Politics

گاندھی اور گوڈسے

1:05 PM nehal sagheer 0 Comments

 


ممتاز میر  

   چند دنوں پہلے ممبئی سے ایک دوست کا فو ن آیا۔وہ ڈاکٹر ہیںممبئی قیام کے دوران ہفتے میں ۴؍۵ دن ان سے ملاقات رہتی تھی۔انتہا درجے کے دوٹوک اور خوش مزاج ہیں ۔جسمانی روگوں کا علاج دواؤں سے تو کرتے ہی ہیںمگر ان کی باتیں بھی کسی ٹانک سے کم نہیں ہوتیں۔ہم اکثر اپنا موڈ درست کرنے کے لئے ان سے باتیں کرتے ہیں جو اکسیر بھی ثابت ہوتی ہیں۔کہنے لگے چھ ماہ ہورہے ہیں آپ ممبئی نہیں آئے۔ ہم نے کہا ،پہلے تو اس انتظار میں رہے کہ سی ایس ٹی والی گاڑیاں شروع ہو تو ریزرویشن کرائیں ۔اس سے مایوس ہوئے تو کر لا ٹرمنس کا ریزرویشن ڈھونڈنے لگے۔اب ملا ہے تو یکم اکتوبر کو یہاں سے نکلیں گے ۔ پوچھا، کہ دو،اکتوبر کی صبح پہونچ جائیں گے ، ہم نے کہا ، انشا ء اللہ ،کہنے لگے ۔یعنی آپ گاندھی جینتی ہمارے ساتھ منائیں گے ،دیش بھکتی کے گیت گائیں گے۔ہم نے کہا ۔یہ تو ٹھیک ہے کہ ہم دو اکتوبرکو ممبئی میں ہوں گے مگر باقی سب کرتے ہوئے اب ڈر لگتا ہے ۔ پوچھا،کیوں؟ہم نے کہا کہ بھائی NSA سے ڈر لگتا ہے ۔پوچھاNSA اور گاندھی جینتی کا کیا تعلق۔ ہم نے کہا ،اب گاندھی جی دیش بھکت کہاں رہے ۔ اب تو دیش کا ہیرو اور دیش بھکت ناتھو رام گوڈسے ہے ۔اب جگہ جگہ گاندھی کے بازو میں ناتھو رام گوڈسے کی تصاویر لگائی جا رہی ہے ۔کہیں ایسا بھی ہوا ہوگا کہ گاندھی کی تصاویر نکال کر ناتھورام کی لگائی گئی ہوں۔ انشاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا جب گاندھی جی کو راشٹر پتا کے’’عہدے‘‘ سے ہٹا کر ’’ناتھو رام جی‘‘ کو راشٹر پتا بنا دیا جائے۔اوراگر یہ ممکن نہ ہوا تو راشٹر دادا بنا دیا جائے۔ ویسے بھی ناتھو رام جی کا تعلق جن لوگوں سے تھا وہ دادا گیری میں ہی یقین رکھتے ہیں۔یہ سب بھی ممکن نہ ہوا تو بھارت رتن تو کبھی بھی دیا جا سکتا ہے۔اور یہ سب اس لئے ہوگا کہ ہماری سول سوسائٹی یا تو بے حس ہے یا منافق۔

   کچھ مسلمان دانشوروں کا خیال ہے کہ گاندھی جی سنگھیوں کے ہی فرنٹ مین تھے ۔جس طرح یہودی چت اور پٹ دونوں پر داؤں کھیلتے ہیں بالکل اسی طرح ہمارے یہاں سنگھی ہر جگہ اپنے آدمی بٹھا کر رکھتے ہیں ۔ جیسے حالیہ تاریخ میں نرسمہا راؤ۔وہ کانگریس میں سلیپر سیل کی طرح تھے ،قسمت نے یاوری کی وزیر اعظم بن گئے۔دکھا دیا اپنی اصلی چہرہ ،گروادی بابری مسجد۔اسی طرح ان دانشوروں کا خیال ہے کہ گاندھی جی جو کچھ بھی کرتے رہے اس میں ہندو مہا سبھا کی مرضی شامل تھی ۔بلکہ وہ سبھائیوں کی بتائی ہوئی چالیں چلتے تھے۔مگر فرنٹ مین بہرحال ہوتا تو ایک جاندار انسان ہی ہے ۔بے جان مشین کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی کوئی عقل اور جذبات نہیں ہوتے ۔انسان کبھی کبھی خود بھی سوچ لیتا ہے ۔کبھی کبھی اس کی عقل متاثر بھی ہوجاتی ہے ۔شقی القلب انسانوں کے بھی جذبات کبھی متاثر ہوجاتے ہیں۔پھر گاندھی برہمن تو تھے نہیں،وہ وطن عزیز کی تقسیم کے مخالف تھے۔مگر جب تقسیم نوشتہء دیوار بن گئی تو انھوں نے پاکستان کے لئے کچھ ہمدردی دکھائی۔ان کا موقف تھا کہ پاکستان کو اس کے حصے کے ۵۵ کروڑ کی رقم ادا کی جائے جب کہ سنگھ چاہتا تھا کہ پاکستان بھوکا مر جائے ۔

  آجکل ہم الجمیعتہ دہلی کے ۱۹۲۵ سے ۱۹۲۸تک کے اداریے و مضامین پڑھ رہے ہیں ۔ان تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو مہا سبھا کسی حال میں وطن عزیز میں نہ امن قائم ہونے دینا چاہتی تھی نہ اتحاد ۔ جہاں ذرا بھی امن و امان کی اور ہندو مسلم اتحاد کی صورت بنتی نظر آتی تووہاں زہریلی تقریریں کی جاتیں ہندؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جاتا اور فساد برپا کرادیا جاتا۔اور پھر برسوں کے لئے ہندو مسلم اتحاد خواب بن کر رہ جاتا جو انگریزوں سے چھٹکارے کے لئے ضروری تھا۔آج جو ہورہا ہے وہی سو سال پہلے بھی ہوا ۔ہندوؤں کے جن بڑوں کو اس وقت ایکشن لینا چاہئے تھا وہ سب اپنے اپنے گوشہء عافیت میں پڑے رہے اور میدان شر پسندوں کے لئے خالی چھوڑدیا ۔جب میدان میں مقابل کوئی ہے ہی نہیںتو کمزور سے کمزور ٹیم ہو جیتے گی تو وہی۔آج بھی تاریخ کے دھارے کو موڑنے یا روکنے کی کوئی کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔بہرحال گاندھی جی کی پاکستان نوازی سنگھ کے روڈ میپ کے خلاف تھی ۔فرنٹ مین باغی ہو گیا تھا ۔ایسی حالت میں ناتھو رام جو پرانا سنگھی تھا سنگھ کی مدد کو آیا۔ آج ناتھو رام کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ اسی احسان کا بدلہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137 


0 comments: