featured

دِین ، دِینا ، جناح اور پاکستان

2:22 PM nehal sagheer 0 Comments



عمر فراہی  ۔  ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com

بانی پاکستان محمد علی جناح کی اکلوتی اولاد دینا ۲ ؍نومبر کو تقریباً سو سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں ۔ اردو میڈیا نے اس خبر کو اتنی اہمیت تو نہيں دی لیکن اس نام کے ساتھ بر صغیر کی ایک اہم تاریخ ساز شخصیت کا نام جڑا ہے جسے شاید ہندوستان اور پاکستان کا مسلمان اپنے وجود تک نہ بھلا پائے ۔ہند پاک بٹوارے کے تعلق سے محمد علی جناح کے بارےمیں مسلمانوں میں مختلف رائے پائی جاتی ہے ۔ محمد علی جناح کا شمار تحریک آزادی کی نمائندہ تنظیم کانگریس میں صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا ہے ۔جناح کانگریس کو خیر باد کہہ کر مسلم لیگ میں کیوں شامل ہوئے اور وہ کیا حالات تھے جس کی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ کیا گیا ہند و پاک کے مورخ مسلسل اس پر بحث کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔دِینا نے اپنے والد محمد علی جناح کی دُنیا سے کیوں بغاوت کی دُنیا میں نفرت و محبت اور بغاوت و عزیمت کے اس طرح  کے بے شمار واقعات میں انسانوں کی عبرت کیلئے کئی سبق آموز کہانیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔ محمد علی جناح کی دوسری بیوی رتن بائی ایک دولت مند پارسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جنہوں نے جناح سے شادی کرنے کیلئے اسلام قبول کرکے اپنا نام مریم رکھ لیا تھا ۔ بدقسمتی سے جذباتی طورپر کیا گیا دونوں کا یہ رشتہ اور فیصلہ زیادہ دن تک قائم نہیں رہ سکا اور انتیس سال کی عمر میں ۱۹۲۹میں رتن بائی کا انتقال ہو گیا ۔ اس وقت دِینا کی عمر دس سال کی تھی اور وہ لندن میں مقیم اپنی ماں رتن بائی کی سرپرستی میںزیر تربیت زیر تعلیم تھی ۔محمد علی جناح چونکہ تحریک آزادی کی سرگرم جدوجہد کی وجہ سے بہت مصروف تھے اس لیے انہوں نے دینا کو اپنی بہن فاطمہ کی سرپرستی میں دے دیا تاکہ وہ ان کی تعلیم و تربیت کی نگرانی کرسکیں ۔ لیکن خود دِینا جو اپنی ماں کی وجہ سے اپنے نانیھال سے زیادہ قریب ہو چکی تھیں ان کا بیشتر وقت ان کے ساتھ گزرتا ۔ رفتہ رفتہ دِینا بچپن کی دہلیز سے جوانی کی دنیا میں داخل ہوگئی لیکن محمد علی جناح جو آزادی کی تحریک میں اس قدر مصروف تھے کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ ان کی بیٹی جوان ہو چکی ہے ۔ اس بات کا احساس انہیں اس وقت ہوا جب دِینا نے انہیں اطلاع دی کہ وہ اپنے نانیھال کے واڈیا خاندان کے نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔ حالانکہ یہ خاندان بھی دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک تھا اور خود محمد علی جناح کی اپنی پرورش بھی جس آزاد خیال مسلم معاشرے میں ہوئی تھی اور ان کی زندگی کا  بیشتر حصہ برطانیہ کے آزاد ماحول میں ہی گزرا تھا ، چاہتے تو اپنی اکلوتی اولاد کی خوشی کیلئے اس رشتے کو خاموشی کے ساتھ قبول کر لیتے لیکن یہاں پر جناح نے اپنی اسلامی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے بیٹی کو جواب دیا کہ کیا تمہیں پورے ہندوستان میں کوئی مسلم لڑکا نہیں ملا جو تم نے ایک غیرمسلم نوجوان سے شادی کا فیصلہ کرلیا ؟ محمد علی جناح کی اپنی بات بھی تو درست تھی دِینا جو کہ خود بھی خوبصورت تھی اور جناح کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے بھی دِینا سے شادی کرنے کیلئے سینکڑوں تعلیم یافتہ مسلم لڑکے تیار ہوجاتے لیکن خود جناح یہ نہیں سمجھ سکے کہ دین یا تو ایک معاشرے کی تشکیل سے عمل میں آتا ہے یا چند انسان اپنے علم اور مطالعے سے اس راہ پر چل پڑتے ہیں مگر اسے کسی بالغ انسان پر تھوپا نہیں جاسکتا ، خواہ وہ اپنی اولاد ہی کیوں نہ ہو ۔دِینا نے جس آزاد معاشرے میں پرورش پائی تھی وہاں مذہب کا کوئی تصور ہی نہیں تھا یا تھا بھی تو اس ماحول میں عقیدے کی اہمیت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ لوگ اپنی قومی شناخت کیلئے چند مذہبی رسم و رواج پر عمل کرتے رہیں ۔ دِینا کی دنیا بدل چکی تھی لیکن چونکہ تعلیم یافتہ تھی اور اس کی رگوں میں ایک کامیاب ماہر قانون اور سیاستداں کا خون دوڑ رہا تھا اس لیے اسے اپنے باپ کے ہی طرزپر اسی انداز میں ہی جواب دینا مناسب تھا ۔ اس نے کہا کہ آپ نے بھی تو وہی کیا تھا ۔ کیا آپ کو پورے ہندوستان میں کوئی مسلم لڑکی نہیں ملی جو آپ نے میری ماں سے شادی کی ۔ دِینا کا جواب بھی معقول تھا لیکن باپ کے دوبارہ جواب دینے پر وہ لاجواب ہوگئے ۔ جناح نے کہاکہ میں نے تمہاری ماں کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہی شادی کی تھی تم بھی اس نوجوان سے کہو کہ وہ اسلام قبول کرلے مجھے تمہاری اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ کہتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے ۔ دِینا نے اپنی ضد کے آگے باپ کی مرضی کو ٹھکرا کر اپنی ماں کی طرح سترہ سال کی عمر میں نول واڈیا کے ساتھ شادی کر لی ۔ یہ بھی ایک اتفاق کہہ لیں کہ جس طرح رتن بائی اور جناح کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوگئی ایک وقفے کے بعد دینا نے بھی اپنے شوہر سے طلاق لیکر نیویارک میں سکونت اختیار کر لیا ۔ خیر یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔ جناح نے دینا کی نول واڈیا سے شادی کے بعد اپنی بیٹی سے تقریباً رشتہ توڑ لیا لیکن دینا نے اس کے بعد بھی اپنے والد سے رابطہ نہیں توڑا مگر جناح کیلئے اب وہ دینا نہیں مسز واڈیا ہوچکی تھی ۔ وہ جب بھی ا پنے والد سے بات کرنے کی کوشس کرتی تو جناح اسے بیٹی نہ کہہ کر مسز واڈیا کہہ کر ہی پکارتے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جناح نے اس کے بعد اپنی بیٹی سے کبھی ملاقات کرنے کی دلچسپی نہیں ظاہر کی ۔ ملتے بھی کیسے انہیں پاکستان کی شکل میں ایک دوسرا بیٹا مل چکا تھا اور پاکستان کو ایک وفادار باپ ۔ شاید جناح کو اس بات کا شدید افسوس تھا کہ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر انہوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا ان کی اکلوتی اولاد نے ہی اس فلسفے کو رد کردیا ۔ دنیا میں اکثر لوگ دولت  اور اولاد کیلئے اپنے ملک اور قوم سے بھی بغاوت کر جاتےہیں لیکن جناح نے اپنی قوم اور ملک کیلئے اپنی اکلوتی اولاد سے رشتہ توڑ لیا ۔ہند پاک کا بٹوارہ چاہے کتنا ہی غلط فیصلہ رہا ہو جناح اپنے نظریے میں مخلص تھے ۔ ہاں یہ الگ بات ہےکہ پاکستان کا بٹوارہ جس نظریے کی بنیاد پر ہوا تھا وہاں ایک طبقے کی قومی شناخت کوتو بنیاد بنایا گیا لیکن وہ قوم جو اسلام کی بنیاد پر مسلمان تھی اس کے جوش ولولے اور نعروں میں نظام سیاست کی تشکیل کیلئے اسلامی شریعت کا ذکر اور تصور بھی نہیں تھا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب پاکستانی آئین کو تشکیل دینے کیلئے مسلم لیگ نےمولانا مودودیؒ کو دعوت دی تو انہوں نے یہ کہہ کر اس اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا کہ جب محمد علی جناح اور مسلم لیگ کی طرف سے پاکستان کو ایک سیکولر ملک میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو باقی کے فیصلے بھی مسلم لیگ کو ہی کرلینا چاہیے ۔ مولانا مودودیؒ کا اپنا نظریہ بالکل درست تھا ۔ اقبال اگر زندہ ہوتے تو ان کاکیا کردار ہوتا کہا نہیں جاسکتا ۔لیکن محمد علی جناح کی پرورش جس آزاد خیال معاشرے میں ہوئی تھی وہ اپنی قومی شناخت کے تئیں تو جذباتی تھے لیکن قوموں اور خاندانوں کی تربیت کے ساتھ سیاست اور ریاست میں جو دین کا واضح تصور مودودیؒ اور اقبالؒ کے ذہن میں تھا شاید محمد علی جناح پاکستان کو جدید ترکی کے مصطفیٰ کمال پاشا اور سرسید کی نظر سے دیکھنا چاہتے تھے اور بعد میں ہوا بھی وہی ۔ پاکستان کے فوجی جنرل ترکی کی طرح پاکستانی آئین کے خودساختہ محافظ بن گئے ۔ بعد کے حالات میں ترکی کے اسلام پسند رہنما نجم الدین اربکان اور طیب اردگان کی سیاسی تحریک نے ثا بت بھی کیا کہ اگر پاکستانی سیاستدانوں نے پاکستان کے وجود کے بعد اقبالؒ اور مودودیؒ کی صالح فکر کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل اور تربیت کی ہوتی تو آج ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان بدعنوانی سے جوجھ رہے ہندوستان کیلئے بھی مشعل راہ ہوتا ۔ افسوس مادہ پرست مغربی تعلیم اور نظام سیاست نے نہ صرف پاکستان کو تباہ کردیا ہندوستان بھی اسی دوراہے پر کھڑا ہے ۔ جب میں آج کے پاکستان اور جناح کے نظریات کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا کہ دینا ایک مسلمان باپ کی بیٹی ضرور تھی اور پاکستان بھی ایک مسلمان قوم کی جدوجہد کا نتیجہ تھا لیکن جس طرح محمد علی جناح ایک آزاد معاشرے میں پرورش پانے والی سترہ سال کی اپنی بیٹی کا نام صرف دین اور دینا رکھ کر اس کی دینی غیرت کا مظاہرہ چاہتے تھے اسی طرح کیا کسی مسلم ریاست کا نام پاکستان رکھ دینے سے ان کے لوگوں سے اسلامی غیرت و حمیت کے مظاہرے کی امید کی جاسکتی  ہے ؟

0 comments: