featured,

ورلڈ بینک کی رینکنگ میں بہتری سے عوام کو کیا ملے گا ؟

4:17 PM nehal sagheer 0 Comments



نہال صغیر

فی الحال نریندر مودی کیلئے راحت والی خبر نے انہیں واقعی پہلی بار کسی طرح کی خوشی سے ہمکنار کیا ہے لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس طرح کی خبروں سے عوام کو کیا ملنا ہے یا ساڑھے تین سال میں عوام جس اذیت سے گزرے ہیں اور جس کا سلسلہ ہنوز جاری اس کا مداوا کس طرح ہو سکتا ہے ۔ وزیر اعظم تو اس راحت اور خوشی میں حسب روایت کچھ زیادہ ہی خوش فہمی کا شمار ہو گئے ہیں ۔ وہ خود خواہ کتنا ہی خوش فہمی کا شکار ہوں لیکن اگر وہ بحیثیت وزیر اعظم اس میں ملک کو بھی مبتلا کردیتے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ جیسا کہ انہوں نے ساڑھے تین سال میں کیا ہے ۔ ورلڈ بینک نے اپنی ’ایز آف ڈوئنگ بزنیس‘ میں بھارت کو تیس پوائنٹ کا فائدہ دیتے ہوئے اس کی حالت میں سدھار کا دعویٰ کیا ہے ۔ لیکن ورلڈ بینک وہ ادارہ ہے جس کی اپنی کچھ شرائط ہیں اور وہ شرائط بہر حال ترقی یافتہ ممالک کی مرضی اور ان کے مفاد کے عین مطابق ہوتا ہے ۔ خبروں کے مطابق بھارت کی موجودہ مودی حکومت نے ورلڈ بینک کے دس نکات میں سے آٹھ پر عمل کیا ہے جس کی بنیاد پر اس نے اس کی کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کو یہ حیثیت دی گئی ہے ۔ جوش اور سطحی سوچ کے معاملے میں نریندر مودی کا کوئی ہاتھ نہیں پکڑ سکتا ۔ چنانچہ انہوں نے اپنی اسی سوچ کا ثبوت دیتے ہوئے ایک معمولی سی رینکنگ جس سے عوام کا کوئی بھلا نہیں ہونا ہے اس پر خوش فہمی کا شکار ہو کر کہا ’بھارت اس پوزیشن پر پہنچ گیا ہے ، جہاں سے وہ آگے ہی بڑھے گا ۔ اس کی کوششوں کو اب رفتار ملنی شروع ہو گئی ہے ‘۔ یہاں تک تو خوش فہمی کچھ حد تک اس قابل ہے کہ نظر انداز کردیا جائے لیکن اس سے آگے انہوں نے اپنے پیش رو منموہن سنگھ کا نام لئے بغیر ان پر تنقید کی اور ڈینگیں مارنی جیسی باتیں کی جو کسی بھی طرح وزیر اعظم جیسے کسی اہم عہدہ پر براجمان شخص کیلئے موزوں نہیں ہے ۔ جیسے انہوں نے کہا کہ ’ہم تیزی سے سدھار کر رہے ہیں ۔ ہم پر تنقید کرنے والے بھی ہماری تیزی سے ہو رہی سدھار کو پچا نہیں پا رہے ہیں ۔ جی ایس ٹی کی دقتوں کو دور کیا ہے ۔ جی ایس ٹی کی وجہ سے ہی ایز آف بزنیس کی سطح میں بہتری آئی ہے‘۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور اس کی وجہ سے رینکنگ میں بہتری کا دعویٰ کررہے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر کسی پارٹی یا نظریاتی طور پر کسی کی بیجا تنقید کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی میں نے آج تک کسی کواس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ لیکن وزیر اعظم کا ایک معمولی سدھار سے بے قابو ہو کر جی ایس ٹی کی مدح سرائی کرنا کہ اسی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے جیسا دعویٰ کرناکس طرح کی شخصیت کی علامت ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ورلڈ بینک سے کسی غریب ملک کے عوام کو فائدہ نہیں ہے ۔ دیگر اداروں سے تو کچھ تحفظات کے ساتھ عوام اور خصوصی طور سے غریبوں کا کچھ بھلا ہو بھی سکتا ہے ۔ جیسے اقوام متحدہ کے کچھ امدادی کارنامے جیسے اس کے بچوں اور خواتین کی بہتری کیلئے پروگرام اور اس میں تعاون وغیرہ ۔ ’ایز آف ڈوئنگ بزنیس کو لے ہندوستان کی رینکنگ میں سدھار کے بعد بھی سونے کا من نہیں کرتا ہے ‘ انہوں نے ایسی ہی جذباتی باتیں کرکے ملک کے سادہ لوح اور جسٹس کاٹجو کے بقول مورکھ عوام کو خالی پیلی متاثر کرناشروع کردیا ہے وہ اس معاملہ میں ماہر ہیں ۔ اس پر میری رائے ہے کہ قوم کا مخلص قائد اس طرح کے سطحی دعوے نہیں کرتا ، وہ صرف کام کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا جس کے فوائد اس کے ہم وطن برسوں اور کبھی صدیوں حاصل کرتے رہتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے بے بنیاد دعووں میں کہا ’اور کیا کام ہے میرے پاس ، بس ایک ہی کام ہے کہ اس ملک کی خدمت ، سو کروڑ لوگ اور ان کی زندگی میں تبدیلی لانا ‘۔حالانکہ اب ملک کی آبادی سوا ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے لیکن وزیر اعظم صرف سو کروڑ کی تعداد بتاتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ ان کے سب کا ساتھ سب کا وکاس میں ملک کے مسلمان اور عیسائی شامل نہ ہوں اس لئے انہوں نے دانستہ یا نا دانستہ ان کی تعداد کو الگ کرکے ملک کی آبادی بتائی ۔ ہمارے وزیر اعظم ہمیشہ اپنی تقریروں میں اپنی کم علمی اور کج فہمی کا ثبوت دیتے رہے ہیں ۔ جس کا وقت وقت پر لوگوں نے جواب بھی دیا ہے ۔ یہاں بھی انہوں نے اس کا ثبوت دیا جس کا تذکرہ کیا جاچکا ہے ۔ جس میں جی ایس ٹی کے سبب رینکنگ میں بہتری اور ملک کی آبادی کوکم بتانا شامل ہے اس کے باوجود وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’ہم بھارت کو نالج بیسڈ اکانومی بنانا چاہتے ہیں ‘ ۔ جب تک لوگ انا کے گھیرے میں رہتے ہیں تب تک وہ کچھ نہیں کرسکتے ہاں جھوٹ بول کر خواہ کوئی بھی دعویٰ کرلیں ۔ وزیر اعظم بھی اسی انا کی بیماری میں مبتلا ہیں اور اسی کے سہارے عوام کو گمراہ کررہے ہیں ۔
پچھلے دنوں جھاڑ کھنڈ سے جب یہ خبر ملی کہ بھوک کی وجہ سے ایک معصوم بچی مر گئی اور اس کے بعد کئی اور لوگوں کے مرنے کی خبریں آئیں تو مجھے ٹھیک سے نیند نہیں آئی ۔ ایسی کسی بھی خبر پر مجھے بیچینی ہوتی ہے ۔ پتہ نہیں ہمارے وزیر اعظم جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی خدمت لئے سب کچھ قربان کرچکے ہیں کو نیند آتی ہے یا نہیں ؟ ان کیلئے بھی ملک کے کسی بھی حصہ میں کسی فرد کا بھوک کے سبب مرنا بے چینی کا سبب بنتا ہے کہ نہیں اور اگر بنتا ہے تو معمولی واقعہ پر ٹوئٹ ٹھونکنے والے وزیر اعظم عوام کے سامنے اس بے چینی کا اظہار کیوں نہیں کرتے ؟ کس نے انہیں روکا ہے ؟ کیایہاں بھی انہیں ایک کمزور اور نحیف و نزار مخالفین کا ڈر ستاتا ہے ۔ بات یہ ہے کہ دل کی حقیقی کیفیت اور اداکاری میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ جب کسی کا دل صاف ہو اور وہ اپنی رعیت کیلئے مخلص ہو تو اسے کسی دعوے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے دور میں بس یہ ہوتا کہ کسی غریب کو راشن کے لئے آدھار سمیت کسی بھی طرح کی پہچان کی کوئی ضرورت نہیں اس کی پہچان یہی کافی ہوتی ہے کہ وہ اس کا حقیقی مستحق ہے اور اسے سرکاری گو داموں سے اناج دستیاب کرایا جائے ۔ ورلڈ بینک کی رینکنگ پر خوشیاں منانے اور تالیاں پیٹنے والوں کو بھوکوں کی فہرست پر بھی نظر ڈالنی چاہئے جس کی حالت مسٹر پردھان سیوک یا چوکیدار کی آمد کے بعد مزید خراب ہوئی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ بھارت نوجوانوں کا ملک ہے اور نوکری پیدا کرنا یہاں مواقع بھی ہیں اور چیلنج بھی ‘۔ لیکن وہ اپنے ساڑھے تین سال کا حساب دیں کہ انہوں نے کتنے نوجوان ہاتھوں کو کام دیئے ہیں اور اس چلینج کو کس طرح قبول کیا ہے ۔ ان کی نوٹ بندی یا اب جی ایس ٹی نے تو افرا تفری کا موحول پید اکرکے روزگار چھین لئے ہیں اور چھوٹے تاجروں کا مستقبل ہی تاریک کردیا ہے ۔ ایسی حالت میں وہ اس طرح کے دعوے کرتے ہیں تو زیادہ خوشی نہیں ہوتی ۔ ہم بھی ان کے بھکت نہیں کہ تکلیف کے باجود ان کی جئے جئے کریں گے اور نہ ہی جئے جئے کار کسی مسئلہ کا حل ہے اورنا ہی اس طرح کے فعل نے اب تک کی معلوم تاریخ میں کسی ملک نے کوئی بڑا انقلاب لانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ ملک کو تو حقیقی اور زمینی سطح پر کام کرنے اور اس کے چیلنجوں پر محض دعووں کی بجائے عملی طور پر قبول کرتے ہوئے کچھ کرنے سے ترقی حاصل ہو سکتی ہے ۔ گورکھپور اور احمد آباد کے سرکاری اسپتالوں میں مرنے والے شیر خوار بچوں کے والدین کو ورلڈ بینک کی رینکنگ سے کیا حاصل ہو سکتا ہے ۔ یہی باتیں ہم وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کو سمجھانا چاہتے ہیں ۔ کیا وہ میری باتیں سمجھنے کی کوشش کریں گے ؟

0 comments: