرتا ہے اور ان کے بےقصور شہری ثابت ہونے پر معذرت ،یہی نہیں کبھی کسی نے سوچا کہ القاعدہ اور آئی ایس نے آج تک اسرائیل کو نشانہ نہیں بنایا جبکہ اسے عالم اسلام کا سب سے بدترین دشمن سمجھا جاتا ہے آخر یہ مجاہدین اسلام کبھی تل ابیب پر کیوں نہیں چڑھ دوڑے،کوئی ایک راکٹ اس طرف کیوں نہیں پھینکا اس بات سےواضح ہوتاہےکہ یہ کس کے ایجنٹ ہیں ،کون انہیں پالتا ہے اور ان کا ہدایت کار کون ہے ۔دہرا معیار انصاف سے دور لے جاتا ہے دہشت گردی کے معاملے میںدنیا کے ہر ملک میں دہرامعیار ہے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح قابل استعمال و قابل عمل ہے ۔لیکن عیسائی یا یہودی دہشت گردی کہا جاتا ہے ؟اسی طرح اسلامی بم ہے ۔لیکن عیسائی ایٹم بم یا ہندوستان کی ایٹمی صلاحیت کو ہندو ایٹم بم نہیںکہا جاتا کیا یہ نہیں بتاتا کہ دنیا کس ذہنیت اور خباثت فکری کے ساتھ دہشت گردی کی تشریح و تعبیر پریقین رکھتی ہے اور اس معاملے میں سب ایک ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی انسانیت کے لئے ناسور ہے ۔کہیں ایک بھی بے قصور مارا جائے وہ صریحا دہشت گردی ہے دہشت گردی کہیںبھی ہو کوئی بھی کرے قابل مذمت ہے۔
مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب فرقہ پرستی اور دہشت گردی کو مذہبی تعصبات کےچشمہ سے دیکھا جاتا ہے ۔’یوروپی ملک میں کوئی دیوانہ راہ چلتے لوگوں پر ٹرک چڑھا دے میٹرو ٹرین میں چاقو بازی کردے اس میں کچھ بے گناہ لوگ مارے جائیں اور پھر ذمہ داری ایسی کوئی تنظیم لے جس پر کوئی مذہبی رنگ چڑھا ہو تو پھر دنیا کی مستعدی دیکھتے بنتی ہے ہندوستان کے راشٹر بھکت سے لے کر دنیا کے ماہرین دہشت گردی اپنے خاص رنگ میں دکھائی دیتے ہیں ۔
دنیا بھر کے رہنما تعزیتی پیغامات کی ترسیل میں مسابقت کا مظاہر کرتے ہیں پھر اس بہانے خاص مذہب اور کمیونٹی پر نفرت کے تیر چھوڑے جاتے ہیں جو پہلے ہی کوئی دہشت گردانہ واقعہ رونما ہونےپر دفاع کےرول میں آجاتی ہے اور یہ تصور کر بیٹھتی ہے کہ اس کا ذمہ دار ہم میں سے ہی کوئی ہے مگر جب ایسا ہی کوئی واقعہ جس میں کرتا دھرتا کوئی اور کریکٹر ہوتو اسے سنکی ،دیوانہ ،مخبوط الحواس کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں گذشتہ دنوں لاس ویگاس میں ایک ایسے ہی دیوانے نے ایک رقص کی پارٹی میں اندھا دھند فائرنگ کرکے 60لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ،قیامت کا منظر تھا جسمیں 500افراد زخمی ہو گئے ایک مقامی شخص نے جس کا نام اسٹیون پیڈک تھا ۔اس کی عمر 55سال تھی وہ نہ فوجی تھا اور نہ ہی اس کا جرائم کاکوئی پس منظر تھا۔جس کمرے میں وہ شخص ٹھہرا تھا وہاں خطرناک ترین اسلحہ موجود تھا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ تنہاشخص اتنا اسلحہ ہوٹل کے22ویں فلور تک کیسے لے گیا جو ملک تورا بوراغاروں میں ہوا تک سونگھنے کی صلاحیت کا مالک ہے۔ اس کی خفیہ ایجنسیوں کی آنکھ سے کس طرح محفوظ رہ گیا۔جب آئی ایس نےاس واقعہ کی ذمہ داری لی تو امریکی تحقیقی اداروں نے اسکو فوراً ہی مسترد کردیا اس کے دعوے کی تردید کرنےمیں تھوڑا سا بھی وقت نہیں لیا شاید وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہیں کہ اسٹیون پیڈک نامی کوئی شخص آئی ایس سے جڑا ہو سکتا ہے۔60افراد کی جان لینے والے کو سنکی اور پاگل کہہ کر نظر انداز کردیا گیا ۔اگر اس سے ملتی جلتی واردات میں کوئی مقامی مسلمان نکل آئے تو وہ دہشت گرد اور اس کی کارروائی کو سیدھے دہشت گردی کہہ دیا جاتا ہے لیکن لاس ویگاس اور اس جیسی کارروائیاں کریکٹر دوسرا ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے زمرہ میں شمار نہیں کی جاتیں ۔
لاس ویگاس کا قتل عام سنکی اور خبط الحواس کی کارروائی اور مین ہیٹن پر ٹرک چڑھا کر 8لوگوں کو قتل کردینے کی واردات دہشت گردی کیونکہ لاس ویگاس کا مجرم اسٹیون پیڈک تھا اور مین ہٹن کا قصور وار سیف اللہ سائیووف ہے جبکہ اس کے تعلق سے بھی خبر آئی ہےکہ ملزم اوبیر کا سابق ڈرائیور تھا اور وہ ذہنی مسائل و نفسیاتی دباؤ سے گذر رہا تھا پولیس نے اس واقعہ کو دہشت گردانہ بتایا جبکہ لاس ویگاس قتل عام کو دہشت گردی کی واردات جاننے سے انکار کردیا تھا ۔ سوال یہ تھا کہ سیف اللہ کی واردات دہشت گردانہ کارروائی ہے اور پیڈک کا جدید ترین خطرناک سلحہ سے اندھا دھند فائرنگ کرکے 60لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا اس کے دیوانے پن کا نتیجہ تویہ فرق کیوں ہے کیا ناموں کے فرق سے اسباب بھی الگ ہو جاتے ہیں ۔
اس منافقانہ اور عیارانہ ذہنیت کی وجہ سے دہشت گردی آج بھی حساس ترین مسئلہ بنی ہے جب اسے ہندو مسلم اور مسلم عیسائی چشمہ سے دیکھا جائے گا اور مذہبی لبادہ اوڑھا کر سد باب کی کوشش ہوں گی اس کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ۔ جب لاس ویگاس اور مین ہٹن کی وارداتوں کو الگ الگ معانی پہنائیں گے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی ،یک رخا نظریہ کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں کر سکتا دہشت گردی کو جو لوگ مشرف بہ اسلام کرتے ہیں وہ بھی اتنے ہی قصوروار ہیں جتنے وارداتوں کو انجام دینے والے جن لوگوں نے اس عفریت کو جنم دیا وہی کھاد فراہم کرتے ہیں اسے انجام دینے والے تو معمولی کریکٹر بلکہ کٹھ پتلی ہیں ان کی ڈوریں ہلانے والے کوئی اور ہیں جب تک ان ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نہیں ہوں گی ، دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ۔

0 comments: